اللہ کریم کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک بکثرت ہیں۔ آٹھ سو سے زائد مواہب و شرح مواہب میں ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے تقریباً چودہ سو پائے اور حصر (شمار) تو ناممکن ہے۔(فضائل و مناقب جلد 28، فتاویٰ رضویہ ماخوذا)(نشان مژدہ، ص 41-42)

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

قرآنِ کریم میں موجود آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک میں سے 10 مبارک نام درج ذیل ہیں:1)مُحمّد(پ،4،ال عمران:144) محمد کا معنی ہے: جس کی بار بار حمد کی گئی ہو، خود اللہ کریم نے آپ کی ایسی حمد کی ہے جو کسی اور نے نہیں کی، اور آپ کو ایسے محامد عطا کیے جو کسی اور کو عطا نہیں کیے اور قیامت کے دن آپ کو ایسی حمد کا الہام فرمائے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کی ہوگی۔(نعمۃ الباری، جلد ششم، ص 600، فرید بک اسٹال)

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزت کا نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا

محمد نام رکھنے کی فضیلت:فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:’’جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے، وہ اور اس کا لڑکا دونوں بہشت میں جائیں۔‘‘(کنزالعمال،حدیث: 45215 ،الجزء السادس عشر،8/175۔ فتاوی رضویۃ،24/686)اعلیٰ حضرت امامِ احمد رضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘جلد 24صفحہ691 پر فرماتے ہیں :’’بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یااحمد نام رکھے، اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارکہ کے وارد ہوئے ہیں۔‘‘

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے پیارے نبی کا ذکر بھی ہم کو پیارا لگتا ہے

2)احْمد (تمام حمد کرنے والوں سے زیادہ حمد کرنے والے)(پ28۔ الصف:6)قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محمد ہونے سے پہلے احمد تھے، یعنی آپ نے اپنے رب کی حمد کی، اس سے پہلے کہ لوگ آپ کی حمد کرتے، اس وجہ سے سابقہ آسمانی کتابوں میں آپ کا نام احمد ہے اور قرآنِ کریم میں آپ کا نام محمد ہے۔(الشفاء، جلد 1، ص 260، دار الفکر بیروت)(نعمۃ الباری، جلد ششم، ص 600، فرید بک اسٹال)

سرکار سا جہاں میں نہ ہوگا نہ ہے کوئی احمد ہے اسم آپ کا اور مصطفیٰ لقب

3) نُوْرٌ(پارہ 6 المائدہ 15)اللہ کریم نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: 15، 1/ 477) (تفسیر صراط الجنان، المائدہ، تحت الآیۃ 15)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے جابر!بےشک بالیقین،اللہ کریم نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف، ص 63، حدیث: 18)(فرض علوم سیکھئے، ص 47)مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔(رسالۂ نور مع رسائل نعیمیہ، ص39-40)(فرض علوم سیکھئے، ص47)

نور سے اپنے سرورِ عالم دنیا جگمگانے آئے غم کے ماروں دکھیاروں کو سینے سے لگانے آئے

4،5) رؤُوْف (بہت مہربان)، رحِیْم (رحمت فرمانے والے)(پ 11 ،التوبۃ: 128)سورۂ توبہ کی آیت نمبر 128 میں اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کمالِ تکریم ہے۔ حضور جانِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دنیا میں بھی رؤوف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی۔(تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ: 128)

رؤوف ایسے ہیں اور یہ رحیم ہیں اتنے کہ گرتے پڑتوں کو سینے لگانے آئے ہیں

6) رَحْمَة لِّلْعٰلَمِیْنَ (تمام جہانوں کیلئے رحمت)(پ 17 ،الانبیاء: 107)تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نبیوں،رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،جنات اور انسانوں،مومن و کافر،حیوانات،نباتات،جمادات الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں،سب کے لئے رحمت ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، الانبیاء تحت الآیۃ: 107 ملتقطا)

رحمۃ للعالمیں تیری دہائی دب گیا اب تو مولی بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے

7)خَاتَم النَّبِیّٖن(سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے)(پ 22، الاحزاب:40)یعنی محمد مصطفٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعدکوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ جو حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب ،تحت الآیۃ:40 ملتقطا)

آتے رہے انبیا کما قیل لہم و الخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفترِ تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم

8)شاھِد(پ، 22 ،الاحزاب:45)شاھد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاھد ہیں اور ان کے اعمال، افعال،احوال،تصدیق،تکذیب،ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔(ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، 4/325، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، 6/180، ملتقطاً)(تفسیر صراط الجنان،الاحزاب،تحت الآیۃ:45 ملتقطا)

سر ِعرش پر ہے تیری گزر دل فرش پر ہے تیری نظر ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

9،10)مُبَشِّر (خوشخبری دینے والا)، نَذِیْر (ڈر سنانے والا)(پ 22، الاحزاب:45)اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(مدارک،الاحزاب،تحت الآیۃ: 45،ص 944)(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:45)

بشیر کہئے نذیر کہئے انہیں سراج ِمنیر کہئے جو سربسر ہے کلامِ ربی وہ میرے آقا کی زندگی ہے

ان کے ہر نام و نسبت پہ نامی درود ان کے ہر وقت و حالت پہ لاکھوں سلام