غلام
حسین عطاری (درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان اہل یبت لیاری کراچی، پاکستان)

پیارے اسلامی بھائیو! موجودہ دور میں علم دین سے دوری بہت
زیادہ ہوگئی ہے جس کے سبب لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جو یہ کام کر رہیں ہیں آیا
کہ اس میں کوئی غیر شرعی بات تو نہیں میرا یہ کرنا گناہ تو نہیں یہ بات یاد رہے کہ
انسان خطا کار ہے ہر دن انسان سے چھوٹے بڑے گناہ ہوتے رہتے ہیں بندہ بچنے کی بہت
کوشش کرتا ہے لیکن پھر بھی نفس و شیطان کے دھوکے میں آ کر گناہوں کا شکار ہوجاتا
ہے اسی لیے ہمیں ہر وقت اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہنا چاہئے
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار
دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان میں سے کچھ پیش خدمت ہیں:
ہر
تنگی سے چھٹکارا:رسول اﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو
استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلے تواﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے
نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔(ابوداؤد،ابن
ماجہ)
بہت خوبیاں:حضرت عبداللہ بن بسر فرماتے ہیں، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: اس کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (ابن
ماجہ)
اللہ پاک توبہ قبول فرماتا ہے:حضرتِ سَیِّدُنا ابنِ عبَّاس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ
رَسُوْلُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر ابنِ آدم کے
پاس سونے کی ایک وادی ہو توچاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو
مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ پاک سے توبہ کرے تو اللہ پاک اس کی
توبہ قُبول فرماتاہے۔(مسلم)
دن میں 100 مرتبہ استغفار:نَبِیّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے
لوگو!اللہ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ 100 مرتبہ اللہ پاک کے
حضور توبہ کرتا ہوں۔ (مسلم)
پیارے اسلامی بھائیو! ساری احادیث سے استغفار کے دینی و دنیوی
فوائد معلوم ہوئے لیکن ان میں آخر الذکر حدیث سے استغفار کی اہمیت بھی پتا چلتی ہے
کہ اللہ کے نبی تو معصوم ہوتے ہیں یعنی ان کو گناہ کا خیال ہی نہیں آ سکتا اب جو
نبیوں کا بھی سردار ہو جب پیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن میں 100 بار
استغفار کر رہے ہیں تو ہم تو کسی گنتی میں ہی نہیں ہمیں تو ہر وقت استغفار کرنا چاہئے
اللہ پاک ہمیں کثرت سے توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دنیا میں بے شمار مخلوقات کو پیدا
فرمایا ہے، کوئی حیوان کی شکل میں ہے، کوئی جنات کی شکل میں ہے تو کوئی انسان کی
شکل میں ہے، بیشک ان تمام مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا لیکن انسان خطا
کا پتلا ہے، کہیں نہ کہیں انسان خطا کر بیٹھتا ہے مگر اس خطا پر شرمندہ ہونا اور اس
سے توبہ کرنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اور اسی استغفار کرنے میں رب کی رضا
ہے، اسی سے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ
جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا
اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُ
الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں
اور پھراللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ
قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النسآء: 64)
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کے بندہ گناہ کرنے کے بعد استغفار
کرے تو اللہ اسے بخش دے گا۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ
یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ یُؤْتِ كُلَّ ذِیْ
فَضْلٍ فَضْلَهٗؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر
اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا برتنا(فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدہ تک اور ہر
فضیلت والے کواس کا فضل پہنچائے گا۔(پ11، ھود:3)
آیات مبارکہ کے بعداحادیث شریف میں کئی جگہ استغفار کی فضیلت
کو بیان کیا گیا ہے ایک حدیث مبارکہ بیان کرتے ہے: عَنْ اَبِي
سَعِيْدِنِ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم قَالَ کَانَ فِي بَنِي اِسْرَائِيْلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً
وَتِسْعِيْنَ اِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتَی رَاھِبًا فَسَأَلَهُ
فَقَالَ لَهُ ھَلْ مِنْ تَوْبَةٍ قَالَ لَا فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ
لَهُ رَجُلٌ ائْتِ قَرْیَةَ کَذَا وَکَذَا فَاَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ
بِصَدْرِهِ نَحْوَہا فَاخْتَصَمَتْ فِيْهِ مَلَائِکَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِکَةُ
الْعَذَابِ فَاَوْحَی اللهُ اِلَی ھَذِهِ اَنْ تَقَرَّبِي وَاَوْحَی اللهُ اِلَی
ھِذِهِ اَنْ تَبَاعَدِي وَقَالَ قِيْسُوْا مَا بَيْنَہما فَوُجِدَ اِلَی ھَذِهِ اَقْرَبَ
بِشِبْرٍ فَغُفِرَلَهُ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ اخرجه البخاري
حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: بنی اسرائیل میں سے ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے اور پھر مسئلہ
پوچھنے نکلا تھا (کہ اس کی توبہ قبول ہو سکتی یا نہیں)۔ وہ ایک راہب کے پاس آیا
اور اس سے پوچھا: کیا (اس گناہ سے) توبہ کی کوئی صورت ممکن ہے؟ راہب نے جواب دیا:
نہیں۔ اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر اس نے ایک اور شخص سے پوچھا تو اس نے
بتایا کہ تم فلاں بستی (میں جہاں نیک لوگ رہتے ہیں) جاؤ (ان کے ساتھ مل کر توبہ
کرو۔) وہ اس بستی کی طرف روانہ ہوا لیکن ابھی نصف راستے میں بھی نہیں پہنچا تھا کہ
اس کی موت واقع ہو گئی۔رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا کہ کون اس کی
روح لے جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ اس کی لاش کے قریب ہو جائے
اور دوسری بستی کو حکم دیا کہ اس کی لاش سے دور ہو جائے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں
سے فرمایا: اب دونوں کا فاصلہ دیکھو جس طرف کا فاصلہ کم ہو اسے اس بستی کے رہنے
والوں کے حساب میں ڈال دو۔ اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس بستی کو (جہاں وہ توبہ
کرنے جا رہا تھا) ایک بالشت لاش سے زیادہ قریب پایا اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
ان آیات و حدیث سے معلوم ہوا کے بندہ کتنے ہی گناہ کیوں نہ
کرلے اگر اپنے رب سے توبہ واستغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا اور
اسے بخش دے گا۔
محمد مدثر
رضوی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)

استغفار کی تعریف: اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوتے ہوئے اللہ
پاک سے معافی طلب کرنا استغفار کہلاتا ہے۔
استغفارسے پریشانیاں دور ہوتی ہیں: حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم
کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا
فرمائے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ
ہوگا۔(ابن ماجہ، صفحہ 257، حدیث: 3819)
اعمال نامہ میں خوشی کا سبب:حضرت سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہےکہ
اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہیے کہ نامہ اعمال میں استغفار کا اضافہ
کرے۔(معجم اوسط، صفحہ 245، حدیث 839)
استغفار کرنے والے
کے لئے خوشخبری:
حضرت عبدالله بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے
شہنشاہ مدینہ قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا
کہ خوشخبری ہے اس کے لئے جو اپنے اعمال میں استغفار کو کثرت سے دیکھے۔(مراٰۃ
المناجیح، جلد3، حدیث:2356)
استغفار دل کے زنگ کو دور کرنے کا سبب:ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: گناہ مومن کے دل میں کالا داغ پیدا کرتا ہے اور اس کے لئے توبہ
و استغفار ایسی ہے جیسے زنگ آلود لوہے کے لئے صیقل۔(تفسیر نعیمی، جلد 3، صفحہ 306)
استغفار کے سبب گناہ معاف: ترمذی شریف میں ہے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اے بندے اگر تیرے
گناہ بادل تک پہنچ جائیں پھر تو استغفار کرے تو میں بخش دوں گا اور کوئی پرواہ نہ
کروں گا۔(تفسیر نعیمی، جلد 3، صفحہ 306)
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھئے کہ استغفار کے کس قدر فضائل و
برکات ہیں اس لئے ہمیں کثرت سے استغفار کرنا چاہئے۔ بعض روایات میں ہے کہ ہمارے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے تو سوچئےہمیں
کتنا استغفار کرنا چاہئے۔اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

انسان میں شر کی دوطاقتیں ہوتی ہیں، ایک انسانی نفس جو
اندرونی طاقت ہے اور دوسرا شیطان جو کہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو
گناہوں کی طرف راغب کرتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ
کچھ غلطیاں اور گناہ صادر ہوجاتے ہیں،کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سوائے انبیائے
کرام علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا، وہ
ان دونوں شر کی طاقتوں سے محفوظ ہوتے ہیں، انہیں جو نفس عطا کیاجاتا ہے، وہ نفس
مطمئنہ ہوتا ہے، حالت نوم میں بھی ان کا دل بیدار رہتا ہے، اور ان کا مزاح بھی
اتنا پاکیزہ ہوتا ہے کہ حق کے دائرے سے باہر نہیں ہوسکتا۔
توبہ و استغفار کی فضیلت:انسان چونکہ خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤں کےازالے کے لیے
قرآن کریم میں راہنمائی کی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک سورۂ آل عمران میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً
اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا
لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ
یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی
جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون بخشے
سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:135)
اس آیت میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد
ہوجائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ کو یاد کرے،ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں،یہ لوگ
گناہ کے بعد فوراً توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں، اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں،
گناہوں پر جمتے نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور دخول جنت سے نوازے گا۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت انس رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے کہا: اے
میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں
گی اور وہ زندہ رہیں گے، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری
عزت وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے،میں مسلسل ان کو
بخشتا رہوں گا۔
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم شمار کیا
کرتے تھے کہ حضورنبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک مجلس کے اندرسو سو
مرتبہ یہ کلمہ دہراتے تھے۔اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک
تو توبہ قبول کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔(سنن ابو داؤد، رقم: 1516)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز سے فارغ ہوتے تو (پہلے) تین مرتبہ استغفار کرتے
اور (پھر) یہ دعا پڑھتے: اللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ
تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِكْرَامِ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی قسم! میں دن میں ستر بار سے
زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا اور توبہ کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ رب
العزت اپنے نیک بندوں کا جنت میں مرتبہ بڑھائے گا۔ انسان کہے گا کہ اے میرے
پروردگار! یہ درجہ مجھے کیسے نصیب ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تیرا لڑکا تیرے
لئے استغفار کرتا رہا ہے۔اس لئے تجھے یہ بلند درجہ نصیب ہوا۔(مسند امام احمد)
آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ ابلیس
نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قسم کھا کر کہا کہ میں تیرے بندوں کو اس وقت تک
گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا جب تک ان کے جسم میں روح ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے
جلال اور عزت کی قسم کھا کر فرمایا۔جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں
بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد)
ان احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم المعصومین ہونے کے باوجود امت کو ترغیب دلانے
کے لیے دن میں کئی مرتبہ استغفار کا اہتمام فرمایا کرتے،اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم بھی زیادہ سے زیادہ استغفار کیا کریں اور اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی
طلب کریں۔اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
سید
محمد زید رفیق بخاری عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی،
پاکستان)
.jpg)
قرآن پاک لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ
قرآن پاک کا اسلوب ایسا رکھا گیا ہے جو لوگوں کی سمجھ کے زیادہ قریب ہے اور آسان
ہے، قرآن کریم میں جہاں اللہ کی وحدانیت اور رسالت کو قیامت کا بیان ہے اسی طرح
انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔حکمت
کا تقاضا ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان ہو تو وہ مختلف نصیحتوں سے آراستہ ہو، اللہ کریم
حکیم ہے اور حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، قرآن مجید میں حضرت آدم
علیہ السّلام کا مقدس نام پندرہ(15) مقامات پر آیا ہے اور آپ کی تخلیق کے واقعہ کو
بھی ایک سے زیادہ بار بیان کیا گیا ہے جس میں کئی نصیحتیں موجود ہیں جن میں سے ہم
پانچ ذکر کریں گے۔
تخلیق
آدم علیہ السّلام سے پہلے خالقِ کائنات کا فرشتوں سے مشورہ: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ قَالَ
رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)
اللہ کریم بے نیاز ہونے کے باوجود فرشتوں سے مشورہ فرما
رہا ہے! جس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی اہم کام کیا جائے تو اپنے ما
تحتوں سے مشورہ کر لینا چاہیے، تاکہ ان کے دلوں میں کوئی خلش باقی نہ رہے۔اور
مشورہ کرنا تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے، اللہ پاک
فرماتا ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(پ4، آل عمران: 159)
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ جب کوئی کام کریں تو مشورہ کر کے
کریں سنت کی نیت ہوگی تو ثواب بھی ملے گا اِن شآءَ اللہ۔
اپنی
عقل کو شریعت کا تابع بنائیں: قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ
الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ
اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس
میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری
پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)
یاد رہے! فرشتے نوری مخلوق ہیں اور معصوم ہیں ان کا یہ
کلام کرنا اللہ کی بارگاہ میں اعتراض نہیں بلکہ حکمت کو معلوم کرنا تھا مگر خالقِ
کائنات نے ارشاد فرمایا کہ تم وہ چیز دیکھ رہے ہو جس کی وجہ سے انسان فساد کرے گا
مگر انسان کو خلیفہ بنانے میں میری بہت سی حکمتیں ہیں، انہیں میں انبیاء، صدیقین و
صالحین ہوں گے جنہیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
اس آیت سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی
عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہیے بلکہ عقل کو شریعت کا تابع بنانا چاہیے کیونکہ کئی
بار بظاہر کسی چیز کو عقل اچھا نہیں سمجھ رہی ہوتی مگر درحقیقت اس چیز میں کہیں اچھائیاں
موجود ہوتی ہیں جس تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہوتی جیسے قصاص کے معاملے میں اللہ
کریم نے عقل والوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَ(۱۷۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی
ہے اے عقلمندو کہ تم کہیں بچو۔(پ2، البقرۃ:179)
انسان کی افضلیت کا مدار:وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے علم کی اہمیت معلوم
ہوتی ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جو علم میں زیادہ ہے وہ افضل ہے اللہ کریم ایک
اور مقام پر ارشاد فرمایا: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی
الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔(پ23،
الزمر:9)
آج ہر شخص career planning کے نشہ میں مست ہے کسی کو doctor بننا ہے تو کسی کو engineer مگر ہمیں علم دین بھی حاصل کرنا چاہیے! اور ہمارے گھر میں کم از
کم ایک عالم دین ضرور ہونا چاہیے بالخصوص ان والدین کو سوچنا چاہیے کہ اللہ کریم
نے جنہیں 3، 4، 5 بیٹوں یا بیٹیوں سے نوازا ہے کیوں نہ ایک بچہ اس کے دین سیکھنے
پر لگا دیں۔
تکبر
انسان کی بربادی کا باعث ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ
كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
شیطان اپنے علم کی وجہ سے ترقی کرتے کرتے فرشتوں کا استاد
بن چکا تھا، مگر جب اس نے اللہ کی بارگاہ میں تکبر کیا کہ جب اللہ نے اس سے پوچھا
کہ تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب میں نے تجھے حکم دیا؟ تو اس بدبخت نے کہا
اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ میں اس سے بہتر ہوں! تو اس
کو جو قرب الٰہی حاصل تھا،وہ چھن گیا اور اللہ پاک کی بارگاہ سے کافر و مردود ہو کر
نکال دیا گیا، اسے اس کی عبادت نہ بچا سکی۔پتا چلا تکبر انسان کو برباد کردیتا ہے
اسی لیے ہمیں تکبر نہیں کرنا چاہیے بلکہ عاجزی و انکساری کرنی چاہیے اللہ کے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے تواضع(عاجزی و
انکساری)کی تو اللہ اسے بلندیاں عطا فرمائے گا۔(مشکاۃ،حدیث511)
شیطان
لعین سے مقابلہ کیسے کیا جائے: یٰبَنِیْۤ
اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ
الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ
یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اے
آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے
نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں بے شک وہ اور
اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27)
اس واقعے میں اللہ کریم نے ابن آدم کو متنبہ فرمایا کہ تم
شیطان سے غافل نہ رہنا وہ تمہارا دشمن ہے اور تمہیں وہاں سے دیکھ رہا ہے جہاں سے
تم اسے نہیں دیکھتے لہٰذا اپنے دشمن سے خبردار رہو۔
امام محمد غزالی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صوفیاءِ کرام کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے
مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں: (1) شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے اللہ پاک کی
پناہ لی جائے کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ نے تم پر مسلط کر دیا ہے
لہٰذا اس کے مالک کی طرف متوجہ ہو۔(2)شیطان سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار
رہو۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص55، 56 ملخصاً)
قرآن کریم میں سات سورتوں میں آدم علیہ السّلام کا واقعہ
ذکر کیا گیا ہے؛ ہم نے ان واقعات میں سے چند مقامات کو ذکر کیا ہے اور ان سے حاصل
ہونے والی کچھ نصیحتوں کو بھی ذکر کر دیا ہے آدم علیہ السّلام اور شیطان لعین کا
تفصیل سے واقعہ اگر پڑھنا چاہیں تو اس کے لیے مفتی اہل سنت مولانا مفتی محمد قاسم
عطاری دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب سیرت الانبیاء کا مطالعہ فرمائیں، اور اسی طرح
حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب عجائب القرآن و غرائب
القرآن میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اپنے تمام نیک و جائز کام میں باہمی مشورہ
کرنے کی توفیق عطا فرما۔اور ہمیں اپنی عقل کو شریعت کے تابع بنانے کی سعادت عطا
فرما۔اور علم دین حاصل کرنے کا جذبہ عطا فرما۔ہمیں تکبر جیسی بری بلا سے محفوظ
فرما، عاجزی اور انکساری عطا فرما۔شیطان مردود سے ہماری حفاظت فرما ہمیں اس سے
مقابلہ کرنے کی طاقت و قوت عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
مدثر
علی (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)

قرآن پاک اللہ پاک کی انمول اور نایاب کتاب ہے جس میں ہر چیز
کا علم ہے اس میں انبیاء کرام کے واقعات اور ان کی نصیحتیں ذکر کی گئیں ہیں انہی
ہستیوں میں سے ایک ہستی حضرت آدم علیہ السّلام ہیں جن کے واقعات قرآن پاک میں
موجود ہیں ان کے واقعات سے بہت سی نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں ان نصیحتوں میں سے کچھ نصیحتیں
ملاحظہ فرمائیں:
(1)جھوٹی قسم نہ کھانا: اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:وَ
قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّیْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَۙ(۲۱)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ان سے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔(پ8،الاعراف:21)
اس آیت کے تحت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر
نعیمی میں فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے رب کے نام کی جھوٹی قسم کھانے والا ابلیس ہے
جھوٹی قسمیں کھانے والا ابلیس کے طریقے پر عمل کرتا ہے۔(تفسیر نعیمی، ج8ص385)
(2)ہر شخص پر اعتبار نہ کرو:اسی آیت کے تحت ہی مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ہر چکنی چپڑی
باتیں کرنے والے پر اعتبار نہ کرو ہر شخص جو بغل میں قرآن دبائے پھرے بات بات پر آیتیں
پڑھے ہر بات میں قرآن کا سہارا لے اس کے فریب میں نہ آجاؤ ایسے لوگ قرآن کو اپنے
شکار کے جال کے طور پر استعمال کرتےہیں ہر چمکتی چیزسونا نہیں ابلیس مردود نے اللہ
پاک کے نام سے ہی ان دونوں بزرگوں کو دھوکا دیا۔ (تفسیر نعیمی، ج8ص385)
(3)ہمیشہ دوست اور دشمن کی پہچان رکھنا:اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ اَقُلْ
لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(پ8،الاعراف:22)
اس آیت کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ
اپنے دوست دشمن کی پہچان رکھنی چاہیے کہ اس میں کامیابی ہے حضرت آدم علیہ السّلام
صرف ایک بار اپنے دشمن کی دشمنی نہ پہچان سکے اور مشقت میں پڑ گئے۔(تفسیر نعیمی ج8
ص392)
(4) اللہ اور اس کے رسول کی شریعت اور ان کے
رستے کے مطابق چلنا: الله عزوجل نے قرآن پاک میں
ارشاد فرمایا: فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ
لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا
اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو
مشقت میں پڑے۔(پ16، طہ:117)
اس آیت کے تحت مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ جو کام اللہ اور اس
کےرسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے راستےپر چل کر اور شریعت کے
سمجھائے ہوئے طریقے کے مطابق کیا جائے اس میں ہمیشہ دین و دنیا کی سعادتیں ہی ملتی
ہیں اور اگر وہی کام اللہ تعالیٰ کے عہد اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے وعدے اور شریعت کہ رستے سے ہٹ کر کیا جائے اور ابلیس کے وسوسےمیں آکر اس
کا کہا مان کر کیا جائے تو اگرچہ جنت کےاعلیٰ و بالا مقام پر ہو اس کو اخروی دنیوی
شکاوتیں اور مشقتیں ہی ملیں گی۔(تفسیر نعیمی، جلد نمبر 16ص 696)
(5)کھانے اور پینے میں احتیاط کرنا:اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا ترجمۂ کنز الایمان: تو ان دونوں نے اس میں سے کھالیا اب ان پر ان کی شرم کی
چیزیں ظاہر ہوئیں۔(پ16، طہ:121)
اس آیت کے تحت مفتی صاحب نے فرمایا: انسان کی سب سے بڑی
کمزوری کھانے پہنے میں ہے اورابلیس و شیاطین کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا وسوسہ
کھانے کے ذریعے ہی چلا ہر مسلمان کو کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنی چاہیے ہزارہا
دینی دنیوی خرابیاں کھانے کی بے احتیاطوں کی وجہ سےہوتی ہیں۔(تفسیر نعیمی، جلد
نمبر 16ص 713)
اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔
عبدالرحمن عطاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
.jpg)
یقیناً انبیاء کرام علیہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لیے
کئی سبق آموز باتیں اور نصیحتیں ہیں، جن سے ہمیں کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور
ہماری اصلاح کا باعث بھی ہے اسی نیت سے آج واقعہ حضرت آدم علیہ السلام سے حاصل
ہونے والی نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں۔
حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال:اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم
دیا تو فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم
علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا،
اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔جیسا کہ قرآن پاک
میں ہے:قَالَ مَا
مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ
مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے
سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے
بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔ (پ8، الاعراف:12)
اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے
بغیر تسلیم کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی
فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور
مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
تکبر کی مذمت: ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔ (پ1، البقرۃ:34 )
حدیث پاک میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور
دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے
دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اور متکبروں کو قیامت کے دن
لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔(مسلم، کتاب الايمان، باب تحريم الكبر وبيانہ، ص61، حدیث:
265)
انبیاء کرام کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت وریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار تھا اس کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے،سورۃ الحجر میں ہے:قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا
فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى
یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا
تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت
تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)
تخلیقات الٰہی میں خلاف شرع تبدیلیوں کا شرعی
حکم:اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف شرع تبدیلیاں
حرام ہیں اور ان سے بچنا لازم ہے جیسے لڑکیوں کا ابرووں کے بالوں کو خوبصورتی کے
لئے باریک کرنا، چہرے وغیرہ پر سوئیوں کےذریعے تل یا کوئی نشان ڈالنا، مرد یا عورت
کا بدن پر ٹیٹو بنوانا، مختلف خوشی وغیرہ کے مواقع پر چہرے کو مختلف رنگوں سے
بگاڑنا، لڑکوں کا اپنے کان چھید نا، لڑکیوں کا سر کے بال لڑکوں جیسے چھوٹے چھوٹے
کاٹنا اور مرد کا داڑھی منڈانا۔
لمبی امیدوں سے نجات کا طریقہ:شیطان مردود کا بہت بڑا ہتھیار لمبی امیدیں دلانا ہے
چنانچہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے
غافل، تو بہ سے دور اور گناہوں میں مشغول رکھتا ہے، حتی کہ اس غفلت میں اچانک موت
آجاتی ہے اور گناہوں سے تو بہ اور نیکی کرنے کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی
ہے۔اس کا حل موت،قبر اور آخرت کی یاد ہے۔
ہر
سال کی طرح اس سال بھی مکتبۃ المدینہ رمضان سحر و افطار کے کلینڈر کارڈ آرڈر پربنا
رہا ہے

ماہ
رجب کے آتے ہی رمضان المبارک کی آمد آمد کی خوشی کے لمحات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ہر
سال کی طرح اس سال بھی پرئیر ٹائمنگ ڈیپارٹمنٹ دعوت اسلامی کے تعاون سے آپ کا مکتبۃ المدینہ رمضان سحر و
افطار کے کلینڈر کارڈ آپ کے لئے آرڈر پربنا رہا ہے جس کے ذریعے آپ اپنے
مرحومین کے ایصال ثواب اور اپنے کاروبار کی تشہیر کے لئے نام وغیرہ بھی پرنٹ کروا
سکتے ہیں۔
نوٹ: 100
رمضان کیلنڈر پرنٹ کروانے پر پر کارڈ ریٹ 30 روپے ، 300 چھپوانے پر پر کارڈ ریٹ کے 25 روپے اور 500 پرنٹ کروانے کے پر کارڈ ریٹ 22 روپے ہونگے۔ اور رمضان کارڈ
500 بنوانے پر ریٹیل 15 روپے ہوگی اور یہ 2 فولڈنگ والا ہوگا۔
واضح رہئے کہ !رمضان کارڈ
اور کیلنڈر کے آرڈرز کی آخری تاریخ 27 جنوری/ 15 رجب ہے اس کے بعد آرڈر نہیں لئے
جائینگے۔پھر دیر کس بات کی!!! اپنے آرڈر زجلد
اپنے قریبی مکتبۃ المدینہ پر دیں یا پھر
ان نمبرز پر رابطہ فرمائیں۔
0313-1139278
0311-0074490
.jpg)
12
جنوری 2024ء بروز جمعۃ المبارک عالمی مدنی
مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں رجب المرجب
1445ھ کا چاند دیکھنے کے لئے ایک نشست کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر شعبہ اوقات الصلوٰۃ کے اراکین اور تخصص فی التوقیت کے طلبہ نے دوربین (Telescope) کی مدد سے چاند کی رؤیت کا
اہتمام کیا ۔ (
کانٹینٹ :رمضان رضا عطاری)

9جنوری
2024ء کو دعوت اسلامی کے تحت ڈسٹرکٹ گوجرانوالہ میں احکام مسجدکورس ہواجس میں
علاقے سے امام صاحبان اور ذمہ دار اسلامی
بھائیوں نے شرکت کی ۔
رکن
شوریٰ مولانا عقیل مدنی عطاری نے کورس میں شریک اسلامی بھائیوں
کو امامت کے شرعی اور اہم مسائل کے متعلق تربیت کی جس میں امامت کی ذمہ داریاں بہتر انداز میں پوری
کرنے نیز شرعی تقاضوں کو پورا کرنے کے حوالے سے ذہن سازی کی۔
مزید
رکنِ شوریٰ نے کورس میں شامل عاشقانِ رسول کو اپنی
مساجد میں12دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنےکی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے
اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: ڈسٹرکٹ نگران مولانا خوشی عطاری مدنی
گوجرانوالہ ،کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری )

ڈسٹرکٹ
گوجرانوالہ میں9جنوری 2024ء بروزمنگل دعوتِ
اسلامی کے شعبہ مدنی قافلہ کے زیرِ اہتمام مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی ذمہ د اران نے شرکت کی۔
ڈسٹرکٹ
نگران مولاناخوشی محمد عطاری مدنی نے اسلامی بھائیوں کو 3دن،12دن اور1ماہ کے
مدنی قافلوں میں سفر پرلے جانے کے حوالے
سے نکات بتائے جس پر اسلامی بھائیوں نے
عمل کرنے کی اچھی نیت کاا ظہار کیا۔(کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری مدنی )

شعبہ
ائمہ مساجد دعوت اسلامی کے تحت 5جنوری2024
ءجمعۃ المبارک کے دن پنجاب کے شہرسرگودھا کے علاقے 50چک کی جامع مسجد محمدیہ غوثیہ میں احکام مسجد کورس
منعقد کیاگیا۔
اس کورس میں شعبہ ائمہ مساجد کےڈویژن ،
ڈسٹرکٹ ذمہ داران سمیت امام صاحب ،مسجد
انتظامیہ کے افراد اور ذمہ داران دعوت
اسلامی نے شرکت کی ۔
رکنِ
شوریٰ مولانا حاجی
محمد عقیل مدنی عطاری نے مسجد انتظامیہ و امام صاحبان کو مسجد، عمارت مسجد، چندہ،وقف کے بنیادی وضروری
احکام سمجھائے اور شرعی احکامات کی تربیت کرکے نمازیوں کو عمل کروانے کی ترغیب دلائی نیز جن کاموں کو مسجد میں کرنا شرعاً منع ہے ان
سے عوام کو بچانے،حکمت عملی سے سمجھانے کا طریقہ بتایا ۔
رکنِ
شوریٰ نےمسجد میں بنیادی سہولیات کو اچھا کرنےاور مسجد کی آبادکاری کے لئے ہر
ممکن اقدامات کو فراہم کرنے کی ترغیب دلائی نیز شریعت کے مطابق مسجد میں عبادات اور معاملات کی
بجاآوری کرنے کا ذہن دیا ۔
مزید بنیادی فرض علوم سیکھنے کے لئے دعوت اسلامی سے
وابستہ رہ کر ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے، ہر ماہ 3دن کے مدنی قافلوں میں سفر
کرنے کے ساتھ ساتھ وقت نکال کر 7دن کا فیضانِ نماز کورس، امامت کورس اور تربیتی
کورس کرنے کا ذہن دیا۔(رپورٹ:مولانا عابد مدنی عطاری شعبہ
ائمہ مساجد ،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری مدنی )