محمد
جنید عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق شاہ عالم مارکیٹ لاہور،
پاکستان)

(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے بیشک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے
اور اس کی جلا ء (یعنی صفائی) استغفار کرنا ہے ہمیں چاہئے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ
استغفار کرنا چاہیے ۔ (مجمع الزوائد 346/10)
(2) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے جس نے استغفار کو اپنے اوپر
لازم کر لیا اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا
فرمائے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا (ابن
ماجہ 257/4 )
(3) حضرت ز بیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت
محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس
کا نامہ اعمال اسے خوش کرے تو اسے چاہئے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔( مجمع
الزوائد 10/حدیث 17579 )
(4) حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ۔حضرت
محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ خوش خبری ہے اس کے لیے
جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے( ابن ماجہ )
(5) حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت
محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سید استغفار یہ ہے: اللہم انت ربی
لا الہ الا انت خلقتنی و انا عبداللہ و انا علی عھدک و وعدک ما استطعت اعوذ بک من
شر ما صنعت ابوء لک بنعمتک علی ابوء بزنبی فاغفرلی فانہ لا یغفر الزنوب الا انت ترجمہ جس نے اسے دن کے5 وقت ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر
اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے رات کے وقت
اسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ
جنتی ہے ۔(بخاری، 190/4 ،حدیث: 6306)
حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رات کو
عبادت کرنا کیا ہی نرالا انداز تھا اور حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے اپنے وظائف میں استغفار میں بھی کثرت کیا کرتے تھے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہمیں
زیادہ سے زیادہ استغفار کرنا چاہیے تاکہ جب ہم دنیا سے رخصت ہوں تو گناہوں سے پاک
صاف ہو کر جائے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کو معاف
فرما دے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ استغفار کرنے والا بنا دے۔ امین
عبدالسبحان
خان (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں
سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔چنانچہ حدیث پاک میں
آتا ہے :
حدیث 01: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے
ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی
جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب
الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)
حدیث 02: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: استغفار کا سردار یہ ہے کہ تم کہو:
اللہمَّ اَنْتَ
رَبِّیْ، لَا اِلٰـہَ اِلاَّ اَنْتَ، خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ، وَ اَنَا
عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا
صَنَعْتُ، اَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْئُ بِذَنْبِی،فَاغْفِرْلِی،
فَاِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ یعنی الٰہی تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا،
میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے
کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اقرار کرتا ہوں اور
اپنے گناہوں کا اقراری ہوں، مجھے بخش دے تیرے سوا گناہ کوئی نہیں بخش سکتا۔
حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
کہ جو یقینِ قلبی کے ساتھ دن میں یہ کہہ لے پھر اسی دن شام سے پہلے مرجائے تو وہ
جنتی ہوگا اور جو یقینِ دل کے ساتھ رات میں یہ کہہ لے پھر صبح سے پہلے مرجائے تو
وہ جنتی ہوگا۔ (بخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار، ۴/۱۸۹، الحدیث: ۶۳۰۶)
استغفار کے دینی و دنیاوی فوائد:
اولاد کے حصول،بارش کی طلب،تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی
کثرت کے لئے استغفار کرنا بہت مُجَرَّبْ قرآنی عمل ہے۔اسی سلسلے میں یہاں ایک حکایت
ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ِامامِ حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت امیر ِمعاویہ رضی
اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر ِمعاویہ رضی
اللہ عنہ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں،
مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللہ پاک مجھے اولاد دے۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
استغفار پڑھا کرو۔اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ
استغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے ہاں دس بیٹے ہوئے ۔
جب یہ بات حضرت امیر
ِمعاویہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرتِ
امام حسن رضی اللہ عنہ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل حضور نے کہاں سے فرمایا۔دوسری
مرتبہ جب اس شخص کو حضرتِ امام حسن رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس
نے یہ دریافت کیا۔حضرتِ امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود
عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا: وَ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ اور حضرت نوح عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا یہ ارشاد نہیں سنا: یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ۔(مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۵۰۲)
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح
معنوں میں توبہ و استغفار کی توفیق نصیب فرمائے۔
عبد
الرحیم عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادہوکی لاہور،پاکستان)

خدائے حنان ومنان پاک کا ہم گناہ گاروں پر کڑور احسان کہ
اس نے ہمیں نبی آخر الزمان، شہنشاہِ کون و مکان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
امت میں پیدا فرمایا، کروڑوں درود و سلام ہوں اس نبی رحمت، شفیع امت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کہ جن کے صدقے ہم پر توبہ و استغفار کے دروازے ایسے کھلے کہ
جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو اُس وقت تک کی گئی ہر سچی توبہ قبول ہے۔اگر رب کر یم
کا یہ احسان عظیم نہ ہوتا تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوتی۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں توبہ واستغفار کرنے والوں کے
بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ-اِنَّهٗ
كَانَ تَوَّابًا۠(۳)
ترجَمۂ کنزُالایمان: تو اپنے رب کی ثناء کرتے ہوئے اس کی
پاکی بولو اور اس سے بخشش چاہو بے شک وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔(پ30،النصر:
3) مغفرت کے پانچ حروف کی نسبت سے استغفار کرنے کے 5 فضائل:
(1)دلوں کے زنگ کی صفائی: حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین، محبوب رب العالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان دلنشین ہے: بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہےاس کی
جلاء (یعنی صفائی) استغفار کرنا ہے۔(مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)
(2)پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات:حضرت عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محبوب رب ذوالجلال صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ
پاک اُس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور
اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہ ہو گا۔ (ابن ماجہ،
257/4، حدیث: 3819)
(3)خوش کرنے والا اعمال نامہ: حضرت زبیر بن
عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ مسرت نشان ہے: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال
اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد،
347/10، حدیث: 17579)
(4) خوشخبری: حضرت عبد الله بن بسر رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
فرماتے ہوئے سنا کہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کوکثرت
سے پائے۔(ابن ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)
(5) سید الاستغفار پڑھنے والے کے لئے جنت کی بشارت: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ یہ سید الاستغفار ہے: اللہمَّ
اَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا
عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِ مَا صَنَعْتُ
أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَى أَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِى فَإِنَّهُ لَا
يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ جس نے اسے دن کے
وقت ایمان ویقین کے ساتھ پڑھا پھر اُسی دن شام ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا
تو وہ جنتی ہے اور جس نے رات کے وقت اسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے
سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ (بخاری،190/4، حدیث: 6306)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کثرت کے ساتھ استغفار کرنے کی توفیق
عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کاشف علی عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان مشتاق
شاہ عالم مارکيٹ لاہور، پاکستان)

ایسے پرفتن حالات میں کہ ارتکاب گناہ بے حد آسان اور نیکی
کرنا بے حد مشکل ہو چکا ہو اور نفس و شیطان ہاتھ دھو کر انسان کے پیچھے پڑے ہوں،
انسان کا گناہوں سے بچنا بے حد دشوار ہے۔لیکن یادرکھئے! گناہوں کا انجام ہلاکت
ورسوائی کے سوا کچھ نہیں، لہٰذا! اس سے پہلے کہ پیامِ اجل آن پہنچے اور ہم اپنے عزیز
و اقرباء کوروتا چھوڑ کر اور دنیا کی رونقوں سے منہ موڑ کر، قبر کے ہولناک اور تاریک
گڑھے میں ہزاروں مُردوں کے درمیان تنہا جا سوئیں، ہمیں چاہئے کہ ان گناہوں سے
چھٹکارے کی کوئی تدبیر کریں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے پروردگار رب پاک کی
بارگاہ میں پکی و سچی استغفار کریں کیونکہ پکی و سچی استغفار ایسی چیز ہے جو ہر
قسم کے گناہ کو انسان کے نامہ اعمال سے دھو ڈالتی ہے اور جب تک ہم سچے دل سے
استغفار نہیں کرے گے تو ہم ہرگز ہرگز گناہوں سے نہیں بچ سکیں گےسچی استغفار یہ نہیں
ہے کہ ہمارے دل میں اس کام کے کرنے کا ارادہ ہوں جبکہ زبان سے ہم استغفار کر رہے
ہوں یہ تو ایسے ہوگا جیسا کہ ہم کسی سے مذاق کرتے ہے اور اسے کہتے ہے کہ میں یہ چیز
آپ کو دےدوں گا جبکہ وہ چیز ہم نا تو اسے دیناچاہتے ہے اور نا ہی اسے دیتے ہے تو
سچی استغفار کے لیے ہمیں زبان کی بنسبت دل سے پکاارادہ کرنا زیادہ ضروری ہے آیئے حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان سنتے ہے اور سمجھتے ہے کہ استغفار کتنی
ضروری ہے ہمارے لیے:
مسند احمد میں حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ نے حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ سےروایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا کہ اگر کوئی بندہ مومن گناہ کرتا ہے پھر اچھی طرح وضو کرتا ہے۔کھڑا ہوتا
ہے نماز پڑھتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا
ہے۔ (ابوداؤد۔ترمذی۔نسائی ابن ماجہ)
اسی طرح ایک اور مقام پہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ شیطان نے عرض کیا
کہ یارب پاک! تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو اس وقت تک بہکاؤں گا جب تک ان کی
جانیں ان کے جسموں میں رہیں گی۔رب پاک نے فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال اور بلند
درجہ کی قسم میں ان کی مغفرت (بخشش) کرتا ہی رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے
رہیں گے۔(مشکوۃ۔احمد)
تو میرے عزیز! دیکھ خالق کا ئنات رب العزت کو اپنے بندوں
کا راہ راست پر قائم رہنا اور ابن آدم کی اخروی زندگی کیلئے کامیابی کس قدر عزیز
ہے۔کہ شیطان کے بہکاوے اوراندیشوں کے علاج کیلئے خود ہی نسخہ تجویز فرمادیا اور شیطان
کے چیلنج کا حل فرمادیا کہ خواہ شیطان جتنا بھی بہکاتا جائے اور بندہ اس کے جال میں
پھنس کر جس قدر بھی گناہوں میں پڑ جائے مگر جب بھی وہ استغفار کرے گا سچے دل سے تو
اللہ پاک اس کو بخش دےگا۔ایک اور مقام پہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:
وَعَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ بُسْرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ
صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: طوبى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ
اِسْتِغْفَارًا كَثِيرًا۔رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهُ، وَرَوَى النَّسَائِيُّ فِي عَمَلِ
يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ۔
ترجمہ:روایت ہے حضرت عبد اللہ ابن بسر سے فرماتے ہیں فرمایارسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے لئے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ
اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (ابن ماجہ) اور نسائی نے اس حدیث کو دن رات کے عمل میں
روایت کیا۔اور اسی طرح اگر ہم آج اپنی زندگی کے بارے میں سوچیں تو ہمیں پریشانیاں
ہی پریشانیاں نظر آتیں ہیں کہیں پہ رزق کی تو کہیں پہ کسی اور کا کوئی غم وغيرہ
اور ان تمام کو ہم حل تو کرنا چاہتے لیکن ہم دنیاوی طور پر ہی کوشش کرتے ہیں دنیا
کے اسباب کو اختیار کرتے ہے لیکن ہم دین میں نہیں دیکھتے جبکہ دین میں یہ سب کچھ موجود
ہے، غم سے نجات پانے رزق کی پریشانی کو دور کرنے کے متعلق حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے کیا ارشاد فرمایا!
وَعَن ابنِ عبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى
اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ
كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍ فَرَجًا، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا
يَحْتَسِبُ۔رَوَاهُ أَحمدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهُ۔
ترجمہ: روایت ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے:آپ فرماتے ہیں
فرمایارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جو استغفار کو اپنے پر لازم
کرلے تو اللہ پاک اس کے لیے ہر تنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے نجات دے گا اور وہاں
سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ۔ مراة
المناجیح، ج3 ،حدیث نمبر: 2339)
وَعَنِ الأَعَةِ الْمُرْنِي قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ
صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَيْغَانُ عَلَى قَلْبِي، وَإِنِّي
لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ۔رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔ترجمہ: روایت ہے حضرت اغر مزنی سے فرماتے ہیں فرمایار سول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ میرے دل پر پردہ آتارہتا ہے حالانکہ میں دن میں سو بار
استغفار پڑھتا ہوں۔ (مسلم۔مراة المناجیح،ج3)
قرآن پاک اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ
واستغفار کے تاکیدی احکام موجود ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
طرف سے احادیث کے ذریعہ مومنین کو رغبت بھی دلائی گئی ہے۔حالانکہ انبیاء کرام
معصوم عن الخطا ہوتے ہیں یعنی ان سے کوئی گناہ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود امت کیلئے
رؤف و رحیم ہونے کے سبب مومنین کو رغبت دلانے کیلئے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں دن میں سودفعہ استغفار کرتا ہوں تم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور
استغفار کرو۔
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مومنین کی فلاح و
بہبود اور مغفرت کس قدر عزیز ہے۔اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و
تحمید کرنی چاہیے اور پھر اس کے بعد کثرت سے استغفار کرتے رہا کریں تا کہ بہ تقاضائے
بشریت روز مرّہ وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے بڑے گناہ معاف ہوتے رہیں اور ہم پر اللہ
تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتار ہے۔
وَعَنْ شَرِيقِ الْهَوْزَنِي قَالَ: دَخَلْتُ عَلَىٰ
عَائِشَةَ فَسَأَلْتُهَا: بِمَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ إِذَا هَبَّ مِنَ اللَّيْلِ فَقَالَتْ: سَأَلْتَنِي عَنْ
شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ كَانَ إِذَا هَبَّ مِنَ اللَّيْلِ
كَبَّرَ عَشْرًا وَحَمِدَ اللہ عَشْرًا وَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ
عَشْرًا» وَقَالَ: «سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ» عَشْرًا وَاسْتَغْفَرَ
عَشْرًا وَهَلَّلَ عَشْرًا ثُمَّ قَالَ: «اللہمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ ضِيقِ
الدُّنْيَا وَضِيقِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ» عَشْرًا ثم يَفْتَتِحُ
الصَّلَاةَ۔رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ترجمہ: روایت ہے حضرت شریق ہوزنی سے فرماتے ہیں کہ میں
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب رات میں جاگتے تھے تو ابتداء کس چیز سے کرتے تھے فرمایا
کہ تم نے مجھ سے وہ چیز پوچھی جو تم سے پہلے مجھ سے کسی نے نہ پوچھی۔جب حضورصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رات میں جاگتے تو دس بار تکبیر دس بار حمد کہتے اور دس
بار سُبْحَنَ الله وَبِحَمْدِهِ دس بار سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ کہتے دس
بار استغفار پڑھتے اور دس بار کلمہ پھر دس بار کہتے الٰہی میں دنیا اور قیامت کی
تنگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۳ پھر نماز شروع کرتے۔(ابوداؤد۔ مراة المناجیح ،ج 2،
حدیث نمبر: 1216)
اب دیکھے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رات کو
عبادات میں مشغول ہونے کا کیا ہی نرالہ انداز ہے لیکن اس میں آپ دیکھے تو پتا چلتا
ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استغفار کو بھی اپنے وظاٸف میں شامل کیا ہوا ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم یہ تمام تو
نہیں کر سکتے لیکن کم از کم استغفار ہی کر لے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کر لے تاکہ
ہم پاک و صاف ہوجائے گناہوں سے۔
وَعَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللہ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ
اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ
ثَلَاثًا وَقَالَ: اللہمْ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا
ذَا الْجِلَالِ وَالْإِكْرَامِ ۔رَوَاهُ مُسْلِم
ترجمہ:روایت ہے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار
استغفار پڑھتے اور کہتے الٰہی تو سلام ہے تجھ سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے
جلالت اور بزرگی والے ۔ (مسلم۔ مراة المناجیح، ج 2)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو زیادہ سے زیادہ
استغفار کرنے کی توفيق نصیب فرمائے اور ہمیں تمام گناہوں سے بچتے رہنے کی توفيق
عطإ فرمائے،ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرمائے۔آمین
حافظ
حنین قادری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی، پاکستان)

محترم قارئین کرام ہم اللہ پاک کے گناہ گار بندے ہیں اور
اس نے ہمیں گناہوں کی بخشش کیلئے کثرت استغفار کا حکم فرمایا تاکہ استغفار کے ذریعے
ہم گنہگار اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں اور اس امر یعنی (استغفار)کی احادیث
مبارکہ میں بڑی فضیلت آئی ہے اور اس کے فوائد
بھی بیان کیے گئے ہیں یہاں اسی سے متعلق احادیث ملاحظہ کیجئے!
استغفار کا لغوی
معنی: استغفار کا لغوی معنی ہیں بخشش طلب کرنا۔
استغفار کے فضائل : حدیث 1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ اللہ
پاک فرماتا ہے اے میرے بندو! تم سب گنہگار ہو مگر جسے میں نے بچالیا۔لہٰذا مجھ سے
مغفرت کا سوال کرو میں تمہاری مغفرت فرما دونگا اور تم میں سے جس نے یقین کرلیا کہ
میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر مجھ سے میری قدرت کے وسیلہ سے استغفار کیا تو میں اس
کی مغفرت فرمادوں گا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد،باب ذکرالتوبہ، رقم4257،ج4،ص495)
حدیث2: حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور دوجہاں کے تاجور سلطان بحروبر صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب ابلیس نے کہا کہ اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم! میں
تیرے بندوں کو اس وقت تک بہکاتا رہوں گا جب تک ان کی روحیں ان کے جسم میں رہیں گی۔تو
اللہ پاک نے فرمایا، مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں
گے میں ان کی مغفرت کرتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری
رقم،11237،ج4، ص 58)
حدیث:3 حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم
المرسلین رحمتہ اللعلمین شفیع المذنبین، انیس الغریبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا، بیشک تانبے کی طرح دلوں کو بھی رنگ لگ جاتا ہیں اور اس کی جلاء
(یعنی صفائی) استغفار کرناہے۔ (مجمع الزوائد، كتاب التوبۃ، باب ما جاء فی
الاستغفار، الرقم: 17575)
حدیث:4 حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
آقائے مظلوم سرور معصوم حسن اخلاق کے پیکر نبیوں کے تاجور صلی اللہ علیہ سلم نے
فرمایا جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلیا اللہ عروجل اس کی ہر پریشانی دور
فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فر مائیگا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فر
مائیکا جہاں اسے گمان بھی نہ ہوگا۔ (ابن ماجہ، کتاب الادب، باب فی الاستغفار
رقم3819، ج 4،ص257)
حدیث5:حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سید
المبلغين، رحمتہ اللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک سفر کے موقع پر
ارشاد فرمایا: استغفار کرو تو ہم استغفار کرنے لگے پھر فرمایا اسے ستر مرتبہ پورا
کرو۔جب ہم نے یہ تعداد پوری کردی اور سول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا، جو
آدمی یا عورت اللہ پاک سے ایک دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہے اللہ پاک اس کے
سات سو گناہ معاف فرما دیتا ہے اور بیشک جو بندہ دن یا رات میں سات سو سے زیادہ
گناہ کرے وہ بڑا بد نصیب ہے۔(بیہقی شعب الایمان، باب في محبة اللہ، فصل في ادامة
ذکر اللہ پاک، رقم۲٥٢،جلد١،ص من ٤٤٢)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھا آپ نے کہ احادیث مبارکہ
میں کسی قدر استغفار کی فضیلت اور اس کے فوائد بیان کے گئے انہیں کو پیش نظر رکھتے
ہوئے کم از کم ہر شخص کو دن میں ستر مرتبہ تو استغفار کرہی لینا چاہیئے انشاء الله
پاک اس کی برکت سے دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل ہوگی۔اللہ تبارک تعالیٰ ہمیں
کثرت استغفار کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین -(صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم)
حسنین
وکیل صدیقی (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

بہت سی ایسی چیزیں اپنے روز مرہ کی زندگی میں دیکھی ہوں گی
جو شروع میں تو صاف ستھری ہوتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان پر دھبے/داغ پڑنا شروع
ہوجاتے ہیں ان کو صاف کرنے کے لیے کچھ چیزیں درکار ہوتی ہیں جن کے ذریعے وہ پھر سے
صاف ستھری ہو جاتی ہیں اسی کی مثل ہمارا دل بھی ہے۔انسان جب ایک گناہ
کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اور جتنے گناہ کرتا ہے وہ سیاہ
نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسکا پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ سے
انسان کا دل اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ اسکو گناہ گناہ لگتا ہی نہیں ہے، الامان و الحفیظ۔
لیکن جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے گناہ کی تاریکی کو پیدا کیا
ہے وہی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس سے نجات کا ذریعہ بھی بتایا ہے، سبحان اللہ۔اللہ
تبارک وتعالیٰ نے ہمیں اس سیاہی کو دور کرنے کے لیے ایک ذریعہ اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے ہم تک پہنچایا، جسکو استغفار کہتے ہے۔آیئے میں
آپکو استغفار کے حوالے سے چند اہم باتیں بتاتا چلوں۔
استغفار ایک عبادتی عمل ہے جو اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ
ہے۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرنے اور برکتوں کو بلند کرنے کا ذریعہ
ہے۔اسلامی تعلیمات میں احادیث کی روشنی میں استغفار کے کئی اہم فضائل اور فوائد بیان
کئے گئے ہیں جو ہماری روحانیت کو بڑھاتے ہیں اور ہمیں دنیا اور آخرت میں فائدہ
پہنچاتے ہیں۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص استغفار کی پابندی کرے تو
اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات دیتا ہے، اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا
دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان نہیں ہوتا۔ (سنن ابن
ماجہ، حدیث: ۳۸۱۹)
اس حدیث پاک سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ استغفار غم اور مصیبت
سے نجات دلانے میں مددگار ہوتا ہے، اللہ پاک کی رحمت کا باعث بنتا ہے اور ہر مشکل
کو آسانی سے تبدیل کرتا ہے۔
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل
میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور
توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ
گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا
جاتا ہے۔ (سنن الترمذی، حدیث: ۳۳۹۷)
اس حدیث پاک سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ استغفار دل کی سختی
کو دور کرتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے اور گناہوں سے دل میں نفرت پیدا کردیتا ہے۔
3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: مجھ سے
ابوبکر رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو
فرماتے سنا ہے: جو شخص گناہ کرتا ہے، پھر جا کر وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے،
پھر اللہ سے استغفار کرتا ہے تو اللہ اسے معاف کر دیتا ہے۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ۫-وَ مَنْ
یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ ﳑ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا
وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(۱۳۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا
اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور گناہ کون
بخشے سوا اللہ کے اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اَڑ نہ جائیں۔(پ4، الِ عمرٰن:135-سنن
الترمذی، حدیث: ٤٠٦)
اس حدیث پاک سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ استغفار اللہ تبارک
وتعالیٰ کی مغفرت کا باعث بنتا ہے۔
4۔حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص اپنے بستر پر سونے کے لیے
جاتے ہوئے تین بار کہے: أستغفر الله العظيم الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب
إليه ترجمہ: میں اس عظیم ترین اللہ سے استغفار کرتا ہوں کہ جس کے سوا
کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ ہمیشہ زندہ اور تا ابد قائم و دائم رہنے والا ہے، اور
میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اللہ اس کے گناہ بخش دے گا اگرچہ وہ گناہ سمندر کی
جھاگ کی طرح (بےشمار) ہوں، اگرچہ وہ گناہ درخت کے پتوں کی تعداد میں ہوں، اگرچہ وہ
گناہ ریت کے ذروں کی تعداد میں ہوں، اگرچہ وہ دنیا کے دنوں کے برابر ہوں۔ (سنن
الترمذی، حديث: ٣٣٩٧)
اس حدیث مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ استغفار گناہوں
کی بخشش کا ذریعہ بنتا ہے اگرچہ گناہ لا تعداد ہو۔
5۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو استغفار کو اختیار کر لے
وہ مصر (اصرار کرنے والے) لوگوں میں نہیں، خواہ ایک دن میں ستر بار گناہ کا اعادہ
کرے۔ (سنن ابو داؤد، حديث: ١٥١٤)
اس حدیثِ مبارکہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استغفار کو بہت اہم مانا اور اس کی تعریف کی۔
استغفار ایک عظیم عبادت ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مغفرت،
رحمت، مشکلات کا حل اور برکتیں فراہم کرتی ہے۔ہمیں چاہئے کہ ہم روزانہ اس عمل کو
اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں فائدہ حاصل کرسکیں۔
اللہ تبارک
وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تمام عالم
اسلام کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور کل مسلمین مسلمات مؤمنین
مؤمنات کی مغفرت فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔اللہ کریم
نے انسان کی فطرت میں اچھائی اور برائی کو پہچاننے کی طاقت اور خیر اور شر کو اختیار
کرنے کی خواہش رکھی ہے دنیا میں رہتے ہوئے انسان سے کچھ گناہ ہو جاتے ہیں بندہ کو
چاہیے کہ وہ اللہ کریم سے استغفار کرتا رہے وہ استغفار کرنے والوں کو پسند فرماتا
ہے ۔
1: فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : واللہ انی
لاستغفر اللہ واتوب الیہ فی الیوم اکثر من سبعین مرة۔ ترجمہ: خدا کی قسم میں دن میں ستر زیادہ مرتبہ اللہ پاک سے استغفار کرتا ہوں
اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔( مشکاة المصابیح 434/1 حدیث 2323 )
مفتی احمد یار خان
نعیمی فرماتے ہیں توبہ و استغفار نماز روزے کی طرح عبادت ہے ورنہ حضور گناہ سے
معصوم ہے گناہ آپکے قریب بھی نہی آتا
2:
من احب ان تسرہ صحیفتہ فلیکثر فیہا من الاستفغار جو اس بات کو پسند کرتا ہے اس کا نامہ اعمال اسے خوش کرے اسے چاہیے کہ
استغفار میں اضافہ کرے (مجمع الزوائد جلد 347/10، حدیث: 15579 )
3: اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش
ہوتا ہے جس کا اونٹ چٹیل میدان میں گم ہونے کے بعد اچانک مل جائے ۔ ( بخاری، 190/4
،باب التوبہ، حدیث: 6307 )
4: عن
عبداللہ بسر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم طوبی
لمن وجد فی صیحفتہ استغفار کثیرا حضرت عبد اللہ
بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا
اس کے لیے بہت خوبیاں ہے جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔ (مراة المناجیح
شرح مشکوة المصابیح ،جلد 3 حدیث 2356 )
5:عن
الأغر بن یسار المزنی رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم یأیہا الناس: توبوا الی اللہ واستغفروہ فأنی أتوب فی الیوم الیہ مئة مرة
حضرت سیدنا اغر بن یسار مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اے لوگوں اللہ سے توبہ
کرو اور اس سے بخشش چاہو بے شک میں روزانہ سو مرتبہ اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں۔( رواہ
مسلم کتاب الذکر والدعا والتوبۃ والاستغفار، ص 1449 ،حدیث: 2703 )
توبہ و استغفار کے فوائد:
1: جو استغفار کو لازم کر لے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں
آسانی ہر غم سے آزادی اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو ۔(ابو
داؤد، ١٢٢/٢ ،حدیث: ١٥١٨ )
2: جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اللہ کریم لکھنے
والے فرشتوں کو گناہ بھلا دیتا ہے اسی طرح اس کے اعضا کو بھی بھلا دیتا ہے اور زمین
سے اس کے نشانات بھی مٹا دیتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا
اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہو گا ۔(الترغیب والترھیب، ٤٨/٤ )
3: استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے ۔ ( مجمع البحرین، ٢٧٢/٢
،حدیث:٤٧٣٩)
اللہ پاک ہمیں بھی توبہ و استغفار کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
حافظ
عبدالمعیز عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی،
پاکستان)

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے دعا ہی کی ایک خاص قسم
استغفار ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں اور قصوروں کی معافی اور بخشش
مانگنا، اللہ تعالیٰ نے استغفار کو گناہوں کے زہر کا توڑ بنایا ہے، ہر بد سے بدتر
گناہ جو حقوق اللہ سے متعلق ہوں، وہ استغفار سے معاف ہوجاتے ہیں۔
یہ خیال بالکل غلط
ہے کہ استغفار صرف گنہگاروں ہی کا کام ہےاور انہی کو اس کی ضرورت ہے،لیکن حقیقت یہ
ہے کہ اللہ کے خاص بندے یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام جو گناہوں سے محفوظ و
معصوم ہوتے تھے، ان کا حال یہ ہوتا تھا کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ محسوس کرتے
تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا صحیح حق ادا نہیں ہوسکا، اس لیے وہ برابر استغفار
کرتے تھے، ہر مسلمان جانتا ہے کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم گناہوں
سے بالکل معصوم اور پاک تھے اس کے باوجود آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کثرت
سے استغفار کا اہتمام کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے۔کہ ابو ہریرہ
سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ خدا کی
قسم میں دن میں 70 سے زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (بخاری شریف)
چنانچہ استغفار
کرنے کی فضائل اور فوائد کے متعلق بہت سی احادیث نبی کریم سے مروی ہے جن میں چند
درج ذیل ہیں:
(1) حضرت انس سے مروی ہے آپ فرماتے ہے: کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ جس طرح لوہے تانبے اور دہاتوں کو زنگ
لگ جاتا ہےٹھیک اسی طرح دل کو بھی زنگ لگ جاتا ہے اور اس زنگ کو اتارنے کے لئے جو
چیز بنائ گئ ہے وہ استغفار ہے
(2) حضرت عبدللہ بن عباس سے مروی ہے: کہ نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کرلیا
اللہ تعالیٰ اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے
گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا ۔ (سنن
ابن ماجہ، ص: 257، حدیث نمبر: 3819)
(3) میرے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: کہ جو آدمی یہ خواہش رکھتا ہو کہ قیامت کے دن وہ اپنا نامہ اعمال دیکھ کر
خوش ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ کثرے سے استغفار پڑھے۔ (ابن ماجہ)
(4) سرورے دو عالم نور مجسم ارشاد فرماتے ہیں: کہ (بعض
اوقات) میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے اور پھر میں دن میں 100 مرتبہ استغفار
کرتا ہوں ۔ (صحیح بخاری: 6307)
استغفار کے فوائد:
(1) استغفار اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ٹال دیتا ہے
(2) استغفار جسمانی قوت میں اضافہ کا سبب ہے
(3) استغفار باران رحمت اور مال اولاد میں ترقی کا سبب ہے
(4) استغفار خوشگوار زندگی کا سبب ہے
(5) استغفار دنیا میں رحمتیں اور آخرت میں بخشش کا سبب ہے
(6) استغفار کرنے سےبندہ غافلین کی صف سے نکال لیا جاتا ہے
(7) استغفار 700 گناہوں کی معافی ک سبب ہے
(8) استغفار سے دعائیں قبول ہوتی ہے
(9) استغفار سے جنت میں داخلہ ہوگا
(10) استغفار سے رزق میں برکت ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رب دو عالم ہمیں استغفار کرنے
والے لوگوں میں شامل فرمائےاور کثرت سے استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
راشد علی عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان مشتاق
شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)

1۔چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نماز سے فارغ ہوتے تو (پہلے) تین مرتبہ
استغفار کرتے اور (پھر) یہ دعا پڑھتے: اللہم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا
الجلال و الاکرام۔(صحیح مسلم)
2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ جب سورۂ نصر
نازل ہوئی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بکثرت سُبْحَانَ
اللہ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُ اللہ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ پڑھتے تھے(صحیح مسلم)
3۔ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: جو
شخص استغفار کی کثرت کرتا ہے، یعنی ہمیشہ استغفار کرتا رہتا ہے، مسلسل استغفار
کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر تنگی اور پریشانی سے اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے اور
اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو غم سے نجات اور رہائی نصیب فرماتا ہے اور اس آدمی کو
اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔اسے
معلوم بھی نہیں ہوتا ایسی جگہ سے اللہ اسے رزق عطا فرماتا ہے۔(صحیح مسلم)
4۔ حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:اللہ کی قسم! میں دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا اور
توبہ کرتا ہوں۔(صحیح بخاری)
5۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب کوئی
بندۂ مؤمن یعنی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے،پھر
اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا
ہے یعنی وہ سیاہ نقطہ ہٹا دیا جاتا ہے، اگر وہ آدمی زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ
نقطہ بڑھتا رہتا ہے،یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور پورا دل سیاہ
ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔جو بندہ گناہوں سے سچی توبہ
کرتا ہے اور اپنی توبہ پر قائم رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا
ہے۔(صحیح مسلم)
6۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: گناہوں
سے صحیح اور پختہ توبہ کرنے والا شخص ایسا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیاہی نہ ہو۔(صحیح
مسلم)
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنی کثرت سے استغفار
کرتے، اس سے مقصود امت کو ہمیں استغفار وتوبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آنحضرت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باوجودیہ کہ معصوم اورتمام مخلوقات سے افضل ہیں، پھر بھی
جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دن میں ستر بار توبہ و استغفار کی۔ تو امت
کے گناہ گاروں کو بطریق اولیٰ استغفار وتوبہ بہت کثرت سے کرنی چاہئے۔
استغفار کے کلمات: اب استغفار کن
کلمات یعنی کن الفاظ سے کرنا چاہیے، اس کے لیے احادیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں، جس
بندے کو جو یاد ہوں وہ کلمات استغفار کے پڑھتے رہنا چاہیے۔ایک کلمہ استغفار کا
أَسْتَغْفِرُ اللہ الَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ
الْحَىُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ
ہے جسے یہ یاد ہو،
یہ پڑھتارہے۔ایک کلمہ
أَسْتَغْفِرُ اللہ رَبِّي مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ أَتُوبُ
إِلَيْهِ
ہے، یہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور جسے یہ یاد نہ ہوں تو أَسْتَغْفِرُ
اللہ ، أَسْتَغْفِرُ اللہ ہی پڑھتا رہے۔یہ
مختصر کلمہ ہر مسلمان کو یاد ہوتا ہے، اسے پڑھتے رہنا چاہیئے، اسے زبان پر ہر وقت
جاری رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کی کثرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثم
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

انسان میں شر کی دو طاقتیں ہیں۔ایک انسانی نفس یہ اندرونی
اور دوسرا شیطان یہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو گناہوں کی طرف لے
جاتی ہیں، اس لیے اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر انسان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں اور گناہ
صادر ہوجاتے ہیں کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سوائے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
والتسلیمات کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ صادر نہیں ہوتا، نبوت سے
پہلے بھی اور نبوت کے بعد بھی انبیاء کی جماعت معصوم ہوتی ہے، یہ معزز گھرانے کے
افراد ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا بطور خاص انتخاب فرماتا ہے، یہ ہمارا متفقہ
عقیدہ ہے۔
انبیا کی تخلیق ہی ایسی ہے کہ وہ ان دونوں شر کی طاقتوں سے
محفوظ ہوتے ہیں، انہیں جو نفس عطا کیا جاتا ہے، وہ نفس مطمئنہ ہوتا ہے، جس میں طبعی
طور پر ہر گناہ اور معصیت سے نفرت ہوتی ہے۔
پیارے اسلامی بھائیو! کئی احادیث میں استغفار کے فضائل بیان
کئے گئے ہیں اور اس کو کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے ان میں سے چند روایات درج ذیل
ہیں :
عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ -صَلَّى اللہ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ-: مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللہ لَهٗ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ
مَخْرَجًا، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ۔
ترجمہ: روایت ہے
ان ہی(حضرت ابن عباس)سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
جو استغفار کو اپنے پر لازم کرلے توﷲاس کے لیے ہرتنگی سے چھٹکارا اور ہر غم سے
نجات دے گا اور وہاں سے اسے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔ (احمد،ابوداؤد،ابن
ماجہ)
شرح حدیث:
اس طرح کہ روزانہ
استغفار کے کلمے زبان سے ادا کیا کرے گناہ کرے یا نہ کرے۔بہتر یہ ہے کہ نماز فجر
کے وقت سنت فجر کے بعد فرض سے پہلے ستر بار پڑھا کرے کہ یہ وقت استغفار کے لیے بہت
ہی موزوں ہے، رب تعالیٰ فرماتاہے: وَ
بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) یہ عمل بہت ہی
مجرب ہے۔روزی سے مراد مال،اولاد،عزت سب ہی ہے۔استغفار کرنے والے کو رب تعالیٰ یہ
تمام نعمتیں غیبی خزانہ سے بخشتا ہے، قرآن کریم فرماتاہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ
غَفَّارًاۙ(۱۰) یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ
مِّدْرَارًاۙ(۱۱) وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ
جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا
معاف فرمانے والا ہے۔تم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گا۔اور مال اور
بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں
بنائے گا۔(پ29، نوح10تا12) قرآن کریم میں استغفار پر پانچ نعمتوں کا ذکر فرمایا
اور اس حدیث نے تین نعمتوں کا مگر ہماری اس شرح سے وہ پانچوں نعمتیں ان تین میں
آگئیں،رب تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ
یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(۲) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا
یَحْتَسِبُؕ- یہ حدیث اس آیت کی شرح ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح، جلد:3 حدیث نمبر:2339 )
وَعَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ
اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ: «اللہمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ
تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجلَالِ وَالْإِكْرَامِ»۔رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمہ: روایت ہے حضرت ثوبان رضی الله عنہ سے فرماتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے
اور کہتے الٰہی تو سلام ہے تجھ سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے اے جلالت اور بزرگی
والے (مسلم۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 حدیث نمبر:96 )
توبہ واستغفار کے 4 فوائد :
1: اللہ پاک تو بہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے 2:جو
استغفار کو لازم کر لے اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہر غم سے آزادی اور
اسے، وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔3: استغفار سے دلوں کا زنگ
دور ہوتا ہے 4- جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے والے
فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا (یعنی ہاتھ یہ پاؤں) کو بھی
بھلا دیتا ہے اور زمین سے اس کے نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن
جب وہ اللہ پاک سے ملے؟ گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ملے
گا ( الترغیب والترہیب 48/4 رقم (17)
محمد عرفان رضا (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ گلزار حبیب
سبزہ زار لاہور، پاکستان)

توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے
معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا
عہد کر نا توبہ ہے
ویسے تو جس لمحہ اور جس ساعت انسان اللہ تعالیٰ کو یاد
کرتا ہے اور پکارتا ہے تو وہ سنتا ہے اور اس سے جب بھی دعا کی جائے قبول فرماتا
ہے۔لیکن رات کا آخری ثلث بطور خاص اس کام کے لیے معین کیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ
تعالیٰ نے اپنے بندوں کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا۔
وَ
الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ(۱۷) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور پچھلے پہرسے معافی مانگنے والے۔(پ3، اٰل عمرٰن:17)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا :
وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پچھلی رات اِستغفار کرتے۔ (پ26،
الذٰریٰت: 18)
جس طرح لوہا پانی میں پڑا رہنے سے زنگ خوردہ ہو جاتا ہے۔اسی
طرح انسانی قلوب گناہوں کی نجاست سے آلودہ ہونے کے باعث زنگ خوردہ اور سیاہی آلود
ہو جاتے ہیں۔ایسے وقت استغفار کی ریتی ہی اس زنگ کو دور کر کے چمکا سکتی ہے۔چنانچہ
آنحضرت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک طویل حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر
ہے:
فإن تاب واستغفر صقل قلبه
یعنی اگر انسان توبہ کر لے اور اپنے گناہوں سے معافی مانگے
تو اس سے اس کا قلب چمک اُٹھتا ہے۔ (ترمذی)
فوائدِ استغفار: جو استغفار کو لازم کرلے
اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں میں آسانی، ہر غم سے آزادی اور اسے وہاں سے روزی دے گا
جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔
استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے:
جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ کریم لکھنے
والے فرشتوں کو اس کے گناہ بھلا دیتا ہے، اسی طرح اس کے اعضا (یعنی ہاتھ پاؤں) کو
بھی بھلا دیتا ہے اور زمین سے اُس کے نشانات بھی مٹا ڈالتا ہے۔یہاں تک کہ قیامت کے
دن جب وہ اللہ پاک سے ملے گا تو اللہ پاک کی طرف سے اس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ
ہوگا ۔
گناہوں سے معافی: انسان کے گناہ خواہ ریت کے
ذروں کے برابر ہوں یا بحرِ بیکراں کے قطرات سے زائد ہوں تو بھی استغفار سے سب محو
ہو جاتے ہیں۔
(1) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے میری اُمّت کے لئے مجھ پر دو امن(والی آیات) اتاری ہیں، ایک: وَ مَا
كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب
تم ان میں تشریف فرما ہو۔اور دوسری: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ
وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور
اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33) جب میں
اس دنیا سے پردہ کر لوں گا تو قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑ دوں گا۔(ترمذی، کتاب
التفسیر، باب ومن سورۃ الانفال، ۵/۵۶، الحدیث: ۳۰۹۳)
(2) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے
رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں
انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب
تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، ۴/۵۹،
الحدیث: ۱۱۲۴۴)
(3) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے،
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے
لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی
جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب
الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہمارا رب تعالیٰ ہر رات اس وقت دنیا
کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا تھائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور
فرماتا ہے کوئی ایساہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں،کوئی ایساہے
جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں، کوئی ایساہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ
میں اسے بخش دوں۔(بخاری، کتاب التّھجّد، باب الدّعاء والصّلاۃ من آخر اللّیل،
۱/۳۸۸، الحدیث: ۱۱۴۵۔صراط الجنان)
(5) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سب
سے اہم اور افضل استغفار یہ ہے کہ بندہ کہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔تیرے سوا کوئی
معبود نہیں۔تو میرا خالق ہے۔میں تیرا بندہ ہوں اور میں اپنی طاقت و استطاعت کے
مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد و وعدے پر قائم ہوں۔میں اپنے گناہوں کے شر سے تیری پناہ
چاہتا ہوں۔میں اپنے ہر قسم کے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے آپ پر تیری
نوازشات کا اقرار کرتا ہوں، لہٰذا مجھے معاف فرما کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ معاف
نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص یقین و ایمان کے ساتھ صبح کے وقت یہ کلمات پڑھے، پھر
مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا اور اگر شام کے وقت یہی کلمات یقین و ایمان رکھتے
ہوئے کہے اور مر جائے تو جنت میں داخل ہو گا۔ (سنن نسائی، 2/319۔مکتبہ قدیمی کتب
خانہ)
محمد
حسن (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)

اللہ تعالیٰ کے ہم پر بہت سارے انعامات ہیں ہمیں ان کا شکر
ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے ہوئے توبہ و استغفار کی کثرت کرنی
چاہیے
استغفار کے فضائل پر احادیث:
حدیث:1 امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ بلند درجات کی طرف ترقی فرماتے اور جب آپ
اپنے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تو اپنے پہلے حال پر استغفار فرماتے۔ (فتح
الباری، جلد 12،صفحہ 85،تحت حدیث 6307)
حدیث 2: علامہ ابن بطّال فرماتےہیں : انبیائے کرام لوگوں میں
سب سے زیادہ شکر گزاری عبادت گزاری کے باوجود اللہ پاک کا كَمَا حَقَّهُ حَقْ ادا
نہ ہونے پر استغفار کرتے تھے۔ (شرح بخاری ابن بطال، جلد 10،صفحہ 71)
حدیث 3: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وَاللهُ
اِنِّي لَاَسْتَغْفِرُ اللهَ وَ اَتُوْبُ اِلَيْهِ فِيْ الْيَوْمِ اَكْثَرُ مِنْ
سَبْعِيْنَ مَرَّةً
ترجمہ: خدا کی
قسم میں دن میں 70 سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں
توبہ کرتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد 1،صفحہ 434، حدیث: 2323)
حدیث: 4 علامہ بدر الدین فرماتے ہیں نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم بطورِ عاجزی یا تعلیم امت کے لئے استغفار کرتے ۔ (عمدۃ القاری،
جلد 15، صفحہ 413 تحت حدیث 6307 مُلْخَصًا)
حدیث: 5 حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں
توبہ و استغفار روزے نماز کی طرح ایک عبادت ہیں اس لئے حضور انور اس پر عمل کرتے
ورنہ حضور انور معصوم ہیں گناہ آپ کے قریب بھی نہیں آتا ۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 3،
ص 353 مُلْخَصًا)
استغفار کے فوائد ملاحظہ فرمائیں:
(1) اللہ پاک استغفار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
(2)استغفار کرنے سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہیں ۔
(3)جو استغفار کو لازم کرے تو اللہ پاک اس کی تمام مشکلوں
میں آسانی ہر غم سے آزادی اور اسے وہاں سے رزق ادا کرتا ہے جہاں اس کا گمان بھی نہیں
ہوتا ۔
ان احادیث کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس
کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے استغفار کے فضائل و فوائد کا بہت
بڑا مقام رکھا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین