اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی انبیائے کرام بھیجےجن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ذکر کیا ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے اُس سے پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)غرور نہ کرنا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔ (پ1،البقرۃ:34)

شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے غرور نے روکا لہٰذا ہمیں غرور و تکبر بالکل نہیں کرنا چاہیے۔

(2) توبہ کرنا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ: 37)

حضرت آدم علیہ السّلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہیں دنیا میں بھیج دیا گیا حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)پھر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کی ہم سے بھی اگر غلطی سے کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے، بیشک اللہ پاک بڑا مہربان ہے۔

(3) فضیلت علم: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔لہٰذا ہمیں بھی علم حاصل کرنے میں مصروف ہو جانا چاہیے۔

(4)اللہ پاک کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)

ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے جیسے شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور مردود ہوگیا لہٰذا ہمیں حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے۔

(5)انبیاء کرام کا حکم ماننا: اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔