اشتیاق
احمد عطّاری(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)
.jpg)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں انبیاء کرام اور ان کی
قوموں کے بارے میں ذکر فرمایا ہے، جس سے ہمیں بہت سی نصیحتیں اور عبرتیں حاصل ہوتی
ہیں اسی طرح الله پاک نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السّلام کا بھی قرآن مجید میں ذکر
فرمایا اور حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعات قرآن مجید میں ذکر فرمائے ان واقعات
سے بھی ہمیں بہت سی نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں۔انہی نصیحتوں میں سے چند نصیحتیں آپ بھی
ملاحظہ فرمائیے۔
شیطان
کی دشمنی کی وجہ:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ
لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ
اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ
لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان:تو
ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ
تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ
نہ تو بھوکا ہو نہ ننگا ہو۔اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دھوپ۔(پ16،طہ:117تا
119)
جب ابلیس نے حضرت
آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام و واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے
لگا یہ حسداس کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جیسے کسی سے حسد ہو تو
وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنا چاہتا
ہے۔
حضرت آدم علیہ السّلام کے عمل سے مسلمانوں کے
لیے تربیت:رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)
حضرت آدم عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لئے
یہ تربیت ہے کہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ا س کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے
مغفرت و رحمت کا انتہائی لَجاجَت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا گناہ
بخش دے اور ان پر اپنا رحم فرمائے۔ (پ8، الاعراف: 23)
شیطان کے وار سے بچنے کا نسخہ: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا
یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ
یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ
وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا
تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں
نظر پڑیں بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27)
شیطان کے مکرو فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی
پناہ لی جائے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے
اللہ تعالیٰ نے تم پر مُسلَّط فرمادیا ہے، اگر تم ا س سے مقابلہ و جنگ کرنے اور
اسے (خود سے) دور کرنے میں مشغول ہوگئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت
ضائع ہو جائے گا اور بالآخر وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی و ناکارہ بنا
دے گا ا س لئے اس کے مالک ہی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی
تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور یہ تمہارے لئے شیطان کے ساتھ جنگ اور مقابلہ
کرنے سے بہتر ہے۔
بیوی
اور شوہر بھی ایک دوسرے کا ستر نہ دیکھیں:فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا
ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ علیہمَا
مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا
الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)
ترجَمۂ کنزُالایمان:تو اُتار لایا انہیں فریب سےپھر جب
اُنہوں نے وہ پیڑ چکھا ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور اپنے بدن پر جنت کے
پتے چپٹانے لگے اور اُنہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ
کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(پ8، الاعراف:22)
بہتر یہ ہے کہ خاوند اور بیوی بھی ایک دوسرے کے سامنے ننگے
نہ رہیں ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھیں۔ یہ نصیحت (وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ) الخ سے حاصل ہوئی دیکھو اس وقت کوئی ان دونوں کو ننگا نہیں دیکھ رہا تھا مگر
انہوں نے ستر چھپانے کی کوشش کی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شیطان کے مکرو فریب اور حسد کرنے سے
بچنے اور اس سے حاصل ہونے والی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد
جمیل عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)

الله تعالیٰ نے مختلف امتوں کی طرف اپنے انبیاء علیہم
السلام کو مبعوث فرمایا اور ان کے واقعات کو قرآن مجید میں ذکر بھی فرمایا انہیں
انبیاء علیہم السلام میں سے اللہ تعالیٰ کے ایک وہ نبی بھی ہیں جن سے باقاعدہ طور
پر آدمیوں کا آغاز ہوا میری مراد حضرت آدم علیہ السّلام اور آپ کے واقعے کو بھی
قرآن پاک میں ذکر فرمایا آپ علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا
ہے آیئے قرآن پاک میں موجود واقعہ آدم علیہ السّلام سے کچھ نصیحتیں حاصل کرتے ہیں۔
اہم کام پر مشورہ کرنا:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قَالَ
رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)
تفسیر:فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السّلام کی خلافت کی خبر اس
لیے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت معلوم کریں اور اُن پر خلیفہ کی
عظمت وشان ظاہر ہو کہ اُن کو پیدائش سے پہلے ہی خلیفہ کا لقب عطا کر دیا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے
ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اُس کام سے متعلق اُن کے ذہن میں کوئی بات
ہو تو اس کا حل ہو سکے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر
انداز سے ہو جائے۔
شیطان نے کس بنیاد پر آدم علیہ السّلام سے
بغض رکھا:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ
اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ
فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا
دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔بیشک
تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہو نہ ننگا ہو۔اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس
لگے نہ دھوپ۔ (پ16،طہ: 117تا 119)
آیت نمبر 117 میں شیطان کا حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کو سجدہ نہ کرنا آپ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ اس کی دشمنی کی
دلیل قرار دیا گیا ہے،یہاں اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے
حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ
ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد ا س کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ
جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا اور اس
کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
آدم
علیہ السّلام کو شیطان کا سجدہ نہ کرنے کی وجہ:وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔ (پ1،البقرۃ:34)
اس واقعہ سے معلوم
ہوا کہ غرور و تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا
ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔
کس چیز
نے ابلیس ملعون کو کافر بنایا؟وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ
كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔ (پ1،البقرۃ:34)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تکبر اور حسد نے
ہی ابلیس کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل کر دیا۔
نیک لوگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا:فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ: 37)
صراط الجنان میں اس کے تحت ہے:حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے،نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت
آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان
رہنے کے بعد) انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب!مجھے محمد صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں معاف فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم
نے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے
اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کی: اے اللہ
پاک! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا
تو میں نے عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللہِ لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ
اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے
فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ
محبوب ہے۔تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر
محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ
کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم التی فی
دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السّلام بحق محمدصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 3/517،
حدیث:4286، معجم الاوسط، من اسمہ محمد،5/36، حدیث:6502، دلائل النبوۃ للبیہقی،
جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء فی تحدیث رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم۔۔۔الخ، 6/489)
اس آیت اور حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ بارگاہِ الٰہی کے
مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے۔
محمد
مبشر عبدلرزاق (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)

قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا عظیم اور بے مثل کلام ہے جو تمام
انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے اور ہر چیز کا واضح اور روشن بیان ہے
قرآن پاک میں جس طرح حرام و حلال کے احکام گزشتہ امتوں کے واقعات اور جنت و دوزخ
کے احوال کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات کو
بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں ہمارے لئے نصیحتوں اور عبر توں کا بے بہا خزانہ ہے انہی
انبیاء علیہم السلام میں سےایک حضرت آدم علیہ السّلام بھی ہیں۔قرآن پاک میں حضرت
آدم علیہ السّلام کے متعدد واقعات کو بیان کیا گیا ہے انہی واقعات میں سے 5 نصیحتیں
پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔
مشورہ کرنا: الله پاک بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادے میں دخل
انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چوں و چرا کر سکے مگر اس
کے باوجود اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق (پیدائش) و خلافت کے بارے میں
ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرمایا جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30) پیارے اسلامی
بھائیو! اللہ پاک بے نیاز اور مختار کل ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے
تو اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم بھی جب کسی کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں اور
صاحبان عقل و علم سے مشورہ لے لیا کریں۔
عالم کی فضیلت: اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو آپ علیہ السّلام کے
علمی فضل وکمال بلند درجات کے اعلان اور ملائکہ سے اس کا اعتراف کرانے کے لئے تمام
فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو تمام ملائکہ نے
روبر سجده کیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ
اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں
گرے۔(پ14، الحجر:30)
پیارے اسلامی بھائیو! اس سےمعلوم ہوا کہ عالم عابد(عبادت
گزار) سے افضل ہے کیونکہ ملائکہ عابد اور حضرت آدم عالم تھے۔اور ملائکہ نے آپ علیہ
السّلام کو سجدہ کیا اور سجدہ انتہائی عاجزی اور اپنے سے بڑے درجے والے کو کیا
جاتا ہے تو ہمیں بھی چا ہئے کہ عبادت کے ساتھ علم دین بھی حاصل کرتے رہا کریں۔
تکبر کی مذمت:اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما لیا تو تمام ملائکہ اور
ابلیس لعین سے آپ علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو تمام ملائکہ نے سجدہ
کیا اور ابلیس لعین نے آپ علیہ السّلام کو خاک کا پتلا کہہ کر آپ کی تحقیر کی اور
اپنی بڑائی اور تکبر کااظہار کرتے ہوئے سجدۂ آدم سے انکار کیا اور کافروں میں سے
ہو گیا جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر
ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اس سے معلوم ہوا کہ تحقیر انبیاء علیہم السّلام اور تکبروہ
مذموم فعل ہیں جو بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں مبتلا کر
دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ کفر تک پہنچا دیتے ہیں، اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے
تعظیم انبیاء علیہم السلام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا:ابلیس جس کو شیطان کہا جاتا ہے یہ فرشتہ نہیں بلکہ جن تھا
جو آگ سے بنا تھا اور فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت مقرب
اور بڑے بلند درجات و مراتب سے سرفراز تھا اور بہت زیادہ عبادت گزار تھا۔مگر جب
اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے اپنی
عبادت اور علم پر گھمنڈ کیااور سجدے سے انکار کر کے ہمیشہ کے لئے ملعون ہو گیا جیسے
کہ قرآن پاک میں اس کا یہ قول بیان کیا گیا ہے: قَالَ اَنَا
خَیْرٌ مِّنْهُۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں۔(پ8، الاعراف:
12)
پیارے اسلامی بھائیو! اس سے ایک بہت بڑا درس یہ ملا کہ ہمیں
ہر گز ہرگز اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر گھمنڈ اور غرور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ
پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہوئے ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے رہنا چا ہے۔
مقبولانِ بارگاہ الٰہی کے وسیلے سے دعا کرنا:حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر اتارے گئے تو آپ
نے ندامت کے با عث تین سو برس تک آسمان کی طرف سر نہ اٹھایا اور روتے رہے پھر جب
آپ پر عتاب الٰہی ہوا تو آپ نے حضور اکرم نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے وسیلے سے دعا کی جیسا کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ- ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی۔ (پ1، البقرۃ:37) ابن منذر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں وہ کلمات یہ ہیں،
ترجمہ: اے اللہ تیرے بندہ خاص محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جاہ و مرتبہ
کے طفیل میں اور ان کی بزرگی کے صدقے میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہےمیں تجھ
سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ بخش دے۔یہ دعا کرتے ہی اللہ پاک نے آپ کی توبہ
قبول فرمائی اور آپ کی مغفرت فرمادی اس سے معلوم ہوا کہ مقبولان بارگاہ الٰہی کے
وسیلے سے دعا کرنا جائز اور حضرت آدم علیہ السّلام کی سنت ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ
جب بھی کسی اہم کام کی دعا کریں تو مقبولان بارگاه کے وسیلے سے کریں۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم
السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد
مجیب عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
.jpg)
انبيائے کرام عليہم السلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے
درس و نصیحتیں ہیں لہٰذا ان واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔یہاں حضرت
آدم علیہ السلام کے واقعے سے حاصل ہونے والی چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں:
(1)حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل
کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجده کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی
عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا
شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے بغیر تسلیم
کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے
میں تول کر اس کے درست ہونے يا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے
منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
(2)تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناه تکبر تھا۔حديث پاک میں ہے:
تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے
اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور
متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔
(3)لمبی امیدوں سے نجات کا طریقہ: شیطان مردود کا بہت بڑا ہتھیار لمبی امیدیں دلانا ہے چنانچہ وہ لمبے عرصے تک
زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل، تو بہ سے دور اور
گناہوں میں مشغول رکھتا ہے، حتی کہ اسی غفلت میں اچانک موت آجاتی ہے اور گناہوں سے
تو بہ اور نیکی کرنے کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔اس کا حل موت،قبر اور
آخرت کی یاد ہے۔
(4)تخلیقات الٰہی میں خلاف شرع تبدیلیوں کا
شرعی حکم: اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف شرع تبدیلیاں
حرام ہیں اور ان سے بچنا لازم ہے جیسے لڑکیوں کا ابرووں کے بالوں کو خوبصورتی کے
لئے باریک کرنا، چہرے وغیرہ پر سوئیوں کے ذریعے تل یا کوئی نشان ڈالنا، مرد یا
عورت کا بدن پر ٹیٹو بنوانا، مختلف خوشی و غیرہ کے مواقع پر چہرے کو مختلف رنگوں
سے بگاڑنا، لڑکوں کا اپنے کان چھیدنا، لڑکیوں کا سر کے بال لڑکوں جیسے چھوٹے چھوٹے
کاٹنا اور مرد کا داڑھی منڈانا۔
(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔
محمد
حدیر فرجاد (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
.jpg)
الحمد للہ تعالیٰ اللہ پاک نے ہم سب کو اشرف المخلوقات بنایا
اور ہم سب پر اپنی بے شمار نعمتوں کا نزول بھی فرمایا، سب سے بڑی نعمت اسلام سے
نوازا جس میں اللہ کو ایک ماننے اور تمام رسولوں کو اس کے بندے اور رسول ماننے کا
حکم آیا ہے، اور اس عقیدہ کو سمجھانے کے لیے الله پاک نے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ
والسلام اور رسولوں کو بھیجا اور پھر ان رسولوں کی زندگی پر عمل کرنے کی بھی تلقین
کی گئی یقیناً ہر رسول کی زندگی مثالی ہےاور ہر رسول کی زندگی سے بہت ساری نصیحتیں
و اسباق مل سکتے ہیں اور سب سے پہلے نبی اور رسول جن کو اللہ پاک نے بغیر ماں اور
بغیر باپ کے پیدا فرمایا ان کی زندگی میں بھی ہمارے لیے بہت ساری نصیحتیں اور
اسباق ہیں۔الله پاک قرآن پاک میں حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بارے میں
ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ
مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ
قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۵۹) ترجمہ کنز الایمان:عیسیٰ کی کہاوت اللہ کی نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے
بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔(پ3،آل عمران:59)
سبحان الله! ربِّ کریم فرماتا ہے ہو جا تو ہو جاتا ہے، پھر
بھی ہم اپنی پریشانیوں میں اپنے آپ کو بے بس ظاہر کر کے دوسروں سے اس کے حل کی فریاد
کر رہے ہوتے ہیں کبھی اللہ کی طرف گڑ گڑا کر اس مشکل پریشانی کا حل مانگو وہ ہر چیز
پر قادر ہے، اور ہمیں انبیائے کرام کی زندگیوں سے بھی درس و نصیحت لینی چاہیے۔
ابلیس کیا تھا اور کیا ہو گیا: حضرت آدم (علیہ السّلام)کی زندگی میں ایک واقعہ شیطان کا
بھی آتا ہے سب سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ شیطان کیا تھا کیا ہو گیا۔ابلیس جس کو
شیطان کہا جاتا ہے یہ فرشتہ نہیں تھا بلکہ جن تھا جو آگ سے پیدا ہوا تھا۔لیکن یہ
فرشتوں سے ملا جلا رہتا تھا اور دربار خداوندی میں بہت مقرب اور بڑے بڑے بلند
درجات ومراتب سے سرفراز تھا۔(تفسیر صاوی، ج1، ص51، البقرة، تحت الآیۃ: 34)
لیکن جب اللہ پاک نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے
کا حکم دیا تو ابلیس نے انکار کر دیا۔اور حضرت آدم علیہ السّلام کی تحقیر اور اپنی
بڑائی کا اظہار کرکے تکبر کیا اسی جرم کی سزا میں اللہ پاک نے اسے دونوں جہاں میں
ملعون قرار دے دیا۔
نصیحتیں: اس سے یہ نصیحتیں ملتی ہیں: (1)ہرگز ہرگز اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر غرور
نہیں کرنا چاہیے (2)گناہ گار کو اپنی مغفرت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ
انجام کیا ہوگا اور خاتمہ کیسا ہوگا عام بندوں کو اس کی کوئی خبر نہیں ہے اور نجات
اور فلاح کا دارومدار حقیقت در حقیقت خاتمہ بالخیر پر ہی ہے۔(عجائب القرآن و غرائب
القرآن)
حدیث پاک میں ہے کہ ایک بندہ اہل جہنم کے اعمال کرتا رہتا
ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور ایک بندہ اہل جنت کے عمل کرتا رہتا۔ہے حالانکہ وہ
جہنمی ہوتا ہے (اِنَّمَا الْاَعْمَاْلُ بِالْخَوَاتِيْمِ)(مشكوة المصابيح، كتاب الايمان، فصل الاول)
حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ: حضرت آدم علیہ السّلام نے جنت سے زمین پر آنے کے بعد تین
سو برس تک ندامت کی وجہ سے سر اٹھا کر آسمان کی طرف نہیں دیکھا اور روتے رہے۔روایت
ہے اگر تمام انسانوں کے آنسو جمع کیے جائیں تو اتنے نہیں ہوں گے جتنے آنسو حضرت
داؤد علیہ السّلام کے خوف الٰہی کے سبب زمین پر گرے اور اگر تمام انسانوں اور حضرت
داؤد علیہ السّلام کے آنسوں کو جمع کیا جائے تو حضرت آدم علیہ السّلام کے آنسوں ان
سب لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔(تفسیر صاوی، ج1، البقرۃ، تحت الآیۃ: 37)
لیکن حاکم و طبرانی وابونعیم و بیہقی نے حضرت علی رضی اللہ
عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السّلام پر عتاب الٰہی ہوا تو آپ
توبہ کی فکر میں حیران تھے۔ناگہاں اس پریشانی کے عالم میں یاد آیا کہ وقت پیدائش میں
نے سراٹھا کر دیکھا تھا کہ عرش پر لکھا ہوا ہے۔لَا اِلٰهَ
اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ اسی وقت
میں سمجھ گیا کہ بارگاہ الٰہی میں وہ مرتبہ کسی کو میسر نہیں جو محمد (صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو حاصل ہے کہ اللہ پاک نے ان کے نام کے ساتھ اپنا نام اقدس
ملا کر عرش پر تحریر فرمایا ہے لہٰذا آپ نے دعا میں رَبَّنَا
ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا کے ساتھ یہ عرض کیا: اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدِ اَنْ
تَغْفِرْلِیْ۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن)
نصیحتیں:
اس سے ہمیں کئی نصیحتیں سیکھنے کو ملتی ہیں:(3)اس سے معلوم
ہوا کہ مقبولان بارگاہ الٰہی کے وسیلہ سے بحق فلاں و بجاہ فلاں کہہ کر دعا مانگنی
جائز ہے اور حضرت آدم (علیہ السّلام) کی سنت ہے۔ (عجائب القرآن وغرائب القرآن) (4)اس
سے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان معلوم ہوئی تو کیوں نا
اپنے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح کریں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو انبیاء اکرام علیہم الصلوٰة
والسلام کی سیرتوں کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے لئے سب سے بہترین
کتاب سیرت الانبیاء (مفتی قاسم صاحب) کی تصنیف کردہ کتاب کا مطالعہ کافی مفید رہے
گا۔
محمد
سکندر عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
.jpg)
اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی انبیائے کرام بھیجےجن
میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی
ذکر کیا ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے اُس سے پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:
(1)غرور نہ کرنا: وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔ (پ1،البقرۃ:34)
شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے غرور نے
روکا لہٰذا ہمیں غرور و تکبر بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
(2) توبہ کرنا: فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے
آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ
قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ: 37)
حضرت آدم علیہ السّلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہیں دنیا
میں بھیج دیا گیا حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات
عرض کئے:رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)پھر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ
السّلام کی توبہ قبول کی ہم سے بھی اگر غلطی سے کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ
کر لینی چاہیے، بیشک اللہ پاک بڑا مہربان ہے۔
(3) فضیلت علم: وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت
آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔
اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ
سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم
نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں
نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب
سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے
سے بہتر ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔لہٰذا
ہمیں بھی علم حاصل کرنے میں مصروف ہو جانا چاہیے۔
(4)اللہ پاک کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا: وَ
لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ
السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا
کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8،
الاعراف:11)
ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے جیسے
شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور مردود ہوگیا لہٰذا ہمیں حکمِ
الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے۔
(5)انبیاء کرام کا حکم ماننا: اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔
محمد
مبشر رضا عطاری قادری(درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق شاہ عالم مارکیٹ
لاہور، پاکستان)
.jpg)
حضرت آدم علیہ السّلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں
کے باپ ہیں اس لئے آپ کا لقب ابو البشر ہے، اللہ تعالیٰ نے خاص اپنی دست قدرت سے
آپ کا جسم مبارک بنایا اور اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا
کیا اور انہیں تمام اشیاء کے ناموں ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا،
فرشتوں نے آپ کی علمی فضیلت کا اقرار کر کے آپ کو سجدہ کیا جبکہ ابلیس سجدے سے
انکار کر کے مردود ہوا، حضرت آدم علیہ السّلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن
وحدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے جبکہ آپ کا اجمالی تذکرہ قرآن پاک میں کئی
مقامات پر موجود ہے جبکہ تفصیلی ذکر درج ذیل سات سورتوں میں کیا گیا ہے:(1) سورۂ بقرہ
آیت نمبر 30 تا 39۔ (2)سورۂ اعراف آیت نمبر 11 تا 25۔ (3) سورۂ حجر آیت نمبر 26 تا
44۔ (4)سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 61 تا 65۔ (5)سورۂ کہف آیت نمبر 50 (6)سورۂ طہ آیت
نمبر 115 تا 127۔(7)سورۂ صٓ آیت نمبر 71 تا 85۔
خلیفہ کے بارے میں فرشتوں سے مشورہ:حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے
مشورے کے انداز میں فرشتوں سے کلام فرمایا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے
فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)
فرشتوں کی بارگاہ الٰہی میں عرض:زمین میں خلیفہ بنانے کی خبر سن کر فرشتوں نے عرض کی: اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ
نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا
تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں
فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری
پاکی بولتے ہیں۔
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)
کیوں کہ خلیفہ بنانے میں اللہ پاک کی حکمتیں تم پر ظاہر نہیں
ان میں انبیاء ورسل علیہم السّلام بھیجے جائیں گے، ان میں شہدا وصدیقین بھی ہوں گے،
صالحین وعابدین بھی، علماء عاملین بھی اور اولیاء کاملین بھی۔اس واقعہ حضرت آدم
علیہ السّلام سے قرآنی نصیحتوں کے جو مدنی پھول ملے ہیں ان میں سے چند ذکر کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
پہلی نصیحت: ماتحت افراد سے مشورے کی ترغیب: تخلیق آدم علیہ السّلام سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے
مشورے کے انداز میں کلام فرمایا، اس میں ہمارے لئے یہ نصیحت ہے کہ اگر ہم بھی کوئی
اہم کام شروع کریں تو سب سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے اس کا
فائدہ یہ ہو گا کہ یا تو مزید کوئی ا چھی رائے مل جائے گی جس سے کام اور ذیادہ
بہتر طریقے سے ہو جائے گا یا اس کام سے متعلق ماتحت افراد کے ذہنوں میں موجود خلش
کا ازالہ ہو جائے گا۔
دوسری نصیحت:نامعلوم بات پر لا علمی کا اظہار
کر دیا جائے: اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا
اعتراف کر لیا اس میں ہر صاحب علم اور ہر مسلمان کے لیے نصیحت ہے کہ جو بات معلوم
نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا
عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی بھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کی جائے۔
تیسری نصیحت:حکمِ الٰہی کے مقابلے میں قیاس
کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس وپیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر عمل کرتے
ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے
ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔
اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من وعن اور چوں چرا کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے،
حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل کا استعمال کرنا، اپنی فہم وفراست کے پیمانے میں
تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ
پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
چوتھی نصیحت: لغزش کے بعد توبہ کرنا حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا
فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے نصیحت ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت ورحمت کا
عاجزی سے گڑ گڑا کر سوال کریں۔ نیز حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ کے کلمات سے یہ
ثابت ہوا کہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز اور حضرت
آدم علیہ السّلام سے ثابت ہے۔
پانچویں نصیحت:عاجزی و انکساری اختیار کرنا: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے میں ابلیس کا ذکر ہوا جس
نے آپ علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور رب العزت کی بارگاہ سے مردود
ٹھہرا، اس کے حالات و واقعات میں ہمارے لیے یہ نصیحت ہے کہ عبادت وریاضت کی بدولت
خود کو اعلیٰ مقام پر فائز سمجھنے کی بجائے بارگاہِ الٰہی میں عاجزی وانکساری کرتے
رہیں اور اس کی خفیہ تدبیر سے ہر دم خوف زدہ رہیں نیز ابلیس کے تعلق سے دی گئی ہدایات
الٰہی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسے اپنا دشمن سمجھیں، اس کے وسوسوں سے بچیں اور اس
مردود سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے رہیں۔اے اللہ! اپنے پیارے بندے حضرت آدم علیہ
السّلام پر بےشمار درود وسلام اور رحمت وبرکت نازل فرما اور ہمیں ان کی مبارک سیرت
پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ثم آمین
عبدالسبحان
خان(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت
ہے۔(پ4، آل عمرٰن: 138)
قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے
نازل فرمایا، آئیے! ان نصیحتوں کے بارے میں کچھ باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن
کا ذکر اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
(1) اہم کاموں میں مشاورت:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی
الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد
کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1،
البقرۃ:30)
اللہ تعالیٰ اس سے
پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں
کوظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم
کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق
ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے
جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا
کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمران: 159) (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ:30)
(2) علم دین کا حصول:وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر
تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات،
خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم
عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے
معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:
اے ابو ذر! تمہارا ا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت
سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح
کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ
تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ: 31)
(3) تکبر کی مذمت:وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض
اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے
بچے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے
کا نام ہے ۔(تفسیر صراط الجنان، البقرۃ: 34)
(4)
گناہوں کے بعد توبہ کرنا:
وَ
قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا
رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ
عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ
لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۳۶) فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ
كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں
رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا
کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں
رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا
دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرہ: 35تا37)
حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ
کلمات عرض کئے:رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)
(5) شیطان کے فریب سے بچنا:وَ
لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ
عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک
تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پ16، طہ:115)
اس سے پہلے سورۂ
بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں مختلف حکمتوں کی
وجہ سے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہو ا اور اب یہاں
سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں یہ حکمت بھی ہو
سکتی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں کا بڑ اپرانا دشمن ہے ا س لئے ہر
انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں سے
بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔(تفسیر صراط الجنان، طہ: 115)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن پاک کی ان نصیحتوں
پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد اظہر عطاری (دورۂ حدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن
لاہور، پاکستان)
.jpg)
قرآنِ کریم اس ربِّ عظیم کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود،
تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی مالک ہے، یہ جامع العلوم کتاب ہے کہ اولین و
آخرین کا علم اس کتاب میں موجود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا
ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ
شَیْءٍ ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔
(پ14، النحل:89)
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
قرآن کریم ہر نافع علم پر مشتمل یعنی اس میں گزشتہ واقعات کی خبریں اور آئندہ ہونے
والے واقعات کا علم موجود ہے ہر حلال و حرام کا حکم اس میں مذکور ہے اور اس میں ان
تمام چیزوں کا علم ہے جن کی لوگوں کو اپنے دنیوی، دینی، معاشی اور اخروی معاملات میں
ضرورت ہے۔(ابن کثیر، النحل، تحت الآیۃ: 89)
گزشتہ واقعات میں سے قرآن کریم کے پہلے پارے کے رکوع نمبر
(4) میں حضرت آدم علیہ السّلام کا واقعہ بھی مذکور ہے جس میں ہمارے لئے متعدد قرآنی
نصیحتیں ہیں،آئیے! حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے (5) قرآنی نصیحتیں جانتے ہیں۔
(1)اہم کام کرنے سے قبل ماتحت سے مشورہ کرنا:
حضرت آدم علیہ السّلام کو خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کو
ظاہری طور پر مشورہ کے انداز میں دی گئی جس سے اشارةً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم
کام کرنے سے قبل اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام کے متعلق ان
کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی مفید رائے مل جائے جس سے
کام مزید بہتر ہو جائے۔(تفسیرِ صراط الجنان)
(2) چھوٹوں کو بڑوں سے سوال کرنے کا حق ہے:حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی قرآنی نصیحت
حاصل ہوتی ہے کہ چھوٹوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بڑوں سے سوال کے ذریعے کام کی حکمت
پوچھ لیں جیسے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے زمین میں خلیفہ بنانے کی حکمت دریافت کی۔(تفسیرِ
نعیمی)
(3) اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی قرآنی نصیحت
حاصل ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا عالم اگر کسی مسئلہ سے ناواقف ہو تو اپنی عزت رکھنے کے
لئے غلط جواب نہ دے بلکہ اپنی کم علمی کا اقرار کرے کیونکہ اس میں عزت ہے جیسے کہ
فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا: قَالُوْا
سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ
الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے
پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و
حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32)(تفسیرِ نعیمی)
(4) تکبر اور حسد نہایت بری چیزیں ہیں: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی نصیحت
حاصل ہوتی ہے کہ تکبر اور حسد دونوں نہایت بری چیزیں ہیں کیونکہ دنیا میں سب سے
پہلا گناہ شیطان نے ان دونوں چیزوں کی وجہ سے کیا۔(تفسیرِ نعیمی)
(5) زمین میں سب سے پہلے انسان کی عبادت: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی نصیحت
حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہنا چاہیے
کیونکہ حضرت آدم علیہ السّلام نے زمین پر آ کر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
توبہ کی۔(تفسیرِ نعیمی)
اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اورقرآن کریم کی زیادہ
سے زیادہ تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
.jpg)
قرآن مجید فرقان حمید کا ایک مبارک اسلوب یہ بھی ہے کہ
لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے سمجھانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب آقا
کریم خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مخاطب کرتے ہوئے انبیاء کرام
علیہم السلام کے مبارک احوال اور ان کی قوموں کے معاملات کو بیان فرمایا۔کہیں فرمایا: یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لیے صاف بیان کردے۔(پ5،
النسآء: 26) تو کہیں فرمایا: تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں
سناتے ہیں۔(پ9، الاعراف: 101) اور دیگر مقامات پر بھی پہلی قوموں کے احوال بیان کر
کے امتِ محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سمجھایا کہ اے محبوب ان سے فرما
دیجیے کہ پہلی قوموں نے یوں کیا، تم اس طرح نہ کرنا ان سے عبرت حاصل کرو۔انہی میں
سے ایک واقعہ ابو البشر حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا بھی ہے۔آپ کی مبارک
تخلیق سے لے کر دنیا میں تشریف فرما ہونے تک اور بہت کچھ قرآنی آیات میں بیان
ہے۔جس کے ذریعے امتِ محمدیہ کو درس و نصیحت کی گئی ہے۔
آئیے قرآن مجید کی روشنی میں واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام
سے پانچ قرآنی نصیحتیں ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)مشورہ کرنے کی ترغیب: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی
الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد
کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1،
البقرۃ:30)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ
الصّلوٰۃُوالسّلام سے پہلے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا۔اس سے ہمیں
بھی یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ کوئی بھی اہم کام شروع کرنے سے پہلے اہل حق سے،
تجربہ شدہ لوگوں سے مشورہ کر لینا چاہیے۔اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اچھی
رائے، لوگوں کے خیالات سے آگاہی، کام کی بہتری اور بہت کچھ۔
(2)علم حاصل کرنے کی ترغیب: وَ
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔(پ1، البقرۃ:
31)
تخلیق آدم علیہ السّلام کے بعد فرشتوں پر حضرت آدم علیہ
الصّلوٰۃُ والسّلام کی عظمت و فضیلت ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم
عطا فرمایا۔اس سے معلوم ہوا علم ہی کے ذریعے انسان کی عظمت و فضیلت ہے۔علم ہی کے
ذریعے انسان نے فرشتوں سے برتری اور بلند مقام حاصل کیا۔اندھیروں سے روشنی کی طرف
لانے والا علم ہے۔کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے علم کا ہونا ضروری ہے وگرنہ ہلاکت
ہے۔ہمیں بھی چاہیے کہ علم دین حاصل کریں اور خود سے جہالت کے اندھیرے دور کریں۔
(3) نامعلوم بات پر لا علمی کا اظہار کرنے کی
ترغیب:قَالُوْا
سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں
سکھایا۔(پ1، البقرۃ: 32)
اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کیا
کہ مالک ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے عطا کیا بے شک تیری ذات ہی علم و حکمت
والی ہے۔اس سے ہر ایک کو نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو تو لا علمی کا
اظہار کر دینا چاہیے نہ کہ اسرار کرنا بے جا اور کہہ دینا خاص کر دین کے معاملے میں
یہ تو ہے ہی نہیں۔لوگوں کی ملامت، یا عزت میں کمی کی وجہ سے ان جیسے شیطانی وسوسوں
کی پیری میں کوئی جھوٹ اور من گھڑت بات نہ کہی جائے۔
(4)حکمِ الٰہی بجا لانے کی ترغیب: وَ
اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم
کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس اس نے نہ مانا۔(پ16، طہ:116)
اللہ اکبر اس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے مبارک فرامین
پر اپنی عقل کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے۔حکمِ الٰہی پر فوراً لبیک کہہ دینا چاہیے،
میں اقرار کرتا ہوں، گواہی دیتا ہوں۔دورے حاضر میں نت نئے فتنے ہیں معاذاللہ رب
تعالیٰ اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا
کئے جاتے ہیں ایسی صحبتِ بد سے بچنا چاہیے۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر
علماء اہلسنت سے رجوع کرنا چاہیے۔اور احکامات الٰہی کو من و عن بغیر عقل سے قیاس
کئے چوں و چرا کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے تاکہ ایمان جیسی عظیم دولت قائم رہے۔
(5)توہین اور بے ادبی سے بچنے کی ترغیب:قَالَ
اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے
آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)
رب
تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ
عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو
راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)
ابلیس لعین نے
تکبر کرتے ہوئے خود کو افضل جانا اور نبی پاک عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی توہین
کا مرتکب ہوا۔جس سے وہ مردود ہوا اور لعین ٹھہرا۔اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام،
اور اہل حق کی توہین، گستاخی بے ادبی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے بندہ مردود ہو جاتا
ہے اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔تکبر ہی کی بنا پر اس نے گستاخی کی۔معلوم ہوا تکبر
اور دیگر باطنی و ظاہری گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی کا ہم سبب
نہ بنیں۔
دور حاضر میں بھی گستاخیوں کا بازار سر گرم ہے معاذ اللہ
لوگ نفسانی خواہشات کے تابع ہوتے ہوئے پہلوں کی توہین کرتے نظر آتے ہیں انبیاء
کرام، اولیائے عظام اور علماء کرام کی توہین کرتے نظر آتے ہیں۔ان کو ابلیس لعین کے
اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کسی کی باتوں میں آ کر، چند منٹ کی گفتگو اور
لٹریچر پڑھ کر توہین کے مرتکب ہونے سے، بے ادبی کرنے سے ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ہمیشہ
کے لیے مردود ہو جاتا ہے، لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے اور جہنم کا دائمی عذاب الگ
ہے۔الامان الحفیظ
ہمیں تو سب انبیاء صحابہ و اہلبیت و اولیاء اہل حق سے پیار
ہے
اِن شآءَ اللہ اپنا بیڑا پار ہے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں سے عبرت حاصل کرنے
اور خوب دین کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
سجاد
علی عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ ڈیرہ الله یار بلوچستان، پاکستان)
.jpg)
حضرت آدم (علیہ السّلام) وہ پہلے بشر (انسان) ہیں جن کو
الله پاک نے اپنے دست قدرت سے بنایا اور اپنی طرف سے خاص روح پھونکی، اور فرشتوں
کو حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا، تمام فرشتوں نے حکم کی
تکمیل کی اور سجدہ کیا، جبکہ شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور مردود ہو گیا۔
حضرت آدم (علیہ السّلام) کے قرآن و احادیث میں بے شمار
فضائل آئے ہیں، آئیے اب ہم قرآن پاک سے آدم (علیہ السّلام) کا ذکر سنتے اور نصیحتیں
حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1)جب الله پاک نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو پیدا فرمانے
کا ارادہ فرمایا تو اپنے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا۔الله پاک قرآن
پاک میں فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے
فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم
عطاری قادری (مدظلہ العالی) صراط الجنان میں فرماتے ہیں: یہاں نائب سے مراد حضرت
آدم (علیہ السّلام) سے ہیں۔
فرشتوں نے الله پاک کا یہ کلام سن کر عرض کی:ترجَمۂ
کنزُالایمان:بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں
کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں۔
یہاں فرشتوں نے جو الله پاک کی بارگاہ میں عرض کی اس کا
مقصد اظہار تعجب اور خلیفہ بنانے کی حکمت معلوم کرنے کےلیے کی تھی، الله پاک کی
تخلیق یا اس کی مشیت پر اعتراض کرنا نہ تھا۔
آیت میں ہمارے لیے
یہ نصیحت ہے کہ حضرت آدم (علیہ السّلام) کو پیدا فرمانے سے پہلے مشورے کے اندازے میں
جو کلام کیا اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہے کہ ہم کوئی بھی کام شروع کریں تو اپنے
ماتحت یا دوستوں یا بڑے بزرگوں سے مشورہ لیں اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کوئی اچھی رائے
مل گئی تو کام اور بہترین انداز سے ہو جائے گا۔
(2)اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق
کے بعد تمام اشیاء کے نام سیکھا دیئے اور حضرت آدم علیہ السّلام فضیلت کے اظہار کے
لئے فرشتوں کے سامنے اشیاء کو پیش کیا اور ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے
فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ: 31)
یہ کلام سن کر فرشتوں نے ان اشیاء کے نام نہیں بتائے اپنے
عجز کا اعتراف کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کی: ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے
تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا
ہے۔ (پ1، البقرۃ: 32)
تفسیر:حضرت آدم
علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر اس بات کا کیا کہ ان کا(مذکورہ بات یعنی
کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گے اور خون بہائے گا حالانکہ
ہم تیری حمد کر تے ہوئے تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیاں کرتے ہیں) اعتراض کرنے کے لیے
نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کے لئے تھا، اب انہیں انسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش
کی حکمت معلوم ہو گی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔ (صراط الجنان، جلد ۱، سورۃ بقرہ،
آیت ۳۲)
آیت میں ہمارے لیے نصیحت:اس آیت سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب فرشتوں کو اشیاء کے نام
معلوم نہ تھے تو انہوں نے اپنے لا علمی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح ہر صاحب علم بلکہ
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اگر اس کو کوئی بات معلوم نہ ہو تو اس کے بارے میں صاف
اظہار کر دے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے۔
(3)اسی طرح جب الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق
مکمل فرمائی تو فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان
نے انکار کیا اور مردود ہو گیا اسے بیان کرتے ہوئے ، الله پاک نے فرمایا: وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
تمام فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا اور ملائکہ مقربین سمیت
تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور تکبر کے طور
پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے افضل ہے۔
آیت
میں ہمارے لئے نصیحت:الله پاک کے انبیاء علیہم
السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر عبادت، ریاضت بھی
بربادہو جاتی ہے جس طرح شیطان جیسا عبادت گزار بھی حضرت آدم علیہ السّلام کی گستاخی
سے برباد ہو گیا تو ہماری عبادتیں کیا ہیں؟
(4)جب فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان انکار کر کے مردود ہو
گیا تو الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا کو جنت میں رہنے کی اجازت
عطا فرمائی مگر ایک درخت سے منع فرمایا جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے فرمایا
اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں
تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔ (پ1،
البقرۃ: 35)
حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود
ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم علیہ السّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔اور ہر
طرح سے وسوسہ ڈالتا رہا بالآخر آدم علیہ السّلام نے ممنوعہ درخت سے کھالیا جس کی
وجہ حضرت آدم اور حضرت حوا کو جنت چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا۔
اس آیت
میں ہمارے لیے نصیحت:حسد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ
حسد شیطانی کام ہے اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے الله پاک کی نافرمانی کی گئی۔
(5)جب الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا کو
اپنی قدرت سے پیدا فرمایا اور ان سے انسانی نسل کی ابتدا فرمائی۔منقول ہے کہ حضرت
حوا رضی اللہ عنہا بیس یا چالیس بار حضرت آدم علیہ السّلام سےحاملہ ہوئیں۔ہر حمل
سے دو بچے پیدا ہوئے ایک لڑکا اور ایک لڑکی، حضرت آدم علیہ السّلام ایک حمل کے
لڑکے کا نکاح دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ کرا دیا کرتے تھے۔(صاوی، سورۃ النساء، تحت
الایۃ، ۱، ۲، ۳۵۶)
اب قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی
جبکہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کم خوبصورت تھی۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے
شرعی دستور کے مطابق قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے کرنا چاہا تو قابیل اس سے راضی
نہ ہوا اور نفس امارہ کے دھوکے میں آ کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے اپنی بہن
کو لے کر چلا گیا۔اس واقعے کے بارے میں نے الله پاک فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان:
تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پراُبھارا) تو اُسے قتل کردیا
تو رہ گیا نقصان میں۔(پ6، المآئدۃ:30)
اس آیت
میں ہمارے لیے نصیحت:قابیل کے اس برے فعل سے ظاہر
ہوا کہ اس کو قتل پر ابھارنے کا سبب ناجائز عشق مجازی ہے جس میں آج کل لوگ شرم و حیاء
کو پیٹھ پیچھے ڈال کر اور پردے کے اسلامی احکام کی پابندی نہ کر نے کے سبب دھڑا
دھڑ مبتلا ہو رہے ہیں جسکی وجہ سے قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم رہتا ہے۔
ا الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اور
دوسرں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
حافظ
محمد شہریار عطّاری(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی،
پاکستان)
.jpg)
اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی انبیائے کرام بھیجےجن
میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی
ذکر کیا ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے اُس سے پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:
(1)غرور نہ کرنا:وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
نصیحت:شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے غرور نے روکا لہٰذا ہمیں
غروروتکبر بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
(2)غلطی پر توبہ کرنا:فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)
نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہیں دنیا میں بھیج دیا گیاحضرت
آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ
کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں
نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف:
23)
پھر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کی ہم
سے بھی اگر غلطی سے کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے بیشک اللہ بڑا
مہربان ہے۔
(3)علم کی فضیلت:وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
نصیحت:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم
خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔
حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پر
نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر!
تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی
ہو،یہ تمہارے لئے (100) رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح
کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ
تمہارے لئے (1000)نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی فضیلت بہت
زیادہ ہے۔لہٰذا ہمیں بھی علم حاصل کرنے میں مصروف ہو جانا چاہیے۔
(4)حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا:وَ
لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ
السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے
ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ
والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)
نصیحت:ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے جیسے شیطان نے اللہ
تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور مردود ہوگیا لہٰذا ہمیں حکمِ الٰہی پر فوری طور
پر عمل کرنا چاہیے۔
(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔