ایمان و تصحیحِ عقائد مطابق مذہبِ اہلِ سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم و اعظم ہے۔احادیثِ نبی کریم علیہ الصلوة و التسلیم اس کی اہمیت سے مالامال ہیں،جابجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وعید فرمائی،لہٰذا اس متعلق ایک حدیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہے۔بیہقی حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے نماز چھوڑ دی، اس کا کوئی دین نہیں، نماز دین کا ستون ہے۔(شعب الایمان، باب فی الصلوت، ج 3، ص 39،حدیث: 2807)پانچوں نمازیں اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں اور ان کے متعلق بےشمار احادیثِ مبارکہ بیان کی جاتی ہیں،جن میں سے نمازِ ظہر کے متعلق چند فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم درجہ ذیل ہیں:1۔امام احمد و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و ابنِ ماجہ اُمّ المؤمنین اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے راوی،رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کرے،اللہ پاک اس کو آگ پر حرام فرمادے گا۔(نسائی، کتاب قیام اللیل۔الخ، باب الاختلاف علی اسماعیل بن ابی خالد، ص 310، حدیث: 1813)2۔ سنتِ ظہر کے فضائل پر ایک اور حدیث ِمبارکہ ہے:بزار نے ثوبان رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت کی :دوپہر کے بعد چار رکعت پڑھنے کو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محبوب رکھتے، اُمُّ المؤمنین صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! میں دیکھتی ہوں کہ اس وقت میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز محبوب رکھتے ہیں!فرمایا: اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ پاک مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے اور اس نماز پر آدم و نوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم الصلوة و السلام محافظت کرتے۔(مسند البزار، مسند ثوبان ، ج 10، ص 102، حدیث :4166)3۔طبرانی براء بن عازب رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ظہر کے پہلے چار رکعتیں پڑھیں،گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں اور جس نے عشا کے بعد چار پڑھیں،تو یہ شبِ قدر میں چار کے مثل ہیں۔(معجم اوسط ، باب المیم، ج ص 102، حدیث: 6322)4۔بخاری و مسلم ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی، رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے۔ دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی:میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں،اسے دو مرتبہ سانس کی اجازت ہوئی،ایک جاڑے میں،ایک گرمی میں۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلوة، باب الابراد بالظہر فی شدة الحر، ج 1، ص 199،حدیث: 537۔538)5۔امام ابو داؤد و ابنِ ماجہ حضرت ابو ایّوب انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر سے پہلے چار رکعتیں جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے،ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(ابو داؤد، کتاب التطوع، باب الاربع قبل الظہر و بعدھا،ج 2، ص 20 حدیث: 477)


نماز کی فضیلت کے متعلق احکامِ ربانی:اقيمواالصلٰوة و اتو االزكوة واركعوامع الركعين0 (پ1: 43)ترجمۂ کنزالایمان: نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ظہر کی نماز کے فضائل:امام فقیہ ابو اللّیث سمرقندی رحمۃُ اللہِ علیہ(تابعی بزرگ)حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ سے نقل کیا،اُنہوں نے فرمایا:میں نے توریت کے کسی مقام میں پڑھا(اللہ پاک فرماتا ہے:)اے موسیٰ!ظہر کی چار رکعتیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی انہیں پہلی رکعت کے عوض(یعنی بدلے)بخش دوں گا اور دوسری کے بدلے ان (کی نیکیوں) کا پلہ بھاری کردوں گا اور تیسری کے لیے فرشتے موکل (یعنی مقرر) کروں گا کہ تسبیح (یعنی اللہ پاک کی پاکی بیان) کریں گے اور ان کیلئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے اور چوتھی کے بدلے ان کیلئے آسمان کے دروازے کشادہ گر(یعنی کھول) دوں گا،بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں اُن پر مشتاقانہ(یعنی شوق بھری) نظر ڈالیں گی۔ نمازِ ظہر پر 5فرامین مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ سیّدہ عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔(بخاری ،ص1182)دوسری روایت میں ہے،آپ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر باہر جاکرلوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ (مسلم،ص730،حدیث:1699) حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ،ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے ، پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارِ الٰہی میں) میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش) کیاجائے۔(ترمذی،ص478 )حضرت علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔( ترمذی،ص598۔599۔ملخصاً)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے(یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے گاتو) اللہ پاک نے اسے آگ پر حرام قراردیا ہے،یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی،ص 428 )


نمازِ ظہر پر 5فرامین مصطفے(1) عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔(صحیح بخاری، صفحہ 1182)دوسری روایت میں ہے کہ آپ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر باہر جا کر لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔(صحیح مسلم،ص730(1699)(2)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَ أَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَٰهُ عَلَى النَّارِ جو شخص ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے (یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے گاتو)اللہ پاک نے اسے آگ پر حرام قراردیا ہے،یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی، ص 428 ) اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور اس کے بہت سے شواہد بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔(3) علی بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھتے تھے۔( ترمذی، ص598۔599ملخصاً) (4)حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے،پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارالٰہی میں) میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش) کیاجائے۔(ترمذی،ص 478 وقال:حسن غریب وسندہ صحیح)(5)حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے حزب(یعنی اوراد واذکار) یا اس کے کسی حصے سے سویا رہ جائے تو نماز فجر اور نمازِ ظہر کے درمیان اسے پڑھ لے،اسے اسی طرح ثواب ملے گا جیسا کہ رات کو پڑھا ہے۔(مسلم،ص747)اس حدیث سے امام ابن ِ خزیمہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر تہجد کی نماز رہ جائے تو دن کوحدیث میں مذکورہ وقت میں پڑھ لیں۔(صحیح ابنِ خذیمہ، 2/قبل حدیث:1171)ان تمام روایات وآثار کا خلاصہ یہ ہے کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں(نوافل یاسنتیں)پڑھنا بالکل صحیح ہے۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ راوی،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’جس نے ظہر کے پہلے چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔‘‘(طبرانی)2)اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی (چار) سنتوں کامرتبہ ہے ۔حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشادہے:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ جو انہیں ترک کرے گا ،اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔‘‘( درمختار)نمازِ ظہر کی رکعتیں تعداد:سنتِ مؤکدہ 4۔فرض 4۔سنتِ مؤکدہ 2۔نفل 2۔میزان 12۔ظہر کی نماز کا وقت آفتاب نصف النہار(عرفی ، حقیقی )سے ڈھلتے ہی شروع ہوتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ،2/ 352)ظہر کا وقت امام اعظم ابوحنیفہ رَضِیَ اللہُ عنہ کے نزدیک ہر چیز کاسایہ اس کے سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل ( ڈبل) نہ ہوجائے وہاں تک رہتاہے۔(فتاویٰ رضویہ،2/210)ضروری و اہم وضاحت :بہت لوگ ناواقفی کی وجہ سے ’’ زوال‘‘ کو وقتِ مکروہ ِ تحریمی کہتے ہیں۔اکثر لوگوں کو یہ کہتے سناگیا ہےکہ دوپہر کو زوال کا وقت ہی وقتِ ممنوع ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوپہر کو جو وقتِ منوع ہے وہ وقت نصفُ النہار ہے ۔ نصفُ النہار کے وقت کوئی نماز جائز نہیں ۔ نہ فرض ، نہ واجب ،نہ سنت ، نہ نفل ، نہ ادا ، نہ قضا بلکہ اس وقت سجدہ ٔ تلاوت و سجدہ ٔ سہو بھی ناجائز ہے ۔


اے عاشقانِ نماز! آئیے! نمازِ ظہر پر 5 فرامینِ مصطفیٰ ملاحظہ فرمائیے اور اپنے دلوں میں نمازِ ظہر کی اہمیت کو اجاگرکیجئے:نمبر 01 : حضرت حارث رَضِیَ اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: حضرت عُثمان رَضِیَ اللہُ عنہ ایک دن تشریف فرما تھے اور ہم بھی بیٹھے تھے کہ مُؤذِّن آگیا، حضرت عُثمان رَضِیَ اللہُ عنہ نے پانی منگوا کر وُضو کیا، پھر فرمایا:میں نے نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔میں نے سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سُنا:جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرے،پھر وہ ظہر کی نماز پڑھ لے تواللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے یعنی وہ گناہ جو فجر اور اس ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے ہوں،پھر جب عصر کی نماز پڑھتا ہے تو ظہر اور عصر کے درمیان کے گناہوں کومعاف فرمادیتا ہے، پھر جب مغرب کی نماز پڑھتا ہے تو عصر اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے، پھر عشاء کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے،پھرہوسکتا ہے کہ رات بھر وہ لیٹ کر ہی گزار دے،پھر جب اٹھ کر وضو کرے اور فجر کی نماز پڑھے تو عشا اور فجر کے درمیان کے گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے اوریہی وہ نیکیاں ہیں جو بُرائیوں کو دُور کردیتی ہیں۔(الاحادیث المختارۃ،1/450،حدیث: 324ملتقطاً)نمبر 02: حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی،اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔ (نسائی،ص 310،حدیث: 1813)نمبر 03 : نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : جو دن رات میں 12 رکعتیں پڑھا کرے اس کے لئے جنّت میں گھر بنایا جائے گا ، چار رکعتیں ظہر سے پہلے ، دو رکعتیں ظہر کے بعد ، دو رکعتیں مغرب کے بعد ، دو رکعتیں عِشا کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے۔ (ترمذی ، 1 / 423 ، حدیث : 414)نمبر 04 : فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں تہجد کی نماز کے برابر ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، 4/272،حدیث:5991)نمبر 05 :حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب گرمی سخت ہو تو ظہر کو ٹھنڈا کرو کہ شدت گرمی وسعت دم دوزخ سے ہے۔(بخاری ، 76/1)اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

نماز و روزہ وحج و زکوٰۃ کی توفیق عطا ہو اُمّتِ محبوب کوسدا یارب


اللہ کریم نے امتِ محمدی پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں جن میں سے ہر نماز انتہائی فضیلت و اہمیت کی حامل اور اجر و ثواب کا باعث ہے، جبکہ ایک نماز بھی قصداً چھوڑدینا گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔فرمانِ آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:اللہ پاک فرماتا ہے:میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں اور ان کے بارے میں اپنے آپ سے عہد کیا ہے کہ جو ان (یعنی نمازوں) کو پابندی کے ساتھ ان کے وقت میں ادا کرے گا اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو ان کو پابندی کے ساتھ ادا نہ کرے گا اس کیلئے میرے پاس کوئی عہد نہیں۔(ابو داؤد، 1/188،رقم 430)نمازِ ظہر دراصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علیہ الصلوة و السلام کی یادگار ہے۔آپ نے اپنے فرزند (یعنی بیٹے) کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربانی کرنے کے شکریے میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نمازِ ظہر ہوگئی۔(شرح معانی الآثار، 1 / 226 ،حدیث: 1014 ملخصاً / فیضانِ نماز، ص 30) ظہر کا ایک معنی ظہیرة (یعنی دوپہر) ہے۔ چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے، اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔ (فیضان نماز، ص 114) ذیل میں نمازِ ظہر سے متعلق فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پیشِ خدمت ہیں:1:اگر لوگوں کو علم ہوجائے کہ ظہر کی نماز میں کتنا اجر ہے تو وہ اس کی طرف سبقت کریں گے۔ (بخاری،ص 615-مسلم،ص 437، رقم: 956)-(نعمۃ الباری،2/ 466)2:جب شدید گرمی ہو تو (ظہر کی) نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کے جوش سے ہے۔( کبری، 1487-مسند احمد، 2 / 501)(نعمۃ الباری،2/ 366)یہ حکم استحبابی ہے۔ اس سے مقصود مشقت کو کم کرنا ہے۔(نعمۃ الباری،2/ 367 ملتقطا)3:نماز کے لیے اوّل و آخر ہے، اوّل وقت ظہر کا اس وقت ہے کہ آفتاب ڈھل جائے اور آخر اس وقت کہ عصرکاوقت آجائے۔ (ترمذی، حدیث: 151 ، 1 / 202)-(بہار شریعت، حصہ: 3 ،1/ 446)ظہر کی چار سنتوں کی فضیلت:4:جس نے زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھیں ان میں اچھی طرح قرات کی اور رکوع و سجود کیا اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے اور رات تک اس کیلئے استغفار کرتے ہیں۔ (قوت القلوب، 1/ 52)ظہر کے دو نفل کی فضیلت:5:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی،اللہ پاک اس پر آگ حرام فرمادے گا۔(نسائی، ص 310 ،حدیث: 1813)علامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس کیلئے بشارت یہ ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہوگا اور دوزخ میں نہ جائے گا۔(رد المحتار ،2 /547)-(مدنی پنج سورہ، ص 292)سبحن اللہ! ہمیں بھی چاہئے کہ ظہر سے قبل چار اور بعد میں دو سنتوں کے ساتھ ساتھ دو نفل بھی ضرور ادا کریں۔اللہ کریم ہمیں نمازِ ظہر سمیت پانچوں نمازیں پابندیِ وقت کے ساتھ ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


فرمانِ الٰہی:اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا0۔ترجمہ:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ (پ5، النساء: 103)اور فرمانِ نبوی ہے:اللہ پاک نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں، جو انہیں باعظمت سمجھتے ہوئے مکمل شرائط کے ساتھ ادا کرتا ہے، اللہ پاک کااس کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا اور جو انہیں ادا نہیں کرتا،اللہ پاک کا اس کے لئے کوئی وعدہ نہیں، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو جنت میں داخل فرمائے۔(مکاشفہ القلوب، صفحہ 356)یوں تو ساری ہی نمازوں کے بے شمار فضائل ہیں، لیکن آئیے!نمازِ ظہر کی تعریف اور اس کی فضیلت کے متعلق پڑھئے اور پابندیِ وقت کے ساتھ ساری نمازیں ادا کرنے کی نیت کیجئے۔ظہر کا معنی:ظہر کا ایک معنی”ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)ہے، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت ادا کی جاتی ہے،اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔آئیے! اب اس کے فضائل جانتی ہیں:1۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی،اس کے لئے اس جیسی 25 نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70 درجات کی بلندی ہے۔ (شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، حدیث:9762)2۔حضور تاجدارِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( نسائی، صفحہ 31، حدیث:1813)3۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس دن گرمی ہو،اس دن نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو، کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی سانس سے ہے۔(شرح معانی الآثار،ص262،حدیث:1181)4۔حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت پڑھتے۔(شرح معانی الآثار،ص259،حدیث:1153)5۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے بڑھ کر ظہر کی نماز کو جلدی پڑھتے کسی ایک کوبھی نہیں دیکھا۔(شرح معانی الآثار،ص260،حدیث:1163)اللہ پاک ہمیں روزانہ پابندیِ وقت کے ساتھ پانچوں نمازیں ظاہری،باطنی آداب کے ساتھ، دلجمعی سے پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

پڑھتی رہو نماز کہ جنت میں جاؤ گی ہوگا وہ تم پہ فضل کہ دیکھتی ہی جاؤ گی


کلمہ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے۔ جس کا ادا کرنا ہر عاقل و بالغ مسلمان پر فرضِ عین و ضروری ہے۔ہر مسلمان پر دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ہر نماز کے منفرد فضائل ہیں اور نہ پڑھنے پر وعیدات ہیں۔ان پانچ نمازوں میں ایک نمازِ ظہر بھی ہے۔آئیے! پہلے ظہر کا معنی ملاحظہ فرمائیے۔ظہر کا معنی اور وقت:ظہر کا ایک معنی ”ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)ہے،چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت ادا کی جاتی ہے، اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے، لہٰذا ہر نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہئے۔ارشادِ باری ہے:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بار ہا نماز کی اہمیت پر زور دیا ہے اور ہماری ترغیب کے لئے بے شمار فضائل بھی بیان فرمائے ہیں اور احادیثِ مبارکہ میں نمازِ ظہر کے متعلق خصوصیات کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ آئیے! نمازِ ظہر کے متعلق پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ فرمائیے:1۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی،اس کے لئے اس جیسی 25 نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70 درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، حدیث:9762)2۔حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کے وقت پڑھتے۔(شرح معانی الآثار،ص259،حدیث:1153)3۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے :جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی،اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( نسائی، صفحہ 31، حدیث:1813)4۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس دن گرمی ہو،اس دن نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو،کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس سے ہے۔(شرح معانی الآثار،ص262،حدیث:1181)5۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے بڑھ کر ظہر کی نماز کو جلدی پڑھتے کسی ایک کو نہیں دیکھا۔(شرح معانی الآثار،ص260،حدیث:116)اللہ کریم ہمارے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے ہمیں پانچوں نمازوں کو ان کے وقت پر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفے ہم کو جنت میں گھر دے


نماز کی تعریف:نماز کو صلوٰۃ اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سیدھا کرنے کا معنی پایا جاتا ہے، جیسے جب کوئی لکڑی(کی کجی) کو آگ کے ذریعے سیدھا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے:صَلَّیْتَ الْعُوْدَ عَلَی النَّارِمیں نے لکڑی کو آگ پرسیدھا کیا۔یوں ہی نماز بندے کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم اور سیدھا رکھتی اور اِس کی نافرمانی سے باز رکھتی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ نماز کو صلوۃ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ بندے اور اس کے ربّ کریم کے درمیان رابطہ ہے۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، جلد 1، صفحہ 19) پارہ 18، سورۃ المؤمنین کی آیت 9، 10 اور 11 میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ ٔکنزالایمان:اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں، یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(فیضان نماز، صفحہ8)قال رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ، قرارِ قلب و سینہ، فیضِ گنجینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ حقیقت نشان ہے:قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا،اگر وہ درست ہوئی تو اس نے کامیابی پائی،اگر اس میں کمی ہوئی تو وہ رُسوا ہوا اور اس نے نقصان اُٹھایا۔(کنزالعمال، جلد 7، صفحہ 115، رقم18883، اسلامی بہنوں کی نماز، صفحہ 79)میرے آقا اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 9، صفحہ 158تا159 پر فرماتے ہیں:ایمان تصحیحِ عقائد کے بعد جملہ حقوق اللہ میں سب سے اہم و اعظم نماز ہے، جس نے قصداً ایک وقت کی چھوڑی، ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ کرے، مسلمان اگر اُس کی زندگی میں اُسے بالکل چھوڑ دیں، اس سے بات نہ کریں، اس کے پاس نہ بیٹھیں، تو ضرور وہ اس کا سزاوار ہے۔(اسلامی بہنوں کی نماز، صفحہ 81)اے عاشقانِ نماز!زندگی برف کی مانند پگھل رہی ہے، کوئی نہ جانے کہ کب وقتِ اَجَل آ جائے، ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں کہ کیا ہم پہلے سوال کے جواب کی تیاری کر چکے ہیں، جس کے بارے میں ہمیں بتا دیا گیا کہ سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا،جو مؤمن مردو عورت نماز کے پابند ہیں، اُن کا تو ان شاءاللہ بیڑا پار ہو جائے گا ۔بے نمازی کی سزائیں:نبیِ پاک، صاحبِ لولاک، سیاحِ افلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جو نماز کے معاملے میں سُستی کرےگا، اللہ پاک اُسے 15 قسم کی سزائیں دے گا، اِن میں سے چھ دنیا میں، تین موت کے وقت اور تین قبر میں اور تین قبر سے نکلنے کے بعد دے گا، دنیا و آخرت کی چند سزائیں یہ ہیں:1۔اللہ پاک اُس کی عمر سے برکت زائل کردے گا۔2۔اس کے چہرے سے نیک لوگوں جیسی نورانیت چھین لے گا۔3۔ذلیل ہو کر مرے گا۔4۔بھوکا مرے گا۔5۔اس کی قبر تنگ کردی جائے گی۔(فیضان سنت، صفحہ 983)اے بے نمازیو!اپنی ناتوانی پر ترس کھائیے اور سُستی بھگائیے، خوفِ خدا سے لرزئیے، سانس کی مالا ٹوٹ گئی تو صرف بے بسی اور افسوس رہ جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

بے نمازی کی نحوست ہے بڑی مر کے پائے گی سزا بے حد کڑی

نمازِ ظہر کس نبی نے سب سے پہلے ادا کی؟حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند کے جان محفوظ رہنے اور دُنبہ کی قربانی کرنے کے شکریہ میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نمازِ ظہر ہوگئی۔نمازِ ظہر کا نام رکھنے کی وجہ:ظہر کا ایک معنی ہے:ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے،اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الاثار للطحاوی، جلد 3، صفحہ 34،31، ملخصاً، فیضان رمضان، صفحہ 114)نمازِ ظہر پر 5 فرامین مصطفیٰ:ہر نماز کے بے شمار فضائل ہیں، نماز بھی اللہ پاک کا عظیم الشّان انعام ہے، ہر نماز بے انتہا فضائل سے مالامال ہے۔یہاں ظہر کی نماز کے پانچ فضائل پڑھنے کی سعادت حاصل کیجئے:1۔بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،وہ فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے، دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں، اِسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت ہوئی، ایک جاڑے میں، ایک گرمی میں۔(بہار شریعت، جلد اول، حصہ سوم، صفحہ 446)2۔صحیح بخاری شریف باب الاذان للمسافرین میں ہے:حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں:ہم رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، مؤذن نے اذان کہنی چاہی، فرمایا: ٹھنڈا کر، پھر قصد کیا، فرمایا:ٹھنڈا کر، پھر ارادہ کیا، فرمایا:ٹھنڈا کر،یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔(بہار شریعت، جلد اول، حصہ سوم، صفحہ 446)ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے والے کے لئے اس کے ہر ہرحرف کے بدلے ڈھیروں نیکیاں ہیں اور اس پر لازوال انعامات کی بارش ہوتی ہے، چنانچہ3۔حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے گا، اللہ پاک اس کو ہر ایک حرف کے بدلے میں جو اس کی زبان سے نکلا ہے، پانچ حوریں اور پانچ محل جنت میں عنایت فرمائے گا اور قیامت کے دن یہی نماز اُس کے پاس بُراق کی صورت میں آئے گی، جس پر وہ سوار ہو کر پل صراط سے چمکتی ہوئی بجلی کی طرح گزر جائے گا اور جنت میں داخل ہو گا۔ (فیضان سنت، ص997)سبحان اللہ۔4۔تاجدارِمدینہ، سُرورِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص نمازِ ظہر باجماعت پڑھے تو اللہ پاک اس کے فجر سے لے کر ظہر تک کے گناہ معاف فرما دے گا، اگر نمازِ عصر باجماعت پڑھے تو اُس وقت کے گناہ بخش دے گا اور اگر نمازِ مغرب جماعت کے ساتھ پڑھے تو عصر و مغرب تک کے سب گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اگر عشاء کی نماز باجماعت پڑھے تو اس وقت تک کے سب گناہ معاف ہو جائیں گے اور اگر نمازِ صبح باجماعت پڑھے تو رات بھر کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ظہر کے آخری دو نفل کے بھی کیا کہنے:5۔ظہر کے بعد چار رکعت پڑھنا سنتِ مؤکدہ و نفل ہیں کہ حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( ترمذی، جلد 1، صفحہ 436، حدیث 428)علامہ سید طحطاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سِرے سے آگ میں داخل ہی نہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس پر(بندوں کے حق تلفیوں کے)جو مطالبات ہیں،اللہ پاک اس کے فریق کو راضی کر دے گا یا یہ مطلب ہے کہ ایسے کاموں کی توفیق دے گا، جس پر سزا نہ ہو۔(حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 284)علامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس کے لئے بشارت ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہو گااور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(ردالمختار، ج2، ص547) اللہ پاک ہمیں نمازوں کی پابندی کا خیال رکھنے والا بنا کر ہر نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


ہر مسلمان عاقل و بالغ،مرد و عورت پر پانچ وقت کی نمازفرض ہے،اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے،جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑے گا وہ سخت گناہ گار اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔

جنت اے بے نمازیو! کس طرح پاؤ گی؟ ناراض رب ہوا تو جہنم میں جاؤ گی

پنجگانہ نماز میں سے نمازِظہر کی اہمیت و فضیلت کو پڑھئے اور جھوم جائیے،مزید یہ بھی نیت کیجئے کہ آج کے بعد میری کوئی نماز قضا نہیں ہوگی۔ ان شاءاللہ ۔ظہر کا ایک معنی ہے”ظہیرہ“یعنی دوپہر کیونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس لیے اسےظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لیے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد7، صفحہ138، حدیث:9762) حضرت حارث رَضِیَ اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عنہ ایک روز تشریف فرما تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں مؤذن آگیا، حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عنہ نے پانی منگوا کر وضو کیا، پھر فرمایا:میں نے مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے اور میں نے سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر وہ ظہر کی نماز پڑھے تو اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے یعنی وہ گناہ جو فجر کی نماز اور اس ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے۔(الاحادیث المختارۃ، جلد1، صفحہ450، حدیث:324، ملتقطا)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے میں کیا ثواب ہے تو اس کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور اگر یہ جان جائیں کہ عشا اور صبح کی نماز کے فضائل کتنے ہیں تو گھٹنوں کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لئےآئیں۔(بخاری،رقم:652)حضرت اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو ظہر سے قبل چار رکعت اور اس کے بعد چار رکعت کی محافظت کرے تو اللہ پاک اسے آگ پر حرام فرما دے گا۔(رواہ ابوداؤد2/19، والترمذی428)حضرت عبداللہ بن سائب رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوالِ سورج کے بعد، ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور فرماتے تھے:اس وقت میں آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں،پس مجھے پسند ہے کہ اس وقت میں میرا نیک عمل اوپر چڑھے۔(رواہ احمد3/411، والترمذی2/342)ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ہر نماز کی محافظت کریں،اس کے فضائل پڑھ کر اس کی اہمیت کو اپنے دل میں اجاگر کریں، آئیے! نیت کرتی ہیں کہ آج کے بعد میری کوئی نماز قضا نہیں ہوگی۔ان شاءاللہ


یوں تو نمازِ پنجگانہ پڑھنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر نماز کے جداگانہ فضائل بھی ہیں، بے شک ہر نماز کی اپنی الگ حیثیت ہے، اسی طرح نمازِ ظہر بھی اپنے پڑھنے والوں کے لئے برکتوں اور فضیلتوں کی نوید لئے ہوئے ہے۔ ظہرکاایک معنی ہے:ظہیرۃ(یعنی دوپہر) چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت پڑھی جاتی ہے،اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔ (فیضانِ نماز،ص114)حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السّلام نے اللہ پاک کے حکم کی بجاآوری کے دوران اپنے فرزند کی جان محفوظ رہنے اور دُنبہ قربانی کرنے کے شکریہ میں ظہر کے وقت چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نماز ظہر ہوگئی۔(شرح معانی الآثار،1/226، حدیث: 1014)ظہر کے وقت عام طور پر لوگ اپنے کام کاج، کاروبار، دفاتر وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں اور گھریلو خواتین گھر کے کام اور کھانا بنانے میں مصروف ہوتی ہیں، ان مصروفیات کو لے کر نماز میں سُستی کرنا دُرست نہیں، بلکہ اپنے شیڈول کو اس طرح ترتیب دیں کہ نماز کا حرج نہ ہو۔نمازِ ظہر کی اہمیت پر چند فرامینِ مصطفےٰ ملاحظہ کیجئے: (1)امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ سےروایت ہے:جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں، گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔(معجم اوسط، 4/386،حدیث:6332) (2)حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب ظہر سے پہلے چار سنتیں نہ پڑھ پاتے تو انہیں بعد میں(یعنی ظہر کے فرض پڑھنے کے بعد) پڑھ لیا کرتے تھے۔ (ترمذی، 1/ 435، حدیث: 426)(3)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کیلئے جنّتِ عدن میں پچاس درجے ہوں گے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا، جتنا ایک سدھایا ہوا(یعنی تربیت یافتہ)تیز رفتار، عمدہ نسل کا گھوڑا پچاس سال میں طے کرتا ہے۔(شعب الایمان،7/138، حدیث:9761) (4)نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی،اس کے لئےاس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنّتُ الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، 7/138،حدیث:9761) ہماری اکثریت نوافل اس لئے چھوڑ دیتی ہے کہ انہیں نہ پڑھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن یہ محرومی ہے۔ (5)نمازِ ظہر کی سنتیں اور نوافل پڑھنے کی بھی کیا ہی زبردست فضیلت ہے کہ حدیثِ پاک میں فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار(یعنی دو سنت اور دو نفل) پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر (جہنم کی) آگ حرام فرما دے گا۔ (ترمذی، 1/436، حدیث: 428)سبحٰن اللہ! ہر نماز ہمارے لئے اللہ پاک کا تحفہ اور نعمت ہے جس میں ہمارے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنائے اور وقت پر نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


دعوتِ اسلامی کے ذریعے شائع ہونے والا ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے تاثرات میں ہم جتنی بھی تعریف کریں وہ کم ہے۔ ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں واقعی علمِ دین کا خزانہ موجود ہوتا ہے جو ہر ماہ پی ڈی ایف کی صورت میں ہم تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس سے ہمیں علمِ دین کی اہم معلومات حاصلِ ہوتی ہیں۔ اس کے مطالعہ کرنے سے سہی معنوں میں ایک مسلمان کی زندگی میں سدھار آ سکتا ہے بلکہ الحمد للہ آ رہا ہے اورہم سہی معنوں میں علم حاصل کرکے شریعت کے مطابق زندگی گزار سکتی ہیں۔ اسلام ایک وسیع مذہب ہے جس کے ماننے والوں کو مرتے دم تک کچھ نہ کچھ حاصل ہو تاہے۔ لیکن انسان لا علمی کی وجہ سے دینِ اسلام سے بہت زیادہ بے خبر ہے اور لا علم ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ دعوتِ اسلامی کی کاوشوں سے ہے کہ کئی لوگ اندھیرے سے نکل کر دینِ اسلام کی روشنی سے فیضیاب ہوگئے۔ الحمدللہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے مطالعہ سے بہت کچھ علمِ دین حاصل ہو جاتا ہے اور اس سے ہم اسلام کے راستےپر گامزن ہوئے۔ الحمدللہ اس سے ہمیں علمِ دین کے بہت فوائد حاصل ہوئے۔ ماہنامہ فیضانِ مدینہ میں مدنی مذاکروں کے سوالات و جوابات،شرعی احکامات،شرم و حیا کے پیکر،پاکیزگی،فرض علوم،فرض نمازوں کی فضیلت، ساتھ ساتھ نفلی نمازوں کی فضیلت،قرآنِ کریم پڑھنے پڑھانے کی فضیلت،صحابیات (رضى اللہُ عنہمن)کے واقعات، نیک عورتوں کی نشانیاں،روحانی علاج،مدنی چینل کی جانکاری،نیکی کی دعوت دینےکا طریقہ، نیک بننے بنانے کا جزبہ،اچھے اخلاق کیا ہے؟، صلۂ رحمی کے عنوانات ،ماں باپ کے حقوق ، اولاد کی پرورش کس طرح ہونی چاہئے؟،جنت جہنم کے متعلق عنوانات پر ہر مہینے مختلف موضوعات پر تحریریں آتی ہیں ۔ اس لئے ہمیں اس سے بھر پور فائد ہ اٹھا نا چاہیے۔ہمیں ماہنامہ فیضانِ مدینہ مطالعہ کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ مطالعہ کرنے سے ہی علمِ دین حاصل ہو جاتا ہے۔جتنا ہم مطالعہ کریں گی عملی طور پر اتنی ہی مضبوطی کے راستے پر گامزن ہوں گی ۔علمِ دین حاصل کرنے سے دنیا و آخرت کی بھلائی ہو گی۔ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے ذریعے گناہوں سے بچنے اور دین اسلام کی روشنی سے فیضیاب ہوا جاسکتا ہے۔الغرض ماہنامہ میگزین کے مطالعہ کرنے سے کیا کیا نہیں حاصل ہوتا! اللہ پاک ہم سب کو اس کے فیوض و برکات سے فیضیاب فرمائے ۔امین بجاہ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


سنتوں کی  تحریک دعوتِ اسلامی کا ماہنامہ فیضانِ مدینہ ایک بہت ہی پیارا،خوب صورت اور دلچسپ معلومات سے بھر پور ماہنامہ ہے۔جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے۔اس میں دینی معلومات کا ڈھیر سارا خزانہ موجود ہے۔اس سے انبیائے کرام علیہمُ السلامکا تذکرہ،ہرماہ اس مہینے کی مناسبت سے اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کے عرس مبارک، صحت سے متعلق دلچسپ معلومات،ملکی اور غیر ملکی سطح کی دینی خبریں اور اس کے علاوہ بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ بچوں اور طلبہ کے لئے اور بھی مفید ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ اس میں بچوں کے لیے سبق آموز کہانیاں بہت دلچسپ انداز میں تحریرکی جاتی ہیں۔بچوں کو اگر یہ کہانیاں پڑھ کر سنائی جائیں تو میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ جو سبق وہ ان کہانیوں سے سیکھیں گے اس پر نہ صرف وہ خود عمل کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں گے۔اس کے علاوہ اس میں سوالات ڈھونڈ کر اس کا جواب دینے والاسلسلہ بھی دلچسپ ہے جس سے ہمارے اندر سیکھنےکی جستجو اور بھی بڑھ جاتی ہے۔طلبہ کے لئے بھی بہت ساری دینی معلومات فراہم کی جاتی ہے جس سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ میں خود اس ماہنامہ فیضانِ مدینہ کا مطالعہ کرتی ہوں،اس کا مطالعہ کرنے سے مجھے بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔میں بی-اے میں پڑھتی ہوں اور مجھے اس سے کافی معلومات حاصل ہوئی ہیں جو اسلامیات کے پیپر کے دوران میرے بہت کام آئیں۔میں اس کو سب کے لیے بہت ہی مفید محسوس کرتی ہوں کیونکہ اس گناہوں بھرے دور میں ہمیں اس سے نہ صرف اپنی اصلاح کرنے کا موقع ملتا ہے بلکہ یہ دوسروں کو بھی بہت کچھ سکھانے کا ایک منفرد ذریعہ ہے۔ماہنامہ فیضانِ مدینہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر ماہ کی مناسبت سےقومی تہواروں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔میری تمام عاشقانِ رسول سے التجا ہے کہ وہ ایک بار اس کا مطالعہ ضرور کیجئے۔اب تو اس تک رسائی کو دعوتِ اسلامی نے اور بھی آسان فرما دیا ہے۔ہم اسے بآسانی اپنے موبائل فون سے ڈاؤن لوڈ کر سکتی ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو بھی اس کی برکتیں لوٹنے کی سعادت نصیب ہو۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم