انبیاء علیہم السلام کائنات کی وہ عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں،موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔ الله پاک نے انبیائے کرام کو مختلف قوموں کی طرف ہدایت یافتہ اور رہنما بنا کر بھیجا۔اللہ پاک کے تمام انبیائے کرام کو کوئی نہ کوئی معجزہ عطا فر مایا لیکن اللہ پاک نے اپنے آخری نبی، مکی مدنی ﷺ کو سر اپا معجز ہ بنا کر بھیجا۔تمام انبیائےکرام علیہم السلام کی اپنی اپنی شان ہے۔

قرآن کی روشنی میں انبیائے کرام کی فضیلت: جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالزُّبُرِ وَ بِالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ(۲۵) 22،الفاطر:25) ترجمہ: اُن کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں اورصحیفے اور روشن کر دینے والی کتابیں لے کر آئے۔

اس آیت مبارکہ سے خوب واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ انبیائے کرام کو اللہ پاک نے کتاب دے کر انسانوں کی طرف انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے۔ ہمیں انبیائے کرام کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی کے مطابق عمل کر کے جنت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ

انبیا و مرسلین کی تعداد:انبیا و مرسلین علیہم السلام کی تعداد سے متعلق روایات مختلف ہیں،اس لئے ان کی صحیح تعداد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ ہم ان کی کوئی تعداد معین نہ کریں کیونکہ معین تعداد پر ایمان لانے میں کسی نبی کی نبوت کا انکار ہو نے یاکسی غیر نبی کو نبی مان لینے کا احتمال موجود ہے اور یہ دونوں باتیں بذات خود کفر ہیں۔

اسمائے انبیا:یوں تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک بہت نبی آئے ان میں سے 27 کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے:

(1) حضرت آدم علیہ السلام (2) حضرت نوح علیہ السلام (3) حضرت ابراہیم علیہ السلام (4) حضرت اسماعیل علیہ السلام (5) حضرت اسحاق علیہ السلام (6) حضرت یعقوب علیہ السلام (7) حضرت یوسف علیہ السلام (8) حضرت موسیٰ علیہ السلام (9) حضرت ہارون علیہ السلام (10) حضرت خضر علیہ السلام (11) حضرت شعیب علیہ السلام (12) حضرت لوط علیہ السلام (13) حضرت ہود علیہ السلام (14) حضرت داؤد علیہ السلام (15) حضرت سلیمان علیہ السلام (16) حضرت ایوب علیہ السلام (17) حضرت زکریا علیہ السلام (18) حضرت یحیی علیہ السلام (19) حضرت عیسیٰ علیہ السلام (20) حضرت الیاس علیہ السلام (21) حضرت یسع علیہ السلام (22) حضرت یونس علیہ السلام (23) حضرت ادریس علیہ السلام (24) حضرت ذوالکفل علیہ السلام (25) حضرت صالح علیہ السلام (26) حضرت عزیر علیہ السلام (27) خاتم الانبیا،محمد رسول الله (ﷺ) ۔

1) حضرت یوشع: آپ علیہ السلام کانا م یوشع اورنسب نامہ یہ ہے: یوشع بن نون بن افرائیم بن یوسف علیہ السلام بن حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام۔

حضرت یوشع علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے اصحاب میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد سب سے عظیم المرتبہ ساتھی تھے۔ آپ علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے سفر میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے وصال ظاہری تک ساتھ ہی ر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ علیہ السلام کو نبوت عطا ہوئی اور آپ نے جبارین کے خلاف جہاد فرمایا اور فتح حاصل کی۔ 127 سال کی عمر میں آپ علیہ السلام وفات پاگئے۔ (سیرت الانبیاء،ص655)

2) حضرت شمویل:آپ علیہ السلام کا مبارک نام”شمویل“ یا”اشمویل“ اور نسب نامہ یہ ہے: اشمویل بن بالی بن علقمہ بن یر خام بن الیہو بن نہو بن صوف بن علقمہ بن ماحث بن عموصا بن عزریا۔

آپ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔بعثت کے بعد آپ نے بنی اسرائیل کی ہدایت کا فریضہ سر انجام دیا۔حکمِ الٰہی سے طالوت کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا اور بنی اسرائیل کو تباہ و برباد کرنے والے جالوت کے خلاف جہاد میں شرکت فرمائی۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے جب بنی اسرائیل میں کوئی نبی نہ تھا۔(سیرت الانبیاء،ص660)

3) حضرت سلیمان: حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔یہ اپنے والد ماجد کے جانشین ہوئے اور اللہ پاک نے انہیں بھی علم و نبوت سے نوازا اور عظیم الشان سلطنت کا حاکم بنایا۔ آپ تختِ سلطنت پر چالیس برس جلوہ گر رہے۔ جن و انسان، شیاطین، پر ندوں وغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی اور سب کی زبانوں کا آپ کو علم عطا کیا گیا تھا۔ (سیرت الانبیاء،ص692)

4) حضرت الیاس: آپ علیہ السلام کا مبارک نام الیاس ہے۔آپ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر تشریف لائے اور انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی۔الله پاک نے ظالم بادشاہ کے شر سے بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا اور آپ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اور قرب قیامت وفات پائیں گے۔ قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کا نام ال یاسین بھی مذکور ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص 722)

5) حضرت یسع:آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ہیں۔ آپ کو حضرت الیاس علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور بعد میں آپ کو شرفِ نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔آپ کا مبارک نام یسع ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص 727) 


انبیا علیہم السلام کا ئنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں۔انبیا ئےکرام کو روشن نشانیوں اور معجزات کے ساتھ بھیجا گیا۔انبیائے کرام کو لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی صحیفے اور کتابیں دی گئیں۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی انسانوں کو دعوت و تبلیغ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا جائے، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے، اس کے احکامات کو تسلیم کیا جائے اورگنا ہ و نا فرمانی سے بچا جائے،مگر ان کی قوموں کے لوگ اُن کےلائے ہو ئے دین کو قبول کرنے کی بجائے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چلیں گے۔وہ اپنے نبیوں کی نافرمانی کرتے تھے۔ ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے بہت سی قومیں ہلاک ہوئیں۔ الله پاک نے قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد بیان کئے ہیں۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-(پ5، النساء:64) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ الله کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

اس کی صراط الجنان میں یہ ہے کہ یہاں رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ پاک کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ ایک اور جگہ اللہ پاک انبیائے کرام کی بعثت کا مقصدواضح فرماتا ہے۔ وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (پ7،الانعام: 48) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم۔

الله پاک نے خود انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد قرآنِ پاک میں متعدد جگہ بیان فرمائے ہیں۔ بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ مجید میں موجود ہے۔چند انبیائے کرام کے نام درج ذیل ہیں۔

اسمائے انبیا:(1) حضرت آدم علیہ السلام(2) حضرت نوح علیہ السلام(3) حضرت ابراہیم علیہ السلام(4) حضرت اسماعیل علیہ السلام(5) حضرت اسحاق علیہ السلام(6) حضرت یعقوب(7) حضرت یوسف علیہ السلام(8) حضرت موسیٰ علیہ السلام (9) حضرت ہارون علیہ السلام(10) حضرت خضر علیہ السلام(11) حضرت شعیب علیہ السلام(12) حضرت لوط علیہ السلام(13) حضرت ہود علیہ السلام(14) حضرت داود علیہ السلام(15) حضرت سلیمان علیہ السلام (16) حضرت ایوب علیہ السلام(17) حضرت زکریا علیہ السلام (18) حضرت یحیٰ علیہ السلام(19) حضرت عیسیٰ علیہ السلام(20) حضرت الیاس علیہ السلام(21) حضرت یسع علیہ السلام(22) حضرت یونس علیہ السلام(23) حضرت ادریس علیہ السلام(24) حضرت ذو الکفل علیہ السلام(25) حضرت صالح علیہ السلام(26) حضرت عزیر علیہ السلام(27) خاتم الانبیا،محمد رسول الله ﷺ

ان میں سے 5 کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے جس میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر کیا جائے گا۔

1- حضرت یونس:آپ علیہ السلام کا نام یونس بن متٰی ہے۔ آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ بستی نینوی کے نبی تھے جو موصل کے علاقے دجلہ کے کنارے پر واقع تھی۔ (سیرت الانبیا) قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹) 23، الصافات:139) ترجمہ:اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہیں۔

حضرت یونس علیہ السلام کو قوم نینویٰ کے ایک لاکھ اور اس سے کچھ زیادہ آدمیوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ جو لوگ ایمان لے آئے تھے الله پاک نے ان پر اپنا فضل کیا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷) فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍؕ(۱۴۸) (پ23،الصافات:147-148) ترجمہ:اور ہم نے اسے ایک لاکھ بلکہ زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک بھیجا۔

2 -حضرت موسیٰ: الله پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ( پ16، مریم:51) ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چنا ہوا بندہ تھا، وہ نبی رسول تھا۔

آپ علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ آپ علیہ السلام نے فرعون کو دعوتِ توحید دی اور پیغام ِرسالت پہنچایا۔ فرعون نے اسے قبول نہ کیا اور جو لوگ فرعون کے ساتھ تھے وہ بھی غرق ہو گئے۔

3-حضرت اسماعیل:آپ کا نام مبارک اسماعیل تھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو قبیلہ جر ہم اور سر زمین میں رہنے والی قوم عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا، جنہیں آپ علیہ السلام نے تبلیغ و نصیحت فرمائی تو کچھ لوگ ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہی رہے۔(الروض الانف)

قرآن کریم میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تذکرہ متعد د سورتوں میں ہے چنانچہ اللہ پاک پارہ 16 سورۂ مریم آیت نمبر 54 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّاۚ(۵۴) ترجمہ:اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو۔ بیشک وہ وعدے کا سچا تھا اور غیب کی خبریں دینے والا رسول تھا۔

4 - حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا مشہور نام ابراہیم ہے آپ علیہ السلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی پجاری تھی۔ چچا آزر بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیوپاری تھا۔ دوسری طرف بادشاہ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔آپ علیہ السلام نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ (سیرت الانبیا)

آپ علیہ السلام بہت اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ارشادِ باری ہے:ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے گھر والوں اور اپنی قوم کو اپنے ہی ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرنےسے روکا،ان کو چاند،سور ج،ستارے وغیرہ کی پوجا کرنے سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا مگر ان کی قوم ان سے جھگڑ نے لگی۔ قرآن کریم میں ہے: وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِؕ-( الانعام: 80) ترجمہ:اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا:کیا تم الله کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہ تو مجھے ہدایت عطا فر چکا۔

5 -حضرت محمد ﷺ:ہمارے مکی مدنی آقا ﷺ اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ہمارے آقا ﷺ کسی ایک قوم یاایک قبیلے کی طرف نہیں بلکہ ہمارے آقاﷺتمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ان کا ذکر قرآن پاک کے ہر ہر سپارے میں موجود ہے جن پر قرآن نازل ہوا اور یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کا ذ کر نہ ہو۔

ایک پنجابی شاعر لکھتے ہیں:

دساں کی میں مصطفٰے دی کڈی اونچی شان اے آپ دی تعریف وچ سارا ای قرآن اے

پڑھ کے تو ویکھ جیہڑا مرضی سپارہ قسم خدا دی مینوں سب نالوں پیارا

آپ کی تعلیمات صرف اس وقت کے لیے نہ تھی جو آپ کی ظاہری حیات میں قومیں یا قبیلے تھے بلکہ آپ کی تعلیمات آپ کے قول و فعل آج بھی مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں راہنمائی کے لیے نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔

قرآنِ کریم میں پچھلی قوموں کے حالات و واقعات اس لئے بیان کئے گئے تاکہ عقل مند لوگ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں، غوروفکر کریں،انبیائے کرام اور ان کی امتوں کے احوال بیان کیےتاکہ نبی کریم ﷺ کو ہمت، حوصلہ اور استقامت حاصل ہو، تا کہ قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفیں برداشت کرنا آسان ہو جائے۔ انبیائے کرام کی سیرت کے مطالعہ کے لیے”سیرت الانبیا “ کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔ اس کے علاوہ قصص الا نبیا کتاب بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگی۔


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن پاک بندوں کو پیدا کیا انہیں انبیا کہتے ہیں۔انبیائے کرام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس الله پاک کی طرف سے وحی آتی تھی۔انبیائے کرام خدا کے خاص و معصوم بندے ہوتے ہیں جن کی نگرانی و تربیت اللہ پاک خود فرماتا ہے۔یہ صغیرہ کبیرہ گنا ہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ انہیں عقلِ کامل عطا کی گئی ہے۔ کسی فلسفی، حکیم اور سائنسدان کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو! کہ یہ الله کے لاڈلے اور محبوب بندے ہوتے ہیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام کے ذریعے سے ہی ملتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(۵۱) (پ25،الشوریٰ: 51) ترجمہ:اور کسی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا پردے کے پچھلے ہو یا (یہ کہ) اللہ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم سے وحی پہنچائے۔ جو اللہ چاہے بیشک وہ بلندی والا حکمت والا ہے۔

قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کے کثیر معجزات کا ذکر ہے جیسے حضرت صالح کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بن جانا، آقا ﷺ کے معجزات بے شمار مثلاً انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہونا وغیرہ۔

اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری

جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

حضرت ادریس:آپ کا نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔اللہ پاک نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے، ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس(بہت درس دینے والا) ہوا۔ سب سے پہلے آپ نے ہی قلم سے لکھا۔قرآنِ کریم میں آپ علیہ السلام کے 114 اوصاف ہیں۔ آپ بہت ہی سچے نبی تھے۔ قرآنِ پاک میں آتا ہے:کتاب میں ادریس کو یادکر وہ بہت سچانبی ہے۔ (شرح نووی،3/123)

حضرت نوح:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح تھا۔ یہ لقب اس لیے ہوا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے نیز آپ کو آدمِ ثانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں:پسماندگاہ طوفان سے کسی کی نسل نہ بڑھی، صرف نوح کی نسل تمام دنیا میں ہے۔ الله پاک فرماتا ہے: وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷) (پ23، الصافات:77) ترجمہ: ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔

حضرت نوح کی قوم:الله پاک نے جب حضرت نوح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً چالیس سال تھی۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں کہ وہ لوگ ایمان لے آئیں ورنہ ان پر دنیا میں خوفناک عذاب آئے گا اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب کا شکار ہوں گے۔ (سیرت الانبیاء،ص 165)

بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈراؤکہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔(تفسیرروح المعانی،15/22)

حضرت نوح نے حکم الٰہی کی تعمیل میں قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں الله پاک کے عذاب سے بہت واضح انداز میں خبردار کرنے اور ڈر سنانے والا ہوں اور تمہیں کہتا ہوں کہ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرو۔ شرک نہ کر و۔ خدا کے غضب سے بچنے کیلئے اس کی نافرمانی سے دور رہو۔لیکن حضرت نوح کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے سر کشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیاحتی کہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ان کو دین کی دعوت دینے سے منع نہ ہوئے توپتھر مارمار کر قتل کر دیں گےنیز انہوں نے آپ کو بہت برا بھلا کہا لیکن آپ علیہ السلام اولو العزم یعنی انتہائی باہمت رسول تھے۔ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ26، الاحقاف: 35) ترجمہ:تو( اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ کا مشہور نام ابراہیم ہے جس کے معنی ہیں”مہربان باپ“آپ بہت مہربان تھے۔آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ارشاد باری ہے: وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) (پ27، النجم: 37) ترجمہ:اور ابراہیم کہ جس نے(احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔

حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگ اپنے گمراہ باپ دادا کی پیروی میں بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ آپ کے چچا آزر جو بت پرستی کے ساتھ ساتھ بت سازی بھی کرتے تھے،جب آپ نے تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمایا تو سب سے پہلے اپنے گھر سے ابتدا کی۔ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴) (پ 7،الانعام:74) ترجمہ: کیا تم بتوں کو(اپنا) معبود بناتے ہو۔بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔


قرآنِ پاک میں بہت سے مقامات پر آیات کی روشنی میں حضرت محمد ﷺ سے پہلے آنے والے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ کسی قوم پر کب اور کس طرح عذاب نازل ہوا۔

فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) ( 11، یونس: 98) ترجمہ: تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانےدیا۔

صراط الجنان فی تفسیر القرآن:قرآنِ پاک میں ذکر کیا گیاکہ فرعون کی توبہ اس لیے قبول نہ ہوئی کیونکہ فرعون نے عذا ب نازل ہونے کے بعد توبہ کی، اس وجہ سے اس کی توبہ قبول نہ ہوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ اس لیے قبول ہوئی کہ انہوں نے عذاب نازل ہونے سے پہلے توبہ کرلی تھی اور ان سے عذاب ہٹا لیا گیا۔

لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) ( 22، السبا: 15) ترجمہ:ترجمہ:بے شک قوم سبا کیلئے ان کی آبادی میں نشانی تھی دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب۔

صراط الجنان فی تفسیر القرآن:اس آیت میں ایک ایسی قوم کا ذکر کیا گیا جنہیں اللہ پاک نے کثیر نعمتوں سے نوازا لیکن وہ لوگ اللہ پاک کی فرمانبرداری کرنےکے بجائے اُس کی نافرمانی کرنے لگے تو اللہ پاک نے انہیں سیلاب کے ذریعے ہلاک کر دیا۔

وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷) ( 1، البقرة: 57) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارےاوپر من و سلویٰ اتارا (کہ) ہماری دی ہوئی پا کیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑ ا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔

قوم ِعاد:حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اللہ نے قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا اور آپ قومِ عاد میں رہنے واے تھے، اللہ پاک کے حکم سے آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی، اس قوم کے سرداروں نے آپ کو بے وقوف اور جھوٹا کہا۔ آپ نے فرمایا:میں بے وقوف اور جھوٹا نہیں بلکہ اللہ پاک کا نبی ہوں، اس کے پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور تمہارا خیر خواہ ہوں۔پھر حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم !تم اللہ کی نعتیں یاد کرو اس نے تمہیں عظیم قد کاٹھ اور طاقت دی تمہیں باغات جانور اور چشمے عطا کیے،پھر آپ نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا انہوں نے کہا کہ تمہارا نصیحت کرنا اور نہ کرنا برابر ہے ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا اور آپ علیہ السلام کی دعوت قبول نہ کی۔ پھر اللہ پاک نے اس قوم کی نافرمانی کرنے کے سبب ان پر آندھی طوفان نازل کیا جس سے حضرت ہود علیہ السلام اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے ان کے علاوہ سب غرق ہوگئے۔

نوٹ:ان سب واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عذاب کے آثار نازل ہونے پر توبہ کرلی جائے تو عذاب ٹل جاتا ہے۔بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ پاک کی نافرمانی کرنے سے نعمتیں چھن جایا کرتی ہیں اور جو اللہ پاک کا حکم بجالاتے ہیں تو اللہ پاک انہیں مزید نعمتوں سے نوازتا ہے اور بنی اسرائیل کے واقعے سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اگر بنی اسرائیل کھانا جمع کر کے اللہ پاک کی نافرمانی نہ کرتے تو کھانا کبھی خراب نہ ہوتا۔ 


1- قوم سبا: لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) (پ 22، السبا: 15) ترجمہ: بےشک قومِ سبا کے لیے ان کی آبادی میں نشانی تھی، دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف۔ اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکراداکرو۔ پاکیزہ شہر ہے اوربخشنے والا رب۔

آیت مبارکہ: 16:تو انہوں نے منہ پھیرا تو ہم نے ان پرزور کا سیلاب بھیجا اور ان کے باغوں کے عوض دو باغ انہیں بدل دیئے جو کڑ وے پھل والے اور جھاؤ والے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔

تفسیر:سبا عرب کا ایک قبیلہ تھا۔ اس کی آب و ہوا اور زمین انتہائی صاف تھی۔اللہ پاک نے ہر طرح کی خوشحالی دی ہوئی تھی۔ لیکن قومِ سبا شکر کے بجائے نا شکری کرنے لگی۔ اللہ پاک نے اس قوم کے لیے 13 انبیائے کرام بھیجے لیکن انہوں نے انبیاکو جھٹلایا۔اس قوم کے سردار کا نام حمار تھا یہ بہت متکبر تھا۔ جب اس کے بیٹےکا انتقال ہوا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا(معاذ اللہ) اور اللہ سے اعلان بغاوت کردیا۔ انبیا سے کہا کہ الله سے کہو کہ وہ ہم سے نعمتیں چھین لے کیونکہ وہ سمجھتا تھا یہ سب کچھ ہمارا ہے۔ جب اس کی نافرمانی بڑھ گئی تو اللہ پاک نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔

(2) قوم لوط:تفسیر: ملک شام کا ایک صوبہ حمص تھا اور اس کا ایک شہر سدوم تھا۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے کئی لوگ مہمان بن کر ان آبادیوں میں آئے اور لوگوں کو مہمان نوازی کا بوجھ اٹھانا پڑا جس سے تنگ آکر شیطان کی باتوں میں آگئے۔ شیطان نے اپنا خطرناک وار کیا کہ اگر تم اپنے مہمانوں سے نجات چاہتے ہو تو جب کوئی تمہارے ہاں مہمان آئے تو اس کے ساتھ ز بر دستی بد فعلی کرو۔انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان سے کہا:ایسا مت کرو! یہ بہت سخت گناہ ہے۔ لیکن انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی باتوں کا انکار کر دیا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے ساتھ چند فرشتوں کو لے کر آسمان سے اترے اور حضرت لوط سے فرمایا: آپ مومنین اور اپنے خاندان والوں کو لے کر اس بستی سے چلے جائیں۔ حضرت جبرائیل اس شہر کی پانچوں بستیوں کو اٹھا کر آسمان کی طرف مڑے اور اوپر جا کر الٹ دیا۔ پھران لوگوں پر پتھروں کی بارش برسادی جس سے قوم کے تمام افرادہلاک ہو گئے۔

(3) قوم عاد:ترجمہ کنز الایمان: اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا۔ ہودنے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں۔( تعلیماتِ قرآن، حصہ:3) تفسیر:قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو بہت بڑاریگستان تها۔ اس قوم کے لوگ بت پرست تھے۔ اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو اس قوم کی راہنمائی کیلئے بھیجا۔اس قوم نے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود کو جھٹلایا۔ اس کے بعدعذابِ الٰہی ہوا،تین سال تک بارش نہ ہوئی،ہرطرف قحط سالی کا دور تها۔پھرانہی کی دعا پرایک کالابادل بھیجاجس سے یک دم کالی آندھی آئی جو اس قدر زور دار تھی کہ ان کے اونٹوں،باغوں اور مکانوں کی تباہی عیاں ہوگئی۔اس قوم کا کوئی فرد سلامت نہ بچا۔ حضرت ہود علیہ السلام اپنے ساتھ چند مومنین جوایمان لائے انہیں لے کر مکہ مکرمہ چلے گئے۔

(4) قوم ثمود: فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاؕ(۱۳) (پ 30، الشمس: 13) ترجمہ: تو اللہ کے رسول نے ان سے فرمایا: الله کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری سے بچو۔

تفسیر: قوم ثمود نے بھی پیغمبر ِ وقت حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا وہ کہنے لگے:ایک انسان جوہماری طرح کا ہے ہم اس کی پیروی کیوں کریں! پھر اللہ پاک نے انہیں انہی کے مطالبہ پر معجزہ دکھایا کہ پہاڑ سے ایک اونٹنی پیدا کی لیکن پھر بھی انہوں نے انکار کر دیا۔ اونٹنی بہت بڑی تھی، وہ گھاٹ کا سارا پانی پی جاتی تھی۔تو طے یہ ہوا کہ ایک دن اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن لوگ۔اب انہیں فکر ہونے لگی کہیں ختم نہ ہوجائے!تو انہوں نے اس اونٹنی کی رگیں کاٹ دیں اور اسے قتل کر دیا۔ توان پر اللہ کا عذاب آگیا، ان پر ایک زوردار چنگھاڑ بھیجی گئی اور وہ ایسے ہوگئے جیسے روندھی ہوئی کوئی خاردار باڑھ ہو۔

(5) بنی اسرائیل:اور متنبہ کر دیاتھا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ تم ضرور فساد مچاؤ گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور سرکشی کرو گے۔اگر تم نے بھلائی کی توبھلائی کی اپنی جانوں پر۔اگر تم نے برائی کی تو وہ ان کے لیے۔پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے بندے بھیجے تاکہ بگاڑیں تمہارے چہروں کو۔(15، بنی اسرائیل)

تفسیر:بنی اسرائیل کے پاس جو دریا تھا جس سے وہ شکار کرتے تھے،ہفتے والے دن وہاں بہت زیادہ مچھلیاں آتی تھیں۔ اللہ پاک نے منع کیا کہ ہفتے والے دن شکار نہ کرنا۔یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی۔ وہ لوگ ہفتے والے دن گڑھے ک ہود تے اور پانی جمع ہونے دیتے اور پھلیاں پکڑتے اور اتوار والے دن شکار کرتے یعنی بہا نہ کر لیتے تھے۔

اب جب نافرمانی کرنے لگے تو ان میں تین گروہ بن گئے:(1) ایک وہ جونا فرمانی کرتا(2) دوسرا وہ جو کہتا تھا کہ یہ جو کرتے ہیں انہیں کرنے دو(3) تیسر ا گر وہ وہ تھا جو انہیں ہدایت دیتا تھا،پر عذاب الٰہی ان لوگوں پر نازل ہوا جو انہیں منع نہیں کرتے تھے اور جونا فرمانی کرتے تھے انہیں بندر بنا دیا گیا، صرف وہ لوگ عذاب سے محفوظ رہے جو انہیں منع کرتے تھے۔

سبق:اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوا کہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ہر حال میں الله کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ احکامِ الٰہی پر عمل کرنا چاہیے۔


حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قوم عاد کے قبیلے سے ہے۔آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔اللہ پاک نے آپ کو قومِ عاد کی طرف نبی بناکر بھیجا۔

آیتِ مبارکہ: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ 8، الاعراف: 65) ترجمہ کنز العرفان: اور قوم عاد کی طرف ان کے ہم قوم ہود کو بھیجا ( ہود نے) فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں،کیا تم ڈرتے نہیں ؟

تفسیر: آیت میں ”اَخَا بھائی“ سے مراد حقیقی بھائی نہیں بلکہ”ہم قوم مراد ہے۔

نوٹ:اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ پاک کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ اس کے سوائی کسی کی عبادت نہ کی جائے۔اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔تو کیا تم اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے نہیں؟ ہمیں الله پاک سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے۔(تعلیماتِ قرآن، ص170، حصہ:3)

حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کا اسمِ گرامی یونس بن متی ہے۔آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔آپ کو موصل کے شہر نینویٰ کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا۔حضرت یونس علیہ السلام کی قوم وہ واحد قوم ہے جس پر عذاب کے آثار ہونے کے بعد بھی عذاب ٹل گیا۔

آیت مبارکہ: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) (پ11،یونس:98) ترجمہ:تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تاکہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب بنا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔

تفسیر:فرعون نے بھی آخری وقت میں تو بہ کی تھی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے بھی لیکن فرعون کی توبہ قبول نہ ہوئی اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوگئی۔فرعون نے عذاب کا مشاہدہ کرنے کے بعد توبہ کی جبکہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کی نشانیاں دیکھ کر اسی وقت توبہ کرلی۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ نزول عذاب کے بعد توبہ قبول نہیں البتہ نزول عذاب سے پہلے صرف علامات ِ عذاب کے ظہور کے وقت توبہ قبول ہو سکتی ہے۔

نوٹ:اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ ہوجائے تواس وقت اس گناہ سے معافی مانگ کر آئندہ نہ کرنے کا عہد کرنا چاہئے،ایسے لوگوں کو اللہ معاف فرمانے والا ہے۔(تعلیماتِ قرآن،حصہ:131، ص15)

قوم سبا:یمن کے شہر صنعاء سے کچھ فاصلے پر عرب کا ایک قبیلہ”سبا“آباد تھا۔اللہ پاک نے قومِ سبا کی ہدایت کے لیے یکے بعد دیگرے 13 انبیائے کرام بھیجے۔

آیت مبارکہ: ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْاؕ-وَ هَلْ نُجٰزِیْۤ اِلَّا الْكَفُوْرَ(۱۷) (پ22،السبا: 17) ترجمہ: ہم نے انہیں ان کی ناشکری کی وجہ سے یہ بدلہ دیا اوراسی کو سزا دیتے ہیں جو ناشکرا ہو۔

تفسیر:سبا والوں کے حالات و انجام سے معلوم ہواکہ نعمتوں کی نا شکری ان کے زوال و مصائب اور آلام میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتی ہے، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔

نوٹ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی ناشکری سے بچنا چاہیے اور اللہ پاک کی ہر نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔(تعلیمات قرآن،ص148، حصہ:3)

حضرت یعقوب علیہ السلام اللہ پاک کے پیغمبر ہیں۔آپ حضرت یوسف کے والد حضرت اسحاق کے بیٹے اور حضرت ابراہیم کے پوتے ہیں۔آپ کا لقب اسرائیل ہے۔آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے 147 سال کی عمر میں وفات پائی۔

آیت مبارکہ: قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَى اللّٰهِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶) (پ13، یوسف:86) ترجمہ:یعقوب نے کہا:میں تو اپنی ہر پریشانی اور غم کیفریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ بات جانتا ہے جو تم نہیں جائے۔

تفسیر:حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ غم اورپریشانیوں میں اللہ سے فریادکرنا صبر کے خلاف نہیں۔ہاں! بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنا،لوگوں سے شکوے کرنا بے صبری ہے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام جانتے تھے کہ حضرت یوسف زندہ ہیں اور ان سے ملنے کی توقع ہے۔

نوٹ:اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشکلات میں صبرسے کام لینا چا ہیے نہ کہ بے صبری کر کے اپنے ثواب کو ضائع کر دیا جائے اور اللہ پاک صبر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔


یوں تو سبھی انبیا ومر سلین ہمت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و تحمل کا شاندار مظاہرہ کیا ہے البتہ اس مقدس جماعت میں سے5 رسول ایسے ہیں جن کا راہِ خدا میں صبر اور مجاہدہ دیگر انبیا علیہم السلام سے زیادہ ہے،اسی لیے انہیں بطور خاص اولو العزم رسول کہا جاتا ہے اور جب بھی او لو العزم رسول کہا جائے تو ان سے ہی پانچوں رسول مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:(1) حضرت محمد ﷺ(2) حضرت ابراہیم علیہ السلام(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام(5) حضرت نوح علیہ السلام

سورہ احزاب میں ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷) (پ 21، الاحزاب: 7) اور اے محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور عیسیٰ اور موسٰی سے(عہد لیا) اور ہم نے ان سب سےبڑا مضبوط عہد لیا۔

حضرت محمدﷺ:پیارے آقا ﷺ کو تمام انسانیت کو ہدایت اور راہ راست پر لانے کے لیے بھیجا گیا۔ پیارے آقا ﷺ نے کفار کو اسلام کی دعوت دی۔ زیادہ تر لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے لیکن بعض بد نصیب کا فروں نے انکار کر دیا۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) (الحدید:3) ترجمہ: وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی چھپا اوروہ ہر چیز جانتا ہے۔

حضور ہی سب سے اول ہیں۔ ہر چیز میں آپ کواولیت دی گئی۔بروز قیامت حضورکو اول سجدہ کا حکم ملے گا۔ دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا آپ کود یا گیا۔وہی آخر ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔سب سے آخری آسمانی کتاب بھی آپ کودی گئی۔وہی ظاہر ہیں۔ہر چیز ان پر عیاں ہے۔چاند کھیلا کرتا تھا۔ کفار آپ کی نبوت کی گواہیاں دیتے تھے۔وہی باطن ہیں۔جس طرح سورج کے نور کو چھپایا گیا کہ کوئی بھی اس کی طرف آنکھ بھر کرنہیں دیکھ سکتی۔ اسی طرح حضور کی نو رانیت پردہ بن گئی۔حضورﷺہر چیز کو جاننے والے ہیں۔اولین و آخرین کے سارے علوم حضور میں جمع ہیں۔حضور ہی ہیں جن کی آنکھ نے خالق عالم کو معراج میں دیکھا ہے۔مخلوق کس طرح اس سے چھپ سکتی ہے!

حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ علیہ السلام کی قوم بتوں اور ستاروں کی پوجاکرتی تھی۔ چچاآزر بھی بتوں کا پجاری تھا۔دوسری طرف امام بادشاہ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔آپ نے اپنی قوم کو نصیحت کی اور اسلام کی دعوت دی اور ان کو سمجھایا۔ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) (پ16،مریم:41) ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

آپ علیہ السلام کےسچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے میں یہ بھی حکمت ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کی تفہیم ہو جائے جنہیں چند واقعات کی بنا پر شبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام ان مواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا۔آپ علیہ السلام بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام:آپ علیہ السلام کی ولادت کا سن کر فرعون نے ہزاروں بچے ذبح کر دیے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا۔آپ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت تبلیغ دی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۸) (پ20،القصص:18) ترجمہ: بے شک تو ضرور کھلا گمراہ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام: آپ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہودیوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تو اللہ پاک نے آپ کو بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔

یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-(پ7،المائده:112) ترجمہ:اے عیسیٰ بن مریم !کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اتار دے؟ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ پاک اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے یانہیں؟ کیونکہ یہ حضرات اللہ پاک پر ایمان رکھتے تھے۔

آپ علیہ السلام نے فرمایا: اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) (پ7،المائدہ:112) ترجمہ:اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔ یعنی اگر ایمان رکھتے ہو تواللہ پاک سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔

حضرت نوح علیہ السلام:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ نے اسلام کی تبلیغ کی لیکن آپ کی قوم نے انکار کر دیا تو آپ نےان کے خلاف دعا کی جو قبول ہو گئی۔ وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷) (پ23، الصافات:77) ترجمہ: ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مر وی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے کشتی سے اترنے کے بعد آپ علیہ السلام کی اولاد اوران کی بیویوں کے علاوہ جتنے مرد و عورت تھے سبھی آگے کوئی نسل چلائے بغیر فوت ہوگئے۔ آپ علیہ السلام کی اولا دسے نسلیں چلیں۔


1- قوم سبا: لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) (پ 22، السبا: 15) ترجمہ:بے شک قومِ سبا کیلئے ان کی آبادی میں نشانی تھی۔دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف۔اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کر و پاکیزہ شہر اور بخشنے والا رب۔

تفسیر:یمن کے شہر صنعاء سے کچھ فاصلے پر ایک قبیلہ سبا واقع تھا۔ اللہ پاک نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔یہ قوم خوشحال اور پر سکون زندگی بسر کر رہی تھیں۔ان کے شہر کے دونوں طرف کثیر باغات تھے۔ اس قوم کے سردار کا لقب حمار تھا وہ اتنا متکبر اور سرکش آدمی تھا کہ جب اس کا لڑکا مر گیا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا اور اپنے کفر کا اعلان کردیا۔ یہ سردار لوگوں کو اعلانیہ کفر کی دعوت دینے لگا، جو کفر کا انکار کرتا اسے قتل کر دیتا تھا۔

جب حمار اور اس کی قوم کی سرکشی بہت زیادہ بڑھ گئی تو اللہ پاک نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔قوم سبا کی بستی کے کنارے ملکہ بلقیس نے ایک ڈیم بنایا تھا جس کے اوپر نیچے تین دروازے تھے۔ ایک چوہے نے اللہ کے حکم سے اس بند میں سوراخ کر دیا جو شگاف بن گیا یہاں تک کہ دیوار ٹوٹ گئی اور اچانک سیلاب آگیا۔ (تعلیمات قرآن،ص169،حصہ:3)

2- وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ 8، الاعراف: 65) اور قوم عاد کی طرف اُن کے ہم قوم کو بھیجا (ہود نے) فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟

حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قوم عاد سے تھا۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا قد طویل،چہرہ حسین و جمیل اور داڑھی لمبی تھی۔آپ کی عمر 472 سال ہوئی۔الله پاک نے آپ کو قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔قوم عاد کئی برائیوں میں مبتلا تھی۔انہوں نے مختلف ناموں کے بت بنائے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ پہاڑوں میں مضبوط گھر بنا کر سمجھتے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔لوگوں پر ظلم کرتے تھے۔اپنی طاقت و قوت پر غرور و تکبر کرتے تھے وغیرہ۔

حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اللہ پاک پر ایمان لاؤ، اس کے رسول کی تصدیق کرو اور اس کے حضور تو بہ استغفا رکرو تو اللہ پاک بارش بھیجے گا، ان کی زمینوں کو سر سبز و شاداب کر کے تازہ زندگی عطا فرمائے گا اور قوت و اولاد دے گا مگر قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی بات نہ مانی تو اللہ پاک نے ان پر آندھی کا عذاب بھیجا جو مسلسل سات راتیں آٹھ دن جاری رہی اور قوم عادکے کفار کا نام و نشان مٹ گیا۔

3-بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام: وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷) ( 1، البقرة: 57) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارےاوپر من و سلویٰ اتارا (کہ) ہماری دی ہوئی پا کیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑ ا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔

فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہو گئے۔کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کلامِ الٰہی سنایا کہ ملک شام کی طرف ہجرت کرو کہ اسی میں بیت المقدس ہے۔اسے قوم عمالقہ سے آزاد کرانے کے لئے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ۔مصر چھوڑنا بنی اسرائیل کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ایک میدان میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے انہیں من و سلویٰ ملنا شروع ہو گیا جو ہفتہ کو نہ آتا تھا۔ انہیں حکم تھا کہ جمعہ کو ہفتہ کے لئے بھی جمع کرلینا لیکن زیادہ جمع نہ کریں۔ بنی اسرائیل نے حکم الٰہی کی نا فرمانی کی اور ایک دن سے زیادہ کے لئے جمع کیا تو وہ جمع کیا ہوا کھانا سڑ گیا اور اللہ پاک کی طرف سے نعمت آنا بند ہو گئی۔

4 –حضرت یونس اور ان کی قوم:ترجمہ:توکیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تا کہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھا نے دیا۔

حضرت یونس علیہ السلام کا اسمِ گرامی یونس بن متی ہے۔ آپ کو موصل کے شہر نینوی کی طرف رسول بنا کے بھیجاگیا۔نینوی شہر کے لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔اللہ پاک کے ایک ہونے کا انکار کرنے کے شرک میں متلاتھے۔ یونس علیہ السلام ان کے پاس آئے،انہیں بت پرستی سے منع کیا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ ان لوگوں نےآپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آپ پر پتھراؤ کیا۔ آپ نے ان کو الله پاک کےحکم سے عذاب آنے کی خبر دی اور خود وہاں سے چلے گئے۔ پھر ان لوگوں نے اخلاص کے ساتھ توبہ کی، ایمان لائے تو الله کو ان پر رحم آگیا اور ان کا عذاب ٹل گیا۔ (تعلیمات قرآن، حصہ:3)

نصیحت: ہمیں اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ ہمیں الله پاک اور اس کے رسولوں کی نافرمانی سے بچنا چاہئے۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اخلاص کے ساتھ سچی توبہ کرنی چاہیے کہ الله پاک بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے گنا ہوں پر ہمیں نادم ہوتے رہنا چاہیے۔ 


انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ پاک کےمخلص اور چنے ہوئے بندے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں مطلق انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۷) (پ23،صٓ:47) ترجمہ کنز العرفان: اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔

انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ پاک کے معصوم بندے ہیں۔یہ تمام مخلوق حتی کہ فرشتوں سے بھی افضل ہوتے ہیں۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں الله پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔یہ زمین میں اللہ پاک کے نائب اور خلیفہ ہیں۔انہوں نے اپنے فرائض ِمنصبی کو بہترین اور احسن انداز سے پورا کیا۔ان کی تبلیغ کا بنیادی موضوع توحید و رسالت اور احکاماتِ الٰہی ہوتا تھا۔ مختلف ادوار میں مختلف انبیائے کرام کو مخصوص قوموں کی طرف بھیجا گیا۔اس ضمن میں آج ہم 5 انبیائے کرام اور ان کی قوموں کا مختصراً ذکر کریں گے۔

1-حضرت الیاس علیہ السلام اور قرآن: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۲۳) (پ23، الصّٰفّٰت: 123) ترجمہ کنز الایمان:اور بیشک الیاس پیغمبروں میں سے ہے۔

سورۃ الصّٰفّٰت کی آیت 123 میں واضح طور پر حضرت الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغمبر ہو نے کا بیان کیا گیا اور اس کی بعد والی آیتوں میں ان کے قوم کو تبلیغ کرنے اور قوم کے ان کو جھٹلانے کو بیان کیا گیا۔حضرت الیاس علیہ السلام کی بعثت کے بارے میں مفسرین ومؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اور بعلبک کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔(غرائب القرآن،ص296)

2-حضرت یونس علیہ السلام اور قرآن:ارشاد باری ہے: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا (پ11، یونس: 98) ترجمہ کنز الایمان: تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے۔

آیت کے اس حصے میں حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے ایمان لانے کا بیان کیا گیا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی بدلیاں آجانے کے بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا تھا جبکہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا تو اس کے بعد ان کا ایمان لانا مفید نہ ہوتا۔آیت کے اس حصے سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام بھی اللہ پاک کے پیغمبر تھے۔ ان کو اللہ پاک نے شہر نینوی کے باشندوں کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا۔(غرائب القرآن،ص123-124)

3 -حضرت موسی علیہ السلام اور قرآن:قرآنِ پاک میں بہت سی جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و معجزات اور ان کی قوم بنی اسرائیل کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشادِ باری ہے: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-(پ1،البقرة:60) ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسی نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا:اس پتھر پر اپنا عصامارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔

آیت مبارکہ کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عظیم معجزے کا ذکر کیا گیا کہ جب ان کی قوم بنی اسرائیل نے میدان تیہ میں پیاس کی شدت سے بے تاب ہو کر ان سے پانی مانگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔( عجائب القرآن، ص25)

4-حضرت داؤد علیہ السلام اور قرآن:حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ پاک نے سلطنت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔آپ علیہ السلام سے پہلے یہ دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو نہ ملے تھے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُؕ-(پ2، البقرة:251) ترجمہ کنز الایمان:اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطافرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔

اس آیتِ مبارکہ میں داؤد علیہ السلام کو سلطنت ملنے کے واقعے کو مختصر بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت نے جالوت سے جہاد کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا اس پر بادشاہ نے اپنے اعلان کے مطابق آپ علیہ السلام کو اپنی آدھی سلطنت دی اور اپنی بیٹی کا نکاح بھی ان سے فرمایا۔ بادشاہ کے انتقال کے بعد آپ علیہ السلام پوری سلطنت کے سلطان بن گئے۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت داؤد علیہ السلام بنی سرائیل کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ (عجائب القرآن، ص62-63)

5-حضرت محمد ﷺاور قرآن:اصلاً سارا قرآن، اس کا ایک ایک حرف ہمارے آخری نبی ﷺکی نبوت و صداقت پر دلالت کرتا ہے۔قرآن ِکریم کی بیسیوں آیتیں آپ ﷺ کی نبوت و صداقت کی واضح دلیلیں ہیں، چنانچہ اللہ پاک سورة الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز العرفان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن الله کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں جہاں پیارے آقا ﷺکے رسول ہونے کو واضح کیا گیا وہیں یہ بھی واضح ہوا کہ آپ ﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:اے لوگو!بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔(معجم کبیر،8/115، حدیث:7535)

یہ ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی ہی خصوصیت ہے کہ آپﷺ کو خاتم النبیین کا رتبہ ملا اور آپﷺکو مخصوص وقت اور مخصوص قوم پر نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام مخلوق پر قیامت تک کے لیے نبی ورسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ ﷺ پچھلی تمام شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ ﷺ کی شریعت پر عمل کرنے والا ہی مسلمان کہلائے گا۔ جو آپ ﷺ کو آخری نبی نہ مانے بلکہ اس میں شک کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پیارے آقا ﷺکی خاتم النبین کی صفت / خصوصیت کو اپنی رباعی میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آتے رہے انبیا کَمَا قِیْلَ لَھُمْ وَالْخَاتَمُ حَقُّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام آخر میں ہوئی مُہر کہ اَكْمَلْتُ لَكُمْ


حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کو نینوی کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ قرآنِ مجید میں آپ کا نام چار مرتبہ آیا ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ذوالنون اور صاحبِ حوت (مچھلی والے) کے لقب سے آپ کا ذکر کیا۔

قرآن کی روشنی میں: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا (پ11، یونس: 98) ترجمہ کنز الایمان: تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے۔ وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹) اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ(۱۴۰) (پ 23، الصّٰفّٰت: 139 -140) ترجمہ: اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہے جب وہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔

حضرت ہود علیہ السلام:حضرت ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔سورۂ ہود مکیہ ہے۔ اس میں 10 رکوع اور 123 آیتیں اور 1600 کلمے اور 9567 حرف ہیں۔

قرآن کی روشنی میں:یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں۔ پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے کہ بندگی نہ کرو مگر الله کی بے شک میں تمہارے لئے اس کی طرف سے ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا بر تنا( فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدے تک اور ہر فضیلت والے کو اس کا فضل پہنچائے گا اور اگر منہ پھیر و تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں تمہیں الله ہی کی طرف پھرنا ہے۔(پ11،ہود:2تا8)

حضرت صالح علیہ السلام: حضرت صالح علیہ السلام کو قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔

قرآن کی روشنی میں: اور یاد کرو تم کو عاد کا جانشین کیا اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو تو الله کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچائے نہ پھرو اس کی قوم کے تکبر والے کمزور مسلمانوں سے بولے:کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے رسول ہیں۔بولے وہ جو کچھ لے کر بھیجے گئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں متکبربولے جس پرتم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے۔( پ8،الاعراف: 73-76)

حضرت شعیب علیہ السلام:حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔

قرآن کی روشنی میں: اور یہود بے شک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے اور بے شک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے۔ ان جنگل والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں بے شک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں اس پر کچھ تم سے اُجرت نہیں مانگتابے شک میں تمہارے لیے الله کا امانت دار رسول ہوں میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارےجہان کا رب ہے۔(پ19: 183)

حضرت موسی علیہ السلام:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قوم فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف بھی بھیجا گیا۔


الله پاک نے انبیائےکرام کو مختلف قوموں کی طرف بھیجاتا کہ وہ دین کی تبلیغ کریں اور دین اسلام عام ہو۔ جیسا کہ جاہلیت میں لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے یا آگ کی پوجا کرتے تھے تو اللہ پاک نے ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے انبیائےکر ام ان کی طرف بھیجے۔

کس نبی کوکس قوم کی طرف بھیجا گیا:(1) حضرت ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کی طرف(2) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی قوم کی طرف(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی قوم کی طرف(5) حضرت نوح علیہ السلام کو بتوں کی پوجاکرنے والی قوم کی طرف۔

(1) حضرت ہود علیہ السلام:قومِ عاد:ایک قبیلہ جنوب کی جانب سے متوجہ ہوا اور جزیرہ عرب کے جنوبی طرف یمن کے ریتیلے ٹیلوں والے علاقے” احقاف“ میں قیام پذیر ہو گیا۔یہ قبیلہ اپنے والد یا بادشاہ”عاد“کی نسبت سے قوم عاد کے نام سے معروف ہوا۔

قوم عاد کے بہت سارے لوگ گناہگارتھے اور وہ دین کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ جب حضرت ہود علیہ السلام تشریف لائے تو الله پاک نے قوم عاد کو سلطنت دی اور بدنی قوت بھی وافر عطافرمائی۔قوم عادنے حضرت ہود سے مطالبہ کیا جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہو تا ہے: قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ26، الاحقاف: 22) ترجمہ:انہوں نے کہا: کیا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو، اگر تم سچے ہو تو ہم پر لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔اس پر حضرت ہود نے فرمایا: اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ﳲ وَ اُبَلِّغُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ(۲۳) (پ26، الاحقاف:23) ترجمہ: علم تو الله ہی کے پاس ہے اور میں تمہیں اس چیز کی تبلیغ کرتا ہوں جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے لیکن میں تمہیں ایک جاہل قوم سمجھتا ہوں۔

(2) حضرت صالح علیہ السلام: قوم ثمود:حضرت صالح کی قوم نےان سے معجزہ طلب کیا تواللہ پاک نےایک اونٹنی بھیجی جو اس گھاٹی سے باہر آتی اور اس کے اندر چلی جاتی تھی۔ وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے کا پانی پی جاتی اور لوگ اس دن اونٹنی کادودھ پی لیتے تھے۔ پھر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو اللہ پاک نے سب کوہلاک کر دیا سوائے ایک فرد کے وہ حرم پاک میں موجود تھا۔ حضرت صالح نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ8،الاعراف:79) اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام: جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ،روم کے بادشاہ کا قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا، اسی طرح قبطی اورعمالقہ قوم سے تعلق رکھنے والے مصرکے بادشاہوں کا لقب ”فرعون“ ہوتا تھا۔

حضرت موسیٰ کی ولادت سے پہلے مصر میں فرعون کا غلب تھا اور ظلم و تکبر اور سرکشی میں اس انتہا کو پہنچ گیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا تھا۔اس نے مصر کے مختلف گروہ بنا لیے وہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بیٹوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو خدمت گاری کے لیے زندہ چھوڑ دیتا تھا۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(۴) (پ20،القصص:4) بیشک فرعون نے زمین میں تکبر کیا تھا اور اس نے لوگوں کے مختلف گروہ بنادیے تھے ان میں ایک گروہ(بنی اسرائیل) کو کمزور کر رکھا تھا ان کے بیٹوں کوذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ بیشک وہ فسادیوں میں سے تھا۔

(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام:بنی اسرائیل: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بناکر بھیجا۔ آپ نے ایک موقع پربنی اسرائیل کو یوں نصیحت فرمائی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳) (پ25، الزخرف: 63) ترجمہ کنز الایمان: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

بنی اسرائیل کے کفار پر مصیبت کا ایک سبب یہ بھی تھا جیسا کہ ارشادِباری ہے: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) (پ 6، المائدۃ:79) ترجمہ: وہ ایک دوسرے کو کسی بُرے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے بیشک یہ بہت ہی بُرے کام کرتے تھے۔

حضرت نوح علیہ السلام:اس باب میں قوم کی عملی حالت اور حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے قوم کو توحیدِ خداوندی پر ایمان لانے،اسی کی عبادت کرنے اور اپنی اطاعت کی دعوت دینے کا بیان ہے۔نیز حضرت نوح کی دعوت کے جواب میں قوم کے طرزعمل اور حضرت نوح کی قوم کے خلاف دعاؤں کا ذکر ہے۔وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔آپ کی یہ دعوت قرآنِ کریم میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹) (پ 8، الاعراف:59) ترجمہ کنز الایمان: تو اس نے کہا اے میری قوم!اللہ کو پو جو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ اس قوم نے کہا:بے شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔ (پ8، الاعراف:60)

تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے

انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں


الله پاک نے اپنی مخلوق کو اس کی اطاعت میں عاجز ہونا جان لیا، پھر ان کو اس کی معرفت کرائی تاکہ جان لیں کہ وہ اس کی خدمت و عبادت صفائی قلب کے ساتھ نہیں کر سکتے۔تو الله پاک نے اپنے اور ان کے درمیان صورتاً مماثلت کر کے ان کی جنس میں سے ایک مخلوق ایسی پیدا فرمائی کہ جن کا وصف ہی یہ ہے کہ وہ ان پر لطف و کرم فرمائیں اور اس مخلوق کو ان لوگوں کے لیے سفیر و واسطہ اور پیامبر بنایا۔ مختلف قوموں کی طرف مختلف انبیا مبعوث فرمائے۔حضرت ہود علیہ السلام قومِ عاد کی طرف،حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف،حضرت یوسف علیہ السلام مصر کی طرف،حضرت موسیٰ، ہارون، الیاس، دانیال، عیسیٰ،یحییٰ علیہم السلام بنی اسرائیل کی طرف اور محبوب ﷺ تمام کائنات کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔

1-حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت نوح علیہ السلام کو 40 سال کی عمر میں اللہ کریم نے نبوت عطا فرمائی۔(سیرت الانبیاء،ص165) آپ علیہ السلام نے جب لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلایا تو انہوں نے انکار کیا اور ایمان نہ لائے اور کہا کہ اگر آپ دین کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں گے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(۹) (القمر: 9) ترجمہ: ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلا یا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کو جھڑکا۔

آپ علیہ السلام اپنی قوم میں تقریباً 950 سال رہے۔ آپ نے ایک کشتی بنائی جس میں جانور،پرندے اور مسلمان مرد و عورتیں سوار ہو کر عذاب سے بچالئے گئے باقی تمام قوم پانی میں غرق کر دی گئی۔

2-حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو ستاروں اور بتوں کی پوجا کرنے سے منع فرمایا اور توحید کی دعوت دی تو ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی اور کہنے لگی کہ انہیں بُرا نہ کہو کہیں تم پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا:مجھے ان بتوں کا کوئی ڈر نہیں۔چنانچہ قر آنِ کریم میں ہے: وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ(الانعام: 80) ترجمہ: اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا:کیا تم الله کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو۔

نمرود نے آپ علیہ السلام کیلئے آگ تیار کی اور اس میں آپ علیہ السلام کو ڈال دیا۔ اللہ پاک کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور نمرود عبرتناک موت مرا۔

3-حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ہم جنس پرستی عام تھی۔آپ علیہ السلام نے دعوتِ حق دی۔ قرآنِ کریم میں ہے: اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف: 80) ترجمہ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔ قوم نے جواباً کہا: اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) (پ8،الاعراف: 82) ترجمہ کنز الایمان: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام کے دعا کرنے پر قوم پر عذاب آیا۔حضرت جبریل علیہ السلام نے قوم لوط کے شہر کے نیچے اپنا بازو ڈالا،اس کو بہت اونچااٹھایا اور اوندھا کر کے پلٹ دیا۔اس دوران آپ علیہ السلام نے ایک چیخ ماری اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے جہاں کہیں بھی تھے ان پر لگاتار پتھر برسا کر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔(سیرت الانبیاء،ص396-395 ملتقطاً)

4-حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:فرعون اور اس کی قوم کے لوگ طرح طرح کے گناہوں اور جرائم میں مبتلا تھے مثلاً کفر و شرک،خدائی کا دعوی ٰ،تکبر،جادو،ظلم و فساد وغیرہ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دین کی طرف دعوت دی تو انہوں نے سرکشی کی اور دشمن ہوگئے۔ فرعون نے جادوگروں سے مقابلے کی دعوت دی۔ جب جادوگروں کو اندازہ ہوا کہ آپ علیہ السلام جادو گر نہیں تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔فرعون نے انہیں دھمکی دی جس کا ذکرقرآنِ کریم میں یوں ہے: قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْؕ-(طہ:71) ترجمہ:کیا تم اس پر ایمان لائے اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ٘-(طہ:71) ترجمہ: مجھے قسم ہے میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر پھانسی دے دوں گا۔

فرعون اور اس کا لشکر دریا میں غرق کر دیئے گئے۔فرعون کی لاش اب بھی محفوظ ہے اور قاہرہ کے میوزیم میں نشان ِعبرت کے طور پر موجو د ہے۔

5-حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو دعوتِ حق دی؛ بعض ایمان لے آئے اور کئی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آپ علیہ السلام کی جگہ ایک اور شخص کو انہوں نے قتل کر دیا۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے: وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ- (النساء:157) اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ سولی دی بلکہ ان کیلئے ( عیسیٰ سے) ملتا جلتا ( ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

پچھلی قوموں کے برباد ہونے کا سبب اپنے نبی کی بے ادبی اور نافرمانی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے آخری نبی ﷺ کی فرما نبر داری کریں۔ یہی دارین کی سعادتوں کا ذریعہ ہے۔