اشتیاق
احمد عطّاری(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں انبیاء کرام اور ان کی
قوموں کے بارے میں ذکر فرمایا ہے، جس سے ہمیں بہت سی نصیحتیں اور عبرتیں حاصل ہوتی
ہیں اسی طرح الله پاک نے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السّلام کا بھی قرآن مجید میں ذکر
فرمایا اور حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعات قرآن مجید میں ذکر فرمائے ان واقعات
سے بھی ہمیں بہت سی نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں۔انہی نصیحتوں میں سے چند نصیحتیں آپ بھی
ملاحظہ فرمائیے۔
شیطان
کی دشمنی کی وجہ:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ
لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ
اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ
لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان:تو
ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ
تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ
نہ تو بھوکا ہو نہ ننگا ہو۔اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دھوپ۔(پ16،طہ:117تا
119)
جب ابلیس نے حضرت
آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام و واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے
لگا یہ حسداس کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جیسے کسی سے حسد ہو تو
وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنا چاہتا
ہے۔
حضرت آدم علیہ السّلام کے عمل سے مسلمانوں کے
لیے تربیت:رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)
حضرت آدم عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لئے
یہ تربیت ہے کہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ا س کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے
مغفرت و رحمت کا انتہائی لَجاجَت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا گناہ
بخش دے اور ان پر اپنا رحم فرمائے۔ (پ8، الاعراف: 23)
شیطان کے وار سے بچنے کا نسخہ: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا
یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ
یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ
وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا
تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں
نظر پڑیں بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔(پ8،الاعراف:27)
شیطان کے مکرو فریب سے بچنے کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی
پناہ لی جائے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کیونکہ شیطان ایک ایسا کتا ہے جسے
اللہ تعالیٰ نے تم پر مُسلَّط فرمادیا ہے، اگر تم ا س سے مقابلہ و جنگ کرنے اور
اسے (خود سے) دور کرنے میں مشغول ہوگئے تو تم تنگ آ جاؤ گے اور تمہارا قیمتی وقت
ضائع ہو جائے گا اور بالآخر وہ تم پر غالب آ جائے گا اور تمہیں زخمی و ناکارہ بنا
دے گا ا س لئے اس کے مالک ہی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اور اسی کی پناہ لینی ہو گی
تاکہ وہ شیطان کو تم سے دور کر دے اور یہ تمہارے لئے شیطان کے ساتھ جنگ اور مقابلہ
کرنے سے بہتر ہے۔
بیوی
اور شوہر بھی ایک دوسرے کا ستر نہ دیکھیں:فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍۚ-فَلَمَّا
ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ علیہمَا
مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِؕ-وَ نَادٰىهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمْ اَنْهَكُمَا عَنْ تِلْكُمَا
الشَّجَرَةِ وَ اَقُلْ لَّكُمَاۤ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۲)
ترجَمۂ کنزُالایمان:تو اُتار لایا انہیں فریب سےپھر جب
اُنہوں نے وہ پیڑ چکھا ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں اور اپنے بدن پر جنت کے
پتے چپٹانے لگے اور اُنہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ
کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(پ8، الاعراف:22)
بہتر یہ ہے کہ خاوند اور بیوی بھی ایک دوسرے کے سامنے ننگے
نہ رہیں ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھیں۔ یہ نصیحت (وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ) الخ سے حاصل ہوئی دیکھو اس وقت کوئی ان دونوں کو ننگا نہیں دیکھ رہا تھا مگر
انہوں نے ستر چھپانے کی کوشش کی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شیطان کے مکرو فریب اور حسد کرنے سے
بچنے اور اس سے حاصل ہونے والی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم