اللہ کریم کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک بکثرت ہیں۔ آٹھ سو سے زائد مواہب و شرح مواہب میں ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے تقریباً چودہ سو پائے اور حصر (شمار) تو ناممکن ہے۔(فضائل و مناقب جلد 28، فتاویٰ رضویہ ماخوذا)(نشان مژدہ، ص 41-42)

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

قرآنِ کریم میں موجود آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک میں سے 10 مبارک نام درج ذیل ہیں:1)مُحمّد(پ،4،ال عمران:144) محمد کا معنی ہے: جس کی بار بار حمد کی گئی ہو، خود اللہ کریم نے آپ کی ایسی حمد کی ہے جو کسی اور نے نہیں کی، اور آپ کو ایسے محامد عطا کیے جو کسی اور کو عطا نہیں کیے اور قیامت کے دن آپ کو ایسی حمد کا الہام فرمائے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کی ہوگی۔(نعمۃ الباری، جلد ششم، ص 600، فرید بک اسٹال)

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزت کا نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا

محمد نام رکھنے کی فضیلت:فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:’’جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے، وہ اور اس کا لڑکا دونوں بہشت میں جائیں۔‘‘(کنزالعمال،حدیث: 45215 ،الجزء السادس عشر،8/175۔ فتاوی رضویۃ،24/686)اعلیٰ حضرت امامِ احمد رضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘جلد 24صفحہ691 پر فرماتے ہیں :’’بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یااحمد نام رکھے، اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارکہ کے وارد ہوئے ہیں۔‘‘

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے پیارے نبی کا ذکر بھی ہم کو پیارا لگتا ہے

2)احْمد (تمام حمد کرنے والوں سے زیادہ حمد کرنے والے)(پ28۔ الصف:6)قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محمد ہونے سے پہلے احمد تھے، یعنی آپ نے اپنے رب کی حمد کی، اس سے پہلے کہ لوگ آپ کی حمد کرتے، اس وجہ سے سابقہ آسمانی کتابوں میں آپ کا نام احمد ہے اور قرآنِ کریم میں آپ کا نام محمد ہے۔(الشفاء، جلد 1، ص 260، دار الفکر بیروت)(نعمۃ الباری، جلد ششم، ص 600، فرید بک اسٹال)

سرکار سا جہاں میں نہ ہوگا نہ ہے کوئی احمد ہے اسم آپ کا اور مصطفیٰ لقب

3) نُوْرٌ(پارہ 6 المائدہ 15)اللہ کریم نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: 15، 1/ 477) (تفسیر صراط الجنان، المائدہ، تحت الآیۃ 15)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے جابر!بےشک بالیقین،اللہ کریم نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف، ص 63، حدیث: 18)(فرض علوم سیکھئے، ص 47)مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔(رسالۂ نور مع رسائل نعیمیہ، ص39-40)(فرض علوم سیکھئے، ص47)

نور سے اپنے سرورِ عالم دنیا جگمگانے آئے غم کے ماروں دکھیاروں کو سینے سے لگانے آئے

4،5) رؤُوْف (بہت مہربان)، رحِیْم (رحمت فرمانے والے)(پ 11 ،التوبۃ: 128)سورۂ توبہ کی آیت نمبر 128 میں اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کمالِ تکریم ہے۔ حضور جانِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دنیا میں بھی رؤوف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی۔(تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ: 128)

رؤوف ایسے ہیں اور یہ رحیم ہیں اتنے کہ گرتے پڑتوں کو سینے لگانے آئے ہیں

6) رَحْمَة لِّلْعٰلَمِیْنَ (تمام جہانوں کیلئے رحمت)(پ 17 ،الانبیاء: 107)تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نبیوں،رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،جنات اور انسانوں،مومن و کافر،حیوانات،نباتات،جمادات الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں،سب کے لئے رحمت ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، الانبیاء تحت الآیۃ: 107 ملتقطا)

رحمۃ للعالمیں تیری دہائی دب گیا اب تو مولی بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے

7)خَاتَم النَّبِیّٖن(سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے)(پ 22، الاحزاب:40)یعنی محمد مصطفٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعدکوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ جو حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب ،تحت الآیۃ:40 ملتقطا)

آتے رہے انبیا کما قیل لہم و الخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفترِ تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم

8)شاھِد(پ، 22 ،الاحزاب:45)شاھد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاھد ہیں اور ان کے اعمال، افعال،احوال،تصدیق،تکذیب،ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔(ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، 4/325، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، 6/180، ملتقطاً)(تفسیر صراط الجنان،الاحزاب،تحت الآیۃ:45 ملتقطا)

سر ِعرش پر ہے تیری گزر دل فرش پر ہے تیری نظر ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

9،10)مُبَشِّر (خوشخبری دینے والا)، نَذِیْر (ڈر سنانے والا)(پ 22، الاحزاب:45)اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(مدارک،الاحزاب،تحت الآیۃ: 45،ص 944)(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:45)

بشیر کہئے نذیر کہئے انہیں سراج ِمنیر کہئے جو سربسر ہے کلامِ ربی وہ میرے آقا کی زندگی ہے

ان کے ہر نام و نسبت پہ نامی درود ان کے ہر وقت و حالت پہ لاکھوں سلام


اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہایت ہی خوبصورت اسمائے اکرام سے نوازا ہے اور قرآنِ کریم میں جگہ جگہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو احسن اندازسے مخاطب فرمایا۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے مبارکہ سے آپ میں پائی جانے والی صفات کا علم ہوتا ہے۔ایک اہم نقطہ:جب بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکرِ مبارک ہو تو درودِ پاک پڑھا جائے اور اسی طرح آپ علیہ السلام کے اسمائے مبارک کو کہیں لکھا جائے تو مکمل درود پاک لکھا جائے۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نامِ مبارک کے ساتھؐ یا صلعم لکھنا حرام ہے۔(بہارِ شریعت، 1/534، حصہ : 3ماخوذاً)مکمل درود پاک لکھنے کی کیا ہی خوب فضیلت ہے۔فرمانِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس نے کتاب میں مجھ پر درود پاک لکھا تو جب تک میرا نام اس میں رہے گا فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔(ضیائے درود و سلام،ص6)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تین نام حمد سے مشتق ہیں:محمد،احمد،محمود۔محمد کا معنی ہیں:ہر طرح،ہر جگہ،ہر ایک کا حمد کیا ہوا، یا ان کی ہر ادا ہر وصف کی ذات کی حمد کی ہوئی مخلوق بھی ان کی حمد کرے گی اور خالق بھی ان کی حمد فرمائے گا۔(مراٰۃ المناجیح،8/42) 1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مدینہ طیبہ سے ایک راستے میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے حذیفہ!میں محمد اور احمد ہوں،نبی رحمت اور نبی توبہ ہوں۔میں سب سے پیچھے آنےوالا اور خدا کی راہ میں جنگ کرنے والا ہوں۔(شرح شمائل ترمذی،باب51،ص593)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی محمد قرآنی آیات اور احادیث میں وارد ہوا ہے، نیز اس نام پر امتِ محمدیہ کا اجماع ہے، قرآنِ کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ۔محمد اللہ کے رسول ہیں۔(سورۂ فتح، آیت 29)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۙ(سورۂ محمد:2) اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا۔محمد نام کا مطلب لائقِ حمد ہے،حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام محمد بہت جامع ہے،جس میں حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ محمد کے معنی ہیں: ہر طرح، ہر وصف میں بے حد تعریف کئے ہوئے۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس نام کے رکھنے کی بڑی برکتیں ہیں۔ نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا، قیامت تک صبح و شام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ22)سبحان اللہ! آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نامِ مبارک پر نام رکھنے کی فضیلت کتنی ہے! جب نام کی برکت کا یہ عالم ہے تو صاحبِ نام کا کیا عالم ہوگا کہ یہ نام رکھنا دوزخ کے عذاب سے بچا لے گاجبکہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قول کو ماننا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فعل کی پیروی کرنا ہمارے لئے باعثِ رحمت اور آخرت میں باعثِ نجات ہوگا۔لیکن خبردار!ایک احتیاط بہت ضروری ہے جو ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم نے ہمیں محمد نام رکھنے کے حوالے سے بیان کی ہے کہ یہ نام اتنا مقدس ہے جس کی ادنیٰ سی بے ادبی کہیں ہمارے لئے پکڑ کر سبب نہ بن جائے۔حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر نام بگڑنے کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے۔اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کاعقیقے میں صرف محمد نام رکھا، پھر نامِ اقدس کے حفظِ آداب اور باہم تمیز کے لئے عُرف جدا مقرر کئے۔(نام رکھنے کے احکام)

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے

2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ؕ(سورۂ الصف:آیت 6)۔اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں،جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔احمد:اسم تفصیل ہے حمد کا یا تو حمد معروف کا تو معنیٰ ہوں گے:ہت ہی حمد فرمانے والے اپنے رب کی یا حمد مجہول کے معنیٰ ہوں گے بہت ہی حمد کئے ہوئے۔پہلے معنی قوی ہیں۔(شرح شمائل ترمذی،باب51،ص592)فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:روزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے،حکم ہوگا:انہیں جنت میں لے جاؤ، عرض کریں گے:الٰہی! ہم کس عمل پر جنت کے قابل ہوئے؟ ہم نے تو کوئی کام جنت کا نہ کیا! اللہ پاک فرمائے گا:جنت میں جاؤ، میں نے حلف فرمایا ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہووہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(الفردوس بماثور الخطاب،جلد2، حدیث 883، پوسٹ دعوت اسلامی احمد یا محمد نام رکھنے کی برکت)

کیوں بارہویں پہ ہے سبھی کو پیار آگیا آیا اسی دن احمدِ مختار آگیا

3۔یسین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰسٓۚ0 وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ0ۙ۔ترجمہ:یسین حکمت بھرے قرآن کی قسم۔(سورۂ یاسین، آیت1)یسین حروفِ مقطعات میں سے ہے، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یسین کے ساتھ مخاطب فرمایا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی یسین اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو بلند مقام حاصل ہے اور اس نام کے ذریعے اللہ پاک کا قسم کھانا آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظمت کی دلیل ہے۔4۔طہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:طٰهٰ ۚ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى ۙ۔ترجمہ:طہ، ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑو۔(سورۂ طہ)طہ :حروفِ مقطعات میں سے ہے،ایک قول کے مطابق طہ اللہ پاک کا نام ہے اور اللہ پاک نے اس نام کے ذریعے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکارا ہے، نیز اس خطاب کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلند مرتبے کا اظہار کیا ہے۔یسین اور طہ نام رکھنا منع ہے:بہارِشریعت میں ہے :طہ اور یسین نام نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعاتِ قرآنیہ سے ہیں، جن کے معنی معلوم نہیں، یہ نام اسمائے نبی یا اسمائے الہیہ میں سے ہے، جب معنی معلوم نہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں، جواللہ پاک اور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ خاص ہوں۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ 37)محمد یسین یامحمد طہ:ان ناموں کے ساتھ محمد ملا کر کہنا بھی ممانعت کو دور نہیں کرے گا تو یوں بھی نام نہ رکھا جائے۔ غلام یسین یا غلام طہ:ا ن ناموں کے ساتھ غلام ملا کر کہنا درست ہے۔

سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے

5۔المزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۙ۔اے جھرمٹ مارنے والے۔(سورہ ٔمزمل:1)اس تفسیر میں ہے کہ اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے، اس کے شانِ نزول میں کئی اقوال ہیں:ایک قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۔ بہرحال یہ ندابتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ردائے نبوت و چادرِرسالت کے حامل و لائق تھے۔(کنزالایمان تفسیر و ترجمہ)6۔ المدثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ۔اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(سورۂ مدثر، آیت 1)حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ نے فترتِ وحی کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی گفتگو میں فرمایا: میں چلا جارہا تھا،اچانک میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی،میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا کرتا تھا ،آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے جس سے مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور میں لوٹ کر گھر آگیا۔میں نے کہا:مجھے کپڑا اڑھاؤ،مجھے کپڑا اڑھاؤ(لوگوں نے اڑھادیا) پھر اللہ پاک نے یہ آیتیں نازل فرمائیں:اےبالا پوش اوڑھنے والے اٹھئے ۔(نزہۃ القاری شرح صحیح بخاری،1/263،حدیث:فترت وحی)

کہیں مزمل کہیں مدثر یا روح القرآن

میں تیرے قربان محمد میں تیرے قربان

7۔بشیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:8۔نذیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۙ۔اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی!بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(الاحزاب:45)مبشر اور بشیر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے گرامی ہیں، اللہ پاک نے ان دو ناموں کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعریف فرمائی، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو وہ باتیں یاد دلاتے ہیں، جن سے ان کے دل خوش ہوتے ہیں، لوگوں کو جنت کے محلات، خوبصورتی، ان میں موجود نعمتوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جنت میں موجود نہروں کے حال بتاتے ہیں، اور بھی ایسی خوشخبریاں سناتے ہیں کہ جس سے بندہ مؤمن خوش ہو جاتا ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کتنے ہی صحابہ کرام کو دنیا میں بھی جنتی فرما دیا تھا، جن میں دس صحابہ کرام عشرۂ مبشرہ کے نام سے مشہور ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ علمِ غیب رکھتے تھے اور آنے والے شخص کے جنتی ہونے کی خبر بھی دے دیا کرتے تھے، اسی طرح کافروں کو عذابِ جہنم کا ڈر سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو اللہ پاک کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈراتے تھے۔ نذیر ڈرانے میں مبالغہ کرنے والے کو کہتے ہیں اور احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کے جہنمی ہونے اور جہنم میں ان کے ساتھ پیش آنے والے عذابات کو بیان کرکے لوگوں کو اس سے ڈرایا کرتے تھے۔9۔النور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۙ۔بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(سورۂ مائدہ:15)اس کی تفسیر میں ہے: اللہ پاک کی طرف سے آنے والے نور سے مراد یا نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لئے فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی وکفر دور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی ہے۔النور: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی ہے، یہ اللہ پاک کا نام بھی ہے۔ بے شک نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے نور ہیں۔

تم ہو خدا سے کب جدا نورِ خدا ہو باخدا

آئینہ خدا نما صلی علی محمد

اللہ پاک کا اپنا نام اپنے محبوب کو دینا نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مرتبہ و مقام کے بلند واعلیٰ ہونے کی واضح دلیل ہے۔یا نور:اس اسم کی بہت برکت ہے،چنانچہ اگر کوئی سات مرتبہ سورۂ نور اور 1001بار یا نور پڑھے تو ان شاءاللہ اس کا دل روشن ہو جائے گا۔(مدنی پنج سورہ)10۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ۔ترجمہ:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول، سب نبیوں میں پچھلے۔(سورۂ احزاب، آیت 40)خاتم النبیین کا معنی ہے: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخر میں آکر نبوت کو ختم اور مکمل کرنے والے ہیں، یعنی ہمارے نبی آخری نبی ہیں، اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث فرماکر نبوت و رسالت کو مکمل فرمایا۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس اسمِ گرامی سے ہمارا عقیدۂ ختم نبوت واضح ہوتا ہے اور جب ربّ کریم نے آپ کو خاتم النبیین فرمادیا توکسی بھی قسم کی گنجائش نہیں کہ ہم اس کا انکار کریں۔ اس عقیدے کے بارے میں قرآن میں صریح نَص موجود ہے اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں شک کرنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔آپ کا یہ خوبصورت نام آج کے دور میں اُٹھنے والے خطرناک فتنے کی صراحتاً نفی کرتا ہے، ہمارا ایمان ہے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔آمین

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مختلف اسمائے مبارکہ کے ساتھ ذکر فرمایا، ان میں سے دس اسمائے مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں۔1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسم مبارکہ محمد کے ساتھ ذکر فرمایا، جیسا کہ سورۂ الفتح میں ہے:محمد رسول اللہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ26،سورۂ الفتح،آیت 29) صراط الجنان فی تفسیر القرآن از مفتی محمد قاسم عطاری جلد 9، ص 385 پر ہے:مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پہچان کروارہا ہے کہ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک نام احمد کے ساتھ یاد فرمایا، جیسا کہ سورۂ الصف میں ہے: اسمہ احمد ان کا نام احمد ہے۔(پ28،سورۂ الصف، آیت:6)حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ کے ملک میں جانے کا حکم فرمایا،جب ہم وہاں چلے گئے تو نجاشی بادشاہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں اور وہی رسول ہیں، جن کی حضرت عیسیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بشارت دی، اگر مجھ پر امورِ سلطنت کی پابندیاں عائد نہ ہوتیں تو میں ضرور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے مبارک نعلین پاک اٹھانے کی خدمت بجا لاتا۔(ابو داؤد، کتاب الجنائز ،باب فی الصلوۃ علی المسلم یموت فی بلاد الشرک ، حدیث 3205)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آقاکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آمد کی بشارت آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسم مبارک احمد ذکرفرما کر دی۔3۔شاہد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک عظیم اسمِ مبارک شاہد بھی ذکر فرمایا، جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہے: یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا0ترجمہ:اے نبی بے شک ہم نے تمھیں گواہ بنا کر بھیجا۔(الاحزاب، آیت نمبر 45)اللہ پاک نے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شاہد ذکر فرما کر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک وصف ذکر فرمایا ہے، کیونکہ شاہد کا ایک معنیٰ ہے:حاضر و ناضریعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ ان معانی کے تحت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یا تو مشاہدہ فرمانے والے ہیں یا گواہ ہیں۔البتہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے شاہد کا معنی حاضروناظر فرمایا ہے۔4۔مبشرا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک میٹھا میٹھا مبارک اسم مبشرا بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہے:یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا و مبشرا و نذیرا۔ترجمہ:اے نبی!بے شک ہم نے تمھیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(سورۃ الاحزاب، آیت 45)اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبشر ذکر فرما کر ان کا وصف بیان فرمایا کہ ربّ کریم نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مؤمنین کو جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجاہے۔5۔نذیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک اسم مبارک نذیر بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۃالاحزاب میں ہی ہے:یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا و مبشرا و نذیرا ترجمہ:اے نبی!بے شک ہم نے تمھیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(سورۃ الاحزاب، آیت 45)اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نذیر ذکر فرما کر بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک وصف بیان فرمایا ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔6۔سراج صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمقرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک مقدس اسم سراج بھی ذکر فرمایا،جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہی ہے: سراجامنیرا اور چمکا دینے والا آفتاب (بنا کر بھیجا)۔ ( سورۃ الاحزاب آیت 46)اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔صدر الافاضل سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اسم مبارک سراج کے متعلق کچھ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے (جیسا کہ سورۂ نوح اور سورۂ نباء میں ہے)حقیقت میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وجودِ مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے، جس نے ہزار ہا آفتاب بنا دئیے، اسی لئے اس کی صفت میں منیرا ارشاد فرمایا گیا۔(خزائن العرفان ،الاحزاب،تحت الآیۃ :46،ص784)7۔مزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک خوبصورت نام مزمل بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۂ مزمل میں ہے :یایھا المزمل۔ترجمہ:اے چادر اوڑھنے والے۔(سورۂ مزمل، آیت نمبر 1)اس آیتِ مبارکہ کے شانِ نزول کے متعلق صراط الجنان فی تفسیر القرآن جلد 10، ص 410 پر دو اقوال ہیں:ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے، ایسی حالت میں حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یایھاالمزمل کہہ کر ندا کی۔دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لیٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ندا کی گئی: یایھا المزمل۔8۔مدثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک پیارا اسم مبارک مدثر بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۃ المدثر میں ہے:یایھاالمدثر۔ ترجمہ:اے چادر اوڑھنے والے۔( سورۂ مدثر، آیت نمبر 1)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:میں جبلِ حرا پر تھا، مجھے ندا کی گئی:یا محمد انک رسول اللہ! میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی تو کچھ نہ پایا، جب اوپر کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی، آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے، یہ منظر دیکھ کر مجھ پر رعب طاری ہو گیا اور میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عنہا کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا:مجھے چادر اڑھاؤ، انہوں نے چادر اڑھادی،اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا:یایھا المدثر (مدارک،المدثر،تحت الآیۃ1، ص:1296)9۔نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے سرکار دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسم مبارک نبی کے ساتھ خطاب فرمایا ہے، جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہے:یایھا النبی ترجمہ:اے نبی۔(سورۃ الاحزاب، آیت :1)اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یایھا النبی کے ساتھ خطاب فرمایا۔نبی کے معنیٰ ہیں ہماری طرف سے خبریں دینے والے، ہمارے رازوں کے امین، ہمارا خطاب ہمارے پیارے بندوں کو پہنچانے والے۔ اللہ پاک نے دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کو ان کے مبارک اسماء کے ساتھ خطاب فرمایا، لیکن حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یا محمد کہہ کر خطاب نہ فرمایا، مقصد آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و تکریم اور افضیلت و فوقیت کو ظاہر کرنا ہے۔10۔رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے شاہِ بنی آدم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسم مبارک رسول کے ساتھ خطاب فرمایا اور عزت عطا فرمائی،جیسا کہ سورۃالمائدہ میں ہے:یایھا الرسول۔ترجمہ:اے رسول۔(سورۃ المائدہ، آیت 67)دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ پاک نے ان کے مبارک اسماء سے خطاب فرمایا، لیکن نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یہ خصوصیت ہے کہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ان کے ربّ کریم نے رسول کے لقب سے خطاب فرمایا۔ان اسمائے مصطفے کے علاوہ اور بھی کئی اسمائے مصطفے قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان مقدس اسما کے صدقے ہمیں بروزِ آخرت آقائے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


ہر مکلّف یعنی عاقل، بالغ، مرد عورت پر نماز فرضِ عین ہے یعنی 5 وقت کی نماز پڑھنا فرض ہے۔اس کی فرضیت کا منکر( یعنی فرض ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے اور جو قصداً ( یعنی جان بوجھ کر)نماز چھوڑے اگر چہ ایک ہی وقت کی ہو وہ فاسق،سخت گنہگار اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔نماز اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کی سنت ہے،نماز جہنم کے عذاب سے بچاتی ہے،نماز نیکیوں کے پلڑے کو وزنی بنا دیتی ہے،نماز کا وقت پر ادا کرنا تمام اعمال سے افضل ہےاور نمازی کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے بروزِ قیامت اللہ پاک کا دیدار ہوگا ۔اسی ضمن میں نمازِ ظہر پر 5 فرامینِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ذکر کی جاتی ہیں،تاکہ ہر مسلمان اپنے ربِّ کریم اور پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشادات پڑھیں اور اس کی توفیق سے ان عمل کریں۔1۔حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔ احادیث میں خاص ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گا اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔2۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر روز ظہر کے وقت جہنم کی آگ کو بھڑکایا جاتا ہے ۔جو بھی اہلِ ایمان اس نماز کو پڑھتا ہے اللہ کریم قیامت کے روز اس پر جہنم کی آگ کو حرام فرما دیتا ہے۔3۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ظہر سے پہلے ایک ہی سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔4۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے گھر ظہر سے پہلے 4 رکعت پڑھتے، پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو بھی نماز پڑھاتے (یعنی فرض نماز پڑھاتیں)5۔حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب ظہر سے پہلے 4 رکعت نہ پڑھتے یعنی کسی وجہ سے نہ پڑھ پاتے تو ظہر کے فرضوں کے بعد پڑھتے۔

عبادت میں گزرے مری زندگانی کرم ہو کرم یا خدا یا الٰہی

عطا کر نمازوں کا جذبہ الٰہی گناہوں کی میرے مٹا دے سیاہی

اللہ پاک ہمیں پا بندیِ وقت کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کی خاطر آپس میں محبت رکھنے والے جب باہم ملیں اور مصافحہ کریں اور نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درودِ پاک بھیجیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔جیسا کہ ہم سب جانتی ہیں کہ نماز مسلمانوں پر فرض ہے۔نماز پڑھنے کے بارے میں ہم نے بہت کچھ سنا اور پڑھا ہے۔ آج ہم نمازِ ظہر کے متعلق پیارے مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرامین پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گی۔1۔حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ تھے، مؤذن نے ظہر کی اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ظہر ٹھنڈی کر لو، پھر اس نے اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:ٹھنڈی کرلو، اسی طرح دو یا تین بار فرمایا،یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لئے۔ پھر آپ نے فرمایا:گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے سے ہوتی ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو۔( ابو داؤد)2۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو نمازِ ظہر کی پہلی چار سنتیں ادا کرتا ہے(یعنی جو نمازِ ظہر اہتمام کے ساتھ ادا کرتا ہے)اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام فرما دیتا ہے۔(ابوداؤد)3۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جو نمازِ ظہر کی سنتیں ادا کرتا ہے، اللہ پاک اس پر جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔(ابوداؤد)4۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:نمازِ ظہر ادا کرنا یعنی اس کی پہلی چار رکعتیں ادا کرنا سحری کے وقت نوافل پڑھنے کے برابر ہے، یعنی تہجد پڑھنے کے برابر ہے۔(ابوداؤد)5۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:نمازِ ظہر کے وقت نیک اعمال اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ (ابوداؤد)


حدیثِ پاک :حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر کی نماز دوپہردن ڈھلتے پڑھ لیتے تھے اور رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صحابہ کرام علیہم الرضوان پر ان تمام نمازوں میں جووہ پڑھتے تھے، ظہر کی نماز سے زیادہ سخت کوئی نماز نہ تھی،چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی:ترجمہ:تم سب نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز کی محافظت (پابندی) کرو۔(البقرۃ: 238)حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:ظہر کی نماز سے پہلے بھی دو نمازیں اور بعد میں بھی دو نمازیں ہیں۔(مسند امام احمد بحوالہ مشکاۃ المصابیح) فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ اس نے نماز ضائع کی ہو تو اللہ پاک اس کی کسی نیکی کی پروا نہیں فرمائے گا۔(احیاء العلوم ،جلد اول) حضرت ابو قتادہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھاتے اورپہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اوراس کے علاوہ کوئی دو اورسورتیں تلاوت فرماتے تھے اورکبھی ہمیں ایک آیتِ مبارکہ سناتے تھے اور ظہر کی پہلی رکعت لمبی اور دوسری چھوٹی ہوتی اور اسی طرح صبح کی نمازیں۔(مسلم)حضرت انس رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا معمول تھا کہ جب گرمی ہوتی تو آپ نمازِ ظہر دیر سے پڑھتے اور جب سردی ہوتی تو جلدی ادا فرماتے تھے۔(مشکوۃ المصابیح)نماز ایک عظیم نعمت ہے،جو پابندی کے ساتھ پڑھے گا وہ جنت کا حق دار ہوگا اور جو فرض نمازوں کو چھوڑ دے گا وہ عذابِ نار کا حق دار ہے۔ ترجمہ: تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔( مریم: 59)غی وادی کا نام: آیتِ مبارکہ میں غی کا تذکرہ ہے، اس پر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:غی جہنم کی وادی کا ایک نام ہے جس وادی کی گرمی اور گہرائی بہت زیادہ ہے، اس میں ایک کنواں ہے،جس کا نام ہب ہب ہے، جب جہنم کی آگ بجھنے پر آتی ہے تو اللہ پاک اس کنویں کو کھول دیتا ہے جس سے پہلے ہی کی طرح آگ بھڑکتی ہے۔(فیضان نماز)حدیث: جو ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد چار رکعتوں پر دوام اختیار کرتا ہے تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام قرار دے دیتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں نماز ظہر پڑھائی، پچھلی صفوں میں کسی آدمی نے نماز میں خرابی کی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے بلایا:اےفلاں!کیا تم اللہ پاک سے نہیں ڈرتے؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم کیسی نماز پڑھتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تم جو کرتے ہووہ مجھ پر مخفی رہتا ہے ؟اللہ پاک کی قسم! میں جس طرح اپنے آگے دیکھتا ہوں، ویسے ہی اپنے پیچھے دیکھتا ہوں۔(مشکوۃ المصابیح)یا اللہ پاک! تمام مسلمانوں کو پنج وقتہ نمازوں کا پابند بنادے۔آمین


فرمانِ الٰہی ہے:صبر اور نماز کے ذریعے اللہ پاک سے مدد طلب کرو، یہ (نماز) بہت بھاری ہوتی ہے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ پاک سے ڈرنے والے ہیں۔(البقرۃ: 54) فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بندے اور اس کے کفر کے درمیان فرق صرف نماز کا چھوڑنا ہے۔پانچوں نمازوں کی اہمیت و فضیلت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پانچ نمازیں اور جمعہ آئندہ جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔اللہ پاک نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں،اللہ پاک نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پانچ نمازوں کا تحفہ معراج کے موقع پر دیا۔نماز ہر عاقل،بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ہر نماز کی اپنی اپنی اہمیت و فضیلت ہے اور ہر نماز کو ترک کرنے کی اپنی اپنی وعید ہے۔ یہاں نمازِ ظہر کی اہمیت و فضیلت کو ذکرکیا جاتا ہے:1۔بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے، دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی:میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں،اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت ہوئی،ایک جاڑے میں،ایک گرمی میں۔(بہار شریعت، صفحہ 450)2۔بزار نے ثوبان رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت کی:دوپہر کے بعد چار رکعت پڑھنے کو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محبوب رکھتے۔اُم المؤمنین صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں دیکھتی ہوں کہ اس وقت میں آپ نماز پڑھنا محبوب رکھتے ہیں!تو فرمایا:اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق پر نظرِ رحمت فرماتاہے ۔ یہ وہی نماز ہے جسے حضرت آدم ونوح و ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام پابندی سے ادا کیا کرتے تھے۔(بہارشریعت،صفحہ665) 3۔ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں:رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر لوگ جان لیں کہ اذان اور پہلی صف میں کیا ثواب ہے،پھر بغیر قرعہ ڈالے اسے نہ پا سکیں، تو قرعہ ہی ڈالیں ۔اگر جانتے کہ دوپہر کی نماز میں کیا ثواب ہے تو اس کی طرف دوڑ کر آتے اور اگر جانتے کہ عشا اور فجر میں کیا ثواب ہے تو ان میں گھسٹتے ہوئے پہنچتے۔(مراۃ المناجیح، جلد اول، صفحہ 382)شرح: اس حدیثِ پاک سے پتا لگا کہ فی سبیل اللہ اذان و تکبیر کہنا اور نماز کی صفِ اوّل میں خصوصاً امام کے پیچھے کھڑا ہونا بہت بہتر ہے، جس کی بزرگی بیان نہیں ہو سکتی، یعنی ہر شخص چاہے کہ یہ دونوں کام میں کروں تو ان میں جھگڑا پیدا ہو، جس سے قرعہ سے ہو، معلوم ہوا ! نیکیوں میں جھگڑنا بھی عبادت ہے اور قرآن سے جھگڑا چکانا محبوب، ظہر اور جمعہ کی نماز اگر کچھ دیر میں ہو،مگر اس کے لئے جلدی پہنچنا،تاکہ پہلی صفوں میں جگہ ملے بہت بہتر ہے۔ مدینہ پاک میں نمازِ ظہر کے لئے لوگ 11:00 بجے پہنچ جاتے ہیں، خصوصاً جمعہ کے دن یعنی اگر پاؤں میں چلنے کی طاقت نہ ہوتی توگھسٹتے ہوئے پہنچتے۔4۔ابو داؤد،ابنِ ماجہ ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،آپ فرماتے ہیں: رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں، جن کے درمیان میں سلام نہ پھیرا جائے، ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(بہار شریعت، صفحہ 665)5۔امام احمدو ابوداؤد وترمذی ونسائی وابنِ ماجہ اُمّ المؤمنین اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے راوی،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتوں پر محافظت کرے، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔(بہار شریعت، صفحہ 665)روزِ قیامت سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا،اگر نماز کا معاملہ درست رہا تو دوسرے اعمالِ خیر بارگاہِ الٰہی میں مقبول ٹھہریں گے،ورنہ انہیں بھی ردّ کر دیا جائے گا اور اس کو خسارے اور نقصان کا منہ دیکھنا پڑے گا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پانچوں نمازیں فرائض، واجبات، سنت اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یا ربّ


ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھنا سنتِ مؤکدہ اور نفل ہیں۔حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا ۔علامہ سید طحطاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:سرے سے آگ میں داخل ہی نہ ہو گا اور اس کے گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس پرحقوق العباد(یعنی بندوں کے حق تلفیوں کے)جو مطالبات ہیں، اللہ پاک اس کے فریق کو راضی کر دے گا یا یہ مطلب ہے کہ ایسے کاموں کی توفیق دے گاجس پر سزا نہ ہو۔اورعلامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس کے لئے بشارت ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہو گااور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(ردالمختار، ج2، ص547، مدنی پنج سورہ، ص292)1۔امام احمد، ترمذی حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی،حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نماز کے ليے اوّل و آخر ہے، اوّل وقت ظہر کا اس وقت ہے کہ آفتاب ڈھل جائے اور آخر اس وقت کہ عصرکاوقت آجائے۔( بہار شریعت، جلد اول، ص 446)2۔امام فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃُ اللہِ علیہ نے( تابعی بزرگ) حضرت کعب الاحبار رَضِیَ اللہُ عنہ سے نقل کیا،انہوں نے فرمایا:اے موسیٰ! ظہر کی چار رکعتیں احمد اور اس کی امت پڑھے گی،انہیں پہلی رکعت کے عوض بخش دوں گا اور دوسری کے بدلے ان(کی نیکیوں) کا پلہ بھاری کر دوں گا اور تیسری کے لئے فرشتے مؤکل ( یعنی مقرر)کر دوں گا کہ تسبیح(اللہ پاک کی پاکی) کریں گے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے اور چوتھی کے بدلے ان کے لئے آسمان کے دروازے کشادہ کر(یعنی کھول) دوں گا، بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ان پر مُشتاقانہ(یعنی شوق بھری)نظر ڈالیں گی۔ (فیضان نماز، ص 86) 4۔بخاری ومسلم حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے راوی ،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کہ سخت گرمی جہنم کے جوش سے ہے، دوزخ نے اپنے ربّ کے پاس شکایت کی:میرے بعض اجزاء بعض کو کھائے لیتے ہیں، اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت ہوئی، ایک جاڑے میں، ایک گرمی میں۔(بہار شریعت، جلد اول،صفحہ 446) 5۔صحیح بخاری شریف باب الاذان للمسافرین میں ہے:حضرت ابوذر رَضِیَ اللہُ عنہ کہتے ہیں:ہم رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، مؤذن نے اذان کہنی چاہی، فرمایا: ٹھنڈا کر، پھر قصد کیا، فرمایا:ٹھنڈا کر،یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا۔(بہار شریعت، جلد اول، صفحہ 446)


1۔طبرانی شریف میں ہے: امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللهُ عنہ سے راوی،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں، گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔ 2۔در مختار میں ہے:اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی(چار)سنتوں کا مرتبہ ہے۔ حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشاد ہےکہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گااسے میری شفاعت نصیب نہ ہو گی۔ 3۔ ترمذی،ص 478 میں ہے:حضرت عبداللہ بن سائب بن صیفی مخزومی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے، پھر فرماتے:اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ(دربارِ الٰہی میں)میرا نیک عمل بلند(یعنی پیش)کیا جائے۔ 4۔ ترمذی،ص 428 میں ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ اُمّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا سے روایت ہے:میں نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جو ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد چار رکعتوں کی حفاظت کرے(یعنی یہ رکعتیں ہمیشہ پڑھے تو) الله پاک نے اسے آگ پر حرام قرار دیا ہے یعنی وہ جہنم کی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔ 5۔ ترمذی،حدیث نمبر 379 میں ہے :آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے بارہ رکعت سنتوں پر ہمیشگی کی،اللہ پاک اس کے لئے جنت میں گھر بنائے گا،چار رکعات ظہر سے قبل اور دو رکعت ظہر کے بعد اور دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشا کے بعد اور دو رکعت فجر سے قبل۔


نماز مومن کی پہچان ہے۔ نماز رُوح کا سُرور اور آنکھوں کا نور ہے۔ مسلمانوں کو نماز بُرے کاموں اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ مسلمانوں پر فرض نمازوں میں سے ایک نماز، نمازِ ظہر ہے۔ظہر کا ایک معنی ”ظَہِیْرَۃ(یعنی دوپہر)ہے، چونکہ یہ نماز دوپہر کے وقت ادا کی جاتی ہے، اس لئے اسے ظہر کی نماز کہا جاتا ہے۔جماعتِ ظہر کی فضیلت:سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نمازِباجماعت پڑھی،اس کے لئے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70 درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، حدیث:9762)ایک اور مقام پر فرض نمازوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نمازِ ظہر باجماعت ادا کرنے کے بارے میں فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے جناتِ عدن میں پچاس درجے ہوں گے،ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہوگا،جتنا ایک سدھایا ہوا تیز رفتار عُمدہ نسل کا گھوڑا پچاس سال میں طے کرتا ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 137، حدیث:9761)ظہر کے آخری دو نفل کی فضیلت:ظہر کے بعد چار رکعت پڑھنا سنتِ مؤکدہ و نفل ہیں کہ حدیثِ پاک میں فرمایا:جس نے ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار پر محافظت کی، اللہ پاک اس پر آگ حرام فرما دے گا۔( نسائی، صفحہ 310، حدیث:1813)علامہ شامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس کے لئے بشارت ہے کہ سعادت پر اس کا خاتمہ ہو گااور وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔ظہر کا مسنون وقت:حضرت ابوذر غفاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے:انہوں نے کہا:ہم رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے، مؤذن نے اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ٹھنڈا کرویعنی وقت ٹھنڈا ہونے دو،اس نے پھر تھوڑی دیر کے بعد اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:ٹھنڈا ہونے دو،اس نے پھر تھوڑی دیر بعد اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا:اور ٹھنڈا ہونے دو،یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہوگیا، پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:گرمی شدت دوزخ کے جوش سے ہوتی ہے۔(بخاری1/87، باب الاذان-مسلم، باب اسحباب الابرار، ظہر1/430)جان بوجھ کر نماز چھوڑنا گناہ ہے:حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر نماز کے وقت اتفاقاً آنکھ نہ کھلے اور نماز قضا ہو جائے تو گناہ نہیں، گناہ تو اس میں ہے کہ انسان جاگتا رہے اور دانستہ نماز قضا کر دے۔ خیال رہے!وقت پر آنکھ نہ کھلنا اگر اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہو، گناہ ہے، جیسے رات کو بلا وجہ دیر سے سونا، جس سے دن چڑھے آنکھ کھلے، یقیناً جُرم ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد باری ہے:ترجمہ:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(النساء،5/103)یعنی نہ وقت کے پہلے صحیح، نہ وقت کے بعد تاخیر روا، بلکہ ہر نماز فرض ہے کہ اپنے وقت پر ادا ہو۔اللہ پاک ہمیں فرض نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حضرت  عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے روایت ہے،سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: 1 : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کی خاص بندے اور رسول ہیں، 2 :نماز قائم کرنا،3:زکوۃ دینا، 4:حج کرنا اور 5 :رمضان کے روزے رکھنا۔کلمہ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے جو ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے۔علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نماز نمازِ عصرہے،پھر نمازِ فجر،پھر عشاء،پھر مغرب،پھر ظہر۔ پانچ نمازوں کی جماعت میں افضل جماعت نمازِ جمعہ کی فجر اور پھر عشاء کی ہے۔( فیض القدیر،2/53)اللہ پاک نے مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض فرما کر مسلمانوں پر ہی احسان عظیم فرمایا۔ویسے تو پانچوں نمازیں ہی بہت زیادہ فضائل کی حامل ہیں اور ہر نماز کے الگ الگ فضائل احادیثِ مبارکہ سے ملتے ہیں،مگر یہاں پر نمازِ ظہر کے متعلق احادیث بیان کی جاتی ہیں:نمبر1:سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی اس کے لیے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔( شعب الایمان،7/138)نمبر2:حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نصف النہار کے بعد نماز پڑھنا پسند فرمایا کرتے تھے۔اُم المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عنہا نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میں دیکھتی ہوں کہ آپ اس گھڑی نماز پڑھنا پسند فرماتے ہیں!آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس گھڑی میں آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اللہ پاک اپنی مخلوق کی طرف نظرِ رحمت فرماتا ہے۔ یہ وہی نماز ہے جسے حضرت آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم اور حضرت موسی و عیسی علیہم السلام پا بندی سے ادا فرماتے تھے۔( الترغیب وا لترہیب، 1/225)نمبر3:حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ظہر سے پہلے جو چار رکعتیں ایک سلام سے ادا کی جاتی ہیں ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ایک اور روایت میں ہے:حضرت ابو ایوب رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جب نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے یہاں قیام فرماتھے،آپ ظہر سے پہلے چاررکعت پابندی سے ادا فرمایا کرتے اور فرماتے:جب زوالِ شمس ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جو نماز ظہرکی ادائیگی تک بند نہیں ہوتے اورمیں پسند کرتا ہوں کہ اس گھڑی میں میری طرف سے کوئی خیر اٹھائی جائے۔(جنت میں لے جانے والے اعمال، ص 130 بحوالہ ابو داؤد)نمبر 4 : اُم المومنین حضرت اُمِّ حبیبہ رَضِیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص ظہر سے پہلے اور بعد میں پابندی کے ساتھ چار چار رکعت ادا کرے گا اللہ پاک اس پر جہنم کو حرام فرما دے گا۔ ایک اور روایت میں بھی اس کے چہرے کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکے گی۔( جنت میں لے جانے والے اعمال ،ص 129 بحوالہ مسند احمد)نمبر5:امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ راوی:حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں ۔‘‘(طبرانی)اصح یہ ہے کہ سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی(چار)سنتوں کامرتبہ ہے ۔حدیث میں خاص ان کے بارے میں ارشادہے، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ جو انہیں ترک کرے گا،اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔‘‘ ( درمختار)اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازیں پابندی وقت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


نمازِ ظہر تاریخِ اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام تک سب سے پہلے نماز ظہر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پڑھی،اپنے بیٹے کی جان محفوظ رہنے اور دنبہ قربان کرنے کےشکر میں ظہر کے چار فرض ادا کئے، اللہ پاک نے قیامت تک کے لئے یہ رکعتیں جو ایک پیارے کی اداتھیں، ان کو ظہر کے فرضوں کی شکل میں قیامت تک کے لئے باقی رکھا اور ایک روایت کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے سب سے پہلے نماز ظہر ادا کی۔ نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت پابندی سے پڑھتا ہے تو اللہ پاک اس پر جہنم کی آگ حرام فرما دیتا ہے۔(النسائی، 1817)

نبیِ کریمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس کا مفہوم یہ ہے: ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔(مسلم،1390)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ظہر سے پہلے ایک ہی سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔( ابنِ ماجہ،1157)مطلب یہ کہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے،آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جو نیک اعمال ہیں، اس وقت اللہ پاک کے پاس بھی پیش ہوتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ پسند کرتے کہ میں اس وقت نماز پڑھوں، تاکہ میرے اعمال اللہ پاک کے پاس پہنچیں۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں گویا اس نے تہجد کی چار رکعتیں پڑھیں۔( طبرانی)سنتِ فجر کے بعد ظہر کی پہلی چار سنتوں کا مرتبہ ہے،حدیث میں خاص اس کے بارے میں ارشاد ہے: رسولِ اکرمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو انہیں ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(در مختار)

نماز روزہ حج وزکوة کی توفیق عطا ہو اُمّتِ محبوب کو سدا یا ربّ