کائنات میں انسانوں کے درمیان سب سے پہلا رشتہ ازدواجیت کا ہی قائم کیا گیا باقی تمام رشتے اس بنیادی رشتے کی پیداوار ہیں یقینا اس رشتے کی خوشگواری اور پائیداری تب ہی ممکن ہے جب شوہر اور بیوی دونوں ہی اپنے حقوق اور فرائض کو سرانجام دیں میاں اور بیوی کے رشتے میں اللہ پاک نے مرد کو عورت پر فوقیت اور حاکمیت عطا کی ہے کیونکہ مرد عورت سے بنیادی طور پر ہی مضبوط اور زیادہ ذہنی قوت کا مالک ہے اور عورت کی نسبت زیادہ معاملات کی سمجھ بوجھ رکھتا ہے اور اپنی خواہشات کو ترک کر کے جو مال اپنی محنت اور مشقت سے کماتا ہے اسے اپنی عورت پر خرچ کرتا ہے انہی خوبیوں کی بنا پر مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤاور انہیں مارو۔(پ5، النسآء:34)

اس آیت مبارکہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ ناانصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف و حکمت کے مطابق ہے۔لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کے تمام حقوق کو خوش دلی سے ادا کرے شوہر کے حقوق کے متعلق نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے سنن ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اگر میں اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اور فرمایا کہ عورت اپنے رب کا حق اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔(سنن ابن ماجہ، جلد دوم کتاب النکاح حدیث 1853)

اطاعت و فرمانبرداری: قرآن و حدیث میں عورت کے کثیر فرائض ذکر کیے گئے اور اس کے بنیادی فرائض میں جو بات شامل ہے وہ شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کا حکم مانے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔ (مشکاۃ المصابیح، جلد دوم، کتاب النکاح ،حدیث : 3114)

قبولیت نماز کے لیے شوہر کو راضی رکھنے کی تاکید : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد کے مطابق جس عورت کا خاوند ناراض رہتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی چنانچہ حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کی نہ نماز قبول ہوتی ہے اور نہ کوئی نیکی اوپر اٹھتی ہے (1)فرار ہونے والا غلام یہاں تک کہ وہ اپنے مالک کی جانب واپس آ جائے (2) وہ عورت جس سے اس کا شوہر ناراض ہو (3)نشے والا یہاں تک کہ ہوش میں آ جائے ۔(مراۃ المناجیح، جلد پنجم، باب عشرۃ النساء وما لکل واحد من الحقوق ، حدیث :3130)

شوہر جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا : شوہر کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے جیسا کہ ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:(کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ دےلیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4899۔صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1026)

فتاوی رضویہ سے لئے گئے شوہر کے چند حقوق اختصاراً پیش خدمت ہیں:

(1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹہویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)


 شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اسے پر سکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے چنانچہ ایک دوسرے کا خیر خواہ و ہمدرد ہونا چاہیے ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے والا غمگسار اور دلجوی کرنے والا ہونا چاہیے کسی ایک کی سستی ولاپرواہی گھر کا سکون برباد کر سکتی ہے۔میاں بیوی دونوں کے ذمہ کچھ حقوق ہیں جنہیں پورا کرنا لازم ہے بیوی کے ذمے شوہر کے جو حقوق ہیں ان میں سے کچھ جانتے ہیں۔

اس کے مال کی حفاظت کرے: بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال کی حفاظت کرے شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کسی کو کوئی چیز نہ دے اگر اس نے ایسا گیا تو گناہ گار ہوگی (مسند ابی داؤد الطیالسی الحدیث ١٩٥١)

شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے: عورت پر حق ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر اس نے ایسا کیا تو واپس لوٹنے یا توبہ کرنے تک فرشتے اس پرلعنت بھجتے رہیں گے۔ (احیاء العلوم جلد دو مترجم۔صفحہ 217)

شوہر کی ناشکری: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثر عورتوں کو پایا۔عورتوں نے عرض کی یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کس سبب سے اشاد فرمایا: وہ لعن طعن زیادہ کرتی اور خاوند کی ناشکری کرتی ہے ۔(صحیح بخاری الحدیث ٥١٩٨,٥١٩٧)

شوہر کی اطاعت: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اگر عورت پانچوں نمازیں پڑہے،رمضان المبارک کے روزے رکھے اپنی شرم گاہ کی حفاظت اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ اپنے رب کی جنت میں داخل ہو گی ۔(احیاء العلوم ، جلد دوم مترجم ،صفحہ 215)

شوہر کو راضی رکھنا:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس عورت کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ (احیاء العلوم ،جلد دوم مترجم، صفحہ 215)


اللہ پاک نے انسان کو بہت رشتے عطا فرمائے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں ماں باپ کا بہن بھائی کا اور ان میں سے ایک اہم رشتہ میاں بیوی کا بھی ہے لہٰذا یہاں حدیث کی روشنی میں شوہر کے حقوق بیان کئے جائنگے :

عورت کا جنت میں داخلہ: روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے ۔ (ابونعیم حل۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ،حدیث نمبر:3254)

شوہر کو اپنی ضرورت کیلئے بیوی کو بلانا: وَعَنْ طَلْقِ ا بْنِ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَهُ لِحَاجَتِهِ فَلْتَأْتِهِ، وَإِنْ كَانَتْ عَلَى التَّنُّورِ ترجمہ: روایت ہے حضرت طلق ابن علی سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ جب مرد اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو وہ فورًا اس کے پاس آئے اگرچہ تنور پر ہو۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3241)

بیوی کا شوہر کو ستانا: وَعَنْ مُعَاذٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَهَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا قَالَت زَوجَتُهُ مِنَ الحُورِ الْعِينِ: لَا تُؤْذِيهِ، قَاتَلَكِ اللہ، فَإِنَّمَا هُوَ عِنْدَكِ دَخِيلٌ، يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا ترجمہ: روایت ہے حضرت معاذ سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے راوی فرمایا نہیں ستاتی کوئی عورت اپنے خاوند کو دنیا میں مگر اس کی حور عین بیوی کہتی ہے کہ خدا تجھے غارت کرے اسے نہ ستا کیونکہ یہ تیرے پاس مہمان ہے بہت قریب تجھے چھوڑ کر ہماری طرف آئے گا۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 ، حدیث نمبر:3258)

ان احادیث نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مطالعہ کے بعد ہمیں یہ سبق ملا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شوہر کا بہت عظیم مقام و مرتبہ رکھا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں علم دین سیکھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین


اللہ پاک نے انسان کے لیے بہت سے رشتے قائم فرمائے ہیں۔کسی کو اولاد کے رشتے کا نام دیا تو کسی کو والدین کا۔اسی طرح ایک پاک و مُحافِظ رشتہ قائم فرمایا جس کو میاں بیوی کا رشتہ کہا جاتا ہے۔جب رشتے قائم فرمائے گئے تو ان میں سے ہر ایک رشتے کے کچھ نہ کچھ حقوق بھی ضرور دیے گئے ہیں تاکہ وہ رشتہ مضبوط رہے۔اسی طرح حقوق الزوجین (یعنی میاں بیوی کے حقوق)بھی ہیں۔اللہ پاک نے فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک اللہ حکم فرماتا ہے انصاف (کا)۔(پ14، النحل:90) انصاف کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرا جائے ۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے! کہ شوہر کا مقام بیوی سے زیادہ ہے جیساکہ اللہ پاک نے فرمایا: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ ترجَمۂ کنزُالایمان:مرد افسر ہیں عورتوں پر۔(پ5،النسآء:34)

اور جیسا کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا:کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص11) شریعت میں شوہر کے بھی حقوق بیان کریں جو بیوی پر لازم و ضروری ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

(1) شوہر کی اطاعت: ایک عورت پر لازم و ضروری ہے:کہ اس کا شوہر جس جائز بات کا حکم دے اس کام کو کرے اور جس سے منع کرے اس سے رُک جائے مگر وہ کام شریعت کے خلاف نہ ہو۔جیسا کہ حضور علیہ السّلام نے عورتوں کو یہ حکم دیا:کہ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنادے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو پیلا بنا دے تو عورت اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجالائے۔(ترمذی،ج2،حدیث1852 ص411) یعنی:جتنا بھی دشوار کام ہو اسے بجالائے۔

(2) عزت کی حفاظت: شوہر کا ایک یہ بھی حق ہے کہ جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو اس کی بیوی پر لازم ہے کہ اس کی عزت کی حفاظت کرے۔حضور علیہ السّلام نے ایسے عورت کو بہترین عورت فرمایا ہے۔چنانچہ:بہترین عورت وہ ہے اگر اس کا شوہر غائب رہے تو وہ اپنی ذات اور شوہر کے مال میں حفاظت و خیر خواہی کا کردار ادا کرتی رہے۔(ابن ماجہ، ج2 حدیث: 1857 ،ص 313)

(3) مال بےجا خرچ نہ کرے: ایک بیوی پر یہ لازم ہے کہ اس کا شوہر جو کمائی کرکے لاتا ہے اس کو کسی فضول جگہ یا فضول کاموں میں خرچ نہ کرے بلکہ نیک کاموں میں خرچ کرنے کے ساتھ کچھ جمع بھی کرے۔جیسا کہ اللہ پاک نے بےجا چرچ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ(۱۴۱) ترجمہ کنزالایمان: اور بے جا نہ خرچو بے شک بے جا خرچنے والے اسے پسند نہیں ۔(پ8،الانعام:141)

(4) بدگمانی نہ کرے: بیوی پر ایک یہ بھی بات لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر پر کسی قسم کا شک نہ کرے اور نہ ہی اس پر بدگمانی کرے۔اللہ پاک نے بھی زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔ (پ26، الحجرات: 12)

(5) بدکلامی نہ کرے: اگر کسی بات پر شوہر کو غصہ آجاتا ہے اور وہ بیوی کو کچھ بول دیتا ہے تو بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو پلٹ کر جواب نہ دے نہ ہی اس سے بدکلامی کرے کہ شوہر کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے۔کبھی کبھار معاذاللہ بات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ طلاق تک نوبت آجاتی ہےاور شوہر کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگر جاتا ہے ذرا سی نادانی میں

اس کے علاؤہ شوہر کے بہت سے حقوق ہیں جو عورت پر لازم ہیں بس بیوی کو یہ حدیث پاک یاد رکھنی چاہیے کہ:-اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ کر اس کی ایڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو اس(شوہر)کا حق ادا نہ ہوگا۔(ارشاداتِ اعلیٰ حضرت،ص55)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ رشتوں کا ادب و احترام اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیر خواه، ہمدرد، سخن فہم (یعنی بات کو سمجھنے والا)، مزاج آشنا (مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہیئے۔کسی ایک سسی و لا پرواہی اور نادانی گھر کا سکون برباد کر سکتی ہے۔

(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم،اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہر کی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے ، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ۔(مسند امام احمد، ج1، ص 406، حدیث: 1661)

(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلم انسانیت صلی الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِہ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا کہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تئور پر ہو۔ (ترمذی، ج 2، ص 386، حدیث: 1163)

(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیسا کہ نبی برحق صَلَّى اللہ تَعَالَى عَلَيْهِ وَاٰلِهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری، ج 3، ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)

(4) شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے تو گندے کپڑے،اُلجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تاثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اور اپنے شوہر کے لئے بناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کے لئے گہنا (زیور) پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعث اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22، ص126)

(5) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندہائے، اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرے اور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پھلائے، برتن نہ پچہاڑے، شوہر کا غصہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اس پر اپنے احسانات نہ جتائے، کھانے پینے،صفائی استھرائی اور لباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے، الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2، ص 386، حدیث: 1164)

(6) شوہر ناراض ہو جائے تو اُس حدیث پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہو تو وہ کہتی ہے: میرا یہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔(معجم صغیر، ج 1، ص 46)

الله پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین 


اللہ رب العزت نے انسانوں اور ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔اور شریعت مطہرہ نے امت محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک دوسرے کے حقوق وفرائض سے آگاہ بھی فرما دیا ہے۔میاں بیوی کی خوشگوار زندگی بسر ہونے کے لیے جس طرح مردوں کو عورتوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح عورتوں کو بھی لازم ہے کہ مردوں کے جذبات کا خیال رکھیں، ورنہ جس طرح عورت کی ناراضگی سے مرد کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اسی طرح مرد کی ناراضی عورتوں کے لیے بھی وبال جان ہو گی۔

در اصل ازدواجی زندگی کا بگاڑ ہمارے معاشرے کا بگاڑ ہے۔اس لیے اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی ازدواجی زندگی کو سنوارا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم ایک دوسرے کے حقوق کو پورا کریں گے۔

شادی کے بعدزندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، اسے پُرسکون اور خوشحال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے،چنانچہ انہیں ایک دوسرے کا خیرخواہ، ہمدرد،سُخن فہم(یعنی بات کو سمجھنے والا)،مزاج آشنا(مزاج کو جاننے والا)، غم گساراور دلجوئی کرنے والا ہونا چاہئے۔کسی ایک کی سُسْتی و لاپرواہی اور نادانی گھرکا سکون برباد کرسکتی ہے۔دین اسلام نے میاں اور بیوی کے جدا جدا حقوق ہمیں تعلیم فرمائے ہیں۔آج ہم شوہروں کے حقوق قرآن و سنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں اسی حولے سے اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے عطا کردہ چند مدنی پھول پیش خدمت ہیں۔

(1) شوہر حاکم ہوتا ہے اوربیوی محکوم،اس کے اُلٹ کا خیال بھی کبھی دل میں نہ لائیے، لہٰذا جائز کاموں میں شوہرکی اطاعت کرنا بیوی کو شوہر کی نظروں میں عزت بھی بخشے گا اور وہ آخرت میں انعام کی بھی حقدار ہوگی، چنانچہ فرمانِ مصطَفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہے: عورت جب پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اوراپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گاکہ جنّت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔(مسند امام احمد،ج 1،ص406، حدیث: 1661)

(2) بیوی کو چاہئے کہ وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے میں کوئی کمی نہ آنے دے، چنانچہ معلّمِ انسانیت صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایاکہ جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو وہ فوراً اس کے پاس آ جائے اگرچہ تنّور پر ہو۔ (ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1163)

(3) بیوی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شوہر کے احسانات کی ناشکری سے بچے کہ یہ بُری عادت نہ صرف اس کی دنیوی زندگی میں زہر گھول دے گی بلکہ آخرت بھی تباہ کرے گی، جیساکہ نبیِّ برحق صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں۔(بخاری، ج3، ص463، حدیث:5197، ملتقطاً)

(4)شوہر کام کاج سے گھر واپس آئے توگندے کپڑے،اُلجھے بال اور میلے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال اچھا تأثر نہیں چھوڑتا بلکہ شوہر کیلئے بناؤ سنگار بھی اچھی اور نیک بیوی کی خصوصیات میں شمار ہوتا ہے اوراپنے شوہر کے لئےبناؤ سنگار کرنا اس کے حق میں نفل نماز سے افضل ہے۔چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے: عورت کا اپنے شوہر کےلئے گہنا (زیور)پہننا، بناؤ سنگارکرنا باعثِ اجر ِعظیم اور اس کے حق میں نمازِ نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ، ج22،ص126)

(5) بیوی کو چاہئے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے، اس کی خوشیوں میں شریک ہو، پریشانی میں اس کی ڈھارس بندہائے،اس کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی صورت میں صبر کرےاور خاموش رہے، بات بات پر منہ نہ پُھلائے، برتن نہ پچھاڑے،شوہر کا غصّہ بچوں پر نہ اتارے کہ اس سے حالات مزید بگڑیں گے، اسے دوسروں سے حقیر ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے،اس پر اپنے اِحسانات نہ جتائے،کھانے پینے،صفائی ستھرائی اور لِباس وغیرہ میں اس کی پسند کو اہمیت دے،الغرض اُسے راضی رکھنے کی کوشش کرے، فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔(ترمذی، ج2،ص386، حدیث: 1164)

(6) شوہر ناراض ہو جائے تو اُس حدیثِ پاک کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائے جس میں جنتی عورت کی یہ خوبی بھی بیان کی گئی ہے کہ جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہوتو وہ کہتی ہے: میرایہ ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے میں سوؤں گی نہیں۔(معجم صغیر،ج1،ص46)

بیوی کو اپنی زندگی میں جہاں بے بہا احتیاط کی ضرورت ہے وہیں اس کے شوہر کے چند ذاتی حقوق بھی ہیں جن کا اسے ہر حال میں خیال رکھنا چاہیے چند بنیادی اور ذاتی حقوق پیش خدمت ہیں۔بیوی کو کوشش کرنی چاہئے کہ حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں لگی رہے۔شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔ شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا نہ کہ حکم کا۔ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔گھر میں کیے جانے والے شوہر کے کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔

اگر بیوی ان چھوٹے چھوٹے مدنی اہم ٹپس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جائے اور ہر کوئی اپنے اپنے حقوق سے واقف ہو کر انہیں ادا کرنے کی کوشش کرے تو ہر گھر امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تعالیٰ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ


شادی کے بعد زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے اسے پر سکون اور خوش حال بنانے میں میاں بیوی دونوں کا کردار اہم ہے بلاشبہ نیک اور پر ہیز گار بیویاں ہر قیمت پر شوہروں کی مطیع اور فرمانبردار ہوتی ہیں اور شوہر کی موجودگی اور غیر موجودگی میں بھی ان کی آبرو اور ہر امانت کی حفاظت کرتی ہیں۔بیویوں کے جہاں بے شمار حقوق ہیں۔ وہاں شوہر بھی بیویوں پر حقوق رکھتے ہیں۔میاں بیوی کے مثالی تعلق میں یہ ضروری تھا کہ کسی ایک کو سربراہی کا درجہ دیا جائے اور اسی تناسب سے اس پر ذمہ داریاں عائد کی جائیں ظاہر ہےکہ فطری برتری کے لحاظ سے اس کے لیے شوہرہی زیادہ موزوں ہو سکتا تھاچنانچہ شریعت محمدی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں گھر کا سربراہ مرد ہی کو قرار دیا گیا ہےبڑی ذمہ داریاں اسی پر ہی ڈالی گئی ہیں۔

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نےان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تونیک - عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پچھلے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا۔(سورۃ النساء آیت 34)

مرد کا افضل ہونے کی وجوہات:مرد کا عورت سے افضل ہونے کی کثیر و جو بات ہیں ان سب کا حاصل دو چیزیں ہیں علم اور قدرت۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد علم اور عقل میں عورت سے فائق ہوتے ہیں اگرچہ بعض جگہ عورتیں بڑھ جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اب بھی پوری دنیا میں نگاہ ڈالیں تو عقل کے امور مرد ہی کے سپرد ہوتے ہیں۔اسی طرح مشکل کام بھی مردوں کے ذمہ قدرت پر ہیں۔ جیسے جتنے بھی انبیاء، خلفاء اور آئمہ ہوئے سب مرد تھے۔گھڑ سواری، تیراندازی اور جہاد بھی مرد کرتے ہیں۔ یونہی امامت کبری اور امامت صغری اور بیک وقت ایک سے زائد شادیوں کی اجازت بھی مرد ہی کو ملی ہے۔

دوسری وجہ عورتوں پر سرداری کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر نان و نفقہ کی صورت میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اس لیے ان پر حاکم ہیں۔

شوہر کے حقوق احادیث کی روشنی میں:

حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تقویٰ کے بعد مومن کے لیے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے اگر وہ اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور اگر وہ اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کہا بیٹہے تو قسم سچی کر دے اور بس جلد جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے۔(ابن ماجہ، کتاب النکاح باب افضل النساء٢/٤١٤ الحدیث (۱۸۵٧)

دوسری حدیث: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی(1) شکر گزار دل (2) یاد خدا کرنے والی زبان (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4)ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی متلاشی نہ ہو) معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس١١/١١٠٩ الحدیث (۱١٢۷۵)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر کا حق۔میں نے پوچھا مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا حق۔ (مستدرک، کتاب البر والصلة اعظم الناس حقا۔۔۔الخ ۲٤٤/۵ حديث٧٤١٨ -

رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ فرمایا کہ جس عورت کی موت ایسی حالت میں آئے کہ مرتے وقت اس کا شوہر اس سے خوش ہو وہ عورت جنت میں جائے گی۔(سنن ابن ماجہ کتاب النكاح ٤٤ - باب حق الزوج على المراة رقم ١٨٥٤/جلد ٢ ص ٤١٢

حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی کام کے لیے بلائے تو وہ عورت اگر چہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو اس کو لازم ہے کہ وہ اٹھ کر شوہر کے پاس چلی جائے ۔(جامع الترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق الزوج على المراة رقم ۶۶۳ ۱ جلد ۲ ص ۳٨۶)

حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کو یہ بھی حکم دیا۔گیا کہ اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پیار کو کالے رنگ اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنادے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لانا لازم ہے ۔(سنن ابن ماجہ کتاب كتاب النکاح ٤/٤ ،باب حق الزوج على المراة ، رقم :۱۸۵۲ ،جلد ۲ ص، ٤١١)

حضور علیہ السّلام نے فرمایا کہ شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور عورت آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو رہے تو رات بھر خدا کے فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش رقم ۱۴۳۶ ص ۷۵۳)


اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے چار قسم کے حقوق متعین فرمائے ہیں یعنی ذاتی، معاشرتی، معاشی اور قلبی حقوق۔تو آج ہم اِن شآءَ اللہ شوہر کے ان حقوق کی تفصیل سے آگاہ ہونے کی کوشش کریں گے۔مستورات ان حقوق کو اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے سنیں،جب کہ مرد حضرات انہیں بیویوں پر مسلط ہونے کے لیے نہیں، بلکہ ان کی معاونت اور اپنی بیٹیوں کو ان کے شوہروں کے حقوق بتانے کے لیے سنیں۔

بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زیادہ عظیم ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں:میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا: أَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلٰی الْمَرْأَةِ قَالَ: زَوْجُہَا، قُلْتُ: فَأَيُّ النَّاسِ أَعْظَمُ حَقًّا عَلَی الرَّجُلِ قَالَ: أُمُّہُ ․(السنن الکبریٰ للنسائی) ترجمہ: عورت پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کے شوہر کا، پھر میں نے عرض کیا مرد پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ا س کی ماں کا۔

ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے جب خاوند کے حقوق کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہ أَنْ لَّوْ کَانَتْ قَرْحَةٌ فَلَحَسَتھا مَا أَدَّتْ حَقَّہ ترجمہ: آدمی کا اس کی بیوی پر حق یہ ہے کہ اگر اس کے بدن پرکوئی زخم ہو اور وہ اسے چاٹ لے تو بھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔(الترغیب والترھیب)

حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أیُّما امرأةٍ ماتَت وزوجُہا عنہا راضٍ دخلَتِ الجنَّةَ (ترمذی) کہ جس عورت کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ عورت جنت میں داخل ہوگی۔آیئے! سب سے پہلے شوہر کے ذاتی حقوق کی بات کرتے ہیں۔

ذاتی حقوق:حتی الوسع شوہر کی جائز خوشی کے کاموں میں لگنا۔شوہر کا احترام کرنا اور اس سے بات چیت کرتے ہوئے الفاظ، آواز اور لب و لہجے میں ادب کو ملحوظ رکھنا اور اگر اسے بیوی کی طرف سے شوہر کا نام لے کر پکارنا پسند نہ ہو تو اس کا لحاظ رکھنا۔ شادی ہو جانے کے بعد بیوی کے لیے شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھنے یا استعمال کرنے کے بارے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔قلبی خوشی سے اس کی خدمت میں لگنا اور اس کے لباس، کھانے وغیرہ کی تیاری میں اس کی مرضی کا خیال رکھنا۔اور بروقت اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا، مثلا: دفتر وغیرہ جانے کے وقت اس کے کپڑے تیار ہوں، جوتے تیار ہوں، اس کی ضروری اشیاء جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی ہیں وہ تیار ہوں، اور سب اشیاء ایک متعین جگہ یانظروں کے سامنے والی جگہ میں موجود ہوں، ایمرجنسی کے احوال میں کام آنی والی چیزیں بالخصوص اضافی سوٹ وغیرہ استری شدہ تیار رکھنا، اس کے واپس آنے کے وقت، گھر کی صفائی ستھرائی مکمل کیے ہوئے رکھنا اور شوہر کے کھانا کھانے کے وقت میں کھانا تیار رکھنا، وغیرہ وغیرہ امور شوہر کو خوش کر دینے والے ہیں۔

مرد گھر کے باہر کی ذمہ داری رکھتا ہے اور عورت کی ذمہ داری گھر کے اندر کی ہے، جیسے گھر کی نگرانی، صفائی اور کھانے پینے کا انتظام وغیرہ، یہی طریقہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں رائج رہا ہے۔

حضرت حصین بن محصن بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی کسی حاجت کے لیے خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں، جب اپنی حاجت سے فارغ ہوگئیں تو آپ نے دریافت فرمایا: کیا تو شادی شدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اپنے شوہر کے ساتھ تیرا معاملہ کیسا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!میں اس کے حق کی ادائیگی اور خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، الا یہ کہ میرے بس سے باہر ہو، آپ نے فرمایا: دھیان رکھنا کہ اس کے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہتا ہے، وہ تمہارے لیے جنت یا جہنم کا سبب ہے۔(مسند احمد)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو عورت پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتی رہے اور رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے ۔

بیوی کا انس و محبت میں شوہر کو ہر وقت کے لیے خود پر اختیار دینا۔حضرت طلق بن علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراًآ جائے ،چاہے وہ چولہے کے پاس مشغول ہو۔(ترمذی)

اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکار کرے، پس شوہر ناراض ہو کر رات گزارے تو اس عورت پر صبح تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بلائے اور وہ انکارکرے تو الله تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے، یہاں تک کہ شوہر اس سے خوش ہو جائے ۔مشکوۃ

یہ کوشش کرنا کہ بلا وجہ شوہر سے خدمت نہ لی جائے اوراگر کسی موقع پر کوئی کام لینا ہی مقصود ہو تو کام کا بتاتے ہوئے درخواست کا لہجہ اختیار کرنا، نہ کہ حکم کا۔ہاں، ایک دوستانہ بے تکلفی کی بات اور ہے۔

گھر میں کیے جانے والے شوہر کے کاموں میں حتی الوسع اس کا ہاتھ بٹانا۔

گھریلو اور بچوں کی تربیت کے معاملات میں شوہر کے شرعا جائز فیصلوں پر عمل کرنا اور اس کے مشورہ طلب امور میں بھر پور اخلاص سے اچھا مشورہ دینا۔

خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اُسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے۔

اگر شوہر ایک سے زائد نکاح کرنا چاہے تو اسے اللہ کا حکم سمجھتے ہوئے خوشی سے اجازت دینا۔

معاشرتی حقوق:تمام رشتوں اور تعلقات کے ہر جائز معاملے میں شوہر کو ترجیح دینا۔اس کے ماں باپ سے، خصوصاً ماں سے اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح حسن سلوک اختیار کرنا،کیوں کہ مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے، جب کہ عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔شوہر کے ماں باپ یا دوسرے اعزہ کی طرف سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا شوہر کو طعنہ نہ دینا کہ وہ تو ایسے ہیں، ایسے ہیں اور ایسے ہیں۔اسی طرح شوہر کی طرف سے پہنچنے والی ناگواری کی وجہ سے اس کو کوستے ہوئے اس کے والدین وغیرہ کو درمیان میں داخل نہ کرنا، مثلا: تم بھی ایسے ہو اور تمہارا فلاں اور فلاں بھی ایسا ہی ہے۔شوہر کو بلا وجہ اس کے ماں باپ اور گھر انے سے الگ ہو جانے کے لیے اصرار نہ کرنا۔اس کے لیے ایسے کشمکش کے حالات نہ پیدا کرنا جن میں اس کے لیے بیوی اور اپنے دیگر متعلقہ رشتوں کے درمیان فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے ۔شوہر کو معاشرے میں یعنی اپنے علاوہ لوگوں میں عزت دینا۔اس کے ساتھ کسی دوسرے، خصوصاً اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں وغیرہ کے سامنے اس سے بحث و تکرار نہ کرنا۔بلاوجہ شکوہ وشکایت کا رویہ اختیار نہ کرنا۔اسی طرح بچوں کے سامنے ان کے باپ کا وقار بحال رکھنا۔اپنی سوکنوں سے اچھے رویے سے پیش آنا اور کبھی کبھی انہیں اپنے حق پر ترجیح دینا۔بچوں کے جو معاملات ان کے باپ سے خصوصا متعلق ہیں یا جن معاملات میں باپ انہیں کسی کام کے کرنے کا حکم دے، تو بچوں کو یہ باور کروانا کہ ان کا باپ ان کے اور ان کی ماں کے معاملے میں پوری طرح خود مختار ہے۔گھر میں بھی اور باہر بھی ہر جائز کام میں شوہر کے ہر جائز فیصلے کی تصدیق کرنا، ان فیصلوں کی تائید میں اس کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان پر عمل درآمد میں حتی المقدور اس کی معاونت کرنا۔اس کے دیگر رشتہ داروں کو بھی پردے اور دیگر شرعی اصولوں کے اہتمام کے ساتھ عزت دینا اور شوہر کے ان سے ملنے میں راضی رہنا۔شوہر کی راز اور پردے کی باتیں دوسروں سے محفوظ رکھنا۔دوسروں کے سامنے اندرون خانہ مشکلات کو بطور شکوہ وناشکری ذکر نہ کرنا۔

معاشی حقوق:شوہر کی آمدن اور گھر بار کے دیگر وسائل سے زیادہ اس سے مطالبے نہ کرنا۔بے جا مطالبات، حد سے بڑھی ہوئی اپنی ضروریات اور فضولیات پوری کروانے کے لیے شوہر پر دباوٴ نہ ڈالنا، قناعت کی صفت والی عورتیں اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ پسندیدہ ہیں۔خاوند کی آمدن کے اندر ہی اپنی جائز ضروریات پوری کروانا۔اس کے مال کی حفاظت کرنا، اسی طرح ضرورت کے کاموں میں بھی فضول خرچی نہ کرنا، بلکہ کفایت شعاری کو اختیار کرنا۔شوہر کی مرضی اور اجازت کے بغیر اس کے مال کو خودیا کسی کو استعمال کے لیے نہ دینا۔ہاں، چہوٹی موٹی ایسی چیزیں جن کے بلا اجازت استعمال کر لینے کے بارے میں معروف ہے کہ شوہر ناراض نہیں ہو گا ان کے استعمال میں حرج نہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔


اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو پیدا فرمایا اور اس کائنات میں طرح طرح کے عجائبات پیدا فرمائے ۔اور رب لم یزل انسانی نسل کا آغاز حضرت آدم علیہ السّلام سے کیا۔حضرت آدم علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پیدا فرمایااور رب لم یزل نے آپ علیہ السّلام کی پسلی سے حضرت حوا رضی اللہ عنہ کو پیدا فرمایا۔پھر ان کے باہمی جنسی تعلق سے انسانی نسل کا آغاز ہوا۔

اس انسانی نسل کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نظام، ایسا رشتہ متعارف کروایا جسے آج دنیا میاں بیوی کے رشتے سے جانتی ہے۔اور اس رشتہ کی حفاظت کے لیے جس طرح شوہر پر بیوی کے حقوق ہیں۔

شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا (2) رہائش مہیا کرنا (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا (4) نیک باتوں حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔

اسی طرح کچھ حقوق بیوی پر شوہر کے بھی ہیں:

بیوی پرشوہر کے چند حقوق یہ ہیں: (1)ازدواجی تعلقات میں مُطْلَقاً شوہر کی اطاعت کرنا (2) اس کی عزت کی سختی سے حفاظت کرنا (3) اس کے مال کی حفاظت کرنا (4) ہر بات میں اس کی خیر خواہی کرنا (5) ہر وقت جائز امور میں اس کی خوشی چاہنا (6) اسے اپنا سردار جاننا (7) شوہر کونام لے کر نہ پکارنا (8) کسی سے اس کی بلا وجہ شکایت نہ کرنا (9) اور خداتوفیق دے تو وجہ ہونے کے باجود شکایت نہ کرنا (10) اس کی اجازت کے بغیر آٹھویں دن سے پہلے والدین یا ایک سال سے پہلے دیگر محارم کے یہاں نہ جانا (11) وہ ناراض ہو تو اس کی بہت خوشامد کرکے منانا۔(فتاوی رضویہ، ۲۴/۳۷۱، ملخصاً)

شوہر کے حقوق کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

(1) حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورِعِین کہتی ہیں: خدا پاک تجھے قتل کرے، اِسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آ جائے گا۔(ترمذی، کتاب الرضاع، ۱۹-باب، ۲/۳۹۲، الحدیث: ۱۱۷۷)

(2) اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رَضِیَ ا للہُ تعالیٰ عَنْہا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ الزوج علی المراۃ، ۲/۳۸۶، الحدیث: ۱۱۶۴)

عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں تب ہی وہ احسن طریقے سے زندگی گزارنے میں کامیاب ہونگے۔


اللہ پاک نے انسانوں کو بدکاری، بےحیائی، شیطانی وسوسوں سے بچانے اور انہیں راحت و سکون پہچانے کے لیے نکاح کی نعمت عطا فرمائی تاکہ مرد و عورت نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر خود کو گناہوں سے بچائیں اس خوبصورت رشتے کی اہمیت و حفاظت کے پیش نظر اللہ پاک نے شوہر اور بیوی کے حقوق متعین کردئیے ہیں انہی حقوق میں سے شوہر کے کچھ حقوق ذکر کیے جائیں گے۔

(1) اللہ پاک کے علاوہ سجدے کا حکم: اللہ پاک اور اس کے آخری نبی حضور عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے بعد عورت پر جس ذات کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم ہے وہ اُس کا شوہر ہے۔چنانچہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفى صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: لَوْ كُنْتُ أَمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَن تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا۔ترجمہ: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(ترمذی، کتاب الرضاع باب ماجاء فی حق الزوج 386/2 حدیث: 1163)

شرح: مشہور مفسر قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ شوہر کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اس لئے شوہر ہی اُس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔شوہر کی اطاعت و تعظیم بہت ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے ۔(مراٰۃ المناجیح، 5/97)

(2) شوہر کا بیوی پر حق: پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی: شوہر کا حق اُس کی بیوی پر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ بیوی اپنے شوہر کو خود سے نہ روکے اگر چہ اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو نہ دے، اگر دے گی تو شوہر کے لئے ثواب اور عورت کیلئے گناہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے اگر ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی اور کچھ ثواب نہ ملے گا نیز شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر نکلی تو جب تک توبہ نہ کرے یا واپس نہ آ جائے رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔عرض کی گئی: اگر چہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگر چہ وہ ظالم ہو۔(سنن کبرى للبیہقی، كتاب القسم والنشوز باب ماجاء فی بيان حقہ عليها، 477/7، حدیث: 14713)

(3) فورا حاضر ہو:جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگرچہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔(ترمذی، کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوج علی المرأة ،386/2، حدیث: 1163)

(4) پوری رات لعنت: شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جاے تو رات بھر اس عورت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش زوجہا، ص 578، حدیث 3541)

(5) شوہر کے لیے سنورنا باعث اجر ہے: امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں عورت کا اپنے شوہر کے لیے زیور پہننا، بناؤ سنگھار کرنا باعثِ اجر عظیم اور اس کے حق میں نماز نفل سے افضل ہے۔(فتاویٰ رضویہ 22/126)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک اور اس کے آخری نبی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے طریقے پر بیوی کو اپنے شوہر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا دین اسلام جہاں حقوق الله یعنی نماز روزہ حج وغیرہ بجالانے کا حکم دیتا و ہی حقوق العباد کو بجا لانے پر اجرو ثواب اور سستی کرنے پر زجر و تو بیچ کے ذریعے ترغیب دلاتا ہے شریعت محمدیہ میں معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا بیان ہے ان میں سے شوہر کے حقوق کو بھی بہت اہمیت دی گئی جس طرح کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا : اگر خاوند کی چوٹی سے ایڑی تک پیپ ہو اور وہ(بیوی)اسے چاٹے تو خاوند کاحق ادا نہیں کر پائے گی(مستدرك للحاكم، كتاب النكاح، ٥٤٧/٢، الحديث ۳۸۲۲،۲۸۲۱ و مصنف ابن ابی شيبة، ما حق الزوج على امراتہ،٣٩٧/٣)

آئیے ان میں سے چندحقوق کا مطالعہ کرتے ہیں۔

(1) شوہر کو راضی رکھنا: بیوی کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی ناراضگی سے بچے اور اسے ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ اس میں عورت کے لیے بڑا اجرو ثواب ہے جس طرح کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو وہ جنت میں جائے گی ( ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق زوج على المراة، 386/2 الحدیث: 1164)

(2)بلا اجازت شوہر گھر سے نہ نکلنا: عورت کو چاہیے کہ بغیر اجازت شوہر گھر سے نہ نکلے بغیر اجازت کے نکلنے کے حوالے سے حضور علیہ السّلام نے فرمایا اگر گھر سے (بیوی) خاوند کی اجازت کے بغیر نکلی تو جب تک واپس نہ ہو یا توبہ نہ کرے، فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(مسند ابی، یعلی 438/2 ،الحديث: 2449 دون ذكر الصوم)

(3)بغیر اجازت شوہر کے نفلی روزے نہ رکھنا: بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بلا اجازت شوہر نفلی روزے نہ رکھے کیونکہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا بیوی پر یہ بھی حق ہے۔کہ خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے اگر اس نے ایسا کیا تو وہ بھوکی پیاسی رہی اور اس کا روزہ قبول نہیں۔ (المرجع السابق)

(4) شوہر کی اطاعت کرنا: بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی اطاعت کرتی رہے وگرنہ نافرمانی کرنے کا بڑا سخت عذاب ہےحضور علیہ السّلام نے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ خاوند کی نا فرمانی بھی ارشاد فرمائی۔(سنن الکبری للنسائی،کتاب عشرہ النساء باب ما ذ کر فی النساءَ ۳۹۸/۵الحدیث ۹۲۵۶)

5)بلا اجازت شوہر کسی کو کوئی چیز نہ دینا: عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی چیز نہ دے جس طرح کہ حضور علیہ السّلام نے فرمایا (بیوی) شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے کسی کو کوئی چیز نہ دے اگر اس نے ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی جبکہ شوہر کو ثواب ملے گا۔ (مسند ابی داؤد الطیالسی، الحدیث: ۱۹۵۱،ص ۲۶۳)


اسلام دین فطرت ہے اور اس کے احکامات میں انسانی فطرت کی رعایت رکھی گئی ہے، اسلام فطری تقاضوں کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کے حصول کیلئے جائز ذرائع مہیا کرتا ہے اسی لئے اللہ پاک نے انسانوں کو بدکاری، بے حیائی، جنسی بے راہ روی اور شیطانی وساوس سے بچانے نیز انہیں راحت وسکون پہنچانے کے لئے نکاح کی نعمت عطا فرمائی تا کہ عورتیں اور مرد نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر خود کو گناہوں سے بچائیں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کر دار ادا کریں۔اس خوبصورت رشتے کی اہمیت و حفاظت کے پیش نظر اللہ پاک نے میاں بیوی کے حقوق متعین کر دیئے تاکہ ان کے تعلق کی دیوار میں کہیں دراڑ نہ پڑے اور اس کی حفاظت ہوتی رہے۔جو لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتے ہیں وہی لوگ اس رشتے کو بخوبی نبہا سکتے ہیں۔

نیک سیرت اور مثالی بیوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے شوہر کے حسانات کی شکر گزار رہتی ہے اور کبھی اس کے احسانات کا انکار کر کے ناشکری نہیں کرتی وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ شوہر مجھ جیسی صنف نازک کیلئے ایک مضبوط سہارا اور الله پاک کی نعمت ہے، وہی میری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اُسی کی وجہ سے مجھے اولاد کی نعمت ملی ہے۔رحمت عالم نور مجسم صلی آلہ علیہ والہ وسلم نے عورتوں کو اپنے شوہروں کے حقوق پورے کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔چنانچہ

شوہر کے حقوق سے متعلق 4 فرامینِ مصطفیٰ پڑھئے:

(1) بیوی پر لازم : جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لئے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگر چہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق الزوج على المرأة،2/386حدیث:1163)

(2) فرشتوں کی لعنت : شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور اُس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جائے تو رات بھر اُس عورت کے فرشتے اُس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔(مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم امتناعها من فراش زوجها، ص 578، حدیث: 3561)

(3)اہم باتیں : پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلى الله علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کی: شوہر کا حق اس کی بیوی پر کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ کہ بیوی اپنے شوہر کو خود سے نہ روکے اگر چہ اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو نہ دے، اگر دے گی تو شوہر کے لئے ثواب اور عورت کیلئے گناہ ہے اور اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے اگر ایسا کیا تو گناہ گار ہو گی اور کچھ ثواب نہ ملے گا نیز شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اگر نکلی تو جب تک توبہ نہ کرے یا واپس نہ آ جائے رحمت اور عذاب کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔عرض کی گئی: اگر چہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگر چہ وہ ظالم ہو۔(سنن کبری للبیہقی کتاب باب القسم والتشوق، ماجاء فی بيان حقہ عليها،7/477، حدیث: 14713)

(4) اللہ سے ڈرو: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔(كنز العمال، كتاب النكاح الباب الخامس فی حقوق الزوجين، جز: 2، 16/145، حدیث: 44809)

اللہ پاک ہمیں اپنے شوہروں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم