اللہ تعالیٰ نے انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے محترم بنایا ہے اور اسے زندگی بسر کرنے کا سیدھا راستہ بھی دیکھایا ہے۔ اس راستے پر چل کر انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ فرشتے بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی راہ پر چلنے والا انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کا نائب ہے اور یہ قابل رشک منصب کسی دوسری مخلوق کا مقدر نہیں بن سکا۔

اسلام کو اللہ تعالیٰ نے صرف اس لئے پسند فرمایا کہ یہ دین اس کے محبوب نبی پر اتارا گیا۔اسلام نے زندگی گزار نے کے ہر اس پہلو کو اجاگر کیا جو دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے انسان کو معلوم بھی نہیں تھیں۔اسلام نے تمام رشتوں کے حقوق و فرائض سے متعلق انسان کو آگاہ کیا ہے۔

نبی کریم کی پوری زندگی ہمارے لئے اعلیٰ ترین نمونہ ہے جس پر عمل کر کے ہم اپنی زندگی میں وہ خوشگوا را حساس و سکون پیدا کر سکتے ہیں جس کا ہر انسان ہمیشہ سے متلاشی رہا ہے۔اس حوالے سے میاں بیوی کے حقوق وفرائض ایک دوسرے پر فرض کر دیئے گئے ہیں تا کہ اس خوبصورت رشتے کو برقرار رکھا جا سکے۔یہاں ہم شوہر کے حقوق و فرائض کا جائزہ لے رہے ہیں۔

کسی مسلمان شوہر کا پہلا حق اور اس کی بیوی کا شوہر کے لئے سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ہر معاملے میں اپنے شوہر کی اطاعت و فرماں برداری کرے۔لیکن اگر شوہر اپنی بیوی کو خلاف شریعت کوئی کام کرنے کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہ کرے ۔بلکہ اس معاملے میں وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کر۔

حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کا ہے۔ایک اور جگہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: اگر غیر اللہ کے لئے سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جو عورت اللہ کی اطاعت کرے، شوہر کے حقوق ادا کرے، اسے نیک بنانے کی کوشش کرے، اپنی عصمت کی حفاظت کرے اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے تو اس کے اور شہیدوں کے درمیان جنت میں ایک درجہ کا فرق ہو گا۔ شوہر کی اطاعت کے حوالے سے رسول کریم نے یہ فرمایا ہے کہ وہ عورت جو پنج وقتہ نماز ادا کرے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اپنی عزت کی حفاظت اور شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے ۔

جنت میں ایک درجے کا فاصلہ ہوگا۔ اگر اس کا شوہر ایمان والا اور نیک ہو گا تو وہ جنت میں بھی اس کی بیوی بنے گی ور نہ شہداء میں سے کوئی اس کا شوہر ہوگا۔رسول اکرم فرماتے ہیں: شوہر کا اپنی بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر نہ جائے ۔

شوہر کا دوسرا حق اور اس کی بیوی کا دوسرا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے تمام گھر اور مال و متاع کی حفاظت کرے۔اس کے ساتھ اپنی اور اپنے شوہر کی عزت و آبرو اور نسبت کی بھی مکمل حفاظت کرے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے گھر، اس کے مال و متاع، اس کی عزت آبرو بلکہ ہر ایک چیز کی امانت کی طرح حفاظت کرتی ہیں۔(سورۃ الروم)

حدیث شریف میں ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے۔یعنی اس کے مال و متاع کی حفاظت عورت کی ذمہ داری ہے۔اکثر حالات میں عورت کے ذمہ کھانا پکانا واجب نہیں ہوتا لیکن شوہر کے گھر کی حفاظت اور اس کے مال و متاع کی اس طرح حفاظت کہ مال بے جا خرچ نہ ہو، اسلام نے یہ عورت کی ذمہ داری قرار دی ہے۔عورت پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ شوہر کی جملہ ضروریات کا مناسب خیال رکھے حتی کہ نفلی نمازوں اور روزوں میں بھی اس کی اجازت حاصل کرے کہ اس سے شوہر کو ایک حد تک تکلیف اور پریشانی ہو سکتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں نفلی روزہ رکھے، مگر شوہر کی اجازت سے۔یعنی کسی عورت کے لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر حلال نہیں۔البتہ شوہر کو چاہیے کہ وہ بلا وجہ بیوی کو نفلی روزہ سے منع نہ کرے۔اللہ اور اللہ کے رسول نے شوہر کی اطاعت کو تمام نفلی عبادتوں پر فوقیت عطا فرمائی ہے۔لہٰذا جو ثواب اس عورت کو روزہ رکھ کر ملتا، اب شوہر کی اطاعت کر سے زیادہ ثواب ملے گا اور وہ عورت یہ نہ سمجھے کہ وہ روزہ سے محروم ہو گئی۔اس لئے وہ یہ سوچے کہ روزہ کس لئے رکھ رہی تھی؟ روزہ تو اس لئے رکھ رہی تھی کہ ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ راضی ہوں گا ۔لیکن اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا۔جب تک تیرا شوہر تجھ سے راضی نہیں ہو گا۔اس لئے جو ثواب عورت کو روزہ رکھ کر ملتا، وہی ثواب اسے شوہر کی اطاعت کے بعد بھی ملے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: رمضان کے مہینے میں مجبوری کی وجہ سے جو روزے مجھ سے قضا ہو جاتے میں عام طور پر ان روزوں کو آنے والے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتی تھی کہ شعبان میں حضو را کرم بھی کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔لہٰذا اگر اس زمانے میں، میں بھی روزے سے ہوں گی اور آپ بھی روزے سے ہوں تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے یہ نسبت اس کے کہ میں روزہ سے ہوں اور آپ کا روزہ نہ ہو۔(ترمذی شریف)

فطری خواہش کی تکمیل پر بالکل صریح حدیث موجود ہے کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: میاں بیوی کے جو باہمی تعلقات ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر بھی اجر عطا فر ماتا ہے ۔صحابہ کرام نے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ! وہ تو انسان اپنی نفسانی خواہشات کے تحت کرتا ہے۔اس پر کیا اجر؟ آپ نے فرمایا: اگر وہ ان نفسانی خواہشات کو نا جائز طریقے سے پورا کرتے تو اس پر گناہ ہوتا یا نہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا۔یا رسول اللہ! گناہ ضرور ہوتا۔آپ نے فرمایا: جب میاں بیوی نا جائز طریقے کو چھوڑ کر جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کو میری وجہ سے اور میرے حکم سے کر رہے ہیں۔اس لئے اس پر بھی ثواب ہے ۔(مسند احمد بن خلیل جلد 5، 169167)

عورت کے حقوق اتنے بیان کئے گئے اور ان کے حقوق کا لحاظ کیا گیا۔اس کا منشا در حقیقت یہ ہے کہ عورت اور ان کے شوہر کے درمیان تعلق درست ہو جائے اور اس تعلق کی درستی کا ایک لازمی حصہ یہ ہے کہ بیوی کے ذریعے شوہر کو عقت حاصل ہو، پاک دامنی حاصل ہو۔نکاح کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ پاک دامنی حاصل ہو اور شوہر کو کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت نہ رہے۔

دوسری روایت میں فرمایا: اگر کوئی عورت جان بوجھ کر اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گزارے تو اس کو فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ صبح ہو جائے ۔ان تمام معاملات کی نبی اکرم نے تفصیل کے ساتھ ایک ایک چیز بیان فرمادی ہے۔اس لئے کہ یہی چیز میں جھگڑااور فساد کا باعث ہوتی ہیں۔

بعض عورتوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات ایک دنیاوی قسم کا معاملہ ہے اور یہ صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل کا معاملہ ہے ایسا ہر گز نہیں ہے۔بلکہ یہ دینی معاملہ بھی ہے اس لئے کہ اگر عورت یہ نیت کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمہ جو فریضہ عائد کیا ہے اور اس تعلق کا مقصد شوہر کو خوش کرنا ہے اور شوہر کو خوش کرنے کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے تو پھر یہ سارا عمل ثواب بن جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو سربراہ بنایا ہے اس لئے معاملات میں فیصلہ شوہر کا ماننا ہو گا۔البتہ بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد کو یہ ہدایت بھی دے رکھی ہے کہ وہ حتی الامکان بیوی کی خوشنودی کا خیال رکھے۔لیکن فیصلہ مرد کا ہو گا۔اگر بیوی یہ چاہے کہ ہر معاملے میں فیصلہ اس کا ہو اور وہ سربراہ بن جائے تو یہ فطرت کے خلاف ہے۔اور اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں توازن رکھا ہوا ہے اگر انسان اس توازن میں خرابی پیدا کرنے کی خواہش کرتا ہے تو تباہی یقینی ہے۔


اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت اور فضیلت دی اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت سے پیدائشی طور پر قوی ہے زیادہ ذہنی قوت کا مالک ہے عورت کی نسبت زیادہ انتظامی صلاحیتیں رکھتا ہے اپنے آپکو محنت مشقت میں ڈال کر مال کما کر عورت پر خرچ کرتا ہے ان خوبیوں کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت حاصل لہٰذا اچھی بیوی وہ ہوتی ہے جو خاوند کی فرما ں بردار ہو زندگی کے معاملات میں بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپکے خاوند کا ہر جائز کہنا مانےعورت نے گھریلو طور پر بہت سارے کام سرانجام دینے ہوتے ہیں جن کا تعلق خاوند کی معاشی حیثیت کے ساتھ ہوتا ہے اگر عورت اپنے خاوند فرمانبرداری نہیں کرے گی بلکہ اپنی نا جائز باتیں خاوند سے منوانے گی تو گھر کا نظام درہم برہم ہوتا جائے گا اس لیے شریعت نے بنیادی طور پر عورت کے فرائض میں جو بات شامل کی ہے وہ خاوند کی فرمانبرداری ہراس کے بارے میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم المرءتہ اذا صلت فمیتتھا وصامت شھرہا واحصنت فرجہا واطاعت بعلہا فلتدخل من ای ابواب الجنتہ شآءت ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے کہ عورت جب پانچوں نمازیں پڑہے رمضان لمبائی کے روزے رکھے اور اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھے یعنی اپنے نفس کو محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کی ان باتوں میں فرمانبرداری کرے جن کی فرمانبرداری شریعت نے اس پر لازم کی ہے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے اور ایک اور حدیث میں پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

اس حدیث میں شوہر کے حقوق کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنا حرام ہے اور شرک بھی ہے اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرےاس سے شوہر کے حقوق کا خصوصی دھیان رکھنے کی تاکید مقصود ہے۔


شادی کے ذریعے میاں بیوی زندگی کے سفر میں ایک دوسرے کے رفیق سفر بن جاتے ہیں اور چونکہ یہ سفر طویل ہے تو ان کی رفاقت بھی طویل ہی ہوتی ہے شاید اسی لئے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا رفیق حیات یعنی زندگی بھر کا ساتھی کہا جاتا ہے۔اس طویل سفر میں زندگی کو خوشگوار گزارنے کیلئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق کے بارے میں معلومات ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اس معلومات کی روشنی میں اپنے رفیق حیات کے حقوق کا خیال رکھے۔عموماً ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنے اور ایک دوسرے کو اہمیت نہ دینے ہی کی وجہ سے باہم ناچاقیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔جو میاں بیوی میں فاصلوں اور دوریوں کو بڑہانے کا سبب بنتی ہیں۔دین اسلام میں میاں بیوی کے حقوق کو بہت اہمیت حاصل ہے کثیر احادیث میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔آئیے! بیوی پر شوہر کے حقوق کی اہمیت کے بارے میں احادیث مبارکہ ملا حظہ کیجئے:

اُم المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا۔عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا حق میں نے پوچھا مرد پر سب بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اُس کی ماں کا حق۔(مستدرک، حدیث: 7418)

پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی اس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔(مرقات)اس سے معلوم ہوا کہ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے ،(مرآۃ المناجیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:5 حدیث نمبر:3255)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عورت جب تک شور کا حق ادا نہ کرے وہ ایمان کی مٹہاس حاصل نہیں کر سکتی۔(معجم کبیر، ۵۳/۲۰، حدیث: ۹)

حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی کام سے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کی حاجت پوری فرما چکے تو ارشاد فرمایا: کیا تم شوہر والی والی (یعنی شادی شدہ) ہو؟ نے عرض کی جی ہاں۔فرمایا۔تم (خدمت کے اعتبار سے) شوہر کیلئے کیسی ہو؟ عرض کی جو کام میرے بس میں نہ ہو اُس کے علاوہ میں اُن کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتی۔ارشاد فرمایا: اس بارے میں غور کر لینا کہ شوہر کے اعتبار سے تمہارا کیا مقام ہے کیونکہ وہی تمہاری جنت اور دوزخ ہے۔(سن الكبرى للنسائی، حدیث: ۸۹۶۳)

مزید اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں کہ بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا، (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

شوہر کے حقوق کی پاسداری کے فضائل :حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو عورت مر جائے اس حال میں کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہوا تو جنت میں جائے گی ۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں خاوند سے مراد مسلمان عالم متقی خاوند ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد:5 حدیث نمبر:3256)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے۔(ابونعیم ،حلیہ)

حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ یہاں شرمگاہ کی حفاظت سے مراد ہے کہ زنا اور اسباب زنا سے بچے بے پردگی گانا ناچنا وغیرہ حرام کام کے اسباب بھی حرام ہیں ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:5 حدیث نمبر:3254)

اللہ پاک تمام بیویوں کو اپنے شوہروں کے حقوق کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد، بات کو سمجھنے والا، جاننے والا، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔عورت پر سب سے بڑا حق اس کےشوہرکاہے یعنی ماں باپ سے بھی زیادہ اور مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے یعنی زو جہ کا حق اس سے بلکہ باپ سے بھی کم۔اللہ پاک فرماتا ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(پ5،النسآء:34)

بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا، (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا(9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

احادیث مبارکہ میں بھی شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

(1) اَیُّمَا اِمْرَأَۃٍ مَّاتَتْ وَزَوْجُہا عَنْہا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃیعنی جس عورت کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔(سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوجالخ،۳۸۶/۲، الحديث:۱۱۶۴)

(2) مروی ہے کہ ایک شخص نے سفر پر روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی سے عہد لیا کہ وہ اوپر والی منزل سے نیچے نہیں اترے گی، نچلی منزل میں عورت کا باپ رہتا تھا، وہ بیمار ہوا تو عورت نے بارگاہِ رسالت میں پیغام بھیج کر باپ کے پاس جانے کی اجازت چاہی تورسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا:اپنے شوہر کی اطاعت کر۔چنانچہ، باپ کا انتقال ہوگیا، اس نے پھر اجازت طلب کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےیہی فرمایا کہ’’اپنے شوہر کی اطاعت کر۔‘‘جب اس کے باپ کو دفنا دیا گیا تو حضور نبیّ رحمت،شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس عورت کی طرف پیغام بھیجا کہ’’تمہارے اپنے شوہر کی اطاعت کرنے کے سبب اللہ پاک نے تمہارے والد کی مغفرت فرما دی ہے۔(المعجم الاوسط،۳۷۲/۵،الحديث:۷۶۴۸)

(3) اِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَہَا وَصَامَتْ شَہْرَہَا وَحَفِظَتْ فَرْجَہَا وَاَطَاعَتْ زَوْجَہَا دَخَلَتْ جَنَّۃَ رَبِّہَایعنی اگرعورت(پاپندی سے)پانچوں نمازیں پڑہے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ اپنے ربّ پاک کی جنت میں داخل ہو گی۔(المسندللامام احمدبن حنبل،حديث عبد الرحمن بن عوف الزهری،۴۰۶/۱،الحديث:۱۶۶۱،بتغيرقليل)اس روایت کے مطابق خاوند کی اطاعت اسلام کے بنیادی امور میں سے ہے۔

(4) حُسنِ اَخلاق کے پیکر، محبوبِ رَبِّ اَکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔(جامع الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ،الحدیث: ۱۱۶۱،ص۱۷۶۵۔)

(5) خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب عورت پانچ وقت نماز پڑھے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہو جائے گی۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،کتاب النکاح، باب معاشرۃ الزوجین، الحدیث:۴۱۵۱،ج۶،ص۱۸۴)


دین اسلام کی یہ خوبصورتی ہے کہ اسلام نے ہر ایک کے حقوق کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے جہاں اسلام نے والدین کے بہن بھائیوں کے اساتذہ کے حقوق کو بیان کیا وہیں ایک عورت کے لئے اس کی زندگی میں اس کے شوہر کا کیا حق ہے ان حقوق کو بھی بڑے احسن انداز میں بیان کیا ،اس طرح کے کئی حقوق ہیں جنہیں اللہ پاک نے خود قرآن کریم میں بیان کر کے شوہر کی تعظیم اور عظمت کو واضح کر دیا ہے۔

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤاور انہیں مار و ۔(پ5،النسآء:34)

شوہر کے حقوق درج ذیل ہیں:

(1) پہلا حق یہ کہ شوہر کو اپنی ازدواجی تعلقات کو قائم کرنے سے نا روکنا یہ بھی شوہر کا حق ہے جس کی تائید ہمیں پیارے آقا صَلَّی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے ملتی ہے کہ میرے آقا نے ارشاد فرمایا جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی،ج2،ص386، حدیث: 1163)

تو یہ حق ہمیں حدیث سے ملتا ہے کہ چاہے بیوی کتنا ہی مصروف کیوں نا ہو اگر شوہر اسے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ تمام کام چھوڑ کر شوہر کے حکم کی تعمیل کرے ۔

(2) دوسرا حق شوہر کا یہ ہے کہ بیوی ہمیشہ شوہر سے راضی رہے اور اس بات کا خیال رکھے کہ شوہر میری کسی وجہ سے ناراض نا ہو اور میرا ایسا رویہ نا ہو کہ جس سے شوہر کی دل آزاری ہو اس کی تائید میں میرے آقا نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ فرمان ہے کہ میرے آقا نے ارشاد فرمایا جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔ (ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

تو ان احکام الٰہی اور رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرتے ہوئے ہر عورت کو چاہئے اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے ہر اس کام کی جسے شریعت نے منع نا کیا ہو تعمیل کرے۔

اسی طرح سے میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بڑی پیاری بات فتاویٰ رضویہ میں ارشاد فرمائی کہ عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج22،ص126)

تو یہاں سے عورت کو ایک بات سمجھنی چاہئے کہ عورت کا سجنا صرف اور صرف اپنے شوہر کے لئے ہونا چاہئے اور اسے دل میں یہ نیت کرنی چاہئے کہ میرے اس عمل سے میرا شوہر راضی ہوگا جب عورت اپنے شوہر کے دل میں خوشی داخل کرنے کی نیت سے یہ تمام کام بجالائی گی تو یقیناً اسے نفل نماز پڑھنے سے بھی زیادہ اجر ملے گا ۔

آخر میں ایک نصیحت عقل مند عورت اپنے شوہر کو بادشاہ بنا کر اس کی ملکہ بن کر راج کرتی ہے اور جب کہ کم عقل عورت اپنے شوہر کو غلام بنا کر ایک غلام کی بیوی بن کر زندگی گزار دیتی ہے

خلاصہ: اگر عورت ان تمام امور کو اپنا کر شوہر کی عزت کرے اور شوہر کے تمام حقوق ادا کرے تو زوجین کی زندگی گلاب کی طرح مہک اٹھے گی اللہ پاک ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔


اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور ان کی خوشحال زندگی کے لیے جوڑے بنائے ،دنیا میں عظیم ترین جوڑا مرد اور عورت کا ہے۔جو نکاح کے بندھن سے جُڑ جانے کے بعد شوہر اور بیوی کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔جس طرح ا ﷲ تبارک‌وتعالیٰ نے ہر جوڑے کے دوسرے جوڑے پر حقوق رکھے ہیں اسی طرح بیوی پر بھی شوہر کے حقوق کو برتری دی ہے۔ہم اس ضمن میں شوہر کے حقوق بیان کریں گے۔قرآن میں ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر۔(پ5،النسآء:34)

(1) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

(2) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔(مسند امام احمد،ج 1،ص406، حدیث: 1661)

(3) معلّمِ انسانیت صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔(ترمذی،ج2،ص386، حدیث: 1163)

(4) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے کوئی شخص اپنی عورت کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو آسمان والی ذات(اللہ تبارک و تعالیٰ)اس عورت سے اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے ۔(ریاض الصالحین، باب حق الزوج علی المرأۃ)

(5) نبیِّ برحق صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری،ج3،ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)

شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کثیر حقوق ہیں مگر طاقت سے باہر نہیں تاکہ یہ دونوں بآسانی ادا کریں اور کل قیامت کے روز ایک دوسرے کے حقوق میں گرفتار نہ ہوں۔اسی طرح بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی رضا مندی کو ملحوظ رکھے اور اس کے حقوق کو پورا کرے۔ اللّہ تبارک و تعالیٰ ہمیں بھی عمل خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا کی تخلیق فرمائی پھر اس کو آباد کرنے کے لیے مختلف مخلوقات پیدا فرمائی اور اس میں تمام مخلوقات کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیائے کرام ورسولوں کو بھیجا اور سب سے سے آخری نبی محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت پیارے دین،دینِ اسلام کےساتھ مبعوث فرمایا اور اس دین میں ہر کسی کے حقوق کا خیال بھی رکھا گیا ہے حتی کہ جانوروں کے حقوق، پرندوں کے حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں اور انسانی تعلقات میں جو رشتہ آتے ہیں ان کے بھی حقوق بیان کئے گئے ہیں جیسے اولاد پر ماں باپ کے حقوق ماں باپ پر اولاد کے حقوق، پڑوسی کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق اور حتی کے مصاہرت (سسرالی رشتوں) کے حقوق بھی اسلام ہمیں بیان فرماتا ہے اور سب سے اچھے اور پاکیزہ رشتہ میاں بیوی کے رشتہ کے حقوق جیسے شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق بھی اسلام ہمیں بیان کرتا ہے۔میاں بیوی کے رشتہ کے متعلق اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّ نِسَآءًۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلادئیے۔(پ4، النسآء:1)

سبحان الله! جب قرآن پاک میں اس پاکیزہ رشتہ کا ذکر آیا ہے اور ہمارا دین اسلام ہر ایک کے حقوق بھی بیان فرماتا ہے اور شوہر کے حقوق بیوی پر بہت زیادہ ہیں اگر ہر عورت ان حقوق کی بجا آوری کے لئے کوشش کریں تو ہمارے معاشرے میں طلاق کا کوئی کیسی ظاہر نہ ہوگا بیوی پر شوہر کے حقوق کے بارے میں کثیر احادیث وارد ہیں۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو عورت مر جائے اس حال میں کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو تو جنت میں جائے گی۔ (سنن ترمذی، کتاب النکاح، ج 2)

الله اکبر! شوہر کا کیا اعلی مرتبہ ہے کہ اگر وہ راضی تواس کی بیوی جنت میں جائے گی اس سے ان عورتوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیئے جو عورتیں اپنے خاوند کو راضی نہیں رکھتی اور بےجا تکلیفیں دیتی ہیں۔اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یا خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مراۃ المناجیح شرح مشکاۃ المصابیح میں فرماتے ہیں کہ عورت مرتے ہی روحانی طور پر یا بعد قیامت جسمانی طور پر جنت میں جائے گی کیونکہ اس نے اللہ کے حقوق بھی ادا کئے اور بندے کے حقوق بھی۔(مراٰة المناجيح ،ج5 ، ص112)

ایک اور حدیث پاک میں یوں ارشاد ہوا: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع ، باب ماجاء فی حق الزوج، 386/2 ، حدیث: 1163)

یاد رہے کہ ہماری شریعت میں غیر خدا کو سجدہ حرام ہے۔سجدہ ٔ عبادت کفر ہے اور سجدہ تعظیمی حرام دوسری شریعتوں میں بندوں کو سجدہ تعظیمی جائز تھا اس سے یہ معلوم ہوا کہ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز کا تعظیم کی جائے۔ (مراٰۃ المناجيح، ج5 ،ص111)

اور غور کیا جائے حدیث مبارکہ میں تو اس میں ضرور کے الفاظ ہیں اس سے شوہر کی تعظیم اور پختہ ہو رہی ہےاس کے علاوہ بھی بیوی پر شوہر کے بے شمار حقوق ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں ۔

(1) جس جائز کام کا حکم دے اس کو فوراً بجا لانا (اگر کوئی شرعی مجبوری نہ ہو)

(2) ہر جائز بات میں میں اطاعت کرنا۔

(3) شوہر کے مال و اولاد کی حفاظت کرنا ۔

(4) شوہر سے اس کی استطاعت کے مطابق خواہشات کرنا۔

(5) شوہر کی حاجت کو فوراً پورا کر دینا ۔

(6) بغیر اجازت شوہر کوئی کام نہ کرنا۔

(7) شوہر کے لیے بناؤ سنگار کرنا۔

(8) شوہر کو ہمیشہ خوش رکھنا۔

(9) شوہر سے منسلک تمام رشتوں کا احترام کرنا۔

(10) شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلنا۔

(11) شوہر کے ہر جائز کام میں جس کی استطاعت رکھتی ہو اس کی مدد کرنا۔

اگر یہ سب حقوق ہمارے معاشرے میں قائم ہو جائیں تو ہمارے معاشرے کا ہر گھر امن کا گہوارہ ہوگا اور طلاق کی تعداد بھی کم ہو گی اور ہر بیٹی کے ماں باپ امن و سکون کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر سکیں گے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر کسی کے حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الکریم


آج کل میاں بیوی میں نا اتفاقی، بات بات پر لڑائی جھگڑے ایک عام سی بات ہے اور جب ایسے دو افراد میں نااتفاقی پیدا ہو ‏جائے جنہوں نے پوری زندگی ایک ساتھ ہی رہنا ہو تو پھر ان کی زندگی بہت تلخ اور نتائج نہایت سنگین ہو جاتے ہیں۔ آپس کی یہ نا ‏اتفاقی نہ صرف دل ، دماغ اور دنیا کا امن و سکون تباہ و برباد کر دیتی ہے بلکہ بسا اوقات تو دین و آخرت کی بربادی کا سبب بھی بن جاتی ‏ہے ، اس نا اتفاقی کا اثر نہ صرف میاں بیوی پر ہوتا ہے بلکہ ان کی اولاد اور اُن سے متعلقہ دیگر تمام لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ اس نا ‏اتفاقی کا سب سے بڑا سبب میاں بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق کو نہ جاننا ہے خصوصاً بیوی جب اپنے شوہر کی عزت و عظمت کو نہیں ‏سمجھتی تو بات بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن جاتے ہیں۔ عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے شوہروں کے حقوق کا تحفظ کریں اور شوہروں ‏کو ناراض کر کے اللہ پاک  کی ناراضی کا وبال اپنے سر نہ لیں کہ اس میں دنیا و آخرت دونوں کی بربادی ہے۔ ‏

‏ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں فرمایا: ترجَمۂ کنز الایمان : مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر ‏فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ‏ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔ (پ:5، النسآء:34)‏

تفسیر طبری میں ہے: مرد اپنی عورتوں کو ادب سکھانے اور جو اللہ پاک کے حقوق اور شوہر کے حقوق ان پر واجب ہیں، ان کے ‏بارے میں باز پرس کرنے میں ان پر نگران ہیں۔ ( طبری،النسآء، تحت الآیۃ: 34،4/59)‏

‏ شوہر کے حقوق کے متعلق 4 فرامینِ مصطفےٰ پڑھئے:‏

‏(1) عورت شوہر کے گھر و اولاد پرنگران ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں ہر ایک سے اُس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہو ‏گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اُس کی اولاد پر نگران ہے ۔ (مسلم، ص784، حدیث:4824 ملتقطاً)‏

‏(2) شوہر کی اتباع کرنا لازم ہے: جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ عورت نہ آئے، پھر اس کا شوہر ناراضی کی حالت ‏میں رات گزارے تو فرشتے صبح ہونے تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(مسلم ، ص578، حدیث:3541)‏

‏(3) شوہر کی حد درجہ تعظیم کا حکم: اگر میں کسی شخص کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر ‏کو سجدہ کرے۔(ترمذی ،2/386، حدیث:1162)‏

علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کیونکہ عورت پر شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اُس کے احسانات کا شکریہ ادا ‏کرنے سے عاجز ہے اور یہ حد درجہ کا مبالغہ ہے تاکہ پتا چلے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کس قدر واجب و لازم ہے کہ اللہ ‏پاک کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنا جائز نہیں لیکن اگر جائز ہو تا تو صرف اور صرف شوہر کو سجدہ جائز ہوتا۔ ‏‏(مرقاۃالمفاتیح، 6/401، تحت الحدیث:3255)‏

‏ (4) شوہر کی رضا طلب کرنا واجب ہے: جو بھی عورت اس حال میں اس دنیا سے گئی کہ اُس کا شوہر اُس سے راضی تھا تو وہ جنت ‏میں داخل ہو گی۔(ترمذی ،2/386، حدیث:1164)‏

امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: بیوی پر اپنے شوہر کی رضا طلب کرنا اور اُس کی ناراضی سے بچنا ‏واجب ہے ۔(الکبائر للذھبی،ص200)‏

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شریعت کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،میاں بیوی کو آپس میں محبت اور ایک دوسرے ‏کے حقوق کا خیال رکھنے اور اِن حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم‏


فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: وَاللہ إِنِّي لَاسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ اكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً ترجمہ: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں تو بہ کرتا ہوں۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم کے سارے ہی انبیائے کرام علیہم السلام معصوم ہیں، وہ گناہوں سے پاک ہیں اور رسولِ اکرم جناب محمد مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو سب انبیاء و رسل کے سردار ہیں پھر بھی معصوم ہونے کے باوجود آپ علیہ السّلام اللہ پاک سے استغفار طلب کیا کرتے:

استغفار کے 5 فضائل و فوائد احادیث کی روشنی میں:

(1) استغفار سے گناہ معاف ہوتے ہیں: إنَّ الشَّيْطَانَ قَالَ: وَ عِزَّتِكَ يَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَكَ مَادَامت أَرْوَاحُهُمْ فِي أَجْسَادِهِمْ قَالَ الرَّبُّ: وَ عِزَّتِي وَجَلَالِي لَا أَزَالَ أغْفِرْلَهُمْ مَا اسْتَغْفَرُونِي شیطان نے بارگاہِ الٰہی میں کہا: اے اللہ! مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی گمراہ کرتارہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(احمد بن حنبل، المسند، 3: 29، رقم:11257)

(2) استغفار سے ہر غم سے نجات مشکلات میں آسانی اور رزق میں برکت ہوتی ہے: چنانچہ حدیث مبارکہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللہ بْن عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله وسلم: مَنْ لَزِمَ الْإِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَمِنْ كُلِّ هَمِّ فَرَجاً، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهِ، وَقَالَ الْحَاكِمُ: هَذَا حَدِيتٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و خیال میں بھی نہ ہو۔

(3) استغفار سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: إِنَّ لِلْقُلُوْبِ صَدَأَ كَصَد الْحَدِيدِ وَجِلَاؤُهَا صلى الله وسلم عليه الْإِسْتِغْفَارُ۔رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْبَيْهَقِيُّ بِإِسْنَادِهِ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا پالش استغفار ہے۔

(4) استغفار دلوں کی صفائی کا ذریعہ ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قَالَ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ - فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ۔فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّى تَغْلَفَ قَلْبُهُ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللهُ فِي كِتَابِهِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوْبِهِمْ مَّاكَانُوايكسبون حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور گناہ) سے ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔(لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیاده (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ران (زنگ) ہے کا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے:

كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) ترجمہ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ اُن کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔ (پ30، المطففین: 14)

(5)استغفار بعض گناہ کبیرہ کی بخشش کا ذریعہ ہے: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ جس نے کہا:استغفر الله الذی لا الہ الا ہو الحَيُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف فرما دے گا اگر چہ وہ میدان جنگ سے بھاگا ہو۔ (سنن ابوداؤد)


انسان کی خصلت ہے کہ وہ نسیان سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس کے تحت وہ دانستہ یا نا دانستہ گناہ کر بیٹھتا ہے بہترین انسان وہ ہے جسے گناہ کے بعد یہ احساس ہو جائے کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے۔ اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ غلطی اس کے رب پاک کو اس سے ناراض کر دے گی، اسی لئے وہ فوری طور پر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر گڑ گڑاتا ہے اور وہ آئندہ ایسے گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرتا ہے۔

استغفار کے بے شمار فوائد و فضائل ہے چند ایک ملاحظہ کیجئے:

(1) استغفار گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے: چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمعہ کنزالایمان:جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وہ اللہ کو بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا پائے گا ۔ (سورت النسآء:110)

(2) استغفار گناہوں کو مٹانے اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب جنت میں نیک بندے کے درجے کو بلند فرمائے گا تو بندہ عرض کرے گا پروردگار یہ مرتبہ مجھے کیسے ملا؟اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا تیرے لئے تمہارے بچوں کے استغفار کے سبب ہے۔ (مسند احمد شعیب)

(3) استغفار دلوں کی صفائی ہے: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کہ مومن بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے اگر وہ اس گناہ کو چھوڑ کر توبہ واستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔

(4) استغفار تنگی کو دور کرتا ہے : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو شخص توبہ واستغفار میں پابندی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ہر تنگی کو دور فرمائے گا اور ہر غم سے خلاصی دے گا اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اس کا خیال بھی نہ ہو گا۔ (سنن ابی داؤد:1518)

(5) اصل بیماری اور اس کا علاج : رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں تمہاری بیماری اور اس کی دوا نہ بتاؤں؟(سن لو) تمہاری بیماری گناہ اور تمہاری دوا توبہ واستغفار ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی:7147)

اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خصوصاً جب ہم سے گناہ کا ارتکاب ہو جائے اور ویسے بھی زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے (اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)


استغفار کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ یہ آیت سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔پھر جب آپ نے ہجرت فرمائی اور کچھ مسلمان رہ گئے جو اِستغفار کیا کرتے تھے تو وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳) جب تک استغفار کرنے والے ایماندار موجود ہیں اس وقت تک بھی عذاب نہ آئے گا۔اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَنْتَ فِیْهِمْ نے عَدُوْ کو بھی لیا دامن میں عیشِ جاوید مبارک تجھے شیدائی دوست

عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ: علامہ علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: ۳۳، ۲/۱۹۳)

احادیث میں استغفار کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں:

(1)نبی رحمت شفیعِ اُمم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب گناہگار ہو مگر میں نے بچایا لہٰذا مجھ سے مغفرت کاسوال کرو میں مغفرت فرمادوں گا اور تم میں سے جس نے یقین کرلیا کہ میں بخش دینے پر قادر ہوں پھر بھی مجھ سے میری قدرت کے وسیلے سے استغفار کرے تو میں اس کی مغفرت فرمادوں گا ۔ (ابنِ ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر التوبہ 4/494حدیث4257)

(2)حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطا ن نے کہا: اے میرے رب! تیری عزت و جلال کی قسم!جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں، میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت و جلا ل کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، ۴/۵۹، الحدیث: ۱۱۲۴۴)

(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تواللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)

توبہ اور اِستغفار میں فرق اور وسعتِ رزق کے لئے بہتر عمل: توبہ اور استغفار میں فرق یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ان سے معافی مانگنا استغفار ہے اور پچھلے گناہوں پر شرمندہ ہو کر آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کر نا توبہ ہے اوراس آیت سے معلوم ہوا کہ اخلاص کے ساتھ توبہ وا ستغفار کرنا درازیٔ عمر اور رزق میں وسعت کیلئے بہتر عمل ہے۔

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! میں دن میں ستر سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب استغفار النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فی الیوم واللیلۃ، ۴/۱۹۰، الحدیث: ۶۳۰۷)

(5)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا فرماتے ہیں: اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھے اوراُن سے استغفار کرے۔

اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد:

دینی فوائد: استغفار کرنے سے ہمارے گناہ معاف ہوتے ہے اور سچی توبہ کرنے سے ہمارے کبیرہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہے اور عبادت میں مشغول رہتے ہے اور اسکو پڑھنے سےعبادت میں لذت بھی ملتی ہے اور گناہ سے بچنے کا ذہین بنتا ہے اور گناہ سے توبہ کرتا ہے۔

دنیاوی فوائد: اس سے علم، عمرمیں اضافہ ہوتاہے اور رزق حلال میں برکتیں وسعتیں نازل ہوتی ہے اور اولاد میں اضافہ ہوتاہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

(6)اورحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴/۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱)


پیارے اسلامی بھائیو دعائے استغفار کرنا نہایت محبوب شے ہے اور ہمارے پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت مبارکہ ہے۔تو لہٰذا مسلمان بندے کو اپنی بخشش کی دعا کرتے رہنا چاہیے اس کا ایک طریقہ توبہ کرنا اور استغفار کرنا بھی ہے۔کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں‌‌۔

وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۳۳)ترجمۂ کنز الایمان:اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔(پ9، الانفال:33)

تفسیر:علامہ علی بن محمد خازن رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ استغفار عذاب سے امن میں رہنے کا ذریعہ ہے۔(خازن، الانفال تحت الآيۃ: 193/2،33)

احادیث میں استغفار کرنے کے بہت فضائل بیان کیے گئے ہیں ان میں سے (5)احادیث درج ذیل ہیں:

( 1)استغفار بخشش کا ذریعہ: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے کہا: اے میرے رب تیری عزت و جلال کی قسم جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں ہیں میں انہیں بھٹکاتا رہوں گا۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میری عزت و جلال کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے تو میں انہیں بخشتا رہوں گا۔(مسند امام احمد، مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ، 4/59 الحدیث :11244)

(2) ہر غم اور تکلیف سے نجات: حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے۔رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔جس نے استغفار کو اپنے لیے ضروری قرار دیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہرغم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہوگا۔(ابن ماجہ کتاب الادب باب الاستغفار 257/4 الحدیث:3819)

(3) نامہ اعمال خوش کرے گا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا نامہ اعمال خوش کرے تو اسے چاہئے کہ اس میں استغفار کا اضافہ کرے۔(مجمع الزوائد 10/347۔حدیث 17579)

(4) کس کے لیے زیادہ خوبیاں ہیں: روایت ہے حضرت عبداللہ ابن بسر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے لیے بہت خوبیاں ہیں جو اپنے نامہ اعمال میں بہت استغفار پائے۔(ابن ماجہ) اور نسائی نے اس حدیث کو دن رات کے عمل میں روایت کیا۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح ج: 3 ، حدیث 2356)

(5) جنت میں ایک درجہ:الله پاک جنت میں بندے کو ایک درجہ عطا فرمائے گا۔بندہ عرض کرئے گا: اے مولیٰ پاک یہ درجہ مجھے۔کیسے ملا؟ الله عز وجل ارشاد فرمائے گا۔اس استغفار کے بدلے جو تیرے بیٹے نے تیرے لیے کیا۔(المسند للام احمد بن حنبل مسند أبی ھریرہ الحدیث 10615ج 3 ص 585 )

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ایمان پر قائم رہنے اور گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔