صبیح اسد عطّاری ( درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)

اے عاشقان
رسول اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مذہب کی صورت میں ہمیں دین اسلام عطا فرمایا یہ وہ مذہب ہے جس نے ہمیں
ہر شے کے حقوق سکھائے چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان ہوں یہاں تک کہ دین اسلام نے
ہمیں نہ صرف زندہ لوگو ں کے بلکہ قبر والوں کے حقوق بھی بتائے ہیں۔ آئیے حصول برکت کے لیے چند حقوق سنتے ہیں :
(1)
اہل قبر کا احترام:اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم! شریعت اسلام ہمیں
اہل قبر کا بھی احترام کرنے کا حکم دیتی ہے لہذا قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا،
پاخانہ، پیشاب کرنا حرام ہے۔ قبرستان میں جو نیا راستہ نکالا گیا اس سے گزرنا ناجائز ہے، خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو
یا اس کا گمان ہو۔ (الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج 3 ،
ص 183)
(2)
اپنے پیاروں کی قبر پر جانا: پیارے اسلامی بھائیو ! قبرستان کا ایک حق یہ بھی
ہے کہ اس میں بسنے والے یعنی قبر والوں کے اپنے ان کی قبروں کی زیارت کے لیے آئیں
اور ان کو ایصال ثواب کی صورت میں خوبصورت تحفہ بھی دیں بہار شریعت میں ہے کہ
زیارتِ قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے،جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر
کے دن مناسب ہے، سب میں افضل روزِ جمعہ وقتِ صبح ہے۔ اولیائے کرام کے مزارات
طیبہ پر سفر کر کے جانا جائز ہے، وہ اپنے زائر کو نفع پہنچاتے ہیں اور اگر وہاں
کوئی منکرِ شرعی ہو مثلاً عورتوں سے اختلاط تو اس کی وجہ سے زیارت ترک
نہ کی جائے کہ ایسی باتوں سے نیک کام ترک نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے
بُرا جانے اور ممکن ہو تو بُری بات زائل کرے۔ (ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ
الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور، ج 3، ص 177)
(3)
عورتوں کا قبرستان جانا : پیارے
اسلامی بھائیو! قبرستان کا یہ بھی حق ہے کہ شریعت نے چونکہ عورتوں کو قبرستان جانا
منع کیا ہے لہٰذا عورتیں قبرستان نہ جائیں ۔فتاوی رضویہ شریف میں میرے امام اہلسنت
اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مسئلہ کچھ یوں بیان فرمایا ہے :
افضل یہ ہے کہ عورتیں مطلقاً منع کی جائیں
کہ اپنوں کی قبور کی زیارت میں تو وہی جزع و فزع ہے اور صالحین
کی قبور پر یا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادبی کریں گی
کہ عورتوں میں یہ دونوں باتیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ (الفتاوی
الرضویۃ، ج 9 ، ص 538)
(4)
اہل قبور کو سلام کرنا : اے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان کا
یہ بھی حق ہے کہ جب قبرستان جایا جائے تو اہل قبور کو سلام کیا جائے اور قبرستان جانے کی دعا
بھی پڑھی جائے۔ عالم بنانے والی کتاب بہار
شریعت میں قبرستان جانے کی یہ دعا لکھی ہوئی ہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ دَارِ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ
اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اِنَّا اِنْ شَا َٔ اللہ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ
اللہ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ یَرْحَمُ اللہ الْمُسْتَـقْدِمِیْنَ
مِنَّا وَالْمُسْتَاْخِرِیْنَ اَللّٰھُمَّ رَبَّ الْاَرْوَاحِ الْفَانِیَۃِ
وَالْاَجْسَادِ الْبَالِیَۃِ وَالْعِظَامِ النَّخِرَۃِ اَدْخِلْ ھٰذِہِ
الْقُبُوْرِ مِنْکَ رَوْحًا وَّرَیْحَانًا وَّمِنَّا تَحِیَّۃً وَّسَلَامًا (بہار شریعت، جلد 1 حصہ چہارم کتاب الجنائز)
اے عاشقان
رسول !یقینا ًمذکورہ چند نکات سے آپ پر قبر والوں کے
چند حقوق واضح ہو چکے ہوں گے۔
محمد فیصل فانی بدایونی
(درجہ سابعہ جامعۃ المدینہ پیراگون سٹی
لاہور ، پاکستان)

دنیا میں رہتے ہوئے بنی نوع انسان ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھتے ہیں
۔تب جا کر کہیں معاشرہ بھلائی اور اچھے راستے پر گامزن ہوتا ہے۔اگر ہم دنیا میں
رہتے ہوئے اپنے اور دوسروں کے حقوق و فرائض کا خیال نہ رکھیں تو معاشرہ برائیوں کا
شکار ہو کر ہمارے ہی گلے پڑ جائے گا۔ اور نظام زیست درہم برہم ہو جائے گا۔ زندگی
میں انسان دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے خواہ وہ کسی ڈر سے ہو یا اپنے مفاد سے
ہو لیکن اہل اللہ صرف اللہ کی رضا کے
لیے یہ فرائض و حقوق سر انجام دیتے ہیں۔
دنیا میں ہر جگہ پر حقوق و فرائض کا تصور قائم ہے لیکن مرنے کے بعد بعض جگہوں پر
یا بعض مذاہب میں یہ تصور نہیں ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں مرنے کے بعد بھی
انسان کے حقوق کا خیال رکھا ہے۔ اور اس کی تعظیم و تکریم کو برقرار رکھا ہے درج
ذیل میں ہم کچھ قبرستان کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ جن کو ہم اپنے عملی زندگی
میں بھی سرانجام دے سکیں۔
(1)
قبروں کی زیارت : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: قبروں کی زیارت کرنے جایا کرو کیونکہ
یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ (صحیح
مسلم، حدیث نمبر 976 ,کتاب الجنائز، باب استحباب زیارۃ القبور للرجال)
(2)
سلام پیش کرنا: نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ
دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (صحیح
مسلم، حدیث نمبر 975 ,کتاب الجنائز، باب ما یقال عند دخول القبور والدعاء لأھلھا)
(3)
دعائے مغفرت: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بقیع الغرقد
(مدینہ کے قبرستان) میں دعا کی اور فرمایا: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ
الْبَقِيعِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر
974 ,کتاب الجنائز، باب ما یقال عند زیارۃ القبور)
(4)
قبر پر بیٹھنے یا چلنے سے اجتناب: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: "کسی کے لیے یہ بات بہتر ہے کہ وہ انگارے پر بیٹھے جو اس کے کپڑے جلا
دے اور اس کے جسم کو پہنچ جائے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان کی قبر پر
بیٹھے"
(صحیح مسلم،
حدیث نمبر 971 ,کتاب الجنائز، باب النھی عن الجلوس علی القبر)
(5) قبر
کی مرمت: فقہاء کے مطابق، قبر کی
مرمت کرنا واجب ہے اگر اس کو نقصان پہنچے، تاکہ اس
کی بے حرمتی نہ ہو۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 234)۔
(7)
پھول یا پودے لگانا:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ایک
تر شاخ کے دو حصے کرکے دو قبروں پر لگائیں
اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں گی، ان کے لیے عذاب میں تخفیف ہوگی۔ (صحیح
بخاری، حدیث نمبر 1361,کتاب الجنائز، باب الجرید علی القبر)
(8)
قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا: حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی وفات سے پانچ دن پہلے یہ کہتے ہوئے سنا:
’’میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی
میرا خلیل ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جس طرح اس نے
ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا، اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا
خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ
اپنے انبیاءعلیهم السلام اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے،
خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنانا، میں تم کو اس سے روکتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم،
حدیث نمبر 532، کتاب المساجد، باب النھی عن اتخاذ القبور مساجد)
(10) تعلیمات اسلامی کی پیروی:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن
نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند
کرتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر 13 ،کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحب لأخیہ
ما یحب لنفسہ)
اللہ تعالی سے دعا ہے وہ اپنے
حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے ہمیں زندوں کے ساتھ ساتھ اپنے قبرستان میں
مدفون لوگوں کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
عبداللطیف
عطّاری ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور ، پاکستان)

مسلمانوں کی
تدفین کے لیے باقاعدہ قبرستانوں کا قیام ابتدائے اسلام سے چلا آرہا ہے ، دور نبوی
میں مکہ مکرمہ میں جنت المعلیٰ اور مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے قبرستان قائم
کیے گئے تھے، طبقات ابن سعد میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ
تشریف لائے تو اپنے اصحاب کے لیے قبرستان کی تلاش میں تھے، آپ مدینے کے اطراف آئے
اور فرمایا کہ مجھے اس جگہ کا حکم دیا گیا ہے، یعنی بقیع کا، چنانچہ یہ جگہ
قبرستان کے لیے مختص کردی گئی، قبرستان اور قبروں کے آداب اسلام کے اہم احکام میں
شامل ہیں جو مسلمانوں کو موت ،آخرت اور زندگی کی فانی حقیقت کی یاد دلاتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں قبرستان کی زیارت اور قبروں کے احترام پر زور دیا گیا ہے تاکہ
انسان اپنی آخرت کی تیاری کے لیے فکرمند رہے۔ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ قبرستان کی
حرمت اور احترام کو کس طرح برقرار رکھا جائے، تاکہ اس مقام کااحترام
ہمیشہ قائم رہے۔
(1)
قبروں پر پاؤں نہ رکھو : الاختيار لتعليل المختار میں ". ہے: ویکرہ وطء القبر والجلوس
والنوم عليه لأنه عليه الصلاة والسلام نهى
عن ذلك، وفيه إهانة به یعنی : قبر
پر پاؤں رکھنا ، اس پر بیٹھنا اور سونا مکروہ ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس سے منع فرمایا اور اس میں اس کی اہانت ہے۔ ( الاختيار لتعليل المختار،
باب الجنائز، جلد 1 ، صفحہ 97، طبعة الحلبی، القاهرة)
(2)
قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو:وَعَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ : “لَا تَجْلِسُوا عَلَی القُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا. رَوَاهُ
مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت ابو مرثدغنوی
سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ قبروں پر نہ بیٹھو
اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو۔ (مسلم۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 حدیث نمبر:1698)
(3)
قبروں پر نہ چلو : امام اہلسنت
امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
فرماتے ہیں: قبور مسلمین پر چلنا جائز
نہیں بیٹھنا جائز نہیں ، ان پر پاؤں رکھنا جائز نہیں، یہاں تک کہ آئمہ نے تصریح
فرمائی کہ قبرستان میں نیا راستہ پید اہو اس میں چلنا حرام ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ، جلد 9، صفحہ 480)
(
4 ) قبر کے اوپر نہ بیٹھو : وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ
اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
: “لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلیٰ جَمْرَةٍ فَتُحْرِقَ ثِيَابَهٗ فَتَخْلِصَ
إِلٰى جِلْدِهٖ خَيْرٌ لَهٗ مِنْ أَنْ
يجلس عَلیٰ قَبْرٍ”.رَوَاهُ مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ تم میں سےکسی کا چنگاری پر بیٹھنا کہ جو کپڑے کو
جلاکر اس کی کھال تک پہنچ جائے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ (مسلم۔ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 , حدیث نمبر:1699)
(
5 ) قبروں کی زیارت کرنا : عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
“نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ
الْأَضَاحِي فَوْقَ ثَلَاثٍ فَأَمْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ
النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَا
تَشْرَبُوا مُسْكِرًا . رَوَاهُ
مُسْلِمٌ روایت ہے حضرت بریدہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کیا کرو اور میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے
گوشت سے منع کیا تھا اب جب تک چاہو رکھو اور میں نے تمہیں مشکیزوں کے سواء میں
نبیذ پینے سے منع کیا تھا اب تمام برتنوں میں پیا کرو ہاں نشہ کی چیز نہ پینا۔ ( مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:2 ,
حدیث نمبر:1762)
اللہ پاک ہمیں
عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
محمد
مبشر عطاری درجہ ثانیہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

قبروں کی
زیارت دنیا سے بے رغبتی اور فکر آخرت پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ جس طرح
والدین کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور استاتذہ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اسی طرح
قبرستان کے بھی حقوق بیان کیے گئے ہیں چنانچہ فرمان مصطفے صلی
اللہ تعالی علیہ وسلم ہے ، قبروں کی زیادت
کیا کرو کہ وہ دنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخرت یاد دلاتی ہے۔
حافظ قاضی ابو
الفضل رحمۃ الله الوھاب فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام
نے قبروں کی زیادت کا حکم اس لیے دیا تا کہ فکر آخرت پیدا ہو اور عبرت حاصل کی
جائے۔ قبر میں شجرہ اور عہد نامہ رکھنا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ میت کے منہ کے
سامنے قبلہ کی جانب طاق کھود کر اس میں رکھے ۔ قبرستان میں کسی نے اپنے لیے قبر
کھود رکھی ہے۔ اگر قبرستان میں جگہ موجود ہے تو دوسرے کو اس قبر میں دفن نہ کرنا
چاہیے اور جگہ موجود نہ ہو تو دوسرے لوگ اپنا مردہ اس میں دفن کر سکتے ہیں ۔
قبرستان کے تمام آداب بجا لائے جائیں۔
(1)
قبر پر ٹھہرنا : دفن کے بعد قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب
ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کرکے گوشت تقسیم کر دیا جائے ، کہ ان کے رہنے سے میت کو
انس ہوگا اور نکرین کا جواب دینے میں وحشت نہ ہوگی اور اتنی دیر تک تلاوت قرآن اور
میت کے لیے دعا و استغفار کریں اور یہ دعا کریں کہ سوال نکرین کے جواب میں ثابت
قدم رہے۔
( الجوهرة النيرة ، باب الجنائز ، ص : 141) (یہ
تدفین کےآداب میں سے ہے نہ کہ قبرستان کے
آداب میں سے )
(2)
قبر پر سونا : قبرستان کے حقوق
میں یہ بھی ہے کہ قبر پر نہ بیٹھا جائے ۔ قبر پر بیٹھنا ، سونا ، چلنا ، پاخانہ
کرنا، پیشاپ کرنا حرام ہے۔ (الفتاوى
الهنديہ، كتاب الصلاة ، الباب الحادي والعشرون فی الجنائز، الفصل السادس ، ج:1 ،
ص: 166)
(3)
قبر کی زیارت کرنا : قبرستان کے حقوق میں سے ہے کہ قبرستان کی زیارت
کے لیے جایا جائے۔ زیارت قبور مستحب ہے ہر ہفتہ میں ایک دن زیارت کرے ، جمعہ یا
جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے سب میں افضل روز جمعہ وقت صبح ہے۔
(ردالمختار، صلاة الجنازة ، طلب فى زيادة القبور ، ج : 3 ،ص 177 )
(4)
قبر والوں کو سلام کرنا : بُرَیْدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم رَءُوْفٌ رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو
کہیں:’’اےمؤمنو اورمسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو،اِنْ شَآءَ اللہ ہم بھی
تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سےاپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے
ہیں۔( فیضان ریاض الصالحین جلد:5 , حدیث
نمبر:583)
احمد
رضا عطّاری ( درجۂ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور )

اسلام ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق حقوق و احکام بیان کئے ہیں۔
جس طرح دیگر حقوق بیان کئے ہیں اسی طرح قبرستان کے حقوق کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا
ہے۔ آئیے قبرستان کے 6 حقوق پڑھئے:
(1) زیارتِ قبور کرنا:قبرستان کے حقوق میں سے ہے کہ قبرستان کی زیارت
کے لئے جایا جائے، رد المحتار میں ہے: زیارتِ قبور مستحب ہے، ہر ہفتہ میں ایک دن
زیارت کرے، جمعہ یا جمعرات یا ہفتہ یا پیر کے دن مناسب ہے، سب میں افضل روز جمعہ
وقت صبح ہے۔ (دیکھئے: ردالمحتار، 3/177)
( 2) سلام کہنا : حضور علیہ السّلام مدینہ کے قبرستان گئے تو اس
طرح سلام کیا: اَلسَّلَامُ
عَلَيْكُمْ يَا اَهْلَ القُبُورِ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، اَنْتُمْ
سَلَفُنَا، وَنَحْنُ بِالاَثَرِ یعنی اے قبر والو! تم پر سلام ہو، اللہ پاک ہماری
اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ (دیکھئے:
ترمذی، 2/329، حدیث: 1055) حضرت بُرَیْدہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِّ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں
تو کہیں: اے مؤمنوں اورمسلمانوں کے گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اِن شآءَ اللہ ہم
بھی تم سے ملنے والے ہیں، ہم الله پاک سےاپنے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتے
ہیں۔( فیضان ریاض الصالحین، 5/357، حدیث : 583 )
(3) قبر پر اگر بتی نہ جلانا: قبر کے اوپر اگربتّی نہ جلائیں کہ بے ادبی ہے
اور اس سے میِّت کو تکلیف ہوتی ہے بلکہ قبر کے پاس خالی جگہ ہوتو وہاں رکھ سکتے ہیں،جبکہ
وہ خالی جگہ ایسی نہ ہو کہ جہاں پہلے قَبْر تھی اب مِٹ چکی ہے۔(دیکھئے: قبروالوں کی
25حکایات، ص47)
(4) قبر پر نہ بیٹھنا : قبرستان کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ قبر پر نہ بیٹھا
جائے۔ قبر پر بیٹھنا، سونا، چلنا، پاخانہ کرنا حرام ہے۔ (فتاوى عالمگیری،
1/166)
(5) نئے راستے سے اجتناب کرنا: قبرستان میں قبریں ڈھاکرجو نیا راستہ نکالا گیا
اس سے گزرنا جائز نہیں ہے۔ خواہ نیا ہونا اسے معلوم ہو یا اس کا گمان ہو۔(رد
المحتار، 3/183)
(6) تکلیف نہ دینا : قبر بھی لائقِ تعظیم ہےاس سےتکیہ لگانا جائز نہیں،
روایت ہے حضرت عمر و بن حزم سے فرماتے ہیں کہ مجھ کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے دیکھا تو فرمایا اس قبر والے کو نہ ستاؤ یا
اسے مت ستاؤ۔ (مراٰۃ المناجیح،2/499)
اللہ پاک ہمیں
قبرستان کے حقوق و آداب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبد
الرحمن امجد عطاری ( درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

تربیت انسان کی شخصیت کا پتا دیتی ہے کہ ایک انسان
اپنی تربیت اور اخلاق ہی سے پہچانا جاتا ہے اور تربیت ایسی چیز ہے جس کی انسان کو
ہر معاملے میں ضرورت پڑتی ہے اسی وجہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
موقع بہ موقع اپنے صحابہ کرام کی تربیت فرماتے تھے اور صحابہ بھی سرکار کے فرامین
پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو خوبصورت بناتے تھے ۔ آئیے حضور کا سات چیزوں کے بارے
تربیت فرمانے کےمختلف انداز پڑھتے ہیں:
(1)
سات شخصوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ عطا فرمائے گا: روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :سات شخص وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سایہ میں رکھے گا جب اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا ،عادل بادشاہ
، وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں جوانی گزارے ، وہ شخص جس کا
دل جب سے کہ وہ مسجد سے نکلے مسجد میں لگا رہے حتی کہ مسجد میں لوٹ آئے ، وہ دو
شخص جو اللہ کے لئے محبت کریں جمع ہوں تو
اسی محبت پر اور جدا ہوں تو اسی پر ،اور وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے تو
اس کی آنکھیں بہیں ، اور وہ شخص جسے خاندانی حسین عورت بلائے وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں،اور وہ شخص جو چھپ کر خیرات
کرے حتی کہ اس کا بایاں ہاتھ نہ جانے کہ داہنا ہاتھ کیا دے رہا ہے ۔ (مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ،
حدیث نمبر:701 )
(2)
سات ہلاکت والی چیزوں سے بچو: روایت
ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے
ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہلاکت کی چیزوں سے
بچو۔لوگوں نے پوچھا: حضور! وہ کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک،جادو ،اور ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی،اور سود خوری، یتیم کا مال کھانا ،جہاد کے دن پیٹھ
دکھا دینا ،پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔ (مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:52)
(3)
سات چیزوں سے پہلے نیک کاموں میں جلدی کرو: حضرت سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ محبوب ربِّ داور، شفیعِ روزِ مَحشرصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا: سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرو! تمہیں
انتظار نہیں مگر بھُلا دینے والی محتاجی یاسر کش بنا دینے والی مالداری یا مُفسد
مَرض یا عقل زائل کردینے والے بڑھاپے یا
اچانک آنے والی موت یا دجّال کا جو غائب شر ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے یا قیامت کا۔اور قیامت شدید مصائب والی اور بہت کڑوی ہے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:93)
(4)
سات جگہ نماز پڑھنا منع ہے: روایت
ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہ نماز پڑھنے سے منع کیا:
کوڑی،مذبح،قبرستان ،بیچ راستہ میں اور حمام اور اونٹ بندھنے کی جگہ اور کعبہ شریف کی چھت پر (ترمذی،ابن
ماجہ۔مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:738)
اللہ عزوجل
ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی
گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
محمّد
بلال منظور ( درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور
، پاکستان)

صحابہ کرام
علیہمُ الرّضوان وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ
علیہ وسلم کی صحبت سے فیضیاب فرمایا اور سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان کی خود تربیت فرمائی جس کی برکت سے یہ حضرات نیک کاموں میں مصروف رہتے
اللہ پاک کی عبادت کرنے میں خوب کوشش کیا کرتے تھے،کیونکہ تربیت سے ہی بندے کا
کردار نکھرتا ہے،ہمیں بھی اپنے ما تحت رہنے والوں کی احسن انداز سے تربیت کرنی
چاہیے۔ تو اسی ضمن میں 7 احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں
(1)
سات باتوں کا حکم: صحیحین میں ہے برا ء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ،
ہمیں سات باتوں کا حضور (صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے حکم دیا (1)
سلام کا جواب دینا (2) مریض کے پوچھنے جانا (3) جنازے کے ساتھ جانا (4) دعوت قبول
کرنا (5) چھینکنے والے کا جواب دینا (جب الحمداللہ کہے) (6) قسم کھانے والے کی قسم
پوری کرنا (7) مظلوم کی مدد کرنا ۔ (صحیح
بخاری ،کتاب اللباس،باب خواتیم الذہب، ج 4 الحدیث 5823)
(2)
سات ہڈیوں پر سجدہ: صحیحین میں ابن
عباس سے مروی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مجھے حکم ہوا کہ سات ہڈیوں پر
سجدہ کروں،مونھ، دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پنجے اور یہ حکم ہوا کہ
کپڑے اور بال نہ سمیٹوں ۔ (صحیح بخاری ،کتاب الآن ،باب السجود علی الانف،الحدیث812
ج1 ص 285)
(3)
سات چیزوں کا حکم سات سے منع: حضرتِ
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ہم کو نبی پاک صلی اللہ علیہ
وسلم نے سات چیزوں کا حکم دیا اور سات سے منع کیا۔ ہمیں مریض کی عیادت ،جنازوں کے
ساتھ جانے، چھینک والے کا جواب دینے، سلام کا جواب دینے، دعوت قبول کرنے، قسم والے
کو بری کرنے، مظلوم کی مدد کرنے کا حکم دیا اور سونے کی انگوٹھی، باریک موٹے ریشم، دیباج
پہننے، سرخ نمدے، اور قسی پہننے، چاندی کے برتن کے استعمال سے منع فرمایا۔اور ایک
روایت میں ہے کے چاندی میں پینے سے منع فرمایا کہ جو دنیا میں اس میں پی لے گا وہ
آخرت میں اس سے نہ پی سکے گا۔ ( مرآۃالمناجیح شرح مشکاۃالمصابیح ج 2 الحدیث 1526)
(4)
سات شہادتیں: حضرتِ جابر بن عتیک
سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : اللہ کی راہ میں
مارے جانے کے سوا سات شہادتیں اور بھی ہیں، طاعون والا شہید ہے، ڈوبا ہوا شہید ہے،
ذات الجنب کی بیماری والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری والا شہید ہے، آگ والا شہید ہے،
دب کر مرنے والا شہید ہے، عورت ولادت میں مر جائے شہید ہے۔ ( مرآۃالمناجیح شرح
مشکاۃالمصابیح ج 2 الحدیث 1561)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو ! بندہ بڑا عہدے دار تو بن جاتا ہے لیکن ایک اچھا انسان اپنے اخلاق
اور اچھی تربیت سے بنتا ہے اللہ پاک ہمیں اپنے ما تحتوں کی اچھے انداز سے تربیت
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
محمد اکرام طفیل (درجہ
رابعہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی لاہور ، پاکستان)

ہمارے پیارے
آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہماری بہت ہی احسن طریقے سے تربیت فرمائی ہے ہمیں
چاہیے کہ ہم اللہ عزوجل اور نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے حکم کو بجا لائیں
جس طرح نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہماری تربیت فرمائی ہے ہمیں چاہیے کہ
ہم اپنی اولاد کی بھی اسی طرح تربیت فرمائیں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں
نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اسی ضمن
میں نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چند خوشبودار فرامین ملاحظہ فرمائیں۔
(1)سات
ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو: حضرت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سید عالم نور مجسم صلی اللہ
تعالی علیہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم وہ کیا ہیں ارشاد فرمایا (1)اللہ عزوجل کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (2)جادو
کرنا (3) کسی جان کو ناحق قتل کرنا (4) سود کھانا (5) یتیم کامال کھانا (6) جنگ کے
دن پیٹھ پھیر لینا اور (7) پاک دامن سیدھی سادی مومنہ عورت پر تہمت لگانا ۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، الحدیث نمبر: 262 )
(2)رسول
اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نصیحتیں:حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی کریم
غیب دان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سات چیزوں کی وصیت فرمائی جنہیں میں نے نہ تو
چھوڑا ہے اور نہ ہی چھوڑوں گا(1) غریبوں
سے محبت اور قربت(2) دوسرے کو اپنے سے افضل سمجھنا (3)صلہ رحمی کرنا(4) لا حول ولا
قوۃ الا باللہ کی کثرت کرنا(5) لوگوں سے کوئی چیز نہ طلب کرنا(6) حقوق اللہ میں
کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا(7) میں حق بات ہی کہوں چاہے وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔ ( تنبیہ الغافلین؛ حصہ اول صفحہ نمبر 305 )
(3)سات
آدمی عرش کے سائے کے نیچے ہوں گے: حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے فرمایا سات آدمی اللہ عزوجل کے عرش کے سائے کے نیچے ہوں گے جس دن کوئی سایہ نہ
ہوگا (1) عادل بادشاہ (2) وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ تعالی کی عبادت میں
گزاری (3)وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لگا رہا (4)اور وہ دو آدمی جو اللہ عزوجل کی
رضا کے لیے محبت کریں اور اللہ عزوجل کی رضا کے لیے جدا ہوں ( 5) اور وہ آدمی جس
کو خوبصورت منصب والی عورت نے طلب کیا اس نے کہا میں اللہ عزوجل سے ڈرتا ہوں(6)
اور وہ آدمی جو پوشیدہ صدقہ کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے سیدھے ہاتھ کو معلوم نہ ہو
کہ الٹے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے (7)وہ آدمى جس کی آنکھیں اللہ عزوجل
کے ذکر سے تر رہیں۔ (صحیح بخاری جلد 3/حدیث/ 116)
(4)
نیک اعمال میں جلدی کرو!:حضرت
سيدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ محبوب ربِّ داور، شفیعِ روزِ مَحشر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ’’ سات چیزوں سے پہلے نیک
اعمال میں جلدی کرو!تمہیں انتظار نہیں مگر(1) بھُلا دینے والی محتاجی (2)یاسر کش
بنا دینے والی مالداری (3)یامُفسدمَرض (4)یاعقل زائل کردینے والے بڑھاپے(5)
یا اچانک آنے والی موت(6) یادجّال کا جو غائب شر ہے جس کا انتظار کیا جا رہا
ہے(7) یا قیامت کا۔اور قیامت شدید مصائب والی اور بہت کڑوی ہے۔ ‘‘ ( فیضان ریاض
الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:93)

تربیت کے عمل
سے انسانی زندگی کی رفعت اور عظمت وابستہ ہےاگر انسان کی عمدہ تربیت کردی جائے تو
معاشرے میں اس کی قدرو قیمت اور فضیلت و اہمیت بھی زیادہ ہوجاتی ہے.تربیت ایک عملِ
مسلسل ہے اور یہ بار بار توجہ کا متقاضی ہے. نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ
وسلم نے بھی زندگی کے ہر موڑ پر اپنے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بہت سی
احادیث میں صحابہ کرام کی تربیت فرمائی ان میں سے چند احادیث ایسی بھی ملتی ہیں جس
میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سات چیزوں کے متعلق تربیت فرمائی آئیے
ان میں سے چند احادیث پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
(1)سات
جگہوں پر نماز پڑھنے کی ممانعت: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہ نماز
پڑھنے سے منع کیا: (1)کوڑی(2)مذبح(3)قبرستان
(4)بیچ راستہ میں(5)حمام(6)اونٹ بندھنے کی
جگہ اور(7)کعبہ شریف کی چھت پر۔ (مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:738)
(2)سات
لوگ عرش کے سائے میں ہوں گے: نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش
کے ) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (1)انصاف کرنے والا
حاکم (2)وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں
جوان ہوا ہو(3)وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگارہے(4)دو ایسے شخص جو اللہ کے لئے
محبت رکھتے ہیں اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے(5) ایسا شخص جسے کسی
خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا
ہوں(6)وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ
ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور(7)وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور
اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔(صحیح بخاری، حدیث:
1423)
(3)سات
گناہوں کی ممانعت:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو۔“
صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا ”(1)اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا (2)جادو کرنا(3)کسی کی
ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے(4)سود کھانا(5) یتیم کا مال
کھانا(6) جنگ کے دوران مقابلے کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)پاک دامن،شادی
شدہ، ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔“(صحیح بخاری،حدیث نمبر 2766،جلد 2،صفحہ
242)
(4)سات
چیزوں سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا: ’’ سات چیزوں سے پہلے نیک
اعمال میں جلدی کرو!تمہیں انتظار نہیں مگر بھُلا دینے والی محتاجی یاسر کش بنا
دینے والی مالداری یامُفسدمَرض یاعقل زائل کردینے والے بڑھاپے یا اچانک آنے والی موت
یادجّال کا جو غائب شر ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے یا قیامت کا۔اور قیامت شدید مصائب والی اور بہت کڑوی ہے۔ ‘‘ (فیضان ریاض الصالحین،جلد
2 ،حدیث نمبر 93 )
(5)سات
چیزوں کا حکم :حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میرے خلیل نے
مجھے سات چیزوں کے متعلق حکم فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مساکین
سے محبت کرنے اور ان کے قریب رہنے کا مجھے حکم فرمایا، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ
میں اپنے سے کم تر کی طرف دیکھوں اور جو مجھ سے (دنیا کے لحاظ سے) برتر ہے اس کی
طرف نہ دیکھوں، آپ نے مجھے صلہ رحمی کا حکم فرمایا اگرچہ وہ قطع رحمی کریں، آپ
نے مجھے حکم فرمایا کہ میں کسی سے کوئی چیز نہ مانگوں، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ
میں حق بات کروں اگرچہ وہ کڑوی ہو، آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اللہ کے (حق کے)
بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈروں، اور آپ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں (لَا حَوْلَ وَلَا قَوَّۃَ
اِلَّا بِاللہِ) کثرت سے پڑھا
کروں، کیونکہ وہ (کلمات) عرش کے نیچے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہیں۔ “(احمد،حدیث : 21745،جلد
5،صفحہ 159)
حافظ
محمد حماس ( درجہ ٔ سادسہ جامعۃ ُالمدینہ گلزار حبیب سبزه زار لاہور )

رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی امت کی راہنمائی اور تربیت کے لئے مختلف
مواقع پر اہم ہدایات اور نصیحتیں ارشاد فرمائیں، جن کا مقصد انسان کی دنیاوی اور
اخروی کامیابی کی طرف راہنمائی کرنا تھا۔ وہ فرامین زندگی کے مختلف پہلوؤں کو محیط
ہیں اور ہر مسلمان کے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔یہ ہدایات اخلاق، عبادات،
معاشرت اور روحانی اصلاح پر مبنی ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی زندگی کو
دین ِ اسلام کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
متعدد احادیث میں سات چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے تعلیمات دی ہیں ان میں سے 5 فرامینِ
مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھئے:
(1) سات ہلاک کرنے والی چیزیں: سات چیزوں سے بچو جو ہلاک کرنے والی ہیں، صحابۂ
کرام نے پوچھا: یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ کیا ہیں؟ ارشاد
فرمایا:(1)اللہ کے ساتھ شرک کرنا (2)جادو کرنا (3)ناحق کسی کی جان لینا (4)یتیم
کا مال کھانا (5) سود کھانا (6) جہاد سے پیٹھ پھیرنا (7)پاک دامن عورتوں پر تہمت
لگانا۔(بخاری، 2/243، حديث: 2766)
(2)سات لوگ سایۂ عرش میں ہوں گے: اللہ تعالیٰ سات لوگوں کو اپنے (عرش کے)سایہ میں
جگہ دے گا جس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا سوائے اس کے سایہ کے:(1) انصاف کرنے والا
حاکم (2) وہ نوجوان جس کی جوانی عبادت میں گزری (3) وہ شخص جس کا دل مسجد سے لگا
رہتا ہے (4) وہ دو آدمی جو اللہ کے لئے محبت کرتے ہیں اور اسی پر ملاقات کرتےاور
جدا ہوتے ہیں (5) وہ آدمی جسے خوبصورت اور منصب والی عورت بدکاری کی دعوت دے اور
وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں (6) وہ آدمی جو چھپ کر صدقہ دیتا ہے (7)وہ آدمی جو
تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ (بخاری،1/236،حدیث660)
(3)سات کاموں کا حکم دیا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
صحابہ ٔ کرام کو سات باتوں کا حکم دیا: (1)جنازوں کے ساتھ جانے (2)مریض کی عیادت
کرنے (3)دعوت قبول کرنے (4)مظلوم کی مدد کرنے (5)قسم پوری کرنے (6)سلام کا جواب دینے
اور (7)چھینکنے والے کا جواب دینے کاحکم دیا۔ (دیکھئے:بخاری،1/420، حديث:
1239)
(4) سات
افراد کے لئے موت، شہادت ہے: راہ ِ خدا میں مارے جانے کے علاوہ شہادت سات طرح کی ہے: (1)طاعون میں مرنے والا
شہید ہے (2) پانی میں ڈوب کر مرنے والا شہید ہے (3)ذات الجنب (ایسی بیماری جس میں
پسلیوں پر پھنسیاں نمودار ہوتی ہیں، پسلیوں میں درد اوربخار ہوتا ہے،اکثر کھانسی
بھی اٹھتی ہے، مراٰۃ المناجیح، 2/ 420) کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے (4)پیٹ کی
بیماری سے مرنے والا شہید ہے (5)آگ میں جل کر مرنے والا شہید ہے (6)دب کر مرنے
والا شہید ہے اور (7)جو عورت بچے کی پیدائش میں مر جائے وہ شہید ہے۔(ابو
داؤد،3/253، حدیث: 3111)
(5) مرنے کے بعد سات اعمال کا اجر : سات چیزیں ایسی ہیں جن کا اجر مرنے کے بعد بھی
ملتا رہتا ہے جبکہ وہ بندہ اپنی قبر میں ہوتا ہے: (1)جس نے علم سکھایا ہو (2)کسی
نہر کو جاری کیا ہو (3)کسی کنویں کو کھودا ہو (4)کھجور کا درخت لگایا ہو (5)مسجد
بنائی ہو (6)قراٰن کا نسخہ وراثت میں چھوڑا ہو (7) ایسی نیک اولاد چھوڑی ہو جو اس
کے مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کرتی رہے۔ (مسند بزار،13/483،حدیث: 7289 )

قرآن مجید
اللہ کا آخری پیغام ہے جو انسانیت کی رہنمائی اور فلاح کے لیے نازل کیا گیا۔ اس
کتاب کا مقصد نہ صرف دینی و روحانی معاملات میں ہدایت دینا ہے بلکہ انسانی زندگی
کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔ قرآن مجید حق کی ترویج، باطل کی تردید، انسان کی
اخلاقی و روحانی تربیت، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے اصولوں کی وضاحت کرتا ہے۔
یہ کتاب اللہ کی قدرت، حکمت اور رحمت کا مظہر ہے اور ہر انسان کے لیے رہنمائی کا
ذریعہ ہے۔
نزولِ قرآن کے
10 قرآنی مقاصددرج ذیل ہیں:
(1)
ہدایت: قرآن مجید کا بنیادی مقصد انسانیت کو صحیح راستے پر
چلانا ہے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو۔ اللہ نے اسے ہدایت کے ساتھ نازل
کیا تاکہ انسان اپنے مقصدِ حیات کو سمجھے اور اس پر عمل کرے۔آیت: ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ
نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ (البقرہ: 176) تر جمۂ کنز الایمان: یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب
حق کے ساتھ اتاری ۔
(2)
باطل کی تردید: قرآن کا ایک مقصد ہر اُس باطل اور جھوٹے نظریے کی نفی
کرنا ہے جو حق کے خلاف ہو، تاکہ انسانوں کو سیدھی راہ دکھائی جائے۔آیت: وَ بِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ
وَ بِالْحَقِّ نَزَلَؕ (بنی اسرائیل: 105) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے قرآن کو حق ہی کے
ساتھ اتارا اور حق ہی کے ساتھ اترا ۔
(3)
ایمان کی دعوت: قرآن اہل کتاب اور دیگر انسانوں کو ایمان کی دعوت دیتا
ہے، تاکہ وہ اللہ کے احکام کی پیروی کرکے نجات پا سکیں۔ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا
مَعَكُمْ (النساء: 47) ترجمہ
کنزالایمان: اے کتاب والو! ایمان لاؤ اس
پر جو ہم نے اتارا تمہارے ساتھ والی کتاب کی تصدیق فرماتا۔
(4)
آیات کا احترام:قرآن ان لوگوں سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے جو اللہ کی
آیات کا مذاق اڑاتے ہیں، ورنہ ان کے ساتھ بیٹھنے والے بھی انہی جیسے سمجھے جائیں
گے۔وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا
سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا
تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ ﳲ (النساء: 140)ترجمہ کنزالایمان: اور بے شک اللہ
تم پر کتاب میں اتار چکا کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جاتا
اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اور بات میں
مشغول نہ ہوں۔

قرآن پاک
نازل کرنے کے 4 مقاصد پڑھئے:
(1)پوری
امت کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانا:چنانچہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ
مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ
مَنْ حَوْلَهَاؕ(انعام: ۹۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے
نازل فرمایا ہے ،پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس لئے (اتری) تاکہ تم اس
کے ذریعے مرکزی شہر اور اس کے اردگرد والوں کو ڈر سناؤ ۔
(2)
لوگوں کو کفر وجہالت کے اندھیروں سے ایمان کے نور کی طرف نکالنا: چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: الٓرٰ- كِتٰبٌ
اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِ جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ
بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ(۱) (ابراہیم:
۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان:الٓرٰ،یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم
لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے اجالے کی طرف ،اس (اللہ) کے راستے کی طرف
نکالو جو عزت والا سب خوبیوں والا ہے۔
(3)لوگوں
تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچانا اور ان کے اختلاف کا تَصْفِیَہ کرنا: چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ
الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ
یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴) (نحل: ۴۴) ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں
سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔ اور
ارشاد فرماتاہے : وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ
اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْهِۙ-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً
لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۶۴)
(نحل: ۶۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے تم پر یہ کتاب اس لئے
نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں کیلئے وہ بات واضح کردو جس میں انہیں اختلاف ہے
اوریہ کتاب ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔
(4)اس
کی آیتوں میں غوروفکر کر کے نصیحت حاصل کرنا۔چنانچہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ
اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا
الْاَلْبَابِ(۲۹)
(ص: ۲۹) ترجمۂ
کنزُالعِرفان:(یہ قرآن) ایک برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے
تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور وفکر کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں۔
(5)وَ
هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵)
(الانعام: ۱۵۵) ترجمۂ
کنز العرفان: اور یہ برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے ، تو تم اس کی پیروی
کرو اور پرہیزگار بنو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
(6) اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا
الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک
ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔(الحجر:9)
(7)لَقَدْ
اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠(۱۰) ترجمۂ
کنز العرفان: بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک
کتاب نازل فرمائی جس میں تمہارا چرچا ہے۔ تو کیا تمہیں عقل نہیں ؟(الانبیاء، آیت:
21)
(8)
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ لِتُخْرِ جَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى
النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى
صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِۙ(۱) ترجمہ:
کنزالعرفان: ’’الر‘‘، یہ ایک کتاب ہے جو
ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے اندھیروں سے
اجالے کی طرف،اس (اللہ ) کے راستے کی طرف نکالو جو عزت والا ،سب خوبیوں والا ہے۔
(9) وَ
اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ
لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴)
ترجمہ: کنزالعرفان:(ہم نے)
روشن دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ (رسولوں کو بھیجا) اور اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف
یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو اُن کی طرف نازل کیا گیا
ہے اورتاکہ وہ غوروفکر کریں۔