ولید
احمد عطّاری(درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ کنزالایمان مزنگ لاہور، پاکستان)
.jpg)
پیارے اسلامی بھائیو! بے شک قرآن پاک تو نصیحتوں اور
واقعات سے بھرا پڑا ہے ان واقعات میں سے مشہور و معروف حضرت آدم علیہ السّلام کے
متعلق ذکر کردہ واقعہ بھی ہے اس میں سے کچھ نصیحتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1) افضلیت کی بنیاد: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ
اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام
کو سجدہ کرو اگر اس سے اوپر والی آیات دیکھی جائیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى
الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو تمام اشیاء کے
نام سکھائے۔جو کہ فرشتوں کو نہیں معلوم تھے۔پھر جب حضرت آدم (علیہ السّلام) نے انہیں
ان اشیاء کے نام بتا دیے حتی کہ تفسیر جلالین میں ہے کہ ان اشیاء کے نام اور حکمتیں
بھی بیان کردیں۔بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجده کرنے کا حکم دیا۔تمام
فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کیا۔حضرت آدم (علیہ السّلام) کا فضل و
شرف کس بنیاد پر تھا؟ یقینًا علم ہی کی بنیاد پر تھا۔یاد رکھیں! علم ایک ایسا وصف
ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کو عزت و شرف ملا۔اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء
علیہم السلام کو یہ وصف عطا کیا۔
(2) زوال کا اہم سبب: پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب فرشتوں کو سجدہ کرنے کا
حکم دیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ
مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص
معزّز روح پھونک لوں۔(پ14، الحجر:29)
اللہ تعالیٰ کا جیسے ہی حکم ہوا ویسے ہی تمام فرشتے سجدے میں
گر گئے جیسا کہ اس سے اگلے آیت میں ہے: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ
اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان:
تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے۔سوا ابلیس
کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔(پ14، الحجر:30، 31)
سب کے سب سجدے میں گرگئے سوائے ابلیس کےکہ اس نے انکار کر
دیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابلیس سے انکار کی وجہ پوچھی جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ
مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۲) قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ
لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳) ترجمۂ کنزالایمان:
فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا۔بولا مجھے زیبا نہیں
کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی۔(پ14،
الحجر:32، 33)
شیطان نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ خود کو افضل بتایا اور آدم
علیہ السّلام حقیر سمجھا اور تکبر کیا۔جو ابلیس کبھی فرشتوں کا سردار تھا اس کے
تکبر نے اسے مردود بنا دیا۔ جیسے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ
عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ
کنزُالایمان: فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ
پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)
صرف تکبر کی وجہ سے ابلیس کے عروج سے زوال تک کاسفر آپ نے
سماعت کیا۔یہ تو وہ تکبر کی مثال تھی جس کو دنیا کبھی نہ بھلا پائی اگر قرآن پاک
کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں کئی تکبر کی وعیدیں اور متکبر (تکبر کرنے
والوں) کے انجام کے متعلق آیات ملیں گیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر اور اس جیسی دیگر بیماریوں
سے شفاء عطا فرمائے۔
(3)حقیقی دشمن: پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے سنا کہ کس وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کو عزت
شرف ملا اور کس طرح ابلیس جو کہ فرشتوں کا سردار تھا اس کو مردود کر دیا گیا۔یہ سب
ہونے کے بعد ابلیس نے رب تعالیٰ سے کہا کہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو گمراہ کرتا
رہوں گا جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:قَالَ رَبِّ
بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ
اَجْمَعِیْنَۙ(۳۹)ترجَمۂ کنزُالایمان:بولا اے رب میرے قسم اس کی کہ تو نے
مجھے گمراہ کیا میں انہیں زمین میں بِھلاوے دوں گا اور ضرور میں ان سب کو بے راہ
کردوں گا۔(پ14، الحجر:39)
کیونکہ شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کی تعظیم نہ کرنے کی
وجہ سے مردود کیا گیا تھا اسی وجہ سے شیطان انسانوں کا دشمن ہو گیا اور اس نے قسم
کھائی کہ میں قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہوں گا۔اس کے بعد جب حضرت
آدم علیہ السلام کو حضرت حواء رضی اللہ عنہا کو جنت میں بھیجا گیا تو شیطان نے سب
سے پہلے رب تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السّلام کو گمراہ کرنے کی
کوشش کی۔کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی نے اللہ تعالیٰ کے جھوٹی قسم نہیں کھائی جس کی
وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَوَسْوَسَ
اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ
مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(۱۲۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا بولااے آدم
کیا میں تمہیں بتادوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اور وہ بادشاہی کہ پرانی نہ پڑے۔ (پ16،
طہ:120)
حضرت آدم علیہ السّلام نے اس کی بات مان لی جیسے کہ اگلی آیت
میں ہے: وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ترجمۂ کنز الایمان:
اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ
پائی۔ (پ16، طہ:121)
حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ابلیس کے حسد کرنے کی وجہ
سے ہوئی ابلیس یعنی شیطان اسی وجہ سے تمام مسلمانوں کا دشمن ہوا۔لہٰذا ہمیں ہمیشہ
ہوشیار رہنا چاہئے۔
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی
ہے
(4) عاجزی کی اہمیت: پیارے اسلامی بھائیو! جب آدم علیہ السّلام سے لغزش واقع ہوئی تو الله تعالیٰ
نے انہیں جنت سے نکال کر زمین میں بھیج دیا۔ کچھ عرصے بعد حضرت آدم علیہ السّلام
نے دعا مانگی جس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے:فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)
حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کیے: رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)جب حضرت آدم علیہ السّلام نے
عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور یہ دعائیہ کلمات عرض کیے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت
آدم علیہ السّلام کی عاجزی کے سبب توبہ قبول فرمالی۔اور اللہ تعالیٰ کو یہ عاجزی
بہت ہی پسند آئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد میں ایک لاکھ
چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے ۔
(5) گستاخی کی مذمّت:پیارے اسلامی بھائیو! حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی تو حضرت آدم علیہ
السّلام نے رب تعالیٰ کے سامنے عاجزی کر کے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ
السّلام کی توبہ کو قبول فرما لیا جبکہ اس کے برعکس ابلیس کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی
بنائی ہوئی مخلوق اور ایک پیغمبر علیہ السّلام کے حضور گستاخی کی اور اللہ تعالیٰ
کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو وہ مردود ہوا پھر بھی اس نے توبہ نہ کی بلکہ ہٹ
دھرمی کے ساتھ قائم رہا۔اب قیامت تک اس پر لعنت ہو گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے خاص بندوں کی بے ادبی سے بچائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
احمد
محسنی(درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)

اللہ پاک نے قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السّلام کا ذکر
فرمایا اور حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعات سے ہمیں کئی سبق آموز نصیحتیں حاصل
ہوتی ہیں، چند نصیحتیں درج ذیل ہیں:
(1)تکبر کی مذمّت:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ
كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ
بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر
کرنے سے بچے۔
(2)شیطان کی حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام سے دشمنی کی وجہ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ
لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا
دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔بیشک
تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بہوکا ہو نہ ننگا ہو۔اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس
لگے نہ دہوپ۔(پ16،طہ:117تا119)
آیت نمبر 117 میں شیطان کا حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کو سجدہ نہ کرنا آپ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ اس کی دشمنی کی
دلیل قرار دیا گیا ہے،یہاں اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے
حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ
ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد ا س کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ
جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا اور اس
کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
(3)سلب ایمان کا سبب: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ
فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں
جسے تو نے مٹی سے بنایا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:61)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تکبر اور حسد نے
ہی ابلیس کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل کر دیا۔
(4)بزرگوں کے وسیلے سے مانگنا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ: 37)
صراط الجنان میں اس کے تحت ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے،نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت
آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان
رہنے کے بعد)انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے محمد صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں معاف فرما دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم
نے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے
اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کی: اے اللہ
پاک! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا
تو میں نے عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ
لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو
تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے
سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تم اس کے وسیلے
سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم التی فی دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السّلام بحق
محمدصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،۳/۵۱۷، الحدیث:۴۲۸۶، معجم الاوسط، من اسمہ
محمد،۵/۳۶، الحدیث: ۶۵۰۲، دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء
فی تحدیث رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔۔۔الخ، ۶/۴۸۹)
اس روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ
سے،بَحق فلاں اور بَجاہ ِ فلاں کے الفاظ سے دعا مانگنا جائز اور حضرت آدم عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام کی سنت ہے۔
(5)مشورے کی اہمیت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ قَالَ
رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ
فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ
بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو
اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے
اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)
اس آیت میں حضرت آدم کی خلافت سے یہ سبق بھی ملتا ہے۔اس سے
اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا
جائے تاکہ اُس کام سے متعلق اُن کے ذہن میں کوئی بات ہو تو اُس کا حل ہو سکے یا
کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز میں ہو جائے۔ اللہ
تعالٰی نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(آل عمران: 159) اللہ پاک کو فرشتوں اور
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کی حاجت نہیں ہے لیکن
مشورہ کرنے کا فرمانا تعلیم اُمت کے لیے ہے تاکہ اُمت بھی اس سنت پر عمل کرے۔
محمد
شاہ زیب سلیم عطاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی
لاہور،پاکستان)
.jpg)
حضرت آدم علیہ السّلام کا واقعہ قرآن مجید کے ان عجائبات میں
سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہر آبدار کے انبار پوشیدہ ہیں۔قرآن
مجید کے اس واقعہ میں عبرتوں اور نصیحتوں کی بڑی بڑی درخشندہ اور تابنده تجلیاں ہیں۔اسی
لئے اس واقعہ کو خداوند قدوس نے مختلف الفاظ میں اور متعدد طرز بیان کے ساتھ قرآن
مجید میں بیان فرمایا۔ان میں سےچند نصیحتیں یہ ہیں:
(1) انسان کی کمزوری:فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ
علیہمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ترجمۂ کنز الایمان: تو ان دونوں نے اس میں سے کھا لیا اب ان پر ان کی شرم کی
چیزیں ظاہر ہوئیں اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم
میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ (پ16، طہ:121)
اس آیت سے معلوم
ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری کھانے پینے میں ہے اور ابلیس وشیاطین کا سب سے
بڑا اور سب سے پہلا وسوسہ کھانے کے ذریعے ہی چلا۔یہ فائدہ فَاَكَلَا مِنْهَا فرمانے سے حاصل ہوا۔لہٰذا ہر مسلمان کو کھانے پینے میں بڑی
احتیاط چا ہیے۔(تفسیر نعیمی، جلد 16، صفحہ 713)
(2) آگ مٹی سے افضل نہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ
فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں
جسے تو نے مٹی سے بنایا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:61)
اس آیت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ آگ کسی حیثیت میں بھی مٹی
سے افضل نہیں ہے، نہ اللہ پاک کی طرف سے ایسا کوئی حکم یا بیان نازل ہوا ہے، یہ
ابلیس کی اپنی متکبرانہ سوچ تھی کہ اس نے آگ کو مٹی سے افضل سمجھا یہ فائدہ خَلَقْتَ طِیْنًا سے حاصل ہوا۔(تفسیر نعیمی،
جلد 15، صفحہ 240)
(3) حسد کا انجام:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ
لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجمۂ کنز الایمان:تو
ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ
تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔(پ16، طہ:117)
اس آیت میں شیطان کا حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ
کرنا آپ علیہ السّلام کے ساتھ دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا۔ یہاں اس دشمنی کی وجہ
وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا
انعام واکرام دیکھا۔ تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد اس کی دشمنی کا ایک سبب
تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس
کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان،
پ16، طہ: 117)
(4) علم کا حصول کتابوں کے بغیر:وَ
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى
الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اس آیت سے معلوم
ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تمام اشیاء کے ناموں اور ان کی
حکمتوں کا علم بذریعہ الہام ایک لمحہ میں عطافرما دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ علم کا
حصول کتابوں کے سبقاً سبقاً پڑھنے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس بندے
پر اپنا فضل فرمادے اس کو بغیر سبق پڑھنے اور بغیر کسی کتاب کے بذریعہ الہام چند
لمحوں میں علم حاصل کرا دیتا ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ 253)
(5)وسیلہ بنانا: فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ: 37)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے دعا
بحق فلاں اور بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام کی سنت
ہے۔(تفسیر خزائن العرفان صفحہ 16)
خرم
شہزاد (درجۂ ثالثہ جامعۃالمدینہ فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
.jpg)
اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اپنے دست قدرت
سے حضرت آدم علیہ السّلام کو بنایا، پھر ان میں اپنی طرف سے ایک خاص روح ڈالی اور
جنت میں رہائش عطا کی، ایک عرصہ تک یہ جنت میں رہے، پھر ان کی تخلیق کے اصل مقصد کی
تکمیل کے لیے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔حضرت
آدم علیہ السّلام پہلے انسان بھی تھے اور زمین پر پہلے نبی بھی۔
قرآن کریم میں
اللہ تعالیٰ نے اپنے نائب کے لیے چار الفاظ ذکر فرمائے ہیں:(1) خلیفہ (2) آدم (3)
بشر (4) انسان۔
ان کی تفصیل یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے اعتبار سے آپ عَلَيہِ السَّلام کو خلیفہ، گندمی
رنگ کی وجہ سے آدم، جسم کی ظاہری وضع قطع اور کھال کی ساخت کے اعتبار سے بشر اور
حقیقت وماہیت کے اعتبار سے انسان فرمایا گیا ہے۔
وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
واقعہ آدم عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ
والسّلام فرشتوں سے افضل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)
حضرت آدم عَلَیہِ
الصّلوٰۃُ والسّلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے
کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک
لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا
قائم مقام ہو۔اس واقعے سے معلوم ہوا علم انسان کو فرشتوں سے افضل بنا دیتا ہے۔
انبیاء عَلَیہم
الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعات میں ہمارے لیے بہت سے درس اور نصیحتیں ہیں لہٰذا ان
واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں یہاں چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں :
(1) علم سے آدم کو فضیلت: حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب ان
کا علم تھا، اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔
اشیاء کے نام
معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ
ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف
اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی
کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں۔ (سیرت الانبیاء، ص؛80)
(2) حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل
کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل
کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار
ہو ا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے بغیر تسلیم
کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست
کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان
کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص95)
(3) انبیاء کی گستاخی کا حکم: اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص95)
(4) برائی کے اسباب کی روک تھام: حضرت آدم علیہ السّلام کو اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی
تھی لیکن اس کے لئے فرمایا: اس درخت کے قریب نہ جانا اس طرز خطاب سے علماء نے یہ
مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کے لیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے
والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے۔علمی اصطلاح میں اسے سد ذرائع (یعنی برائی کے
اسباب) کی روک تھام کہتے ہیں۔
(5) ستر عورت انسانی فطرت میں داخل ہے: حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے لباس
جدا ہوتے ہی پتوں سے اپنا بدن ڈہانپنا شروع کر دیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ
اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔لہٰذا جو لوگ ننگے ہونے کو فطرت کہتے ہیں
ان کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں۔
(6) حسد کی مذمت: حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی
نافرمانی کی گئی۔حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی
چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔حسد
اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات
لاحق ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبدالحنان
(درجۂ خامسہ جامعۃالمدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
.jpg)
اللہ پاک نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید کو نازل کیا۔ قرآنِ مجید پورا کا
پورا کتابِ ہدایت ہے اور اس کا ایک ایک لفظ ہدایت کے لیے نازل ہوا۔
نیز اللہ پاک نے قرآن میں بہت سے واقعات کا ذکر کیا جس میں
ہر انسان کے لیے نصیحت و ہدایت ہے۔انہی واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت آدم علیہ
السّلام کا بھی ہے جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر کیا۔
قارئین کرام! واقعہ آدم علیہ السّلام سے بہت سی نصیحت وہدایت
ہمیں حاصل ہوتی ہیں، آئیے! ان نصیحتوں میں سے پانچ کا ذکر کرتے ہیں:
(1) اللہ پاک جو چاہے کرتا ہے:اس کی شان ہے: فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶) ترجمۂ کنز الایمان:ہمیشہ
جو چاہے کرلینے والا۔(پ30، البروج:16) کوئی بھی اس کے کام میں دخل اندازی نہیں کر
سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی مجال ہے وہ اللہ پاک کے کام میں دخل اندازی کرے۔
مگر اس کے باوجود اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی
تخلیق و خلافت کے بارے میں ملائکہ سے مشورہ کیا۔ وہ رب جو اپنے کام میں مختار ہے،
سب سے زیادہ علم و قدرت والا ہے، جب وہ ملائکہ سے مشورہ کر سکتا ہے تو بندہ جس کا
علم و قدرت و اختیار انتہائی کم ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کام میں بدرجہ اولیٰ
مشورہ کیا کریں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ مشورہ کرنے سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے
مشورہ کی حاجت ہو، البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پر مشورے کے
انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے
ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش
ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر
انداز سے ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمرٰن
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمرٰن: 159)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں
ہوگااور جس نے مشورہ کیا وہ نآدم نہیں ہوگا اور جس نے میانہ روی کی وہ کنگال نہیں
ہوگا۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5/77، الحدیث: 6627-صراط الجنان ج 1، ص 105/106)
(2) علم کے فضائل:قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں
پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں
کی عبادت سے افضل ہے۔
علم کی فضیلت پر بے شمار احادیث طیبہ وارد ہیں، چنانچہ حضرت
ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ
سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی
کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے
اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا
ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب
السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، 1/142، الحدیث: 219)
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ
ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں) ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ علی،
3/92، الحدیث:3960-صراط الجنان ج 1، ص 108/109)
(3) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام
فرشتوں سےافضل ہیں:واقعہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام فرشتوں
سے افضل ہیں اس پر کئی دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ان میں سے 3 دلائل درج ذیل
ہیں:
اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور
انجان۔(پ23، الزمر:9)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ زیادہ علم رکھنے والا کم علم رکھنے
والے سے افضل ہوتا ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں
تو فرشتوں سے افضل ہوئے ۔
ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ
اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزالایمان:
اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(پ17، الانبیآء: 107)
اس آیت میں اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے ارشاد فرما رہا ہے کہ اے حبیب! میں نے آپ کو سارے جہاں کےلئے
رحمت بنا کر بھیجا اور جہاں میں فرشتے بھی شامل ہیں تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم ان کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرشتوں کے لئے بھی رحمت ہیں تو ان سے افضل بھی ہوئے ۔
حدیث پاک میں ہے:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے دو وزیر آسمانوں
میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت
میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ (مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ،
2/653-654، الحدیث: 3100-3101)
اس حدیث ِپاک سے معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا
السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے
اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرشتوں سے افضل ہیں۔(تفسیر
کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 34، 1/445-صراط الجنان ج 1، ص109)
(4) سجدہ تعظیمی حرام ہے:سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے (1) سجدہ عبادت (2) سجدہ تعظیمی سجدہ
عبادت سے مراد کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اسے سجدہ کرنا اور سجدہ تعظیمی سے
مراد کسی کی تعظیم (عزت) کرتے ہوئے سجدہ کرنا۔یہ تو قطعی عقیدہ ہے کہ سجدہ عبادت
اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے کرنا کفر ہے سجدہ عبادت صرف
اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔اور فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ تعظیمی
کرنا یہ صرف سر کو جھکانے تک نہ تھا بلکہ باقاعدہ پیشانی کو زمین میں رکھنے کی
صورت میں تھا۔سجدہ تعظیمی پہلی شریعت میں جائز تھا مگر اس شریعت میں منسوخ ہو گیا
ہےاب کسی کو بھی ہم سجدہ تعظیمی نہیں کر سکتے۔
(5)تکبر کی مذمت:اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے
کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، الحدیث: 147)
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں
اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیاجاتا
ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر
والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، 3/403، الحدیث: 2007-صراط الجنان ج 1، ص113)
اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد
صائم ارسلان(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللہ پاک نے بنی آدم کو راہِ راست پر لانے اور بہت سی چیزوں
کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے کتاب(یعنی قرآن مجید) نازل فرمائی۔قرآن مجید ایک
تفصیلی کتاب ہے اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔کہیں خوشخبری تو کہیں ڈر، کہیں سزا تو کہیں
جزا، کہیں عبرت تو کہیں نصیحت۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قرآن
پانچ طریقوں پر نازل ہوا(ان میں سے ایک) امثال (یعنی پچھلی قوموں کے حال بھی ہیں) (تو
تم ان کو پڑھ کر)ان سے عبرت حاصل کرو۔(عجائب القرآن، ص237) ان امثال (واقعات) میں
سے ایک اہم و ضروری واقعہ آدم علیہ السّلام بھی ہے۔ ویسے تو قرآن پاک کا ہر ہر
واقعے میں لوگوں کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں مگر اس واقعے میں لوگوں کے لیے کئی
طرح کی نصیحتیں ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں:
اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: قَالُوْا
سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ
الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے
پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و
حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32) اس آیت مبارکہ سے ہمیں دو نصیحتیں حاصل ہوئیں:
(1)جب کسی بندے سے کوئی سوال کرا جائے اور اس بندے کو جواب
کا علم نہ ہو تو انکار کردے نہ کہ یہ عزت نفس کی وجہ اپنی طرف سے جواب دے۔جیساکہ
فرشتوں کو اشیاء کا نام معلوم نہیں تھے تو انہوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرلیا۔ ان
کی عزت و مرتبہ میں کمی نہیں آئی۔
(2)اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ استاد کا احسان مانا جائے جیساکہ
فرشتوں نے اپنے علم کی نفی کرکے فرمایا کہ جو تو نے ہمیں سیکھایا۔یونہی انہوں نے
اعتراف کیا جو کچھ ہے اللہ نے سیکھایا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہمیں جو بھی علم حاصل
ہو اس میں استاد کا احسان مانے کہ ان کی وجہ سے حاصل ہوا نہ کہ اپنا خود کا
کارنامہ سمجھیں۔
(3)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَاخْرُجْ
اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: نکل تو ہے ذلت والوں میں۔ (پ8،
الاعراف:13) اور ایک مقام پر فرمایا: وَّ
اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔(پ23،صٓ:78)
اس معلوم ہوا کہ جو اللہ کی بات نہ مانے یا معاذ اللہ اس
سے مقابلہ کرے تو وہ اللہ کی بارگاہ سے ذلیل و رسوا کر کے نکال دیا جاتا ہے۔اور جب
اللہ کسی کو لعنت دے تو اس کا کیا بنے گا(الامان و الحفیظ)اور اللہ جس کو چھوڑ دے
تو کس میں ہمت جو اس کو سہارا دے؟
(4)اللہ پاک نے فرمایا: وَ
اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے
اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔(پ1، البقرۃ: 33)
اگر ہم یہ آیت ہر وقت اپنے ذہن میں رکھیں تو کافی گناہوں
سے ہم باز رہیں۔اللہ سب جانتا ہے اگرچہ تنہائی میں ہوں یا ظاہر میں۔یہ بہت ہی بہترین
نصیحت ہے کہ اللہ سب جانتا ہے اگرچہ اس آیت میں فرشتوں کو کہا گیا مگر یہ سب کے لیے
ہے کیونکہ اللہ کے علم و قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔
(5)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت عطا
فرماتا ہے جیسے حضرت آدم کو علم کے ذریعے پھر فرشتوں سے سجدہ کروایا اس سے علم و
انسان کی فضیلت معلوم ہوئی کہ علم کوئی معمولی چیز نہیں۔
شعر:
رہتا ہے علم سے زندہ نام ہمیشہ داغ اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
ہمایوں
عطّاری(درجۂ اولیٰ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
.jpg)
اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی انبیائے کرام بھیجےجن
میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی
ذکر کیا ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے اُس سے پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:
(1)غرور نہ کرنا:وَ
اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو
سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
نصیحت:شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے غرور نے روکا لہٰذا ہمیں
غروروتکبر بالکل نہیں کرنا چاہیے
(2)غلطی پر توبہ کرنا:فَتَلَقّٰۤى
اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ
الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ: 37)
نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہیں دنیا میں بھیج دیا گیاحضرت
آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8،
الاعراف: 23)
پھر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کی ہم
سے بھی اگر غلطی سے کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے بیشک اللہ بڑا
مہربان ہے۔
(3)علم کی فضیلت:وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
نصیحت:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ
والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم
خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے
ابو ذر!رضی اللہ عنہ تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم
نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں
نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب
سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے
سے بہتر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔لہٰذا ہمیں بھی علم
حاصل کرنے میں مصروف ہو جانا چاہیے۔
(4)حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا:وَ
لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ
اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ
السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے
ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ
والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)
نصیحت:ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے جیسے شیطان نے اللہ
تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور مردود ہوگیا لہٰذا ہمیں حکمِ الٰہی پر فوری طور
پر عمل کرنا چاہیے۔
(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا
جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے
انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کر کے
دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
احمد رضا
اشرف(درجہ سادسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

قرآن پاک ہر شے کا روشن بیان ہے اور ہر خشک و تر کا اس میں
ذکر ہے،یہ کتاب جہاں بے شمار چیزوں کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے، انہی میں سے قصص
و واقعات بھی ہیں،جن میں عقل والوں کے لیے کئی نصیحتیں اور عبرتیں ہیں،ان قصوں میں
سے حضرت آدم علیہ السّلام کا قصہ کئی نصیحتوں اور علم وحکمت کے مدنی پھولوں پر
مشتمل ہے۔
(1)علم کی اہمیت: اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ بنایا، حالانکہ فرشتے ہر
وقت اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں، چنانچہ علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃاللہ
علیہ فرماتے ہیں: خدا کی نیابت و خلافت کا دارومدار کثرت عبادت و تسبیح و تقدیس نہیں،
بلکہ علوم و معارف کی کثرت ہے، جب ہی ملائکہ خلیفۃ اللہ نہ ہوئے اور حضرت آدم علیہ
السّلام علوم و معارف کی کثرت کی بنا پر خلافت سے مشرف ہوئے ۔(عجائب القرآن مع غرائب
القرآن، ص254ملخصاً) لہٰذا علم ہر اعتبار سے افضل ہے، چاہے عبادت ہو یا دولت، شہرت
ہو یا مقام و منصب تو عبادت کے ساتھ علم بھی حاصل کریں۔
(2)تکبر سے بچنا: اللہ پاک نے تخلیق آدم کے بعد ملائکہ یعنی فرشتوں کو سجدے کا حکم فرمایا،
تمام ملائکہ نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے،اس نے انکار کیا اور تکبر کے طور پر خود
کو افضل جانا، حالانکہ انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کا استاد اور بارگاہ الٰہی میں
مقرب تھا مگر تکبر کے سبب بارگاہ الٰہی سے دھتکار دیا گیا، تو معلوم ہوا کہ کوئی
کتنا ہی اعلیٰ مرتبے پر فائز کیوں نہ ہو تکبر سے وہ ادنیٰ ہو جاتاہے۔
(3)عاجزی کرنا: جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو ساری اشیاء کا علم دیا اور پھر
فرمایا کہ اسے فرشتوں کے سامنے بیان کرو،تو اس کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں کو حکم
فرمایا، مجھے ان کے نام بتاؤ!تو فرشتوں نے آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو
دیکھ کر اپنے عجز کا اعتراف کیااورعرض کیا: قَالُوْا
سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:بولے
پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔(پ1، البقرۃ: 32) قارئین کرام!غور کیجئےعلم نہ ہونےپر عجز کا اظہار یہ عاجزی
اور فرشتوں کا طریقہ ہے۔
(4)دوسروں کی فضیلت کو تسلیم کرنا: فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو تسلیم کر کے سربسجود
ہونے میں ان لوگوں کے لیے درس ہے، جو فقط اپنی ہی شان و عظمت کے گن گا رہے ہوتے ہیں،
دوسروں کی فضیلت و کمال اور عزت و مرتبے کو نہیں مانتے، یاد رکھیں! دوسروں کی فضیلت
کو ماننا یہ فرشتوں کا طریقہ ہے اور نہ مان کر خود کو بڑا جاننا یہ ابلیس کا طریقہ
ہے۔
(5)انجام سے خوفزدہ رہنا: ابلیس لعین کئی فضائل کا حامل تھا، جنت کا خازن، ملائکہ
کا صاحب(ساتھی) و واعظ، مقرب فرشتوں کا سردار، عرش کے ارد گرد طواف کرنے والا، آسمانوں
میں اس کا نام عابد، زاہد،عارف، ولی، تقی،خازن اور عزازیل تھا مگر لوح محفوظ میں
موجود اپنے انجام سے غافل تھا۔(حاشیۃالصاوی، ج1، ص51 ملخصاً) آخر حکمِ الٰہی سے
منہ پھیر کر جہنم کا مستحق ہوا،لہٰذا غفلت کی زندگی سے بچ کر،خاتمے کی فکر کی جائے
اور کبھی بھی اپنی عبادت و ریاضت کے سبب خوش فہمی میں نہ رہا جائے۔
اللہ پاک ہمیں قرآن پاک پر عمل کرنے اور اس میں موجود نصیحتوں
سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
محمد حمزہ
رضا (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفیٰ لانڈھی کراچی، پاکستان)
.jpg)
اللہ پاک نے انسانوں کی راہنمائی کے لئے بے شمار انبیاء
کرام کو اپنا نائب بنا کر اس دنیا میں بھیجا انہی انبیاء کرام میں سے حضرت آدم علیہ
السلام بھی ہیں جو کہ سب سے پہلے نبی اور انسان تھے ان کی زندگی میں بہت سے واقعات
رونما ہوئے جن کا ذکر قرآن پاک میں بہت سی سورتوں میں بھی ملتا ہے جو انسانوں کے لیے
مشعل راہ ہے ان کی زندگی کےواقعات میں سے چند واقعات جن سے انسانوں کو بہت سی نصیحتیں
ملتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کاارادہ
فرمایا تو فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا جو کہ قرآن پاک میں کچھ اس
طرح ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ
لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔
زمین میں خلیفہ
بنانے کی خبر سن کر فرشتوں نےبارگاہ الٰہی میں عرض کی وہ قرآن پاک میں یوں ہے: قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا
وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ
اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے
اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں
فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔
فرشتوں کی عرض کے جواب میں اللہ پاک نے فرمایا: قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)
(1)نصیحت: تخلیق آدم سے پہلے اللہ پاک نے فرشتوں سےمشورے
کے انداز میں کلام فرمایا اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہےکہ ہم بھی جب کوئی اہم کام
کریں تو پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا کریں اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں
کوئی اچھی رائے مل سکتی ہے جس سے کام اور زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے۔
اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت آدم کی تخلیق فرمانے کے بعد
روح پھونکی تو انہیں چھینک آئی۔چھینک آنے پر حضرت آدم علیہ السّلام کا حمد الٰہی
کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق، تعلیم اور اس کے حکم سے تھا۔فرشتوں کے سامنے حضرت آدم
علیہ السّلام کی فضیلت کا اظہار کرنے کے لئے تخلیق کے بعد اللہ پاک نے حضرت آدم کو
تمام اشیاء کے نام سیکھائے اور پھر تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کر کے فرمایا
کہ اگر تم اس خیال میں سچے ہو کہ تم سے زیادہ علم والی کوئی مخلوق نہیں اور خلافت
کے مستحق تم ہی ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ جو قرآن مجیدمیں کچھ اس طرح ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا
ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ
هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام
اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام
تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)
فرشتے اگر چہ صاحبِ علم و عرفان تھے لیکن چونکہ اللہ نے
انہیں علم الاسماء عطا نہیں فرمایا تھا اس لیے وہ اشیاء کے نام نہ بتا سکیں اور
بارگاہ الٰہی میں اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے : قَالُوْا
سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ
الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے
پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و
حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32)
فرشتوں کے اعترافِ
عجز پر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام سے فرمایا: قَالَ یٰۤاٰدَمُ
اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۚ-فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۙ- ترجمۂ کنز الایمان: فرمایا
اے آدم بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادئیے۔
اس کے بعد اللہ پاک نے فرشتوں سے فرمایا:قَالَ
اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِۙ-وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳)فرمایا میں نہ کہتا
تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ
تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔(پ1، البقرۃ: 33)
(2)نصیحت: اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی
لاعلمی کا اعتراف کر لیا اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ نصیحت ہے کہ
جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی
ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں۔
جب اللہ پاک نے تخلیقِ آدم کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو
اس کی پیشگی کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی فرمائی کہ روح پھونکے جانے کے بعد فرشتے
انہیں سجدہ کریں جیسا کہ سورۂِ صٓ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِذْ قَالَ
رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ(۷۱) فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ
مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں مٹی سے انسان
بناؤں گا۔پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں تو تم اس
کے لیے سجدے میں گرنا۔(پ23، صٓ:71، 72)
حضرت آدم کی تخلیق مکمل ہونے اور روح پھونکےجانے کے بعد
اللہ کے حکم سے تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کےکیونکہ
وہ تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے اپنے اس
باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبرکی وجہ سے وہ کافر ہو گیا
قرآن پاک میں ابلیس کا یہ حال مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ سورۂ اعراف
میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ
صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا
اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر
تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے
میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)
سورۂ طہ میں ارشاد ہوتا ہے: وَ
اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)ترجمۂ کنزالایمان:
اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس
اس نے نہ مانا۔(پ16، طہ:116)
اس کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ یا اللہ تو نے مجھے آگ سے
بنایا ہے اور آدم کو مٹی سے چونکہ آگ مٹی سے افضل ہوتی ہے اس لیے یہ میری شان کے
خلاف ہے کہ میں اسے سجدہ کروں، ابلیس کے جواب سے متعلق سورۂ اعراف میں ہے:
قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲) ترجَمۂ
کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8،
الاعراف:12)
ابلیس کا خود کو افضل سمجھنا باطل تھا کیونکہ افضل وہ ہے جسے
مالک و مولا فضیلت دے ابلیس کا یہی تکبر تھا جس کی وجہ سے اس نے آدم کو سجدہ نہ کیا
اور کفر کا مرتب ہوا۔
(3) نصیحت: تکبر ایک کبیرہ گناہ ہے جس انسان میں ذرہ برابر
بھی تکبر ہوگا اور وہ خود کو افضل اور سامنے والے کو حقیر سمجھے گا تو وہ جنت میں
داخل نہیں ہو گا اور بروزِ قیامت لوگ اسے اپنے قدموں تلے روندیں گے۔
حضرت آدم علیہ السّلام کے بعد بی بی حوا کی تخلیق کی گئی
جس کے بعد دونوں کو جنت میں رکھا اور انہیں ایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع
فرمایا اور ساتھ ہی اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تنبیہ کی کہ: اے آدم!
ابلیس تیرا اور تیری بیوی کا کھلا دشمن ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں جنت سے
نکلوا دے اور تمہیں زمین پر جانا پڑے چنانچہ سورۃ طٰہ میں الله پاک کا حکم ہے:
فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا
مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا
اور تیری بی بی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو
مشقت میں پڑے (پ16، طہ:117)
حضرت آدم پر اللہ
تعالیٰ کے انعام و اکرام کی وجہ سے ابلیس ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر
ان کا کھلا دشمن بن گیا اور شیطان حضرت آدم کے دل میں وسوسے ڈالنے جنت میں پہنچ گیا
اور حضرت آدم علیہ السّلام کو جس درخت کے پاس جانے سے اللہ نے منع کیا تھا اس درخت
کے پاس لے گیا لیکن اس عمل میں حضرت آدم علیہ السّلام کا اللہ کی نافرمانی کا قصد
نہ تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ
مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان:
اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم
نے اس کا قصد نہ پایا۔ (پ16، طہ:115)
(4) نصیحت:حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس
کے ذریعے اللہ پاک کی نافرمانی کی گئی حسد انسان سے دین و دنیا دونوں کی نعمتیں چھین
لیتی ہے یہ اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت بھی چھن
جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اللہ پاک ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔
اس طرح حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش کا واقعہ ہوا اور
انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا، تو اللہ
تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اور بی بی حوا کو حکم دیا کہ آپ دونوں زمین پر
اتر جاؤ سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ
اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ
مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۲۴)قَالَ فِیْهَا تَحْیَوْنَ وَ فِیْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ
مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۠(۲۵)ترجمۂ کنزالایمان:
فرمایا اُترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور
برتنا ہے۔ فرمایا اسی میں جیوگے اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے اٹھائے جاؤ گے۔(پ8،
الاعراف:24، 25)
حضرت آدم علیہ السّلام کی ایک عرصہ دراز تک گریہ وزاری کے
بعد اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کلمات کے ذریعے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول
فرما لیا جس کا ذکر قرآن کی سورۂ بقرہ میں یوں ہے:
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ
التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ
کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
(پ1، البقرۃ:37)
(5)نصیحت: حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس
طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہےکہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو
جائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور رحمت و
مغفرت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔
محمد وقاص دلاور مدنی(مدرس جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار
ملير كراچی، پاکستان)
.jpg)
پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم نے زمین و آسمان بنانے سے
پہلے فرشتوں کو پیدافرمایا، پھر جنّات کو آگ کے شعلے سے اور اِن کے بعد انسان کو پیدا
کیا۔سب سے پہلے انسان اللہ پاک کےپیارےنبی حضرت آدم علیہ السّلام ہیں اور آپ پہلے
رسول بھی ہیں جو شریعت لے کر اپنی اَولاد کی جانب بھیجے گئے۔حضرتِ نوح علیہ
السّلام کو اَوّلُ الرُّسُل اِس وجہ سے کہا جاتاہے کہ آپ علیہ السّلام کفروشرک پھیلنے
کے بعد سب سے پہلے مخلوق کی ہدایت کےلئے بھیجے گئے۔(نزہۃ القاری، 5/52 مفہوما)
حضرتِ آدم علیہ السّلام پہلے خلیفۃ اللہ بھی ہیں جیساکہ پارہ1، سورۃ البقرۃ، آیت
نمبر30میں اِرشاد ہوتا ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔
مشہور غلط فہمی:بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرتِ آد م علیہ السّلام کے مبارک جسم میں روح ڈالنے سے
پہلےشیطان نے اِن پرمَعاذَ اللہ تھوکا تھا اوراُس تھوک سے کتا پیداہوا اِس واقعے
کے بارے میں حضرت مفتی وقارالدین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کتابننے کی یہ روایت
بے بُنیاد اور لَغْو (یعنی فضول)ہے صحیح روایت میں اِس کا کوئی تذکرہ نہیں
ملتا۔(وقار الفتاویٰ، 1/344)
سب سے پہلے چھینک کس کو آئی:سب سے پہلے روح سرِمبارک میں داخل ہوئی تو حضرتِ آدم علیہ
السّلام کو چھینک آئی، اللہ پاک نے آپ کے دِل میں اَلحمدُ للہ کہنے کا اِلہام فرمایاتوآپ
نے اَلحمدُ للہ پڑھا اِس پر خود اللہ کریم نے یَرْحَمُكَ اللہ فرمایا۔جب روح کمر
شریف تک پہنچی تو آپ علیہ السّلام نے اُٹھنا چاہا مگر نیچے تشریف لے آئے کیونکہ نیچے
کے حصے تک اَبھی روح نہیں پہنچی تھی،جب تمام جسم میں روح پہنچ گئی تو اللہ پاک نے
آپ کو اِرشادفرمایا:اےآدم!میں کون ہوں؟حضرتِ آدم علیہ السّلام نے عرض کیا: تُواللہ
ہے تیرے سِواکوئی عبادت کے لائق نہیں،اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:تم نے صحیح
کہا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،7/385)
ترمذی شریف میں ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو اِرشاد فرمایا: اے
آدم!فرشتوں کی اِس بیٹھی ہوئی جماعت کے پاس جاؤ اور کہو: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم۔چنانچہ
انہوں نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہا تو فرشتوں نے جواب دیا:عَلَیْکَ السَّلَامُ
وَرَحْمَۃُاللہِ۔پھر آپ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں واپس حاضر ہوئے تو
اللہ پاک نےاِرشاد فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں سلام ہے۔ (ترمذی،
5/241، حدیث:3379)
نصیحت:پیارے اسلامی بھائیو! اِس واقعے سے یہ بھی پتا چلا کہ سلام کرنا بہت پُرانی
سنّت ہے،فیضانِ سلام عام کریں اور خوب رحمتِ خداوندی سے حصہ پائیں،اَلحمدُ للہ!
عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی سنتیں عام کرتی اورگھر گھر سنت کا پیغا م
پہنچاتی ہے۔72نیک اعمال کے رسالے میں نیک عمل نمبر30 ہے: کیاآج آ پ نے گھر، دفتر،
بس، ٹرین وغیرہ میں آتے جاتے اورگلیوں سے گزرتے ہوئے راہ میں کھڑے یابیٹھے
مُسلمانوں کو سلام کیا؟
شہا!ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں تری سنّتیں سکھانا مَدنی مدینے والے
فرمانبرداری کرنا:پیارے اسلامی بھائیو!اللہ پاک نے جب حضرتِ آدم صفی اللہ علیہ السّلام کو پیدا
فرمایا تو فرشتوں نے کہا:اللہ پاک ایسی مخلوق پیدا نہیں فرمائے گا جو ہم سے زیادہ
علم والی اور بارگاہِ الٰہی میں ہم سے زیادہ عزت والی ہو۔فرشتے حضرتِ آدم علیہ
السّلام کے ذریعے آزمائے گئےاِسی طرح اللہ پاک بندوں کو آزمائش میں مبتلا فرماتا
ہےتاکہ ظاہر ہو کہ کون فرمانبرداری کرتا اور کون نافرمانی کرتا ہے او رجو دُنیا و
آخرت کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے وہ ایک کی دوسرے پر فضیلت جان لیتا ہے اور
پہچان لیتا ہے کہ دنیا آزمائش کا گھراور فنا ہونے والی ہے جبکہ آخرت بدلے کا ہمیشہ
باقی رہنے والا گھر ہے، لہٰذا (اگر تم طاقت رکھتے ہو تو) ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جو
دنیا کی ضرورت کو آخرت کی ضرورت کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں اور نیکی کی توفیق اللہ پاک
ہی کی طرف سے ملتی ہے۔(تفسیر طبری،پ1، البقرۃ، تحت الآیۃ: 30، 1/242، تفسیر در
منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: 219، 1/611 ملتقطاً)
حضرتِ آدم علیہ السّلام کا قد مبارک:بُخاری شریف میں ہے: حضرتِ آدم علیہ السّلام کا(مبارک)قد
60گز(یعنی 90 فٹ) تھا۔جو بھی جنت میں جائے گا وہ حضرت آدم علیہ السّلام کی صورت پر
ہوگا اور اُس کا قد 60 گز ہوگاپھر حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بعداَب تك مخلوق(قدو
قامت میں) کم ہوتی رہی ہے۔(بخاری،4/164، حد یث:6227)
حضرتِ مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃُاللہِ علیہ اِس حدیثِ
پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: جنت میں صِرف انسان ہی جائیں گے، جانور یا جنّات نہ جائیں
گے اور تمام جنّتی انسان آدم علیہ السّلام کی طرح حسین و جمیل تندرست ہوں گے کوئی
بدشکل یا بیمار نہ ہوگا اور سب کا قد 60ہاتھ ہوگا کوئی اِس سے کم یا زیادہ نہ
ہوگا،دُنیا میں خواہ پست (یعنی چھوٹا)قد تھا یا دراز (یعنی لمبا) قد،بچہ تھا یا
بوڑہا، مگر یہ کمی صرف دنیا میں ہے آخرت میں جنت میں پوری کردی جاوے گی۔(مرآۃ
المناجیح،6/313، 314 ملتقطا)
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا کچھ دَخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا
الله پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت و واقعات
کا مطالعہ کرکے حاصل ہونے والی نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد عریض ارشد عطّاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير
كراچی، پاکستان)

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے قرآن پاک میں ہمارے لیے
بہت سی جگہوں پر نصیحتوں کا ذکر فرمایا ہے، ایک مقام پر ارشاد فرمایا: هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ
لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت
ہے۔(پ4، آل عمرٰن: 138) اور اللہ پاک نے قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم السلام کے
واقعات ذکر فرمائے جن سے ہمیں نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، انہی انبیاء کرام میں سے
حضرت آدم علیہ السّلام بھی ہیں جن کے قرآنی واقعات سے کچھ نصیحتیں ذکر کی جائیں گی۔
(1)تکبر سے بچنا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ
اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ ترجمۂ کنز الایمان:اور
یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے
ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا۔(پ1، البقرۃ: 34)
اس واقعہ سے نصیحت یہ حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں کبھی بھی غرور
و تکبر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر
تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔
( 2)توبہ کرتے رہنا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ
التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ
کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول
کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ:37)
اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ پاک
سے اپنے گناہوں سے توبہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ وہی توبہ کو قبول فرمانے والا ہے۔
( 3) خطا کا اعتراف کرنا:رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ
لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ
بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)
اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ جب کوئی گناہ سرزد ہو
جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ا س
کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لَجاجَت کے ساتھ سوال
کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کا گناہ بخش دے اور ان پر اپنا رحم فرمائے۔
( 4) مشورہ کرنا:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ
فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ
کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب
بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)
اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے
پہلے اپنے بڑوں سے مشورہ کرلیا جائے تاکہ اگر اس میں کوئی نقصان ہو تو اس سے بچ
جائے۔
( 5) حکم ماننا:ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ
اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُ الایمان: پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ
سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔ (پ8، الاعراف:11)
اس آیت سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنے رب کا
حکم ماننا چاہیے جس طرح فرشتوں نے اللہ پاک کے حکم کی اطاعت کی۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اور ان
کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اویس رفیق عطّاری(درجہ سادسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو
عطّار ملير كراچی، پاکستان)
.jpg)
قرآن پاک ہمارے لیے نصیحت و ذریعہ نجات ہے اللہ پاک نے
ہمارے لیے قرآن پاک میں مختلف انداز میں نصیحتیں بیان کی ہیں ایک انداز یہ بھی ہے
کہ گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات بیان فرماکر بھی ہمیں نصیحتیں فرمائیں
یہاں پر حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ سے حاصل ہونے والی نفع بخش نصیحتیں بیان کی
جارہی ہیں آپ بھی ان کا مطالعہ فرما کر ان پر عمل کرنے کی کوشش فرمائیں:
(1) تکبر سے بچنا: اللہ پاک نے جب فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں
تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے تکبر کی وجہ سے سجدہ نہیں کیا اور نا
شکروں میں سے ہوگیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: اَبٰى وَ
اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:
منکر ہوا اور غرور کیااور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
(2)اطاعت کرنا:حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ سے جو ہمیں ایک اہم نصیحت ملتی ہے وہ ہے
اللہ پاک کی فرمانبرداری کرنا جب اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤاترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا۔(پ1،البقرۃ:34)
تو تمام فرشتوں نے اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کے لیے
حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔
(3) حکمِ الٰہی کا انکار نا کرنا:واقعہ آدم علیہ السّلام سے ہمیں ایک سبق آموز نصیحت یہ بھی
ملتی ہے کہ ہم اللہ پاک کے حکم کا کبھی کسی حالت میں انکار نا کریں کیونکہ شیطان
نے حکمِ الٰہی کا جب انکار کیا تو ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنی جیسا کہ قرآن پاک میں
ہے: اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:
منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
(4) علم حاصل کرنا: ایک نصیحت واقعہ آدم علیہ السّلام میں ہمارے لیے یہ بھی ہے کہ ہم علم دین
حاصل کریں کیونکہ اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھی علم سکھایا، چنانچہ
قرآن پاک میں الله پاک نے ارشاد فرمایا:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔(پ1، البقرۃ: 31)
علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے پیارے آقا آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: طلب العلم فریضة علی کل مسلم ترجمہ: علم
سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(5) ہر کام اللہ پاک کے سپرد کرنا: ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ ہم ہر کام اللہ پاک کے سپرد کر دیں
کیونکہ اللہ پاک ہم سے بہتر جانتا ہے کہ ہمارے حق میں کیا بہتر ہے، بعض اوقات زندگی
میں ہم پر مشکل وقت آتا ہے، اس وقت ہمیں صبر کرنا چاہیے اور اللہ پاک کی رحمت سے
کامل یقین رکھنا چاہیے کہ آج مشکلات ہیں تو کل آسانیاں بھی آئیں گی جیسا کہ اللہ
پاک نے ارشاد فرمایا:قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا
تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)
اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم