محمد
مبشر عبدلرزاق (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)
قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا عظیم اور بے مثل کلام ہے جو تمام
انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے اور ہر چیز کا واضح اور روشن بیان ہے
قرآن پاک میں جس طرح حرام و حلال کے احکام گزشتہ امتوں کے واقعات اور جنت و دوزخ
کے احوال کو بیان کیا گیا ہے اسی طرح متعدد انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات کو
بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں ہمارے لئے نصیحتوں اور عبر توں کا بے بہا خزانہ ہے انہی
انبیاء علیہم السلام میں سےایک حضرت آدم علیہ السّلام بھی ہیں۔قرآن پاک میں حضرت
آدم علیہ السّلام کے متعدد واقعات کو بیان کیا گیا ہے انہی واقعات میں سے 5 نصیحتیں
پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔
مشورہ کرنا: الله پاک بے نیاز ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے نہ کوئی اس کے ارادے میں دخل
انداز ہو سکتا ہے نہ کسی کی مجال ہے کہ اس کے کسی کام میں چوں و چرا کر سکے مگر اس
کے باوجود اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق (پیدائش) و خلافت کے بارے میں
ملائکہ کی جماعت سے مشورہ فرمایا جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30) پیارے اسلامی
بھائیو! اللہ پاک بے نیاز اور مختار کل ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے
تو اس سے سبق ملتا ہے کہ ہم بھی جب کسی کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں اور
صاحبان عقل و علم سے مشورہ لے لیا کریں۔
عالم کی فضیلت: اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو آپ علیہ السّلام کے
علمی فضل وکمال بلند درجات کے اعلان اور ملائکہ سے اس کا اعتراف کرانے کے لئے تمام
فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو تمام ملائکہ نے
روبر سجده کیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ
اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں
گرے۔(پ14، الحجر:30)
پیارے اسلامی بھائیو! اس سےمعلوم ہوا کہ عالم عابد(عبادت
گزار) سے افضل ہے کیونکہ ملائکہ عابد اور حضرت آدم عالم تھے۔اور ملائکہ نے آپ علیہ
السّلام کو سجدہ کیا اور سجدہ انتہائی عاجزی اور اپنے سے بڑے درجے والے کو کیا
جاتا ہے تو ہمیں بھی چا ہئے کہ عبادت کے ساتھ علم دین بھی حاصل کرتے رہا کریں۔
تکبر کی مذمت:اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرما لیا تو تمام ملائکہ اور
ابلیس لعین سے آپ علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو تمام ملائکہ نے سجدہ
کیا اور ابلیس لعین نے آپ علیہ السّلام کو خاک کا پتلا کہہ کر آپ کی تحقیر کی اور
اپنی بڑائی اور تکبر کااظہار کرتے ہوئے سجدۂ آدم سے انکار کیا اور کافروں میں سے
ہو گیا جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر
ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اس سے معلوم ہوا کہ تحقیر انبیاء علیہم السّلام اور تکبروہ
مذموم فعل ہیں جو بڑے سے بڑے بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں مبتلا کر
دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ کفر تک پہنچا دیتے ہیں، اللہ پاک ہمیں تکبر سے بچنے
تعظیم انبیاء علیہم السلام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا:ابلیس جس کو شیطان کہا جاتا ہے یہ فرشتہ نہیں بلکہ جن تھا
جو آگ سے بنا تھا اور فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت مقرب
اور بڑے بلند درجات و مراتب سے سرفراز تھا اور بہت زیادہ عبادت گزار تھا۔مگر جب
اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو ابلیس نے اپنی
عبادت اور علم پر گھمنڈ کیااور سجدے سے انکار کر کے ہمیشہ کے لئے ملعون ہو گیا جیسے
کہ قرآن پاک میں اس کا یہ قول بیان کیا گیا ہے: قَالَ اَنَا
خَیْرٌ مِّنْهُۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں۔(پ8، الاعراف:
12)
پیارے اسلامی بھائیو! اس سے ایک بہت بڑا درس یہ ملا کہ ہمیں
ہر گز ہرگز اپنی عبادتوں اور نیکیوں پر گھمنڈ اور غرور نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ
پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہوئے ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کرتے رہنا چا ہے۔
مقبولانِ بارگاہ الٰہی کے وسیلے سے دعا کرنا:حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر اتارے گئے تو آپ
نے ندامت کے با عث تین سو برس تک آسمان کی طرف سر نہ اٹھایا اور روتے رہے پھر جب
آپ پر عتاب الٰہی ہوا تو آپ نے حضور اکرم نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے وسیلے سے دعا کی جیسا کہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ- ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی۔ (پ1، البقرۃ:37) ابن منذر علیہ الرحمہ فرماتے ہیں وہ کلمات یہ ہیں،
ترجمہ: اے اللہ تیرے بندہ خاص محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جاہ و مرتبہ
کے طفیل میں اور ان کی بزرگی کے صدقے میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہےمیں تجھ
سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ بخش دے۔یہ دعا کرتے ہی اللہ پاک نے آپ کی توبہ
قبول فرمائی اور آپ کی مغفرت فرمادی اس سے معلوم ہوا کہ مقبولان بارگاہ الٰہی کے
وسیلے سے دعا کرنا جائز اور حضرت آدم علیہ السّلام کی سنت ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ
جب بھی کسی اہم کام کی دعا کریں تو مقبولان بارگاه کے وسیلے سے کریں۔
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں انبیائے کرام علیہم
السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم