اس پوری دنیا پر اگر کسی کا سب سے بڑا احسان ہے تو وہ رب کا ہے کہ اس نے اپنا محبوب اس دنیا میں بھیجا اور حضور ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس جہان فانی پر جہالت کا سیاہ ترین اندھیرا چھایا ہوا تھا، آپ ﷺ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور جہالت و کفر میں ڈوبی انسانیت کو حق کا راستہ بتایا۔ حضور ﷺ کے ذریعے ہی ہمیں ایمان ملا، قرآن ملا، ہر نعمت ہی حضور کی وجہ سے نصیب ہوئی، لہٰذا ہر ایمان والے کو چاہیے کہ وہ حضور کی سیرت کے ساتھ ساتھ محسن انسانیت ﷺ کے حقوق کو معلوم کرے اور ان کی تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے، حقوق کیا ہیں اور حق کسے کہتے ہیں؟  چنانچہ

حق کی تعریف: ایک ایسی ذمہ داری جو رب تعالیٰ کی طرف سے ایک ذات پر دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔

ہم پر حضور ﷺ کے اتنے حقوق ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں، البتہ ان میں سے چند درج ہیں؛

1۔ درود پاک: جس پر کسی شخص کا احسان ہوتا ہے تو وہ اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولتا، اس کا ذکر اکثر و بیشتر اپنی زبان پر رکھتا ہے اور ہمارے سب سے بڑے محسن ہی پیارے آقا ﷺ ہیں تو حضور کا حق یہ ہے کہ ہم اپنے محسن اعظم ﷺ کا ذکر کثرت سے کریں، درود پاک وہ عمل ہے کہ جس کا حکم خود رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں رب کریم ایمان والوں کو حکم ارشاد فرما رہا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے آقا ﷺ پر درود و سلام بھیجیں۔

2۔ حضور کی احادیث کا ادب: حضور کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے فرمان کا بھی ادب کریں، دوران درس جب حدیث مبارکہ پڑھی جا رہی ہو تو حدیث کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنا ایسا ہے جیسے حضور کی حیات مبارکہ میں آپ کی آواز پر آواز بلند کرنا اور یہ درست نہیں، جب حدیث مبارکہ پڑھنی ہو تو حتی الامکان نیا لباس اور خوشبو کا استعمال کیا جائے اور حدیث مبارکہ پڑھنے والا کسی اونچی جگہ بیٹھے۔

3۔ حضور کے اہل بیت کا اکرام و احترام: ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے اہل بیت کا احترام کریں ان سے بھی محبت کی جائے، کیونکہ محبوب کی ہر چیز جو محبوب سے منسلک ہو وہ محب کو پیاری ہوتی ہے لہٰذا اہل بیت کی تعظیم لازم ہے۔

4۔ اطاعت: ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور کے افعال اور حضور کے دیئے گئے امر و نہی (حکم اور منع) سے باز رہیں اور حتی المقدور سنتوں پر بھی عمل کریں یہ بھی اطاعت کا ذریعہ ہے۔

5۔ حضور سے عشق اور ایمان بالرسول: ایمان بالرسول ضروری ہے کہ حضور جو حکم رب کی طرف سے لائے ان پر ایمان فرض ہے اور ان سب کی تصدیق ضروری ہے، حضور ﷺ سے عشق کرنا ہی اصل ایمان کی نشانی ہے اور حضور سے عشق و محبت واجب ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری اے جان جاں میں جان تجلیّٰ کہوں تجھے

لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ جو ہم پر حقوق لازم کیے گئے ہیں ہم ان حقوق کر بجا لائیں اور خوب چرچا کرتے رہیں۔ رب کریم ہم سے حقوق میں کوتاہی کو معاف فرمائے اور حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


رحمۃ للعالمین حضور پرنور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ جنہوں نے حیوان ناطق کو انسان بنایا، جہالت کے اندھیروں سے دنیا کو نکال کر اسلام کی شمع کو روشن کیا، جنہوں نے بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا، جنہوں نے عورتوں کو معاشرے میں ”ایک چیز“ سے بڑھا کر گھر کی ملکہ کے شرف سے نوازا، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت و محبت، بزرگوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور آپس میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا سکھایا، جنہوں نے مخلوق سے خالق کا تعارف کروایا، افسوس! آج ہم انہیں کے حقوق کو بھول بیٹھے ہیں، اپنے آپ کو زبانی عاشقِ رسول کہتے ہوئے ایک بار ہمیں اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم ان کے حقوق ادا کرنے میں کامیاب ہیں؟ آقا کریم ﷺ کے اپنی امت پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں؛

1۔ آپ سے محبت کرنا: رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جز ہے وہ بھی ایسی محبت جو انسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو، آپ اسی محبت کے حق دار ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نزدیک اس کی اولاد سے زیادہ اس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری)

نبی کی ذات مؤمنوں کے لیے اپنی جانوں سے مقدم ہے، خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے، البتہ محبتِ رسول میں حد سے بڑھنا بھی نا مناسب ہے یعنی شریعتِ اسلام میں رسول کی عظمت و محبت فرض ہے اس کے بغیر ایمان ہی نہیں ہوتا مگر رسول کو کسی صفت یا علم یا قدرت وغیرہ میں اللہ پاک کے برابر کر دینا گمراہی اور شرک ہے۔

2۔ آپ کی اطاعت کرنا: رسول کی حیثیت اسلام میں محض پیامبر کی نہیں بلکہ اس کی اطاعت مستقلا واجب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ یہ حکم خود اللہ کریم کا ہے، اس لیے اگر کوئی رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ اصلا اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اور گویا رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔

3۔ آپ کا ادب و احترام کرنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔رسول اکرم ﷺ کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا یہ آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے اور اس کے کرنے کا حکم ہے، رسول اکرم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے، بارگاہ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ کی تعظیم و توقیر کے بر خلاف ہے اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور توہین کی نیت ہو یہ کفر ہے۔

4۔ آپ کے دین کی مدد کرنا: رسول اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہلِ ایمان پر ہر دم واجب ہے، امت کو جو رسول اللہ ﷺ کے دفاع کا حکم دیا گیا ہے یہ خود امت کے حق میں درجات کی بلندی کا سبب ہے ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں اور اس نے اپنے حبیب کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے، رسول اللہ ﷺ کی بھرپور مدد و نصرت کرنا بھی ہر ایمان والے پر رسول کا حق ہے اب آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مؤمنین پر لازم ہے کہ وہ مندرجہ ذیل صورتوں میں رسول ﷺ کی مدد و نصرت کریں؛ طعن پرستوں کے طعن اور گستاخوں کی گستاخی سے دفاع کرنا، سنتوں کو اپنانا، روز مرہ کی زندگی میں سنتوں کو عام کرنا، لوگوں میں نیکی کی دعوت کو عام کرنا، حضور کی سنت گھر گھر پہنچانا۔

5۔ آپ کے اہل بیت اور صحابہ سے محبت کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو میرے صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ اس کے نصف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو میرے بعد انہیں نشانہ مت بنا لینا، کیونکہ جو شخص ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے وہ در حقیقت مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا۔ رسول ﷺ کا ایک حق اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ آپ کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے، ظاہر ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی گلی کوچوں اور در و دیوار سے بھی محبت ہوتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ سے محبت کرنے والوں سے محبت کا اور دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی کا معاملہ کیا جائے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے نبی ﷺ کے حقوق ادا کرنے والا اور آپ کی ذاتِ والا صفات سے اپنا تعلق استوار بلکہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارے آقا ﷺ اپنی اس گنہگار امت پر اتنے مہربان و شفیق ہیں جیسے ایک شفیق باپ اپنی اولاد پر مہربان ہوتا ہے، آپ اتنے کریم ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں پھر آپ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہوں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

تعریف: حق کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی ذمہ داری جو اللہ کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔

1۔ ایمان بالرسول: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

وضاحت: آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ رب کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا اور جو آپ کی رسالت پر ایمان نہ لائے وہ کافر و جہنمی ہے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 826)

2۔ اتباعِ سنتِ رسول: قرآن کریم میں ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

وضاحت: آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے، اس لیے صحابہ کرام آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع و پیروی کو اپنے اوپر لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور اس سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 827)

3۔ اطاعتِ رسول: ارشاد خداوندی ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

وضاحت: آپ کی اطاعت ہر امتی پر آپ کا حق ہے ہر امتی کو چاہیے ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ (سیرت مصطفیٰ، ص 829)

4۔ محبتِ رسول: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

وضاحت: ہر امتی پر رسول کریم ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرض عین ہے، کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اللہ و رسول کی محبت پر ترجیح دوگے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 831)

5۔ تعظیمِ رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

وضاحت: امت پر حضور کے حقوق میں ایک نہایت اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر کرے اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔(سیرت مصطفی، ص 837)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب محمد عربی ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا، حیوانات و نبادات و جمادات، شجر و حجر، شمس و قمر زمین و آسماں الغرض کائنات کی ہر ہر چیز کے لیے نبی کریم  ﷺ کی ذات با برکات رحمت ہے تو جب آپکی رحیمی و کریمی ان تمام چیزوں کو محیط ہے تو اللہ رب العزت نےجس مخلوق کو اشر ف المخلوقات ہونے کا شرف عطا فرمایا اس پر آپ کی رحمت و شفقت کا کیا عالم ہوگا! رب کائنات خود قرآن کریم پارہ11 سورۂ توبہ کی آیت 128 میں ارشاد فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

آپ ﷺ نے اپنی اس کمال شفقت کا اظہار بے شمار مواقع پر رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِی کی صداؤں کے ساتھ فرمایا، کبھی راتوں کو جاگ کر امت کے لیے دعائیں فرماتے ہوئے، کبھی تنہائیوں میں سجدہ ریز ہو کر، کبھی شب معراج میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں محوِ التجا ہو کر، کبھی غار ثور میں دن رات گزار کر اور بروز قیامت بھی آپ پل صراط پر رَبِّ سَلِّمْ اُمَّتِی پکار رہے ہوں گے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایسے کریم آقا کے بندوں پر کیسے کیسے حقوق ہوں گے، علمائے کرام نے حقوقِ مصطفیٰ بیان فرمائے ہیں ، جو مصطفیٰ ﷺ کے دیوانوں اور محبتِ رسول کا دعویٰ کرنے والوں پر پورے کرنا لازم اور عین ایمان ہے، ان میں سے 5 درج ذیل ہیں:

1۔ ایمان بالرسول: رسول اللہ ﷺ کی نبوّت و رسالت اور جو کچھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور ان سب میں سے کسی کا بھی انکار دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔

2۔ اتباعِ سنتِ رسول: سرکار دوعالم نور مجسم ﷺ کی سنت کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر واجب ہے اللہ کریم قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔صحابہ کرام کی زندگی اس بارے میں بہترین مشعل راہ ہے جو بال برابر بھی سنت مصطفی بلکہ کسی بھی ادائے مصطفی کا ترک گوارا نہ فرماتے ۔ اے کاش ان کے صدقےہمیں بھی یہ جذبہ نصیب ہو جائے ۔

3۔ اطاعتِ رسول:اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔چنانچہ ہر امتی پر مصطفی کریم ﷺ کا یہ حق اور فرض عین ہے ان کے ہر ہر حکم پر سر تسلیم خم کرے اور حکم کی خلاف ورزی کرنا تو کجا اسکا تصور بھی کبھی اپنے دل میں نہ لائے۔

4۔ محبت رسول : ایسے ہی ہر امتی پر فرض ہے کہ اپنے مال ،جان ،اولاد ،عزت و آبرواور تمام لوگوں سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے محبت کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ (بخاری)

5۔ تعظیمِ رسول:ہر امتی رسول اللہ ﷺ کا ایک بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز کی عزت و تکریم بجالائے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

6۔ مدح رسول :رسول اللہ ﷺ کا ایک حق امتی پر یہ بھی ہے جس کا ادا کرنا لازم ہے اور وہ یہ کہ ہمیشہ اپنے آقا و مولا ﷺ کی حمد و ثنا کا پرچار کرتا رہے اور آپ کی تعریف و توصیف میں اپنی زندگی کے لمحات گزارے اوراپنی آخرت کےلیے گراں قدر خزانہ اکٹھا کرتا رہے اور یہ وہ حمدو ثنا ہے جس کی ایک واضح مثال خود اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید ہے۔

7۔ درود شریف پڑھنا: ہر مسلمان کو چاہیے کہ رسول کریم ﷺ کی ذات با برکات پر درود پاک کے تحفے نچھاور کرتا رہے،اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔لہذا یہ اللہ و فرشتوں کی سنت بھی ہے لہذا ہمیں بھی ایک مقررہ تعداد میں روزانہ درود پاک پڑھنے کی عادت بنانی چاہیے ان شاءاللہ عزوجل دنیا اور آخرت میں اسکی بے شمار برکات کا باعث ہو گا ۔

8۔ قبر انور کی زیارت : رسول خدا ﷺ کی قبر انور کی زیارت کو جانا یہ ہر امتی پر سنت مؤکدہ قریب بہ واجب ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء: 64) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گی۔ اللہ پاک تمام عشاقان رسول کورسول کریم ﷺ کی مبارک بارگاہ کی ذوق و شوق رقت و سوز بھری حاضریاں عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


قرآنِ پاک میں جس طرح عقائد و اعمال،احکام،بشارتیں اور وعیدات بیان ہوئیں، اسی طرح کفار کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں پر اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺکی تسلی کے لیے سا بقہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات بیان فرمائے، ان واقعات میں تمام مسلمانوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہے اور ان واقعات کو بیان کر کے کفار ِ مکہ کو بتا یا گیا ہے کہ سابقہ امتیں اپنے انبیا اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے تباہ و برباد کر دی گئیں تو کفار ِمکہ کو بھی ڈرنا چاہئے کہ ان کی طرح انہیں بھی ہلاک نہ کر دیا جائے۔ ان میں سے کچھ انبیا ئے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

(1) حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی جانب بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد بت پرستی کی وبا عام ہوگئی۔کفر و ضلالت میں گھرے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔( صراط الجنان، 10/362) حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے سرکشی کامظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو جھوٹا قرار دیا اور بت پرستی پر قائم رہی۔آپ علیہ السلام نے 950 سال تبلیغ کی لیکن صرف 80 افراد ایمان لائے۔(سیرت الانبیاء،ص184) پھر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفار کے خلاف دعاکی تو اللہ پاک نے آپ کو کشتی بنانے کا حکم دیا۔ آپ علیہ السلام نے دو سال میں کشتی تیار کی۔جب آپ علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو آسمان سے لگاتار چالیس دن تک بارش برسی اور زمین سے بھی پانی نکلنے لگا۔ جب قومِ نوح غرق ہوگئی تو زمین پانی نگل گئی۔آپ علیہ السلام کی کشتی چھ مہینے زمین پر گھومتی رہی پھر جودی پہاڑ پر ٹھہری۔

(2) حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد:قومِ عاد کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-(پ8، الاعراف:65) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کوبھیجا۔

آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پر ایمان لانے کا فرمایا اورعذابِ الٰہی سے ڈرایا۔ صراط الجنان میں ہے:حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اے میری قوم!تم اللہ پاک کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔(صراط الجنان،3/352)

حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت حق سن کر قوم کے سرداروں نے کہا:تم سرا سر حماقت کا شکار لگتے ہو۔ ( سیرت الابنیا،ص209) یہ قوم بہت طاقتور تھی۔جب انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرایا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر عذاب آیا تو ہم اپنی طاقت سے ہٹا سکتے ہیں اور کہا:اگر تم سچے ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ پھر ان پر تند و تیز آندھی کی صورت میں عذاب آیا، یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن تک لگا تار چلتی رہی یہاں تک کہ یہ قوم نشانِ عبرت بن گئی۔

(3) حضرت صالح علیہ السلام اور قوم ثمود: کفرو شرک میں ڈوبی ہوئی قوم،قوم ثمود کی اصلاح کے لیے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بناکر بھیجا۔ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- الاعراف:73) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

سیرت الانبیاء کتاب میں ہے:آپ علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کی فراوانی دیکھو اور اپنا عمل دیکھو لہٰذا اطاعت کا راستہ اختیار کرو۔(سیرت الانبیاء،ص 236) ان کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام نے پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرنے کا معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اونٹنی کو قتل کر دیا۔حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو عذابِ الٰہی سے بھی ڈرایا عذابِ الٰہی کی بات سن کر قوم نے کہا:اے صالح!اگر تم واقعی رسول ہو تو وہ عذاب لے آؤ جس سے ہمیں ڈراتے ہو۔(سیرت الانبیاء،ص 238) پھر ایک گروہ نے حضرت صالح کو شہید کرنے کی کوشش کی وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہوئے اور وہ قوم شدید زلزلے سے ہلاک کر دی گئی۔

(4) حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم:اللہ پاک نے حضرت لوط علیہ السلام کو رسالت عطا فر ما کر اہل سدوم اور موجود دیگر بستیوں کی طرف بھیجا تاکہ ان کو دینِ حق کی طرف بلائیں۔جہاں یہ لوگ بد ترین گناہوں میں مبتلا تھے وہاں لواطت جیسے برے فعل میں مبتلا تھے۔یہ لوگ مسافروں کے ساتھ بد فعلی کرتے اور ان کا مال لوٹ لیتے تھے۔حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو اس برے فعل سے منع کیا۔ اَتَاْتُوْنَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعٰلَمِیْنَۙ (۱۶۵) ( 19، الشعراء: 165) ترجمہ کنز العرفان: کیا تم لوگوں میں سے مردوں سے بدفعلی کرتے ہو۔

بد فعلی قوم لوط کی ایجاد ہے اس لیے اس کو لواطت کہتے ہیں۔ یہ حرام قطعی اور اس کا منکر کافر ہے۔حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحت سن کر اس قوم نے سر کشی کرتے ہوئے عذاب کا مطالبہ کیا تو آپ علیہ السلام کی دعا کے بعد ان پر عذابِ الٰہی آیا اور وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

(5) حضرت شعیب علیہ السلام اور اہلِ مدین:حضرت شعیب علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے۔آپ کی قوم بت پرست اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرتی تھی، ان کی ہدایت کے لیے آپ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیا۔آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔آپ علیہ السلام کی نصیحت سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ لوگ منکر ہو گئے۔ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(پ8،الاعراف:85) ترجمہ کنز العرفان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا، انہوں نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔

جب یہ لوگ ایمان نہ لائے اور سرکشی کی تو حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا سے ان کو زور دار چیخ اور زلز لے سے تباہ کر دیا گیا۔


الله پاک کے وہ بندے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقبول اور محبوب ہیں” یعنی انبیائے کرام علیہم السلام “ ان کی مبارک ذاتوں کو لیں تو ان کی زندگیوں کا سب سے بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ اللہ پاک کے احکام اور نیکی کی دعوت لوگوں تک پہنچائیں۔ پھر جن لوگوں نے اپنے نبی علیہم السلام کی پیروی کی اور ان کا حکم بجالائے انہوں نے دنیا و آخرت میں کا میابی حاصل کر لی مگر وہ لوگ جنہوں نے سرکشی اور نافرمانی کی وہ عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوئے۔

الله پاک نے قرآنِ پاک میں بہت سے انبیائےکرام کا ذکر خیر بلکہ ان کی قوموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔

(1) ان میں سے ایک نبی حضرت ہود علیہ السلام ہیں۔ یہ نبی قوم عاد کی طرف بھیجے گئے۔قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے۔ان کے مورث اعلیٰ کا نام عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔ پوری قوم کے لوگ ان کواعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے۔ یہ لوگ بت پرست اور بہت بد اعمال وبد کر دار تھے۔ اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ حضرت ہود علیہ السلام بار باران سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) (پ 8، الاعراف:70) ترجمہ کنز الایمان: بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئےآئے ہو کہ ہم ایک الله کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص85)

آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں۔ تین سال تک بارش نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط سالی کا دور دورہ ہو گیا۔ وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ(۶) (پ 29، الحاقۃ:6) ترجمہ کنز الایمان: اور رہے عاد وہ ہلاک کئےگئے نہایت سخت گر جتی آندھی سے۔

قرآنِ کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قوم عاد جو بڑی طاقتور قوم تھی،مگر کفر اور بد اعمالیوں وبدکاریوں کی منحوسیت نے ان لوگوں کو قہر الٰہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ ان آندھی کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

(2) دوسری قوم ثمود ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے جب قوم ثمود کو خدا کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سر کش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گا بھن اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب ونقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ کیا تو وہ فوراً پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی اور اس نے بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔ چنانچہ اس قوم میں قداربن سالف آدمی تھا۔ ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے رہے لیکن اس نے پہلے تو اونٹی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا،پھر اس کوذبح کردیااور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبا نہ گفتگو کرنے لگا۔ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ8،الاعراف:77-79) ترجمہ کنز الایمان:پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو توانہیں زلزلہ نےآلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ ( صراط الجنان)

3-تیسری قوم لوط علیہ السلام کی قوم ہے یہ قوم شہرسدوم میں رہتی تھی۔ شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سر سبز و شاداب تھیں۔شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر لوگ مہمان بن کر آیا کرتے تھے۔اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی تو تدبیریہ ہے کہ تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بد فعلی کرو اس طرح اس قوم میں بد فعلی شروع ہوگئی اور پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کر نے لگے۔(تفسیرروح البیان،3 /197) چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو فعل بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح و عظ فر مایا: اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف: 80) ترجمہ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔یہ وعظ سن کر اس قوم نے نہایت بے باکی سے ان کی گستاخی کی اور کہا: اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) (پ8،الاعراف: 82) ترجمہ کنز الایمان: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

جب قوم لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ کا عذاب آگیا۔ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۸۳) وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴) (پ8،الاعراف: 83-84) ترجمہ کنز الایمان: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔

جو پتھر اس قوم پر بر سائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے اور ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس سے

ہلاک ہوا۔ (تفسیرصاوی،2 /76)

4- چوتھی قوم فرعونی قوم ہے جن کو ایمان کی دعوت دینے کیلئے اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنی قوم کو ایمان کی دعو ت دی اور کثیر معجزات بھی دکھائے مگر صرف چند لوگوں نے ہی ایمان قبول کیا اور جو ایمان نہ لائے وہ اپنے کفر اور سر کشی میں حد سے بڑھ گئے تو تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان پہ پانچ عذاب مسلسل آئے۔اس کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) (پ 9، الاعراف: 133) ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

5-پانچویں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اللہ پاک نے انہیں قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی طرف اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے فر مایا: وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) (پ3،اٰل عمران: 49) ترجمہ کنزالایمان: اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کررکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی تورات میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کریں گے اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے لگے اور ایک شخص جس کا نام ططیانوس تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کر دینے کیلئے بھیجاگیا۔اتنے میں الله پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیا اورططیانسوس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنادیااور پھر اس کا انجام یہ ہواکہ یہودیوں نے ططیانوس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کہ قتل کر دیا۔ اس کے بعد جب ان کو معلوم ہوا کہ چہرہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کاہے اور بدن ططیانوس کا تو اس پر جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا اور بہت سے یہودی قتل ہوگئے۔ وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠(۵۴) (پ5،اٰل عمران: 54) ترجمہ کنز الایمان: اور کافروں نے مکر کیا اور الله نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔

ان سب واقعات سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ سر کشی کرنا خود کی ہی ہلاکت و بر بادی ہے۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین


اللہ کریم نے مختلف ادوار میں مختلف انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔انبیائے کرام کو بھیجنے کا ایک بنیادی مقصد غیب کی خبر دینا ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور اے لوگو!اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اپنے رسولوں کو منتخب فرمالیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔(سیرت الانبیاء،ص 722)

حضرت الیاس علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا نام الیاس ہے۔قرآنِ کریم میں آپ کا نام ال یاسین بھی مذکورہے۔یہ بھی الیاس کی ایک لغت ہے جیسے سینا اور سینین دونوں طور سینا ہی کے نام ہیں ایسے ہی الیاس اور ال یاسین ایک ہی ذات کے نام ہیں۔آپ علیہ السلام پر الله پاک نے بہت انعامات فرمائے۔ فرمانِ باری ہے: ترجمہ: اور بے شک الیاس رسولوں میں سے ہے۔آپ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر تشریف لائے تو انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ اللہ پاک نے ظالم باد شاہ کےشر سے بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرمادیا اور آپ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اور قربِ قیامت وفات پائیں گے۔ اللہ کریم نے حضرت الیاس علیہ السلام کو بعلبک کی طرف رسول بنا کر بھیجاتوآپ علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:ترجمہ:کیا تم ڈرتے نہیں؟کیا تم بعل(بت) کی پوجا کرتے ہو اور بہترین خالق کو چھوڑتے ہو؟اللہ جو تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص749)

حضرت شعیب علیہ السلام: آپ علیہ السلام کاا سم گرامی شعیا بن امصیا ہے۔ آپ علیہ السلام حضرت زکریا اور حضرت یحیٰ سے پہلے مبعوث ہوئے اور آپ علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نبی پاک ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی۔آپ کے زمانۂ نبوت میں حزقیا نامی بادشاہ بنی اسرائیل پر حکومت کرتا تھا جو آپ کا بہت فرمانبردار تھا۔اس کے انتقال کے بعد بنی اسرائیل میں عملی اعتبار سے فساد برپا ہوا اور یہ لوگ نئے نئے خلاف شرع امور ایجاد کرکے ان پر عمل میں مصروف ہوگئے۔اللہ پاک نے وحی کے ذریعے حضرت شعیا علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیے،چنانچہ آپ نے بنی اسرائیل کو کھڑے ہوکر وعظ فرمایا اور انہیں بتایا کہ اللہ پاک سے متعلق کیا عقیدہ رکھنا چاہئے۔آپ ان کو وعظ فرماچکے تو لوگ آپ کے دشمن ہوگئے اور قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔آپ وہاں سے نکلے اور ایک درخت کے قریب گئے۔درخت پھٹ گیا اور آپ اس میں داخل ہوگئے۔شیطان نے آپ کو دیکھا تو آپ کے کپڑے کا ایک کونہ ظاہر کردیا،جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو آری سے چیر ڈالا،اس طرح آپ کا جسم مبارک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ (سیرت الانبیاء،ص159)

حضرت نوح علیہ السلام: حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے۔آپ نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ،علانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی۔عرصۂ دراز تک قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا۔جب قوم کے ایمان لانے اور راہ پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کرکے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا:ترجمہ:اور بے شک ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھیجا اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ایک اور آیت میں فرمایا گیا:تمام جہاں والوں میں نوح پر سلام ہو۔(سیرت انبیا،ص489)

حضرت ذوالکفل علیہ السلام:آپ علیہ السلام اللہ کریم کے برگزیدہ پیغمبر ہیں جو کسی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث کیے گئے۔آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے فرزند ہیں۔بعض مفسرین نے تحریر فرمایا کہ ذو الکفل در حقیقت حضرت حزقیل علیہ السلام کا لقب ہے۔آپ صبر کرنے والے اللہ پاک کے قرب خاص کے لائق بندوں اور بہترین لوگوں میں سے تھے۔قرآنِ کریم میں فرمایا:ترجمہ:اور اسماعیل اور یسع اورذوالکفل کو یاد کرو اورسب بہترین لوگ ہیں۔(سیرت الانبیاء،ص727)

حضرت یسع علیہ السلام: آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ہیں۔ایک قول کے مطابق آپ اخطوب بن عجوز کے فرزند ہیں۔آپ حضرت الیاس کے بعد مبعوث ہوئے اور ایک عرصے تک حکمِ الٰہی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ و نصیحت فرمائی نیز کفار کو دینِ حق کی طرف بلانے کا فریضہ سرانجام دیا۔اللہ کریم نے آپ کو نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا فرمائی۔قرآنِ کریم میں اللہ کریم نے آپ کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا۔چنانچہ ارشاد ربانی ہے:اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کویاد کرو سب بہترین لوگ ہیں۔

حضرت محمدﷺ: آپ ﷺساری کائنات کی طرف نبی و رسول بناکر مبعوث فرمائے گئے۔آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند لائنوں میں ممکن نہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

آپ ﷺ واقعہ فیل سے 55 دن بعد 12 ربیع الاول، اپریل571ء کو مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین میں پیدا ہوئے۔جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس وقت آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب طوافِ کعبہ میں مشغول تھے۔خوشخبری سن کر آپ خوشی خوشی حرمِ کعبہ سے اپنے گھر آئے اور والہانہ جوش محبت میں اپنے پوتے کو سینے سے لگایا،پھر کعبہ میں لے جاکر خیر و برکت کی دعا مانگی اور محمد نام رکھا۔(سیرت الانبیاء،ص843) 


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے جن پاک بندوں کو اپنے احکام پہنچانے کے لئے بھیجا ان کو نبی کہتے ہیں اور انبیا ئےکرام علیہم السلام ہی وہ بشر (انسان) ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہے۔انبیا ئے کرام علیہم السلام عام مخلوق سے افضل ہیں۔ان کی تعظیم و توقیر یعنی عزت واحترام فرض ہے اور ان کی ادنیٰ توہین یعنی گستاخی یا تکذیب یعنی جهٹلا نا کفر ہے۔

قرآن میں اورانبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر:قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام سے پیارے آقا ﷺ تک اللہ پاک نے بہت نبی بھیجے جن کا ذکر رب کریم نے قرآنِ پاک میں فرمایا ان کے اسما یہ ہیں:

حضرت آدم علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام،حضرت اسحاق علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت موسی ٰعلیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ہود علیہ السلام، حضرت یحیٰ علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام،حضرت یسع علیہ السلام،حضرت الیاس علیہ السلام،حضرت یونس علیہ السلام،حضرت ادریس علیہ السلام،حضرت ذوالکفل،حضرت عزیر علیہ السلام،حضرت صالح علیہ السلام اور سب سے آخری نبی حضرت محمد عربی ﷺ۔

رب کریم نے اپنے خاص پیغمبروں کو لوگوں کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا۔جن میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جا تا ہے۔

1-قوم عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم: فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةًؕ-اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةًؕ-وَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ(۱۵) فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْۤ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِیْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاؕ-وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى وَ هُمْ لَا یُنْصَرُوْنَ(۱۶) (پ 24، حمٓ السجدۃ:15) ترجمہ کنز الایمان:تو وہ جو عاد تھے انہوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا، اور بولے ہم سے زیادہ کس کا زور اور کیا انہوں نے نہ جانا کہ اللہ جس نے انہیں بنایا ہے ان سے زیادہ قوی ہے اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے تو ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی سخت گرج کی۔ ان کی شامت کے دنوں میں کہ ہم انہیں رسوائی کا عذاب چکھائیں دنیا کی زندگی میں اور بے شک آخرت کے عذاب میں سب سے بڑی رسوائی ہے اور ان کی مدد نہ ہوگی۔

مختصر واقعہ یہ ہے کہ قوم عاد احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضرموت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔انہوں نے زمین کو فسق سے بھردیا تھا اور دنیا کی قوموں کو اپنی سفاکیوں سے اپنے زور قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا۔یہ لوگ بت برست تھے۔اللہ پاک نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی سے روکا۔اس پر وہ لوگ آپ کے منکر ہوئے، آپ کی تکذیب کی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟چند آدمی آپ پر ایمان لائے لیکن وہ بہت تھوڑے تھے چنانچہ اسی سرکشی پر رب کریم نے ان پر سخت آندھی کا عذاب بھیجا اور انہیں ہلاک کر دیا۔ حضرت ہود مومنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے۔ ( تفسیر نعیمی)

2-حضرت نوح علیہ السلام کی قوم: لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹) (پ 8، الاعراف:59) ترجمہ کنز الایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم!اللہ کو پو جو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

مختصر واقعہ:حضرت نوح علیہ السلام 40 سال کی عمر میں معبوث ہوئے اور نو سو پچاس سال اپنی قوم کو نیکی کی دعوت دیتے رہے۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی دیگر انبیائے کرام کی طرح آپ کو جھٹلایا۔ ان میں تھوڑے آپ پر ایمان لائے اور نجات پائی۔

حضرت نوح علیہ السلام کو رب کریم نے ان کی قوم کی سرکشی کے سبب کشتی بنانے کا حکم دیا۔جب کشتی تیار ہوگئی تو آپ مومنین کو لے کر اس پر سوار ہو گئے اور رب کریم نے آپ کی قوم کو جنہوں نے آپ کو جھٹلایا ان پرطوفان بھیج کر انہیں غرق کردیا۔ منقول ہے کہ یہ کشتی آپ نے دو سال میں تیا ر کی۔( تفسیر نعیمی)

3-قوم لوط علیہ السلام: وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ٘-مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۲۸) اَىٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ ﳔ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْكُمُ الْمُنْكَرَؕ-فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۹) (پ 20، العنکبوت:28-29) ترجمہ کنز الایمان:اور لوط کو نجات دی جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا تم بے شک بے حیائی کا کام کرتے ہو کہ تم سے پہلے دنیا بھر میں کسی نے نہ کیا، کیا تم مردوں سے بد فعلی کرتے ہو اور راہ مارتے ہو اور اپنی مجلس میں بری بات کرتے ہو تو اس کی قوم کا کچھ جواب نہ ہوا مگر یہ کہ بولے ہم پر اللہ کا عذاب لاؤ اگر تم سچے ہو۔

لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف جب آپ کو مبعوث کیا گیا تو آپ کی قوم بے حیائی، راہ گیروں کو قتل کرنا ان کے مال کو لوٹ لینا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ لوگ مسافروں کے ساتھ بدفعلی کرتے تھے حتی کہ لوگوں نے ان کی طرف گزرنا موقوف کردیا۔

لواطت کے مر تکب ہوئے یعنی مرد مرد سے، عورت عورت سے بد فعلی کرتے جو عقلاً ممنوع عرفاً قبیح وممنوع ہے جیسے گالی دینا،فحش بکنا، سیٹی بجانا، ایک دوسرے کو کنکر یاں مارنا،شراب پینا،تمسخر کرنا،گندی باتیں کرنا اوراس طرح کے قبیح افعال کی قوم لوط عادی تھی۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اس پر ان کو ملامت کی تو انہوں نے استہزا کیا۔جب آپ کو قوم کے راہ راست پر آنے کی کچھ امید نہ رہی تو آپ نے بارگاہِ الٰہی میں نزول عذاب کی دعا فرمائی۔آپ کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے ان پر چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کو بر ساکر انہیں ہلاک کر دیا۔

4-اصحاب الایکہ واصحاب المدین حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۸۵) (پ 8، الاعراف:85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کرنہ دو اور زمین میں انتظام کے فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کو رب کریم نے ایکہ اور مدین والوں کی طرف بھیجا۔ابتداءً توحید و عبادت کی ہدایت فرمائی کہ تمام امور میں سب سے اہم ہے،اس کے جن عادات قبیحہ میں وہ مبتلا تھے ان سے منع فرمایا۔

علما نے فرمایا کہ بعض انبیا کو حرب(جہاد و قتال) کی اجازت تھی جیسے حضرت موسیٰ ٰ،حضرت داود،حضرت سلیمان علیہم السلام وغیرہم۔بعض وہ تھے جنہیں حرب کا حکم نہ تھا۔ حضرت شعیب انہی میں سے تھے۔ آپ تمام دن وعظ فرماتے اور شب تمام نماز میں گزارتے۔

دیگر قوموں کی طرح آپ کی قوم نے بھی آپ کو جھٹلایا یعنی عاداتِ قبیحہ،فساد اور ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے۔چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ہیبت ناک آواز میں کہا:موتوا جمیعا یعنی سب مر جاؤ۔ اس آواز کی دہشت سے ان کے دم نکل گئےاور سب مرگئے۔ اہلِ مدین زلزلہ اور ہولناک آواز سے اصحابِ ایکہ ہلاک ہوئے۔

حضرت ابنِ عبا س رضی اللہ عنہما نے فرمایا:کبھی دوا متیں ایک ہی عذاب میں مبتلا نہیں کی گئیں سوائے حضرت شعیب وصالح علیہما السلام کی امتوں کے۔ لیکن قوم صالح کو ان کے نیچے سے ہولناک آواز نے ہلاک کیا اور قوم شعیب کو اوپر سے۔

قومِ موسیٰ علیہ والسلام: ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَاۚ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(۱۰۳) (پ 9، الاعراف:103) ترجمہ کنز الایمان: پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اوراس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی تو دیکھو کیسا انجام ہوا مفسدوں(فساد کرنے والوں) کا۔

رب کریم نے ہرنبی کو کسی نہ کسی معجزے کے ساتھ خاص فرمایا اسی طرح حضرت موسیٰ کو اپنی نشانیوں یعنی معجزات واضحات مثلِ یدِ بیضا وعصا کے مبعوث فرمایا۔ آپ اپنا عصا زمین پر ڈالتے تو وہ ایک عظیم الشان اژ دہا بن جاتا جسے فرعون نے جادو کا نام دیا اور اپنی سرکشی میں مشغول رہا۔ فرعون خود کو زمین کا سردار و مالک کہتا تھا۔ چنانچہ اس کی سرکشی پرآپ نے رب کریم سے دعا کی اس کی اور اس کے ماننے والوں کی ہلاکت کی، لہٰذا ان پر پے درپے عذاب بھیجے گئے جیسے کثرتِ بارش،ٹڈی،پِسُو(یا جوئیں) ، مینڈک، پانی کا خون میں بدل جانا۔ ہر عذاب ایک ہفتے تک رہتا۔پھر حضرت موسیٰ کی دعا سے ٹل جاتا،بالآخر ان کی سرکشی قائم رہتی اور ایمان نہ لاتے بالآخر دریائے نیل میں غرق کر دیا گیا۔


الله پاک نے اپنے بندوں کو دنیا میں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر جب کسی بھی قوم نے اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو پس پشت ڈالا اور بے راہ روی کا شکار ہوئے، تب تب اللہ نے اس قوم کو نافرمانی سے نکالنے کے لیے اپنے برگزیدہ نبیوں کو مبعوث فرمایا (بھیجا) تا کہ وہ اس قوم کو راہ راست پر لا کر الله اور اس کے رسول کے احکایات کی بجا آوری میں لگائیں۔

یوں توحضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی،محمد مصطفٰے تک بہت سے انبیا تشریف لائے البتہ ان میں سے 27 کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن میں موجود ہے۔ان میں سے 5 کا ذکر قرآنی آیات کے ذریعے کیا جاتا ہے کہ کس نبی کو کس قوم کی طرف بھیجا گیا۔

1) حضرت صالح:غفلت و جہالت، کفر و شرک اور بت پرستی کے بیابان میں بھٹکنے والی قوم ثمود کی راہنمائی کے لئے اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ پارہ 8سورہ اعراف آیت 73 میں اس کا ثبوت ہے: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ترجمہ:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ (سیرت الانبیاء،ص234)

2) حضرت لوط: جس قوم کی طرف بھیجے گئے وہ بد ترین گنا ہوں میں غرق تھی۔لوگوں سے زبردستی بد فعلی کرنا اس قوم کا سب سے قابلِ نفرت عمل تھا۔ اس کا ذکر اللہ نے قرآن میں پ 19 سورۃ الشعراء آیت 160 تا 162 میں ارشاد فرمایا: كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطِ-ﹰالْمُرْسَلِیْنَۚۖ(۱۶۰) اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۶۱) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۶۲) ترجمہ کنز الایمان: لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب کہ ان سے ان کے ہم قوم لوط نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں؟ بےشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔(سیرت الانبیاء، ص 379)

3) حضرت شعیب:حضرت شعیب علیہ السلام وہ ہیں جنہیں دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا گیا:(1) اہل مدین (2) اصحاب الایکہ۔اس کاذکر قرآن میں پ8 سورہ اعراف آیت نمبر85 میں ارشاد ہوا: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی۔ (سیرت الانبیاء،ص506)

4) حضرت عیسیٰ: آپ کو اللہ نے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ ایک موقع پر آپ نے بنی اسرائیل کو یوں نصیحت کی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳) (پ25، الزخرف: 63) ترجمہ کنز الایمان: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (سیرت الانبیاء،ص817)

5) حضرت نوح:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے رسول ہیں۔ پ 29 سوره نوح آیت1میں ارشاد ہوا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔ (سیرت الانبیاء،ص165)

جس قوم نے اپنے نبی کو جھٹلایا اسے عذابِ الٰہی میں مبتلا کیا گیا۔ اللہ سے دعا ہے ہمیں اپنے نبی، محمد مصطفٰے ﷺ کی پیروی کرنے والی، ان کے احکامات پر چلنے والی بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ


انبیاء علیہم السلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں،موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔ الله پاک نے انبیائے کرام کو مختلف قوموں کی طرف ہدایت یافتہ اور رہنما بنا کر بھیجا۔اللہ پاک کے تمام انبیائے کرام کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا فر مایا لیکن اللہ پاک نے اپنے آخری نبی، مکی مدنی ﷺ کو سر اپا معجز ہ بنا کر بھیجا۔تمام انبیائےکرام علیہم السلام کی اپنی اپنی شان ہے۔

قرآن کی روشنی میں انبیائے کرام کی فضیلت: جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ(۲۵) 22،الفاطر:25) ترجمہ: اُن کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں اورصحیفے اور روشن کر دینے والی کتابیں لے کر آئے۔

اس آیت مبارکہ سے خوب واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ انبیائے کرام کو اللہ پاک نے کتاب دے کر انسانوں کی طرف انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ ہمیں انبیائے کرام کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی کے مطابق عمل کر کے جنت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ

انبیا و مرسلین کی تعداد:انبیا و مرسلین علیہم السلام کی تعداد سے متعلق روایات مختلف ہیں،اس لئے ان کی صحیح تعداد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم ان کی کوئی تعداد معین نہ کریں کیونکہ معین تعداد پر ایمان لانے میں کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو نے یاکسی غیر نبی کو نبی مان لینے کا احتمال موجود ہے اور یہ دونوں باتیں بذات خود کفر ہیں۔

اسمائے انبیا:یوں تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک بہت نبی آئے ان میں سے 27 کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے:

(1) حضرت آدم علیہ السلام (2) حضرت نوح علیہ السلام (3) حضرت ابراہیم علیہ السلام (4) حضرت اسماعیل علیہ السلام (5) حضرت اسحاق علیہ السلام (6) حضرت یعقوب علیہ السلام (7) حضرت یوسف علیہ السلام (8) حضرت موسیٰ علیہ السلام (9) حضرت ہارون علیہ السلام (10) حضرت خضر علیہ السلام (11) حضرت شعیب علیہ السلام (12) حضرت لوط علیہ السلام (13) حضرت ہود علیہ السلام (14) حضرت داؤد علیہ السلام (15) حضرت سلیمان علیہ السلام (16) حضرت ایوب علیہ السلام (17) حضرت زکریا علیہ السلام (18) حضرت یحیی علیہ السلام (19) حضرت عیسیٰ علیہ السلام (20) حضرت الیاس علیہ السلام (21) حضرت یسع علیہ السلام (22) حضرت یونس علیہ السلام (23) حضرت ادریس علیہ السلام (24) حضرت ذوالکفل علیہ السلام (25) حضرت صالح علیہ السلام (26) حضرت عزیر علیہ السلام (27) خاتم الانبیا،محمد رسول الله (ﷺ) ۔

1) حضرت یوشع: آپ علیہ السلام کانا م یوشع اورنسب نامہ یہ ہے: یوشع بن نون بن افرائیم بن یوسف علیہ السلام بن حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام۔

حضرت یوشع علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے اصحاب میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد سب سے عظیم المرتبہ ساتھی تھے۔ آپ علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے سفر میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے وصال ظاہری تک ساتھ ہی ر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی اور آپ نے جبارین کے خلاف جہاد فرمایا اور فتح حاصل کی۔ 127 سال کی عمر میں آپ علیہ السلام وفات پاگئے۔ (سیرت الانبیاء،ص655)

2) حضرت شمویل:آپ علیہ السلام کا مبارک نام”شمویل“ یا”اشمویل“ اور نسب نامہ یہ ہے: اشمویل بن بالی بن علقمہ بن یر خام بن الیہو بن نہو بن صوف بن علقمہ بن ماحث بن عموصا بن عزریا۔

آپ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔بعثت کے بعد آپ نے بنی اسرائیل کی ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا۔حکمِ الٰہی سے طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا اور بنی اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے والے جالوت کے خلاف جہاد میں شرکت فرمائی۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے جب بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہ تھا۔(سیرت الانبیاء،ص660)

3) حضرت سلیمان: حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔یہ اپنے والد ماجد کے جانشین ہوئے اور اللہ پاک نے انہیں بھی علم و نبوت سے نوازا اور عظیم الشان سلطنت کا حاکم بنایا۔ آپ تختِ سلطنت پر چالیس برس جلوہ گر رہے۔ جن و انسان، شیاطین، پر ندوں وغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی اور سب کی زبانوں کا آپ کو علم عطا کیا گیا تھا۔ (سیرت الانبیاء،ص692)

4) حضرت الیاس: آپ علیہ السلام کا مبارک نام الیاس ہے۔آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر تشریف لائے اور انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی۔الله پاک نے ظالم بادشاہ کے شر سے بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا اور آپ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اور قرب قیامت وفات پائیں گے۔ قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کا نام ال یاسین بھی مذکور ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص 722)

5) حضرت یسع:آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ہیں۔ آپ کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں آپ کو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔آپ کا مبارک نام یسع ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص 727) 


انبیا علیہم السلام کا ئنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں۔انبیا ئےکرام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا گیا۔انبیائے کرام کو لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی صحیفے اور کتابیں دی گئیں۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی انسانوں کو دعوت و تبلیغ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا جائے، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے، اس کے احکامات کو تسلیم کیا جائے اورگنا ہ و نا فرمانی سے بچا جائے،مگر ان کی قوموں کے لوگ اُن کےلائے ہو ئے دین کو قبول کرنے کی بجائے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چلیں گے۔وہ اپنے نبیوں کی نافرمانی کرتے تھے۔ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے بہت سی قومیں ہلاک ہوئیں۔ الله پاک نے قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد بیان کئے ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-(پ5، النساء:64) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ الله کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

اس کی صراط الجنان میں یہ ہے کہ یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ پاک کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ ایک اور جگہ اللہ پاک انبیائے کرام کی بعثت کا مقصدواضح فرماتا ہے۔ وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (پ7،الانعام: 48) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم۔

الله پاک نے خود انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد قرآنِ پاک میں متعدد جگہ بیان فرمائے ہیں۔ بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے۔چند انبیائے کرام کے نام درج ذیل ہیں۔

اسمائے انبیا:(1) حضرت آدم علیہ السلام(2) حضرت نوح علیہ السلام(3) حضرت ابراہیم علیہ السلام(4) حضرت اسماعیل علیہ السلام(5) حضرت اسحاق علیہ السلام(6) حضرت یعقوب(7) حضرت یوسف علیہ السلام(8) حضرت موسیٰ علیہ السلام (9) حضرت ہارون علیہ السلام(10) حضرت خضر علیہ السلام(11) حضرت شعیب علیہ السلام(12) حضرت لوط علیہ السلام(13) حضرت ہود علیہ السلام(14) حضرت داود علیہ السلام(15) حضرت سلیمان علیہ السلام (16) حضرت ایوب علیہ السلام(17) حضرت زکریا علیہ السلام (18) حضرت یحیٰ علیہ السلام(19) حضرت عیسیٰ علیہ السلام(20) حضرت الیاس علیہ السلام(21) حضرت یسع علیہ السلام(22) حضرت یونس علیہ السلام(23) حضرت ادریس علیہ السلام(24) حضرت ذو الکفل علیہ السلام(25) حضرت صالح علیہ السلام(26) حضرت عزیر علیہ السلام(27) خاتم الانبیا،محمد رسول الله ﷺ

ان میں سے 5 کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے جس میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر کیا جائے گا۔

1- حضرت یونس:آپ علیہ السلام کا نام یونس بن متٰی ہے۔ آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بستی نینوی کے نبی تھے جو موصل کے علاقے دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔ (سیرت الانبیا) قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹) 23، الصافات:139) ترجمہ:اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہیں۔

حضرت یونس علیہ السلام کو قوم نینویٰ کے ایک لاکھ اور اس سے کچھ زیادہ آدمیوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ جو لوگ ایمان لے آئے تھے الله پاک نے ان پر اپنا فضل کیا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷) فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍؕ(۱۴۸) (پ23،الصافات:147-148) ترجمہ:اور ہم نے اسے ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک بھیجا۔

2 -حضرت موسیٰ: الله پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ( پ16، مریم:51) ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چنا ہوا بندہ تھا، وہ نبی رسول تھا۔

آپ علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے فرعون کو دعوتِ توحید دی اور پیغام ِرسالت پہنچایا۔ فرعون نے اسے قبول نہ کیا اور جو لوگ فرعون کے ساتھ تھے وہ بھی غرق ہو گئے۔

3-حضرت اسماعیل:آپ کا نام مبارک اسماعیل تھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو قبیلہ جر ہم اور سر زمین میں رہنے والی قوم عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا، جنہیں آپ علیہ السلام نے تبلیغ و نصیحت فرمائی تو کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہی رہے۔(الروض الانف)

قرآن کریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ متعد د سورتوں میں ہے چنانچہ اللہ پاک پارہ 16 سورۂ مریم آیت نمبر 54 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو۔ بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔

4 - حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا مشہور نام ابراہیم ہے آپ علیہ السلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی پجاری تھی۔ چچا آزر بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیوپاری تھا۔ دوسری طرف بادشاہ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔آپ علیہ السلام نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ (سیرت الانبیا)

آپ علیہ السلام بہت اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ارشادِ باری ہے:ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اپنی قوم کو اپنے ہی ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرنےسے روکا،ان کو چاند،سور ج،ستارے وغیرہ کی پوجا کرنے سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا مگر ان کی قوم ان سے جھگڑ نے لگی۔ قرآن کریم میں ہے: وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-( الانعام: 80) ترجمہ:اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا:کیا تم الله کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ تو مجھے ہدایت عطا فر چکا۔

5 -حضرت محمد ﷺ:ہمارے مکی مدنی آقا ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ہمارے آقا ﷺ کسی ایک قوم یاایک قبیلے کی طرف نہیں بلکہ ہمارے آقاﷺتمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ان کا ذکر قرآن پاک کے ہر ہر سپارے میں موجود ہے جن پر قرآن نازل ہوا اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کا ذ کر نہ ہو۔

ایک پنجابی شاعر لکھتے ہیں:

دساں کی میں مصطفٰے دی کڈی اونچی شان اے آپ دی تعریف وچ سارا ای قرآن اے

پڑھ کے تو ویکھ جیہڑا مرضی سپارہ قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا

آپ کی تعلیمات صرف اس وقت کے لیے نہ تھی جو آپ کی ظاہری حیات میں قومیں یا قبیلے تھے بلکہ آپ کی تعلیمات آپ کے قول و فعل آج بھی مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں راہنمائی کے لیے نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔

قرآنِ کریم میں پچھلی قوموں کے حالات و واقعات اس لئے بیان کئے گئے تاکہ عقل مند لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں، غوروفکر کریں،انبیائے کرام اور ان کی امتوں کے احوال بیان کیےتاکہ نبی کریم ﷺ کو ہمت، حوصلہ اور استقامت حاصل ہو، تا کہ قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفیں برداشت کرنا آسان ہو جائے۔ انبیائے کرام کی سیرت کے مطالعہ کے لیے”سیرت الانبیا “ کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔ اس کے علاوہ قصص الا نبیا کتاب بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگی۔


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن پاک بندوں کو پیدا کیا انہیں انبیا کہتے ہیں۔انبیائے کرام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس الله پاک کی طرف سے وحی آتی تھی۔انبیائے کرام خدا کے خاص و معصوم بندے ہوتے ہیں جن کی نگرانی و تربیت اللہ پاک خود فرماتا ہے۔یہ صغیرہ کبیرہ گنا ہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ انہیں عقلِ کامل عطا کی گئی ہے۔ کسی فلسفی، حکیم اور سائنسدان کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو! کہ یہ الله کے لاڈلے اور محبوب بندے ہوتے ہیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام کے ذریعے سے ہی ملتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(۵۱) (پ25،الشوریٰ: 51) ترجمہ:اور کسی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا پردے کے پچھلے ہو یا (یہ کہ) اللہ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم سے وحی پہنچائے۔ جو اللہ چاہے بیشک وہ بلندی والا حکمت والا ہے۔

قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کے کثیر معجزات کا ذکر ہے جیسے حضرت صالح کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بن جانا، آقا ﷺ کے معجزات بے شمار مثلاً انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہونا وغیرہ۔

اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری

جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

حضرت ادریس:آپ کا نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔اللہ پاک نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے، ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس(بہت درس دینے والا) ہوا۔ سب سے پہلے آپ نے ہی قلم سے لکھا۔قرآنِ کریم میں آپ علیہ السلام کے 114 اوصاف ہیں۔ آپ بہت ہی سچے نبی تھے۔ قرآنِ پاک میں آتا ہے:کتاب میں ادریس کو یادکر وہ بہت سچانبی ہے۔ (شرح نووی،3/123)

حضرت نوح:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح تھا۔ یہ لقب اس لیے ہوا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے نیز آپ کو آدمِ ثانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں:پسماندگاہ طوفان سے کسی کی نسل نہ بڑھی، صرف نوح کی نسل تمام دنیا میں ہے۔ الله پاک فرماتا ہے: وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷) (پ23، الصافات:77) ترجمہ: ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔

حضرت نوح کی قوم:الله پاک نے جب حضرت نوح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً چالیس سال تھی۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں کہ وہ لوگ ایمان لے آئیں ورنہ ان پر دنیا میں خوفناک عذاب آئے گا اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب کا شکار ہوں گے۔ (سیرت الانبیاء،ص 165)

بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈراؤکہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔(تفسیرروح المعانی،15/22)

حضرت نوح نے حکم الٰہی کی تعمیل میں قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں الله پاک کے عذاب سے بہت واضح انداز میں خبردار کرنے اور ڈر سنانے والا ہوں اور تمہیں کہتا ہوں کہ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرو۔ شرک نہ کر و۔ خدا کے غضب سے بچنے کیلئے اس کی نافرمانی سے دور رہو۔لیکن حضرت نوح کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے سر کشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیاحتی کہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ان کو دین کی دعوت دینے سے منع نہ ہوئے توپتھر مارمار کر قتل کر دیں گےنیز انہوں نے آپ کو بہت برا بھلا کہا لیکن آپ علیہ السلام اولو العزم یعنی انتہائی باہمت رسول تھے۔ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ26، الاحقاف: 35) ترجمہ:تو( اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ کا مشہور نام ابراہیم ہے جس کے معنی ہیں”مہربان باپ“آپ بہت مہربان تھے۔آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ارشاد باری ہے: وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) (پ27، النجم: 37) ترجمہ:اور ابراہیم کہ جس نے(احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔

حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگ اپنے گمراہ باپ دادا کی پیروی میں بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ آپ کے چچا آزر جو بت پرستی کے ساتھ ساتھ بت سازی بھی کرتے تھے،جب آپ نے تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمایا تو سب سے پہلے اپنے گھر سے ابتدا کی۔ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴) (پ 7،الانعام:74) ترجمہ: کیا تم بتوں کو(اپنا) معبود بناتے ہو۔بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔