عبدالرحمن عطاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
یقیناً انبیاء کرام علیہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لیے
کئی سبق آموز باتیں اور نصیحتیں ہیں، جن سے ہمیں کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور
ہماری اصلاح کا باعث بھی ہے اسی نیت سے آج واقعہ حضرت آدم علیہ السلام سے حاصل
ہونے والی نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں۔
حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال:اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم
دیا تو فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم
علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا،
اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔جیسا کہ قرآن پاک
میں ہے:قَالَ مَا
مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَؕ-قَالَ اَنَا خَیْرٌ
مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے
سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے
بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔ (پ8، الاعراف:12)
اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے
بغیر تسلیم کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی
فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور
مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔
تکبر کی مذمت: ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔ (پ1، البقرۃ:34 )
حدیث پاک میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور
دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے
دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اور متکبروں کو قیامت کے دن
لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔(مسلم، کتاب الايمان، باب تحريم الكبر وبيانہ، ص61، حدیث:
265)
انبیاء کرام کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت وریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار تھا اس کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے،سورۃ الحجر میں ہے:قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا
فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى
یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا
تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت
تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)
تخلیقات الٰہی میں خلاف شرع تبدیلیوں کا شرعی
حکم:اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف شرع تبدیلیاں
حرام ہیں اور ان سے بچنا لازم ہے جیسے لڑکیوں کا ابرووں کے بالوں کو خوبصورتی کے
لئے باریک کرنا، چہرے وغیرہ پر سوئیوں کےذریعے تل یا کوئی نشان ڈالنا، مرد یا عورت
کا بدن پر ٹیٹو بنوانا، مختلف خوشی وغیرہ کے مواقع پر چہرے کو مختلف رنگوں سے
بگاڑنا، لڑکوں کا اپنے کان چھید نا، لڑکیوں کا سر کے بال لڑکوں جیسے چھوٹے چھوٹے
کاٹنا اور مرد کا داڑھی منڈانا۔
لمبی امیدوں سے نجات کا طریقہ:شیطان مردود کا بہت بڑا ہتھیار لمبی امیدیں دلانا ہے
چنانچہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے
غافل، تو بہ سے دور اور گناہوں میں مشغول رکھتا ہے، حتی کہ اس غفلت میں اچانک موت
آجاتی ہے اور گناہوں سے تو بہ اور نیکی کرنے کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی
ہے۔اس کا حل موت،قبر اور آخرت کی یاد ہے۔