سید
محمد زید رفیق بخاری عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی،
پاکستان)
قرآن پاک لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ
قرآن پاک کا اسلوب ایسا رکھا گیا ہے جو لوگوں کی سمجھ کے زیادہ قریب ہے اور آسان
ہے، قرآن کریم میں جہاں اللہ کی وحدانیت اور رسالت کو قیامت کا بیان ہے اسی طرح
انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔حکمت
کا تقاضا ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان ہو تو وہ مختلف نصیحتوں سے آراستہ ہو، اللہ کریم
حکیم ہے اور حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، قرآن مجید میں حضرت آدم
علیہ السّلام کا مقدس نام پندرہ(15) مقامات پر آیا ہے اور آپ کی تخلیق کے واقعہ کو
بھی ایک سے زیادہ بار بیان کیا گیا ہے جس میں کئی نصیحتیں موجود ہیں جن میں سے ہم
پانچ ذکر کریں گے۔
تخلیق
آدم علیہ السّلام سے پہلے خالقِ کائنات کا فرشتوں سے مشورہ: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ قَالَ
رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)
اللہ کریم بے نیاز ہونے کے باوجود فرشتوں سے مشورہ فرما
رہا ہے! جس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی اہم کام کیا جائے تو اپنے ما
تحتوں سے مشورہ کر لینا چاہیے، تاکہ ان کے دلوں میں کوئی خلش باقی نہ رہے۔اور
مشورہ کرنا تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہے، اللہ پاک
فرماتا ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(پ4، آل عمران: 159)
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ جب کوئی کام کریں تو مشورہ کر کے
کریں سنت کی نیت ہوگی تو ثواب بھی ملے گا اِن شآءَ اللہ۔
اپنی
عقل کو شریعت کا تابع بنائیں: قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ
الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ
اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس
میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری
پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)
یاد رہے! فرشتے نوری مخلوق ہیں اور معصوم ہیں ان کا یہ
کلام کرنا اللہ کی بارگاہ میں اعتراض نہیں بلکہ حکمت کو معلوم کرنا تھا مگر خالقِ
کائنات نے ارشاد فرمایا کہ تم وہ چیز دیکھ رہے ہو جس کی وجہ سے انسان فساد کرے گا
مگر انسان کو خلیفہ بنانے میں میری بہت سی حکمتیں ہیں، انہیں میں انبیاء، صدیقین و
صالحین ہوں گے جنہیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔
اس آیت سے اشارۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنی
عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے چاہیے بلکہ عقل کو شریعت کا تابع بنانا چاہیے کیونکہ کئی
بار بظاہر کسی چیز کو عقل اچھا نہیں سمجھ رہی ہوتی مگر درحقیقت اس چیز میں کہیں اچھائیاں
موجود ہوتی ہیں جس تک ہماری عقل کی رسائی نہیں ہوتی جیسے قصاص کے معاملے میں اللہ
کریم نے عقل والوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ
تَتَّقُوْنَ(۱۷۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی
ہے اے عقلمندو کہ تم کہیں بچو۔(پ2، البقرۃ:179)
انسان کی افضلیت کا مدار:وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے علم کی اہمیت معلوم
ہوتی ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جو علم میں زیادہ ہے وہ افضل ہے اللہ کریم ایک
اور مقام پر ارشاد فرمایا: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی
الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔(پ23،
الزمر:9)
آج ہر شخص career planning کے نشہ میں مست ہے کسی کو doctor بننا ہے تو کسی کو engineer مگر ہمیں علم دین بھی حاصل کرنا چاہیے! اور ہمارے گھر میں کم از
کم ایک عالم دین ضرور ہونا چاہیے بالخصوص ان والدین کو سوچنا چاہیے کہ اللہ کریم
نے جنہیں 3، 4، 5 بیٹوں یا بیٹیوں سے نوازا ہے کیوں نہ ایک بچہ اس کے دین سیکھنے
پر لگا دیں۔
تکبر
انسان کی بربادی کا باعث ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ
كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
شیطان اپنے علم کی وجہ سے ترقی کرتے کرتے فرشتوں کا استاد
بن چکا تھا، مگر جب اس نے اللہ کی بارگاہ میں تکبر کیا کہ جب اللہ نے اس سے پوچھا
کہ تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جب میں نے تجھے حکم دیا؟ تو اس بدبخت نے کہا
اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ میں اس سے بہتر ہوں! تو اس
کو جو قرب الٰہی حاصل تھا،وہ چھن گیا اور اللہ پاک کی بارگاہ سے کافر و مردود ہو کر
نکال دیا گیا، اسے اس کی عبادت نہ بچا سکی۔پتا چلا تکبر انسان کو برباد کردیتا ہے
اسی لیے ہمیں تکبر نہیں کرنا چاہیے بلکہ عاجزی و انکساری کرنی چاہیے اللہ کے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے تواضع(عاجزی و
انکساری)کی تو اللہ اسے بلندیاں عطا فرمائے گا۔(مشکاۃ،حدیث511)
شیطان
لعین سے مقابلہ کیسے کیا جائے: یٰبَنِیْۤ
اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ
الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ
یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اے
آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے
نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں بے شک وہ اور
اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27)
اس واقعے میں اللہ کریم نے ابن آدم کو متنبہ فرمایا کہ تم
شیطان سے غافل نہ رہنا وہ تمہارا دشمن ہے اور تمہیں وہاں سے دیکھ رہا ہے جہاں سے
تم اسے نہیں دیکھتے لہٰذا اپنے دشمن سے خبردار رہو۔
امام محمد غزالی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صوفیاءِ کرام کے نزدیک شیطان سے جنگ کرنے اور اسے
مغلوب کرنے کے دو طریقے ہیں: (1) شیطان کے مکر و فریب سے بچنے کے لیے اللہ پاک کی
پناہ لی جائے کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے اللہ نے تم پر مسلط کر دیا ہے
لہٰذا اس کے مالک کی طرف متوجہ ہو۔(2)شیطان سے مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار
رہو۔ (منہاج العابدین، العقبۃ الثالثۃ، العائق الثالث: الشیطان، ص55، 56 ملخصاً)
قرآن کریم میں سات سورتوں میں آدم علیہ السّلام کا واقعہ
ذکر کیا گیا ہے؛ ہم نے ان واقعات میں سے چند مقامات کو ذکر کیا ہے اور ان سے حاصل
ہونے والی کچھ نصیحتوں کو بھی ذکر کر دیا ہے آدم علیہ السّلام اور شیطان لعین کا
تفصیل سے واقعہ اگر پڑھنا چاہیں تو اس کے لیے مفتی اہل سنت مولانا مفتی محمد قاسم
عطاری دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب سیرت الانبیاء کا مطالعہ فرمائیں، اور اسی طرح
حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب عجائب القرآن و غرائب
القرآن میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اپنے تمام نیک و جائز کام میں باہمی مشورہ
کرنے کی توفیق عطا فرما۔اور ہمیں اپنی عقل کو شریعت کے تابع بنانے کی سعادت عطا
فرما۔اور علم دین حاصل کرنے کا جذبہ عطا فرما۔ہمیں تکبر جیسی بری بلا سے محفوظ
فرما، عاجزی اور انکساری عطا فرما۔شیطان مردود سے ہماری حفاظت فرما ہمیں اس سے
مقابلہ کرنے کی طاقت و قوت عطا فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔