جس طرح کتاب اللہ اپنے اندر بے شمار حکمتیں سموئے ہوئے ہے اسی طرح آدم علیہ السّلام کے واقعے میں بے شمار حکمتیں موجود ہیں جس سے 5 نصیحتیں درج ذیل ہے۔

حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد دعا فرمائی اس سے اس میں مسلمانوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ گناہ کر بیٹھیں تو اپنے گناہ کی معافی کے لیے دعا کریں۔(تفسیر نعیمی)

اور مسلمانوں کے لیے یہ نصیحت ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہار کریں اور اپنے گنا ہوں کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے لجاجت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف فرما دے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مومن سے گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے۔پھر الحمد للہ اس گناہ کی معافی کے لیے راستہ تلاش کرتا ہے۔ تو وه جان لیتا ہے اس سے نکلنے کی راہ توبہ استغفار ہے لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی شرم محسوس نہ کرے جب تمہارے جدامجد سے لغزش ہوئی تو توبہ کے ذریعے ان کو معاف فرمایا۔(تفسیر نعیمی)

آدم علیہ السّلام کے واقعے سے مسلمانوں کے لیے یہ نصیحت ہے کہ وہ غرور اور تکبر سے بچیں کیونکہ شیطان اسی غرور اور تکبر کی وجہ سے اپنا مقام و مرتبہ کھو بیٹھا تھا۔(تفسیر نعیمی)

اس سے مسلمانوں کو یہ نصیحت بھی حاصل ہوتی ہے کہ جھوٹی قسمیں نہیں کہانی چاہیے کیونکہ یہ شیطان کا طریقہ ہے اور کسی شخص کو اپنی عبادت پر تکبر نہیں کرنا چاہیے۔


قرآن کریم کا کافی حصہ سابقہ انبیائے کرام علیہم السّلام اور ان کی قوموں کے واقعات پر مشتمل ہے جن سے ہم وعظ و نصیحت حاصل کرسکتے ہیں بلکہ ایک مقام پر فرمایا: لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-ترجَمۂ کنز الایمان: بےشک ان کی خبروں سے عقل مندوں کی آنکھیں کُھلتی ہیں۔(پ13، یوسف:111) انہی واقعات میں سے چند واقعات حضرت آدم علیہ السّلام کے بھی بیان کئے گئے ہیں، آئیے! ان واقعات سے کچھ وعظ و نصیحت حاصل کرتے ہیں۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔

اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساری چیزوں کا علم عطا کرکے فرشتوں پر فضیلت عطا فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:اے ابو ذر! تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، حدیث نمبر۲۱۹)

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔(پ1،البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کریں،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت آدم علیہ السّلام فرشتوں سے افضل ہیں اور انبیاء کرام فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ علیہ السّلام کادشمن بن گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے، اس کی ہلاکت چاہتا اور اسے خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(سیرت الانبیاء، صفحہ 103)

یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔

حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا د نیادی نعمت کے زوال (یعنی چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔ حسد اتنی خطر ناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ ترجمۂ کنزالایمان: مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا۔(پ1، البقرۃ: 35)

برائی کے اسباب کی روک تھام: حضرت آدم علیہ السلام کو اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی تھی لیکن اس کے لئے فرمایا: اس درخت کے قریب نہ جانا۔ اس طرز خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کے لیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے۔علمی اصطلاح میں اسے سدّ ذرائع یعنی برائی کے اسباب کی روک تھام کہتے ہیں۔(سیرت الانبیاء، صفحہ 107)

ہمیں بھی چاہیے کہ جتنا ہم سے ممکن ہو ہم برائی کے اسباب کوہی کم کریں تاکہ معاشرے میں نیک ماحول پیدا ہو اللہ پاک دعوت اسلامی کو سلامت رکھے الحمد للہ دعوت اسلامی نے برائی کےہر موڑ پر سد باب کی کوشش کی ہے اور کر رہی ہے۔

حضرت آدم علیہ السّلام کی عصمت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے جان بوجھ کر ممنوعہ درخت سے نہیں کھایا بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کا حکم یاد نہ رہنا تھا اور جو کام سہواً ہو وہ نہ گناہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی مُؤاخذہ ہوتا ہے۔

وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پ16، طہ:115)

اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ مبارکہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی عِصمت کو بڑے واضح طور پر بیان کرتی ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام بھول گئے تھے اور ان کا نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔(صراط الجنان)

اللہ پاک ان واقعات سے ہمیں درس و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ابتدائی طور پر قرآن پاک چار حصوں پر مشتمل ہے۔احکام، امثال، واقعات اور وعظ و نصیحت۔قرآن کریم میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ جن کے ذریعے اللہ کریم نے انسانوں کو نصیحتیں فرمائی جو ہمیں ان واقعات میں تھوڑے سے غورو فکر کے بعد معلوم ہو جاتیں ہیں۔اسی طرح حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے میں بھی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو متعدد نصیحتیں فرمائی ہیں۔آئیے ان میں سے چند ہم بھی پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

تکبر نہ کرنا: خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔(باطنی گناہوں کی معلومات، ص 275) حدیث پاک میں تکبر کی تعریف اس طرح بیان کی گئی ہے، چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان باب تحریم الكبر و بيانہ، ص 61، حدیث147) اسی طرح ابلیس شیطان نے بھی حضرت آدم سے تکبر کیا اور آپ کو سجدہ نہ کیا اور کہا کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

رب تعالیٰ نے جن کاموں کا حکم دیا انہیں بجا لانا:یہ کام سعادت ابدیہ کا موجب ہے اس پر عمل کرنے سے دین و دنیا کی بے شمار بھلائیاں ہاتھ آتی ہیں جبکہ اس کے برعکس رب تعالیٰ کا حکم نہ ماننا شقاوت ابدیہ کا موجب ہے۔ جیسے شیطان لعین نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کا حکم نہ مانا تو اللہ پاک نے اسے قیامت تک ذلیل و رسوا ہونے کے لئے چھوڑ دیا جس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے: قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا یَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِیْهَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:فرمایا تو یہاں سے اُتر جا تجھے نہیں پہنچتا کہ یہاں رہ کر غرور کرے نکل تو ہے ذلت والوں میں۔(پ8، الاعراف:13) یعنی انسان تیری مذمت کرے گا اور ہر زبان تجھ پر لعنت کرے گی اور یہی تیراانجام ہے۔

توبہ و استغفار کی کثرت کرنا: استغفار کا مطلب ہے مغفرت طلب کرنا۔جس طرح توبہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے ویسے ہی توبہ و استغفار مقبول بارگاہ رب باری بننے کا سبب بھی ہے۔قرآن پاک میں بھی تو بہ و استغفار کی ترغیب دی گئی ہے۔اسی طرح حضرت آدم کی توبہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ:37)

ہدایت قبول کرنا: ہدایت قبول کرنا ایسا کام ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی خرابیوں سے بچ جاتا ہے۔ہدایت قبول کرنا انسان کو راہِ راست پر لے آتا ہے جبکہ اس کا بر عکس (ہدایت قبول نہ کرنا) انسان کو راہِ راست سے ہٹا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی ہدایت قبول کرنے والےپر نہ تو قیامت کی گھبراہٹ طاری ہوگی اور نہ ہی وہ قیامت میں غمگین ہو گا۔اللہ پاک ہدایت قبول کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ علیہمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸) ترجمۂ کنز الایمان: پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم۔(پ1، البقرۃ:37)

شیطان لعین کے ہر وار سے بچنے کی کوشش کرنا: اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اور یہ لعین انسان کا ایسا دشمن ہے کہ جو انسان کا مال و متاع اور جان نہیں بلکہ اس کی سب سے قیمتی چیز جو تمام سعادتوں کی شرط اول ہے اور جس کے بغیر انسان جنت میں جانے کے بجائے جہنم کی آگ کا ایندھن بن کر رہ جاتا ہےایمان لے لیتا ہے اور انسان کو کفر کے گہرے اندھیروں میں پھینک دیتا ہے جہاں ذلت و رسوائی اور حسرت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۸۲) اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۸۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:بولا تو تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں۔(پ23، صٓ:82، 83)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نصیحت و عبرت حاصل کرنے اور قرآن پاک کی کثرت سے تلاوت کرنے والا بنائے اور ہم سب کی بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے ہدایت انسانی کیلئے اس دنیا میں تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ان میں سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السّلام ہیں، الله پاک نے انہیں اپنے پاس سے علم سکھایا اور اس علم ہی کی بدولت انہیں فرشتوں سے بھی بلند رتبہ عطا فرمایا، قرآن میں مختلف جگہوں پر حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ کو ذکر کیا گیا۔جن میں ہمارے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) مشاورت سنت الٰہی ہے: اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادہ میں دخل انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چوں و چرا کر سکے مگر اس کے باوجود اللہ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق و خلافت کے بارے میں فرشتوں سےمشورہ کے انداز میں کلام فرمایا لہٰذا جب اللہ قادر اور فاعل مختار ہونے کے باوجود ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرماتا ہے تو ہم جن کا علم بہت کم ہے انہیں بھی چاہیے کہ کسی کام کو کرنے سے پہلے اپنے مخلص دوستوں سے مشورہ کر لیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ:30)

(2) رضائے الٰہی پر رضامندی:بندے اللہ پاک کے افعال اور اس کے کاموں کی مشیتیں اور حکمتیں کما حقہ نہیں جانتے۔ اس لیے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ کے کسی فعل پر تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان روکے رہیں اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ پاک نے جو کچھ اور جیسا بھی کیا بہر حال وہی حق ہے اور اللہ اپنے کاموں کو خوب جانتا ہے۔ جیسے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

(3)مذمت تکبر: ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو خاک کا پتلا کہہ کر ان کی تحقیر کی اور اپنے کو آتشی مخلوق کہہ کر اپنی بڑائی کا اظہار کیا اور سجدہ سے انکار کیا حقیقتاً شیطان کے انکار کا باعث حضرت آدم سے تکبر تھا۔ تکبر وہ بری چیز ہے کہ بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں گرفتار کر دیتی ہے بلکہ بعض اوقات تکبر کفر تک پہنچا دیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1، البقرۃ:34)

(4)مشکوک کو ترک کرنا: اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو پھل کھانے سے منع فرمایا تھا لیکن قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبَا ترجمہ: اور قریب نہ جانا۔(پ1، البقرۃ:35) تو مراد یہ ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہئے۔

(5)افضلیت علم: تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا اور سجدہ نہایت عاجزی اور اپنے سے بلند درجے والوں کو کیا جاتا ہے، اور فرشتے عابد تھے اور حضرت آدم علیہ السّلام عالم تھے اس سے معلوم ہوا کہ عالم عابد سے افضل ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ علم دین بھی حاصل کرتےر ہیں۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء علیہم السّلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لئے کئی انبیائے کرام بھیجے جن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)آدم کی تخلیق سے پہلے فرشتوں کو سجدے کی تاکید:جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو اس کی پیشگی خبر دینے کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کردی کہ تخلیق مکمّل ہونے اور روح پھونکے جانے کے بعد فرشتے انہیں سجدہ کریں،جیسا کہ سورۂ صٓ میں ارشاد فرمایا: اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان بناؤں گا۔پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرنا۔(پ23، صٓ:71، 72)

درس و نصیحت:فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا جب کہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کے حکمِ الٰہی کو من و عن چوں چراں کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا،اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(2)غرور نہ کرنا:حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق مکمّل ہونے اور ان میں روح پھونکے جانے کے بعد تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو ایک ساتھ سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور تکبّر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کے وہ آپ سے افضل ہے جیسا کے سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پارہ:01،سورۃالبقرہ،آیت:34)

درس و نصیحت: ابلیس سے سر زد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبّر تھا۔حدیث پاک میں ہے تکبّر حق بات جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبّر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبّر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

(3)حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ کے کلمات اور قبولیت توبہ: حضرت آدم علیہ السّلام کی ایک عرصہ دراز تک گریہ و ذاری کے بعد اللہ پاک نے انہیں توبہ کے کچھ کلمات الہام فرمائے اور جب آپ علیہ السّلام نے ان کلمات کے ذریعے توبہ کی تو اللہ پاک نے اسے قبول فرمالیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پارہ:01، سورۃالبقرۃ،آیت:37)

درس و نصیحت: حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کر لئے یہ تربیت ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت و رحمت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔

(4)علم کی فضیلت: تخلیق کے بعد ایک موقع پر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کے سامنے اشیاء پیش فرمائی اور بطور الہام آپ علیہ السّلام کو ان کے نام،کام،صفات،خصوصیات، علوم اور صنعتیں سکھادیں۔پھر یہ تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا:اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی مخلوق نہیں اور خلافت کے مستحق تم ہی ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ(کیونکہ خلیفہ کا کام اختیار استعمال کرنا،کاموں کی تدبیر کرنا اور عدل و انصاف کرنا ہے اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ خلیفہ کو وہ تمام چیزیں معلوم ہوں جس پر اسے اختیار دیا گیا اور جن کا اسے فیصلہ کرنا ہے) قرآن کریم میں ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

درس و نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب ان کا علم تھا،اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سےافضل ہے۔ اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کرلیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لئے یہ نصیحت ہےکہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لا علمی کا صاف اظہار کردیا جائے،لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں!

(5)تعظیم نبی کی برکت اور توہین نبی کا انجام: کائنات میں سب سے پہلے نبی کی تعظیم فرشتوں نے کی اور بارگاہ الٰہی میں مزید قرب سے سرفراز ہوئے جب کہ سب سے پہلے نبی کی تعظیم سے انکار، اور ان کی گستاخی کا ارتکاب ابلیس نے کیا جس کی سزا میں تمام تر عبادت اور مقام و مرتبہ کے باوجود مردود و ملعون ہوا اور روز قیامت ہمیشہ کے لئے عذاب جہنم کا حقدار ٹھہرا۔اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی تعظیم کرنا فرشتوں کا مبارک عمل ہے جس پر عمل کرنے والا فرشتوں کی سیرت پر عمل پیرا ہے جب کہ نبی کی بے ادبی،گستاخی اور توہین کرنا ابلیس کا کام ہے اور گستاخ و بے ادب لوگ شیطان کے پیروکار ہیں۔یہ مسئلہ ہمیشہ ذہن نشین رکھیں کہ نبی کی تعظیم و توقیر فرض ہے اور ان کی ادنی توہین، گستاخی اور ان جھٹلانا کفر ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے نبیوں،ولیوں کا با ادب رکھے اور بے ادبوں کی صحبت و شر سے ہمیشہ محفوظ فرمائے،قرآن کریم میں ارشاد ہے:قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ ، الاعراف:12)

درس و نصیحت:اللہ پاک کے انبیائے کرام علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہوجاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے!


اللہ پاک نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیائے کرام علیہم السلام بھیجے اور ان کو مختلف معجزات و واقعات دیےاور ان سے ہمیں کچھ نصیحتیں ملتی ہیں اسی طرح حضرت آدم علیہ السّلام کو بھی معجزات و واقعات دیے اور ہمیں ان سے بھی کچھ سبق اور نصیحتیں ملتی ہیں۔

(1) مؤمن اور گناہ: مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر اَلحمدُ للہ! وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے تووہ جان لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ استغفار اور توبہ کرنا ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے، تمہارے جدِ اعلیٰ(حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام) سے جب لغزش صادر ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔(در منثور، الاعراف، تحت الآیۃ: 23، 3/433)

(2)آزمائش اور دنیا:زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا، ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا ستایا جانا اور انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان کوچاہئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اور وہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب(اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا وہ کسی مصیبت اور) مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ(وہ) تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا(استقبال کرتے ہیں) مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ (جب کوئی مصیبت یا تکلیف آئے تو)صبر و استقلال سے کام لیں اور جَزع و فَزع (یعنی رونا پیٹنا) کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ (جانے) دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب(جو احادیث میں بیان کیاگیا ہے) سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔(بہار شریعت، کتاب الجنائز، بیماری کا بیان، 1/799)

اور کثیر احادیث میں مسلمان پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث یہ ہیں،چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب شدۃ المرض، 4/4، حدیث: 5646)

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو تکلیف،رنج، ملال اور اَذِیَّت و غم پہنچے، یہاں تک کہ ا س کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(بخاری، کتاب المرضی، باب ما جاء فی کفارۃ المرض، 4/3، حدیث:5641)

آزمائش دنیا کے ساتھ خاص ہے، دنیا کے ہر شخص کو مختلف طریقوں سے آزمائش آتی ہے چاہےوہ دنیا کاعظیم آدمی ہو یا عام انسان ہر کسی کو آزمائش آتی ہے۔

(3)غرور سےبچنے کی نصیحت:

ہمیں غرور نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ غرور ہی تھا جس نے فرشتوں کے سردار کو ابلیس بنایا۔

پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں غرور جیسی بیماری سے بچنا چاہیے۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے:

چھت کو بہت غرور تھا چھت ہو نے پر ایک منزل اور کیا بنی چھت زمین میں تبدیل ہو گئی

ہمیں غرور اس لیے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ غرور آسمان پر پرواز کرتے ہوؤں کو زمین پر لے آتاہے۔

(4)شیطان انسان کاکھلا دشمن:

یاد رہے کہ انسان کے دل میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے اور بعض اوقات یہ وسوسے اتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ انسان کے لئے اپنا دین و ایمان بچانا مشکل ہوجاتا ہے جیسے شیطان کبھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں،کبھی تقدیر کے بارے میں،کبھی ایمانیات کے بارے میں،کبھی عبادات کے بارے میں،کبھی طہارت و پاکیزگی کے معاملات کے بارے میں اور کبھی طلاق کے بارے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔

(5)فرشتوں سے مشورہ: یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پرمشورے کے انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ سورۂ آل عمرٰن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمرٰن: 159)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرکےاپنی دنیا و آخرت اچھی بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ کا ذکر کئی مقامات پر فرمایا ہے جس سے ہمیں نصیحتیں اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں،لہٰذا یہاں حدیث کی روشنی میں واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام سے پانچ قرآنی نصیحتیں بیان کی جائیں گی۔

(1)الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام سے فرمایا:وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۳۶) ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کہاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔(البقرہ: 35، 36)

نصیحت:ہمیں ہر وقت الله پاک کے حکم کی پاسداری کرنی اور شیطان کے وار سے بچتے رہنا چاہئے۔

ایک اور مقام پر الله پاک نے ارشاد فرمایا: وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶) وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷) وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان:اور بےشک ہم نے آدمی کو بَجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی۔اور جِنّ کو اس سے پہلے بنایا بے دہوئیں کی آگ سے۔اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں آدمی کو بنانے والا ہوں بجتی مٹی سے جو بدبودار سیاہ گارے سے ہے۔تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص معزّز روح پھونک لوں۔تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے۔سوا ابلیس کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔(الحجر:26تا31)

اور بلاشبہ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا، جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے اور ہم جن کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کرچکے تھے۔اور جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا، میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے، ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔تو جب ایسا ہوا کہ میں اسے درست کردوں اور اس میں روح پھونک دوں تو چاہئے کہ تم سب اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔چنانچہ جتنے فرشتے تھے سب اس کے آگے سربسجود ہوگئے۔ابلیس نے انکار کیا کہ میں سجدہ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔

نصیحت:شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تکبر کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا تھا،ہمیں تکبر سے بچتے رہنا چاہئے۔

الله پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:31)

نصیحت:ہمیں ہر وقت الله پاک کی حمدوثناء بیان کرتے رہنا چاہئے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: لَىٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَكَ لِتَقْتُلَنِیْ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْكَ لِاَقْتُلَكَۚ-اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِۚ-وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۹) فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِیْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۳۰) فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِؕ-قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْۚ-فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ(۳۱)ﮊ ترجَمۂ کنزُالایمان:بے شک اگر تو اپنا ہاتھ مجھ پر بڑہائے گا کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تجھ پر نہ بڑہاؤں گا کہ تجھے قتل کروں میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو مالک سارے جہان کا۔میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلہ پڑے تو تو دوزخی ہوجائے اور بے انصافوں کی یہی سزا ہے۔تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پر اُبہارا) تو اُسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔تو اللہ نے ایک کوّا بھیجا زمین کریدتا کہ اسے دکہائے کیونکر(کس طرح) اپنے بھائی کی لاش چھپائے بولا ہائے خرابی میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ میں اپنے بھائی کی لاش چھپاتا تو پچتاتارہ گیا۔(المآئدۃ:28تا31)

آدم علیہ السّلام کی اولاد بہت ہوئی ان میں سے دو نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کی اللہ نے ایک کی قربانی قبول فرمائی دوسرے کی نہیں، جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی اپنے بھائی سے کہنے لگا میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ بھائی نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو متقی لوگوں کی قربانی قبول فرماتا ہے،تم میں تقویٰ نہیں ہے۔ اس لئے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی اس میں میرا کیا قصور ہے۔بالآخر اس نے اپنے بھائی کو قتل کیا، قتل کرنے کے بعد سمجھ نہیں آیا کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کا کیا کرے، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین پر اتر کر زمین کو کریدنے لگا قاتل بھائی نے کوے سے سیکھا کہ کس طرح اپنے بھائی کی لاش کو چھپائے۔پھر اپنے اس فعل پر بہت نآدم ہوا اور افسوس کیا۔

قاتل کا نام قابیل تھا۔

مقتول کا نام ہابیل تھا۔

قابیل پہلا شخص ہےجس نے بنی آدم میں قتل کو جار ی کیا۔(بخاری،مسلم)

آدم علیہ السّلام بہت روئے اس قتل پر اور افسوس کیا۔

نصیحت:ہمیں قتل اور اس جیسی برائی سے دود رہنا چاہئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنی واقعات میں غور و فکر کرنے والا اور ان سے نصیحت حاصل کرنے والا بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک کی بے شمار مخلوقات میں سے ایک مخلوق انبیاء کرام علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام بھی ہیں جو تمام مخلوقات میں عزت رفعت، عظمت، شرافت،صفات وکمالات، نورانیت ومعرفت کے اعتبار سے افضل اجمل اکمل احسن منصب پر فائز ہیں انہیں میں سے ایک نبی آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام بھی ہیں جن کی پیدائش پر فرشتوں نے رب سے عرض کی: اے اللہ پاک! کیا تو زمین میں اس کو نائب بنائے گا جو فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا حالانکہ ہم ہر وقت تیری تسبیح بیان کرتے ہیں رب کائنات نے اس کے جواب میں فرمایا: جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور تمام انسانوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے باپ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی تخلیق فرمائی جو ابو البشر کے لقب کا مصداق بنے۔

سب سے پہلے میں آپ کواس بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر خیر فرمایا کسی نبی کا تفصیلاً اور کسی کا اجمالاً ذکر فرمایا لیکن میں آپ کے سامنے اس تحریر میں فقط آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے پانچ واقعات سے حاصل ہونے والی نصیحتوں کو ذکر کروں گا۔

(1)اللہ پاک نے حکم دیا تمام ملائکہ کو کہ وہ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(الاعراف:11)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر فرمایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے مقرب بندے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرو تو فرشتوں نے رب تعالیٰ کے حکم کو مانا اور ابلیس نے حکم نہ مانا اور وہ ذلیل و رسوا ہوا تو ہمیں اس آیت کریمہ سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ پاک کا حکم ہمیں ماننا چاہیے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی سے ہمیں بچتے رہنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہو!

(2)علم کی فضیلت: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ2، البقرۃ:31)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے اور بطور الہام آپ کو تمام اشیاء کے نام،کام صفات و خصوصیات اصولی علم اور صنعتیں سکھا دیں اور پھر فرشتوں سے فرمایا کہ تم اگر سمجھتے ہو کہ تم سب سے افضل ہو تو ان کے نام بتاؤ تو فرشتوں نے ان اشیاء کے ناموں کو نہ بتایا اور عرض کی کہ اے اللہ تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں علم سکھا دیا بیشک تو ہی علم والا حکمت والا ہے اس آیت کریمہ میں علم کی اہمیت،فضیلت،رفعت اور عظمت اجاگر کیا تو اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہیں کہ ہمیں علم دین حاصل کرتے رہنا چاہیے!

(3)ابلیس حسد کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کا دشمن بنا: علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہے: جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ کا دشمن بن گیا اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ جسے کسی سے حسد ہو جائے تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔( کتاب سیرت الانبیاء، بحوالہ صاوی الاعراف آیت 43)

(4)فرشتوں کا رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا اور ابلیس کا تکبر کرنا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو تمام موجودات اور عالم روحانی اور جسمانی کا نمونہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصول و کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو کیونکہ اس میں آدم علیہ السّلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ اَتَجْعَلُ فِیْهَا کی معذرت بھی ہے بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتے رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے افضل ہے اور اس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقرب بارگاہ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار کرنے اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا!

ہمیں اس واقعے سے یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ تکبر ایسی بیکار اور خراب بیماری ہے جو بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ تکبر کرنے سے بچے!

(5)حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی رب تبارک و تعالیٰ سے توبہ کرنا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرۃ:37)اور ایک روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔

اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ اپنی لغزش اور خطاؤں کے بعد رب تبارک وتعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا چاہیے اور جس طرح حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد تو بہ کی تو ہمیں بدرجہ اولیٰ توبہ استغفار کرنا چاہیے۔


پہلی نصیحت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ نصیحت ہےکہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لجاجت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرمائے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے،پھر الحمدللہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے تو وہ جان لیتا ہےکہ اس سے نکلنے کی راہ توبہ اور استغفار کرنا ہے لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی شخص شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے تمہارےجَدِّ اعلیٰ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے جب لغزش سرزد ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔ (صراط الجنان سورۃ اعراف آیت نمبر 23)

دوسری نصیحت:حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے ایک نصیحت یہ بھی ملتی ہےکہ کسی شخص کو اپنی عبادت پر ناز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شیطان جب عابد تھا تو اگرچہ خدا کے علم میں وہ کافر تھا مگر اس وقت کی حالت کے لحاظ سے اس کو فرشتوں میں عزت دی گئی اور جب اس کا کفر ظاہر ہوا تب نکالا گیا۔( تفسیر نعیمی سورۃ بقرہ آیت نمبر 34)

تیسری نصیحت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے ایک یہ نصیحت ملتی ہے کہ اولاد باپ کی ہے اس سے اولاد کا نسب ہوتا ہے ماں سے نسب نہیں ہوتا یہ نصیحت (خلقکم من نفس واحدة) سے حاصل ہوئی(نفس واحدة) سے مراد باپ ہے اگر باپ سید ہو اور ماں غیر سید تو اولاد سید ہوگی اور اگر ماں سیدانی ہو مگر باپ سید نہ ہو تو اولاد بھی سید نہ ہوگی۔( تفسیر نعیمی سورۃ اعراف آیت نمبر 189)

چوتھی نصیحت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے ایک نصیحت یہ ملتی ہے کہ انسان کی بیوی انسان ہی ہو سکتی ہے جانور یا جن نہیں ہو سکتی یہ نصیحت (جعل منہا زوجہا) سے حاصل ہوئی کیونکہ زوج سے مراد بیوی ہےیوں ہی انسان عورت کا خاوند انسان ہی ہو سکتا ہے کوئی جانور یا جن نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر نعیمی سورۃ اعراف آیت نمبر 189)


اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف قوموں کی طرف نبی بھیجے، انبيائے کرام عليہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے درس و نصیحتیں ہیں، آئیے!حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے حاصل ہونے والی نصیحتیں پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْ نَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔فرشتوں نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا اورجو بات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ خلافت کے مستحق وہ خود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ علم و فضل والی کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علوم و کمالات میں زیادتی ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ: 33)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اورحضرت حوا رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب پاک نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کہا سکتا ہے، اس خیال سے حضرت حوا رضی اللہ عنہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو دیا توانہوں نے بھی کھا لیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا۔یہاں حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ:35، 36)

فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳)ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔

لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ترجمۂ کنز الایمان: ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر فرشتوں نے بارگاہِ الٰہی میں اپنے عِجز کا اعتراف کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان کا سوال اعتراض کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کیلئے تھا اور اب انہیں اِنسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہوگئی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تعلیم کی نسبت کرنا صحیح ہے اگرچہ اس کو معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ:32)

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ترجمۂ کنز الایمان:اے یعقوب کی اولاد۔

اسراء کا معنیٰ عبد یعنی بندہ اور اِیل سے مراد اللہ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور حضرت یعقوب عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا لقب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا۔(جلالین،البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۸-۹،خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰،۱/۴۸،ملتقطاً-تفسیر صراط الجنان، البقرہ، آیت 40)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انبيائے کرام عليہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے درس و نصیحتیں ہیں لہٰذا ان واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔یہاں حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے حاصل بونے والی چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں:

(1)حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال ہلاکت کا سبب ہے: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجده کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کئے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے يا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(2)تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناه تکبر تھا۔حديث پاک میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

(3)لمبی امیدوں سے نجات کا طریقہ:شیطان مردود کا بہت بڑا ہتھیار لمبی امیدیں دلانا ہے چنانچہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل، توبہ سے دور اور گناہوں میں مشغول رکھتا ہے، حتی کہ اسی غفلت میں اچانک موت آجاتی ہے اور گناہوں سے توبہ اور نیکی کرنے کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔اس کا حل موت،قبر اور آخرت کی یاد ہے۔

(4)تخلیقاتِ الٰہی میں خلاف شرع تبدیلیوں کا شرعی حکم: اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف شرع تبدیلیاں حرام ہیں اور ان سے بچنا لازم ہے جیسے لڑکیوں کا ابرووں کے بالوں کو خوبصورتی کے لئے باریک کرنا، چہرے وغیرہ پر سوئیوں کے ذریعے تل یا کوئی نشان ڈالنا، مرد یا عورت کا بدن پر ٹیٹو بنوانا، مختلف خوشی وغیرہ کے مواقع پر چہرے کو مختلف رنگوں سے بگاڑنا، لڑکوں کا اپنے کان چھیدنا، لڑکیوں کا سر کے بال لڑکوں جیسے چھوٹے چھوٹے کاٹنا اور مرد کا داڑھی منڈانا وغیرہ۔

(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔


قرآن مجید میں جابجا رب کائنات نے اپنے بندوں کو نصیحت فرمائی ہے۔آج ہم قرآن مجید میں سب سے پہلے نبی حضرت سیدنا آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے متعلق جو ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے، جو نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، ان میں سے چند نصیحتوں کو زینتِ قِرطاس بنانے کی کوشش کریں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس علم کو ہمارے لیے علم نافع بنائے۔

(1)لاعلمی کا اظہار کرنا:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(البقرۃ: 32)

حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بعد جب رب العالمین نے فرشتوں سے پوچھا کہ ان اشیاء کے نام بتاؤ، تو فرشتوں نے ان کے نام معلوم نہ ہونے پر لاعلمی کا اظہار کیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ نصیحت ہے کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اس کے بارے میں لاعلمی (نہیں معلوم) کا صاف اظہار کر دیں۔لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات خود سے بیان نہ کی جائے۔

بعض لوگ اپنی شان و شوکت کو بڑہانے کے لیے مسائل کے درست جوابات معلوم نہ ہونے پر اپنی عقل کے مطابق جوابات دیتے ہیں تو ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے اس غلط جواب دینے سے دین اور سامنے والے بندے کا کتنا نقصان ہوگا۔

محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان پڑھیے اور بغیر علم کے فتویٰ دینے سے خود کو بچائیے۔جیسا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔(کنزالعمال، 10/193، حدیث:29018)

سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:جھوٹا مسئلہ بیان کرناسخت شدیدہ کبیرہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد23)

مسائل کا جواب دینا مفتی کا کام ہے،اس لیے ہمیں چاہیے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کرے تو ہم فوراً دار الافتاء اہل سنت سے رابطہ کروائیں بجائے اس کے ہم خود مفتی بن جائیں۔

(2)تکبر سے بچو: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پارہ:01،سورۃالبقرہ،آیت:34)

اللہ پاک نے جب فرشتوں کو اور ابلیس کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے رب العالمین کے اس حکم کو مانتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔اور سوائے ابلیس کے تمام فرشتے سجدے میں جھک گئے۔اور ابلیس نے وہاں غرور و تکبر کیا! اور کہا کہ میں اس (جناب آدم علیہ السّلام) کو کیوں سجدہ کروں جس کو مٹی سے بنایا گیا اور حالانکہ میں تو آگ سے بنایا گیا ہوں۔

ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔حدیث مبارکہ میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، حدیث: 265)

تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اس حدیث مبارکہ اور روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکبر کرنے والا دنیا میں بھی خسارے میں ہے اور آخرت میں بھی خسارے میں ہے۔اور یہ کبیرہ گناہ کرنے والوں میں سے ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو غرور و تکبر سے ہمیشہ بچائیں۔تکبر کرنا یہ شیطان کا کام ہے اور عاجزی و انکساری سے کام لینا یہ انبیائے کرام عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی مبارک صفت اور سنت ہے۔

(3)انبیاء کی گستاخی سے بچو: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱) ترجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(پ10، التوبۃ:61)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ایسے لوگوں پر لعنت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) ترجَمۂ کنز الایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پ22، الاحزاب:57)

معلوم ہواکہ محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گستاخی کرنے اور انہیں اذیّت پہنچانے والاآخرت میں دردناک عذاب کا مستحق ہے اوردنیا میں بھی اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

حضرت علیُّ المُرْتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ایک موئے مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: جس شخص نے میرے ایک بال کو تکلیف دی بے شک اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اور جس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اس پر زمین وآسمان کے بھرنے کے برابر خدا کی لعنت۔(کنزالعمال،کتاب الفضائل، باب فضائل النبی…الخ، 12/159، حدیث:35347)

اللہ پاک کے انبیا علیہم السلام کی گستاخی اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے، ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔

محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کائنات کی سب سے مکرّم ومُعَظّم ہستی ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ مقبول و محبوب ہیں، ایسے میں اگر کوئی دُشْمنِ رسول، محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر طعنہ زنی کرے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خالقِ کائنات پاک اس بات کو گوارا کرلے، وہ ہستی جنہیں حبیبِ خدا ہونے کا شرف حاصل ہو اس کے مُتَعَلِّق کسی بھی قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کرنا یا انہیں کسی بھی طرح سے تکلیف پہنچانا، اللہ پاک کو ہرگز ہرگز پسند نہیں بلکہ ایسی جسارت کرنے والوں کو تو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

(4)پردہ کرنا: رب العالمین قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) ترجمۂ کنزالایمان: اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔(البقرہ: 35)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔(صراط الجنان، جلد 1، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 35)

حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا جب آپ دونوں مبارک ہستیوں سے لباس جدا ہوا تو آپ دونوں نے اپنے بدن کو پتوں کے ذریعے اپنے بدن کو چھپانا شروع کر دیا۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔اب جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ننگا ہونا انسانی فطرت ہے تو یہ ان نادنوں کی بھول ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام کے اس عمل سے ان لوگوں کی فطرت مسخ ہو چکی ہے۔

یاد رکھیں! پردہ ایک ایسے قلعے کی طرح ہے جس میں ہر ایک کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔پردہ دراصل پرہیزگاری کی علامت ہے۔پردے کی برکت سےمعاشرے کو بدکاری کی آفت سے نجات ملتی ہے۔پردے کی برکت سے عبادت میں لذت حاصل ہوتی ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ خَلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا تو آپ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پر نِقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضِر ہوئیں، اِس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقْت بھی آپ نے مُنہ پر نِقاب ڈال رکھا ہے؟ کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضَرور کھویا ہے، (مگر) حیا نہیں کھوئی۔(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب فضل قتال الخ، 3/9،حدیث:2488)

پردے کے چند فوائد: ٭ پردہ عزت کا محافظ ہے ٭پردے کی برکت سے دل کو پاکیزگی اور تقویٰ جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ٭پردے سے حیا وغیرت جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں ٭پردہ عفت و پاکدامنی کی نشانی ہے٭پردے کی برکت سے شیطانی وسوسے دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تہمت،بہتان اور بدگمانی سے حفاظت رہتی ہے ٭پردہ حیا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

(5)گناہ کے بعد توبہ کرنا: اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔(پ28، التحریم: 8)

صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب (یعنی بچتا) رہے۔امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ106)

جب بندہ اچانک آنے والی موت کو یاد رکھے گا تو امید ہے اسے توبہ کا مدنی ذہن نصیب ہوگا۔اسی لیے حکمت ودانائی کے پیکر حضرت سیدنا حکیم لقمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی: بیٹا! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آتی ہے۔(احیاء العلوم،4/38)

روایت میں آیا ہے:دوزخیوں کی زیادہ چیخ وپکار توبہ میں ٹال مٹول کے سبب ہوگی۔(ایضاً)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی، اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے کہ جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت اور رحمت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔

اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سچی پکی توبہ کرنے والوں میں شامل کرکے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، اٰمین۔