انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ جاوید، فیضان عبد الرزاق حیدر
آباد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اقوام کی فلاح، بہبود و رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل
علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اپنی اپنی امتوں و اقوام کو صراطِ مستقیم و
دین و شریعت کی صحیح تعلیم دے سکیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کروا سکیں۔ اس کا
ذکر اللہ پاک نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 165 میں ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ: بشارت
دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ رسول کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ
کے خلاف عذر کی گنجائش نہ رہے۔
نبی
کی تعریف:
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف کی
ہوئی وحی کی تبلیغ کے لیے بھیجا ہو۔ ( مسامرہ، ص 270)
انبیاء کرام کی کل تعداد: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ ﷺ تک بےشمار انبیاء کرام علیہم السلام
تشریف لائے اور ان کی کل تعداد بعض علماء کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جن میں
سے 313 رسول ہیں۔
پانچ
انبیاء کرام کے اذکار: 5 انبیاء کرام کا ذکر قرآن مجید کی روشنی میں درج
ذیل ہیں؛
1۔
حضرت آدم:
حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آنے والے سب سے پہلے بشر و پیغمبر ہیں۔ چنانچہ اللہ
تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرمایا۔ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ
جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں
کوکہ میں زمین میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان
تھے جو بِن ماں باپ کے تخلیق کیے گئے تھے اس لیے آپ کو ابوالبشر یعنی تمام آنے والے
انسانوں کا والد بنایا گیا اور اب قیامت تک جو بھی انسان اس دنیا میں آئیں گے وہ
سب آپ علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
شیطان
منکر ہوگیا:
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیا تو فرشتوں کو حکم دیا
کہ وہ آپ کو سجدۂ تعظیمی کریں۔ چنانچہ ارشاد ہوا: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ
اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ
الْكٰفِرِیْنَ(۷۴) (صٓ: 70) ترجمہ: بس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے
ابلیس کے، اس نے گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔
2۔ حضرت موسیٰ:
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ کوہِ طور پر اللہ
تعالیٰ سے آپ براہِ راست کلام فرمایا کرتے تھے اور اس کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن
مجید میں یوں ارشاد فرمایا، ترجمہ:اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام
کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کی قوم کی رہنمائی کے لیے آسمانی کتاب توریت نازل
فرمائی اور آپ کو لاٹھی جیسے معجزات سے بھی نوازا تھا۔
فرعون
کا خاتمہ: فرعون ملک مصر کا بادشاہ تھا جو بنی اسرائیل پر بے تحاشا ظلم و
ستم کرتا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اس کو
ہدایت، نشانیاں و معجزات دکھائے پر وہ سرکش و ملعون ایمان نہ لایا اور دریائے نیل
میں غرق ہوگیا اور اس ملعون سے عبرت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا
میں رکھا۔
بنی اسرائیل: حضرت موسیٰ علیہ
السلام کی قوم بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولادوں میں سے ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے ان کو تمام عالم میں فضیلت دی تھی۔چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 122میں
ارشاد ہوا: یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ
الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى
الْعٰلَمِیْنَ(۱۲۲) ترجمہ کنز
الایمان: اے اولادِ یعقوب یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا او ر وہ جو میں
نے اس زمانہ کے سب لوگوں پر تمہیں بڑائی دی۔
ایک واقعہ کے
مطابق بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پوجا کی
اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بت پرستی کے باعث دنیا و آخرت میں انہیں ذلیل ورسوا
کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا، ترجمہ کنزالایمان: جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ان
پر بہت جلد ان کے رب کا غضب نازل ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت نصیب ہوگی۔
3۔ حضرت ادریس:
آپ علیہ السلام کا اصل نام اخنوع تھا، لیکن درس وتدریس کی کثرت کرنے سے آپ کو
ادریس کے لقب سے جانا جانے لگا۔ آپ ہر وقت ذکر و اذکار میں مشغول رہتے۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا، ترجمہ:اور اس کتاب
میں ادریس کا بھی ذکر کر وہ بھی نیک کردار کے نبی تھے۔
دینِ حق کے لیے
جہاد: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے پیدا
فرمایا تھا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے ہی پہلے درس و تدریس سے دین اسلام کی تبلیغ
شروع کی تھی اور قابیل کی قوم کو دین و شریعت کی راہ دکھائی، لیکن جب انہوں نے
نافرمانی کی اور ایک اللہ پر ایمان نہیں لائے تو آپ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ بت
پرستوں کے خلاف جہاد کیا۔
آپ
علیہ السلام کی وفات مبارک: روایتوں کے مطابق اللہ پاک نے آپ کی
روح چوتھے آسمان مبارک میں قبض کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کا ذکر قرآن مجید میں
موجود ہے، ترجمہ: ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھایا۔ اور آپ کی روح کو چوتھے آسمان
مبارک سے اٹھایا گیا۔
4۔حضرت نوح: حضرت نوح علیہ
السلام کا نام گرامی شکر تھا،لیکن آپ علیہ السلام اپنی قوم کو سیدھی راہ دکھانے کے
لیے بہت نوحہ کرتے تھے۔ قرآن مجید میں آپ کو نوح کے نام سے پکارا گیا ہے۔ چنانچہ
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور بھیجا ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس پھر رہا ان
میں ہزار برس۔( قصص الانبیاء، ص44)
نوح علیہ
السلام کی قوم بہت سرکش و نافرمان تھی آپ ان کے یہاں ساڑھے نو سو برس تک اللہ کا
پیغام پہنچاتے رہے، لیکن وہ ایمان نہیں لائی اور آپ کو نعوذ باللہ دیوانہ کہتے اور
آپ پر پتھروں وغیرہ سے ظلم و ستم کیا کرتے۔
نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب: حضرتِ نوح نے جب
یہ سب دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں ان کے لیے دعا فرمائی اور عرض کیا:اور کہا نوح
نے اے رب نہ چھوڑ زمین پر منکروں کا ایک گھر بھی بسنے والا کہ نسل کافروں کی باقی
نہ رہے۔ ( قصص الانبیاء، ص 45)
آسمان سے اللہ
کی فریاد آئی:بنا کشتی روبرو ہمارے حکم سے اور نہ بول مجھ سے ظالموں کے واسطے یہ
البتہ غرق ہوں گے تو ان تختوں سے کشتی بنا۔ (قصص الانبیاء، ص 46)
البتہ نوح
علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کشتی تعمیر کی اور قوم پر سیلاب کا
عذاب آتے ہی وہاں سے روانہ ہوگئے۔
5۔حضرت شیث:
حضرت شیث علیہ السلام حضرت آدم کے تیسرے بیٹے اور بعد آنے والے دوسرے نبی تھے۔ اللہ
تعالیٰ نے آپ پر 50 آسمانی صحیفے نازل فرمائے۔
حضرت شیث کی قوم:
حضرت شیث کی قوم اولادِ قابیل میں سے تھی جو بہت فساد، فتنہ، بدکاری و شراب نوشی
کیا کرتی، حالانکہ یہ سب چیزیں حضرت شیث علیہ السلام کی شریعت میں حرام تھی، لیکن
وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہیں کرتی اور بتوں کو پوجتی اللہ تعالیٰ نے ان
پر حضرت شیث علیہ السلام کی نسب میں سے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی
ہدایت کے لئے بھیجا لیکن وہ نافرمانی و بدکاری میں لگی رہی اور تھوڑے سے لوگ ہی ایمان
لے کر آئے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں طوفانِ نوح سے ہلاک و برباد فرمایا۔
ہم آخری امتی ہیں: امت مسلمہ
ذرا ہم غور کریں تو آپ ﷺ کے آنے سے قبل بہت سی اقوام آئیں اور اپنی سرکشی و
نافرمانی کی وجہ سے ہلاک و تباہ ہوئی۔ ویسا ہی ہمارا بھی کچھ حال ہے کہ ہم بھی
اپنی زندگی نافرمانیوں و گناہوں میں بسر کرتےہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل
وکرم ہے کہ وہ ہمارے دن بھر کے گناہوں کی فورا سزا نہیں دیتا اور نہ حساب کرتا۔
ہمیں چاہیے کہ جب تک ہماری سانسیں بحال ہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری و پیارے
نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرکے گزاریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طریقہ سے
دین اسلام و شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از ام ہلال،گلبہار سیالکوٹ

نبوت ورسالت
کا رتبہ کوشش و محنت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ عطائے الٰہی ہے۔اللہ پاک اپنے فضل
و کرم سے جسے چاہے نبوت ورسالت سے سرفراز فرما دیتا ہے اور جنہیں نبوت ورسالت سے
سرفراز فرماتا ہے وہ اپنے وقت کے تمام انسانوں سے افضل ہوتے ہیں۔
مقصد:سب انبیائےکرام علیہم السلام کا
یہی ایک مقصد تھا کہ وہ مخلوق کو اللہ پاک کی عبادت کی دعوت دیں۔ نیک اعمال کرنے
والوں کو اچھی جزاکی بشارت سناکر مطمئن کریں اور یہ بیان کردیں کہ دنیا میں عذاب
یافتہ امتیں آخرت میں اللہ پاک کی طرف ضرور لوٹیں گی اور جہنم کے عذاب میں مبتلا
ہوں گی۔ہر نبی کسی نہ کسی قوم کی طرف تشریف لائے مگر ہمارے آخری نبی ﷺ کی شان ہی
اعلیٰ ہے ؛آپ ﷺپوری دنیا کی طرف رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے۔ اب انبیائے کرام
علیہم السلام میں سے 5 انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں جان لیتی ہیں کہ کون
سے نبی کس قوم کی طرف تشریف لائے۔
1۔حضرت ہود علیہ السلام:اللہ پاک نے
حضرت ہود علیہ السلام کوقومِ عاد کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔یہ لوگ صحت مند،طاقتور
اور لمبی عمروں والےتھے۔ بتوں کی پوجا کرنا،لوگوں کا مزاق اڑانا،دوسروں کو تنگ
کرنا ان کے معاملات میں شامل تھا۔ تو آپ علیہ السلام نے انہیں صرف اللہ پاک کی
عبادت کرنے،بُرے افعال کو ترک کرنے کی دعوت دی۔لیکن بہت تھوڑے افراد نے آپ کی
تصدیق کی اور اکثر نے تکذیب ومخالفت کی۔اللہ پاک پارہ 29،سورہ حاقہ،آیت نمبر 6 میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ
اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ(۶) ترجمہ کنز الایمان: اور رہے عاد وہ
ہلاک کئےگئے نہایت سخت گر جتی آندھی سے۔
2۔حضرت صالح علیہ السلام:اللہ پاک نے
حضرت صالح علیہ السلام کوقومِ ثمودکی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اللہ پاک نے انہیں
کثیر نعمتیں،طویل عمریں عطا فرمائی تھیں۔ لیکن یہ بھی اللہ پاک کی
نافرمانیوں،کفروشرک میں مبتلا ہو گئے۔ تو آپ علیہ السلام نے انہیں صرف اللہ پاک کی
عبادت کرنے اور بتوں کو چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لائے اور اکثریت
کفروشرک پر ہی قائم رہی۔پارہ 30، سورۂ شمس،آیت نمبر 11 میں فرماتا ہے: كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ
بِطَغْوٰىهَاۤﭪ(۱۱) ترجمہ: قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔
3۔حضرت اسماعیل علیہ السلام:اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کو قبیلہ جُرہم اور سرزمینِ حجاز میں رہنے والی قومِ عمالیق
کی طرف مبعوث فرمایا، جنہیں آپ علیہ السلام نے تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ تو کچھ لوگ
آپ پر ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہی رہے۔ اللہ پاک پارہ 1، سورۂ بقرہ،آیت نمبر
136 میں فرماتا ہے: قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا
بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِترجمہ: (اے
مسلمانو!) تم کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے
اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف
نازل کیا گیا۔
4۔حضرت یونس علیہ
السلام:اللہ پاک نے حضرت یونس علیہ السلام کو بستی نینوٰی کی طرف
مبعوث فرمایا۔ آپ نے 40 سال تک لوگوں کو بت پرستی سے روکا اور توحید کی دعوت
دی۔لیکن وہ باز نہ آئے تو آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم سے انہیں عذاب کی خبر
دی۔قوم نے علاماتِ عذاب کا سامنا کر کے بارگاہِ الٰہی میں سچی توبہ کر لی۔ اللہ
پاک پارہ 11،سورہ ٔیونس، آیت نمبر 98 میں فرماتا ہے: اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا
كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ
اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) ترجمہ:لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی توہم نے ان سے دنیا
کی زندگی میں رُسوائی کا عذاب ہٹادیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔
5۔حضرت الیاس علیہ السلام: اللہ
پاک نے آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا تو آپ علیہ السلام نے
اس قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ اللہ پاک نے ظالم بادشاہ کے شَر سے بچاتے ہوئے
انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا۔ اللہ پاک پارہ 23، سورۃ الصّٰفّٰت، آیت
نمبر 123 میں فرماتا ہے: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۲۳) ترجمہ کنز الایمان:اور بیشک الیاس پیغمبروں میں
سے ہے۔
نوٹ:
انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت کا مزید مطالعہ کرنے کے لیے صراط الجنان اور
سیرت الانبیاء کا مطالعہ فرمائیے۔
دعا:اللہ
پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا
فرمائےاور انبیائے کرام علیہم السلام کے متعلق ہمارا ایمان کامل و پختہ رکھے۔ آمین
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ ارشد،گلبہار سیالکوٹ

نبیوں کو اللہ
پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے جو شریعت کے قانون اور خدائی احکام
لے کر آئے ہیں۔وحی نبوت انبیا علیہم السلام کے لئے خاص ہے، جو اسے غیر نبی کے لئے
مانے وہ کافر ہے۔ ان کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی، روح کو قوت،دلوں کو ہمت،عقل
کو نور،سوچ کو وسعت،کردار کو حسن، زندگی کو معنویت، بندوں کو نیاز اور قوموں کو
عروج بخشا ہے۔
قرآن
کی روشنی میں انبیائے کرام کی فضیلت: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ
فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ
یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ
قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴) (پ4، اٰل عمرٰن:164) ترجمہ:بے شک اللہ
نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں
سے ہے وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور
انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی
میں پڑے ہوئےتھے۔
اسمائے
انبیا:حضرت
آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب، حضرت یوسف،حضرت
موسیٰ، حضرت ہارون،حضرت شعیب،حضرت لوط،حضرت ہود، حضرت داود، حضرت سلیمان،حضرت ایوب،حضرت
زکریا،حضرت عیسیٰ، حضرت الیاس،حضرت یسع،حضرت یونس، حضرت ادریس،حضرت ذوالکفل،حضرت صالح،حضرت عزیر علیہم السلام اور خاتم
الانبیا،محمد مصطفٰے ﷺ۔
1-حضرت
آدم علیہ السلام:حضرت
آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں، اس لیے آپ کا لقب
ابو البشر ہے۔اللہ پاک نے خاص اپنے دستِ قدرت سے آپ کا جسم ِمبارک بنایا اور اپنی
طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا۔ ان کو تمام اشیا کے
ناموں، ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔ فرشتوں نے ان کی علمی
فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا، جبکہ ابلیس سجدے سے انکار کرکے مردود ہوا۔ حضرت
آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ
موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی سیرت سے علم و عمل کی برکتیں حاصل
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔(سیرت الانبیاء،ص 65)
2۔
حضرت نوح علیہ السلام:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار
کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔ طوفان کے بعد چونکہ آپ علیہ السلام سے نسلِ
انسانی چلی،اس لیے آدمِ ثانی کہلاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کئی سو سال تک اپنی
قوم کو خفیہ و اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے
والی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ عرصۂ
دراز تک قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا اور جب قوم
کے ایمان لانے اور راہِ راست پر لانے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السلام
نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے
نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کردیا۔ قرآن و حدیث میں حضرت
نوح علیہ السلام کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں حضرت نوح علیہ السلام کی
مبارک سیرت سے علم و عمل کی برکتیں عطا فرمائے۔ آمین۔(سیرت الانبیاء، ص159)
3۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام:حضرت ابراہیم علیہ السلام اولوا العزم
رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا، اس لیے آپ کو خلیلُ
اللہ کہا جاتا ہے۔ آپ کے بعد والے تمام انبیااور رسل آپ ہی کی نسل سے ہوئے، اسی
اعتبار سے آپ کا لقب ابو الانبیاء ہے۔ آپ کی قوم ستاروں اور بتوں کی پجاری تھی؛چچا
آزار بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیوپاری تھا۔دوسری طرف بادشاہِ وقت نمرود بھی خدائی
کا دعوی کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔آپ نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت
فرمائی اور بہت خوبصورت اور آسان دلائل سے سمجھایا کہ اللہ پاک ہی معبود اور خالق
و قادر ہے جبکہ بت بہت بے بس اور لاچار ہیں؛ ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک
مرتبہ آپ نے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کیے۔ قرآن و حدیث اور دیگر کتابوں میں حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص256)
4۔حضرت اسماعیل علیہ السلام:آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے فرزند اور سیدُ المرسلین ﷺ
کے جد ِّاعلیٰ ہیں۔حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ پاک سے پیدا ہوئے۔ ولادت سے
پہلے ہی اللہ پاک نے آپ کی بشارت دیدی۔ ننھی عمر میں ہی حکمِ الٰہی سے والدِ محترم
آپ اور آپ کی والدہ کو اس سرزمین پر چھوڑ آئے جو آج مکہ مکرمہ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ اس وقت ایک ویران جگہ تھی، یہاں جب آپ پیاس کی شدت سے بے قرار ہوئے تو والدہ
ماجدہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑوں کے سات چکر لگائے، لیکن کہیں سے پانی
نہ ملا۔اس پریشانی کے عالَم میں فرشتے کے پر مارنے یا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
ایڑیاں مبارک لگنے کی برکت سے اللہ پاک نے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا جو آج تک
جاری و ساری ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ قرآن و حدیث اور دیگر کتب میں آپ علیہ السلام
کے مختلف احوال مذکور ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص 344)
5-حضرت اسحاق علیہ السلام:آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے فرزند اور حضرت سارہ رضی
اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔آپ علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی اللہ پاک
نے آپ کی ولادت و نبوت اور صالحین میں سے ہونے کی بشارت دیدی تھی۔ بنی اسرائیل میں
آنے والے تمام انبیاء علیہم السلام آپ ہی کی نسل پاک سے ہوئے۔قرآن و حدیث،بائبل
اور کتبِ تاریخ وغیرہ میں آپ کا تذکرہ موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں آپ علیہ السلام کے
ذکرِ خیر سے فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ شمس، گلبہار سیالکوٹ

اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن بندوں کو پیدا کیا انہیں
انبیا کہتے ہیں۔یہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔انہیں کامل عقل عطا کی گئی ہے۔انہیں اس
لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ اپنی قوموں کو کفر و شرک اور صغیرہ، کبیرہ گناہوں سے
بچائیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے ہی ملتا ہے۔
انبیائے کرام علیہم السلام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل
ہوتی ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام بُرے کاموں اور بُری چیزوں سے بچنے کا حکم دیتے
ہیں اور ان کو بھیجنے کا مقصد قرآن ِپاک میں موجود ہے۔
قرآن
پاک کی روشنی میں انبیائے کرام علیہم السلام کی فضیلت: وَ مَا نُرْسِلُ
الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ
فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (پ7،الانعام: 48) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نہیں بھیجتے
رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ
نہ کچھ غم۔
اسمائے
انبیا:حضرت
آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب، حضرت یوسف،حضرت
موسیٰ،حضرت ہارون،حضرت خضر،حضرت لوط،حضرت داؤد،حضرت سلیمان، حضرت ایوب،حضرت زکریا،حضرت
یحییٰ،حضرت عیسی ٰ،حضرت الیاس،حضرت یونس،حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت
عُزیر اور خاتم ُالانبیاء، محمد رسول اللہ ﷺ۔
1۔حضرت
نوح علیہ السلام کی قوم:حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور
کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔ طوفان کے بعد آپ علیہ السلام سے نسلِ
انسانی چلی،اس لئے آدمِ ثانی کہلاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کئی سو سال تک اپنی
قوم کو خفیہ،اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے
والی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔قوم کو
نصیحت کرنے کے باوجود اسّی افراد نے اسلام قبول کیا۔ جب قوم کے ایمان لانے اور راہ
راست پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی جو
قبول ہوئی۔اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو
طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔(سیرتُ الانبیاء،ص 159)
2۔حضرت
صالح علیہ السلام:قومِ
عاد کی ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئے۔اللہ پاک نے انہیں بھی طویل
عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں، لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانی
میں مبتلا ہوگئے اور ان کی اصلاح کے لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو
رسول بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے توحید کو ماننے،صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے
اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر پر
ہی قائم رہی۔قوم کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ
بھی دکھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہیں لائے۔(سیرت الانبیاء،ص 231)
3۔
حضرت سلیمان علیہ السلام:حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد
علیہ السلام کے فرزند ہیں۔یہ اپنے والدِ ماجد کے جانشین ہوئے اور اللہ پاک نے
انہیں بھی علمِ نبوت سے نوازا اور عظیم الشان سلطنت کا حاکم بنایا۔آپ تختِ سلطنت
پر چالیس برس جلوہ گر رہے۔جن و انسان،شیاطین و پرند وغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی
اور سب کی زبانوں کا آپ علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام کے
زمانے میں عجیب و غریب صنعتوں کا ظہور ہوا۔(سیرت الانبیاء،ص 692)
4۔
حضرت یوشع علیہ السلام:حضرت یوشع علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
اصحاب میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد سب سے عظیم المرتبہ ساتھی تھے۔حضرت موسیٰ
علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے
سفر میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے وصالِ ظاہری تک ساتھ ہی
رہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ آپ نے جبارین
کے خلاف جہاد فرمایا اور فتح حاصل کی۔ (سیرت الانبیاء،ص 655)
5۔حضرت
عزیر علیہ السلام:آپ
علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی تھے۔آپ کو اللہ پاک نے مُردوں کو زندہ کرنے
پر اپنی قدرت کا مشاہدہ کروایا، جس سے آپ عینُ الیقین رکھنے والوں کے منصب پر فائز
ہوئے۔ آپ کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کی ایک حیرت انگیز نشانی بنا دیا کہ سو
سال تک حالتِ وفات میں رہنے کے باوجود آپ 40 سال والی حالت پر رہے اور جب اپنے
فرزندوں کے درمیان تشریف فرما ہوتے تو وہ بوڑھے نظر آتے اور آپ علیہ السلام جوان۔(سیرت
الانبیاء،ص 730)
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ محمود حسین،گلبہار سیالکوٹ

انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اورانسانوں میں
ہیروں اور موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں،جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی
بخشی۔حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت وکر دار کی وہ
بلندیاں عطافرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ارشادِ پاک
ہے:وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص فرمالیتا ہے اور اللہ بڑےفضل والا ہے۔
اللہ پاک
نےخود انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد قرآنِ پاک میں متعدد جگہ بیان فرمائے ہیں۔
بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ان
میں سے چند کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔ جن میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر کیا جائے
گا۔
1) حضرت نوح علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکریا عبد الغفاراور لقب نوح ہے۔ یہ لقب اس
لیے ہوا کہ آپ اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتےتھے۔حضرت نوح
اللہ پاک کے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سےتھے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) (پ23، الصّٰفّٰت:
81) ترجمہ:بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں
میں سے ہے۔
حضرت نوح علیہ
السلام نے 950 برس تک اپنی قوم کو خفیہ،اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی، مگر ان کی
بدنصیب قوم ایمان نہ لائی۔ عرصہ دراز سے قوم کو نصیحت کرنے کے بعد صرف 80 افراد
ایمان لائے۔ آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی اور اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار
کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔ارشادِ باری ہے:
اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا
اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ
کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم
کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔
2) حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم:گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹکنے والی اس قوم کو راہِ ہدایت
پر لانے کے لیے اللہ پاک نے اسی قوم سے حضرت ہود علیہ السلام کو رسول بنا کر ان کی
طرف بھیجا۔آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد سے ہیں۔علامہ
بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ علیہ السلام کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے: ہود بن
عبد اللہ بن رباح بن خلود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام۔
حضرت نوح علیہ
السلام کے برسوں بعد اللہ پاک نے ایک قوم پیدا فرمائی جسے اس زمانے میں قومِ عاد
کہا جاتا ہے۔یہ لوگ صحت مند، طاقتور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمروں والےتھے۔ان کے قد
کاٹھ سے متعلق قرآنِ کریم میں ہے: اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ
مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸) ( پ30،
الفجر: 7-8) ترجمہ:ارم (کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا
نہ ہوا۔
3) حضرت صالح اور ان کی قوم:حضرت صالح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد میں
سےتھے۔جیسا کہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نسب نامہ
بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:صالح بن عبید بن آسف بن کا شح بن عبید بن حاذر بن ثمود بن
عاد (بن عوص) بن ارم بن سام بن حضرت نوح۔
قومِ عاد کی
ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئی۔اللہ پاک نے انہیں بھی طویل عمریں
اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانیوں اور
کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی اصلاح کے لیے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول
بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کو ماننے،صرف اللہ پاک کی عبادت اور
بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لائے۔ اکثریت کفر پر ہی قائم
رہی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ
ایمان نہ لائے۔ ( سیرت الانبیاء، ص 231) ارشادِ باری ہے: وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰىۙ(۵۰) وَ
ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰىۙ(۵۱) (پ 27، النجم: 50- 51) ترجمہ: اور یہ
کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا۔
اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ اور دین کی تبلیغ کے لیے آنے والی
مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔جس طرح انبیائےکرام دین کی تبلیغ پر آنے
والی مشکلات پر صبر کا مظاہرہ فرمایا کرتےتھے۔
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ منور حسین،گلبہار سیالکوٹ

کفروشرک،گمراہی
و بد عقیدگی اور بد عملی سےلوگوں کواللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے،شرک سے
روکنے،ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینےاور کفروانکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے
اللہ پاک نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر اِن کے پاس
بھیجا۔انبیا علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں
موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جو مختلف قوموں کی طرف اللہ پاک کے پیغام کو پہنچانے
کے لیے مبعوث ہوئیں،لیکن ہمارے آخری نبی،محمد عربی ﷺ تمام دنیا کی طرف مبعوث
ہوئے۔آئیے! ان میں سے 5 انبیائے کرام اور ان کی اقوام کے بارے میں جانتی ہیں کہ
کون سے نبی کس قوم کی طرف مبوث ہوئے۔
حضرت
نوح اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدالغفار
اور لقب نوح ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پُجاری تھی۔ اللہ پاک نے
حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجااور انہیں یہ
حکم دیاکہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرادیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان
پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی
نہ رہے۔یاد رہے!حضرت نوح علیہ السلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے
کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السلام کی قوم پر ہی دُنْیَوی
عذاب آیا۔(صراط الجنان،جلد9) اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ
اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ
کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم
کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔
حضرت
ہود اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم
کی اولاد سے ہیں۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا
ہے: ہود بن عبداللہ بن رباح بن خلود بن عاد بن اوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ
السلام۔
حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں بعد اللہ پاک نے ایک قوم پیدافرمائی جسے اس
زمانے میں قومِ عاد کہا جا تا تھا۔ یہ لوگ صحت مند، طاقتور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی
عمروں والےتھے،لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکارتھے۔چنانچہ بتوں کی پوجا
کرنا،لوگوں کا مذاق اڑانا،دوسروں کو تنگ کرنا اور لمبی زندگی کی امید پر مضبوط محل
بنانا ان کے عام معمولات تھے۔ کفر و شرک، جہالت و ضلالت اور غفلت کی وادی میں
بھٹکنے والی اس قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے ان کےہم قوم حضرت ہود علیہ
السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ (سیرت الانبیاء،ص203) اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷) الَّتِیْ لَمْ
یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸) ( پ30،
الفجر: 7-8) ترجمہ:ارم (کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا
نہ ہوا۔ ترجمہ:ارم(کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والےکہ
ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ (پ30،الفجر:7-8) سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ
ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ
اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ(۷) فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ(۸) (پ29،الحاقہ:7-8) ترجمہ:وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں
اور آٹھ دن لگاتارتو ان لوگوں کو ان میں دیکھو پچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ
ہیں گرے ہوئے۔ تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔
حضرت صالح اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا نام
صالح بن عبید بن آسف ہے۔آپ علیہ السلام کی قوم کا نام قومِ ثمود ہے۔ایک عرصے تک
قومِ ثمود سرکشی و گمراہی کی دلدل میں دھنستی رہی،پھر اللہ پاک نے انہیں اس سے
نجات دلانے اور ہدایت پر گامزن کرنے کیلیے ایک عظیم ہستی حضرت صالح علیہ السلام کو
ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔(سیرت الانبیاء،ص233-234) وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-(پ8،الاعراف: 73) ترجمہ:اور قومِ ثمود کی طرف ان کی برادری
سے صالح کو بھیجا۔
حضرت
شعیب اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی شعیب ہے اور حُسنِ
بیان کی وجہ سے آپ کو خطیبُ الانبیاء کہا جاتا ہے۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو
دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا:(1) اہلِ مدین(2) اصحابُ الایکہ۔حضرت عکرمہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کے علاوہ کسی نبی کو دو
بار مبعوث نہیں فرمایا،آپ علیہ السلام کو ایک بار اہلِ مدین کی طرف بھیجا جن کی
اللہ پاک نے ہولناک چیخ ( اور زلزلے کے عذاب) کے ذریعے گرفت فرمائی اور دوسری بار
اصحابُ الایکہ کی طرف بھیجا جن کی اللہ پاک نے شامیانے والے دن کے عذاب سے گرفت
فرمائی۔(سیرت الانبیاء، ص505) ترجمہ:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا
انہوں نے فرمایا: وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ (پ 8،
الاعراف:85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا
کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک
تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی۔
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسیٰ اور
آپ کا نسب حضرت داود علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔(سیرت الانبیاء،ص793) آپ علیہ
السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ جب اللہ پاک نے آپ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول
بنا کر بھیجا تو آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ
ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ
فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ
الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا
تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ
لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) (پ3،اٰل عمرٰن:49) ترجمہ:میں تمہارے
پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی
مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے
حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے
جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں
جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے
ہو۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت
پڑھنے کی توفیق عطا فرمائےاور جیسے ہر نبی نے دین کی تبلیغ کے لیے مشکلات برداشت
کیں اللہ پاک ہمیں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی
توفیق عطا فرمائے۔ اس سلسلے میں آنے والی آزمائشوں پر صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ
پاک ہمارا انبیائے کرام کے متعلق ایمان پختہ رکھے۔ آمین یا رب العالمین
توحید
کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آسان نہی مٹانا نام و نشاں ہمارا
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ شفیق،تاجپورہ لاہور

اللہ پاک نے
اپنا پیغام پہنچانے اور لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وقفہ وقفہ سے بہت سے
نبیوں اور رسولوں کو معبوث فرمایا۔انبیائےکرام کی بعثت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ
السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ قرآنِ کریم میں صرف چند انبیا علیہم
السلام اور ان کی قوموں کا تذکرہ ہے جو ملاحظہ ہو۔
1۔ وَ اِلٰى مَدْیَنَ
اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ
غَیْرُهٗؕ-(الاعراف:85)
ترجمہ کنزالایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم
اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔اللہ پاک نے حضرت شعیب
علیہ السلام کو مدین والوں کی اصلاح کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔جس بستی کی جانب
حضرت شعیب کو معبوث کیا گیا اس کا نام مدین ہے۔( صراط الجنان، الاعراف: 85)
اہلِ مدین کو
اللہ پاک نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں۔ ان کی تجارت میں بھی برکت رکھی،مگر اس قوم
نے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائےناشکری کی اور اللہ پاک کے ساتھ شرک کیا اور ناپ
تول میں کمی کی۔حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور اللہ
پاک کے ساتھ شرک نہ کرنے کی نصیحت کی مگر انہوں نے آپ کے حکم کی نافرمانی کی جس پر
ان کو عذاب نے گھیر لیا۔
2۔ وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ
الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف:80)
ترجمہ کنز الایمان: اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی
کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم
علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملکِ شام تشریف
لائے اور آپ علیہ السلام کی بہت خدمت کی۔حضرت ابراہیم کی دعا سے نبی بنائے
گئے۔حضرت لوط علیہ السلام اہلِ سدوم کے نبی تھے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں) حضرت
لوط کی قوم شرک جیسے کبیرہ گناہ کے ساتھ ساتھ بد فعلی کے گناہ میں مبتلا تھی۔ آپ
علیہ السلام نے ان کو اللہ پاک کے ساتھ شرک نہ کرنے اور گناہوں سے باز آجانے کا
فرمایا تو اس قوم نے بجائے اس کے کہ آپ علیہ السلام کے حکم پر سر خم کرے نہایت بے
باکی سے آپ کو دھمکی دی کہ ان کو اپنی
بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔جب اس قوم کی
سرکشی اور بُرائیاں قابلِ ہدایت نہ رہیں تو یہ اللہ پاک کے ایسے عذاب سے دو چار ہوئےکہ
ان کی بستیاں آج بھی عبرت کا نشان ہیں۔( صراط الجنان)
3۔ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ
اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ
غَیْرُهٗؕ-(پ
8، الاعراف:73) ترجمہ کنز العرفان:اور
قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی
عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ثمود عرب کا ایک علاقہ ہےجو حجاز اور
شام کے درمیان سر زمین حجر میں رہتےتھے۔یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح کی اولاد
ہیں۔اللہ نے ان کی ہدایت کی خاطر ان کی طرف حضرت صالح کو معبوث فرمایا۔ یہ قوم بت
پرست تھی۔جب آپ علیہ السلام نے ان کو واحدِ حقیقی اور اپنے رسول ہونے کی خبر دی تو
انہوں نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ فلاں پتھر سے فلاں صفات کی اونٹنی کا ظہور ہو تو
ہم آپ پر ایمان لائے گے۔چنانچہ آپ کی دعا سے یہ معجزہ ظاہر ہوا اور اس پتھر سے وہی
صفات والی اونٹنی ظاہر ہوئی جس کو دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لائے مگر ایک جماعت نے
انکار کیا۔آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی کو تکلیف نہ دو مگر ان
لوگوں نے دنیاوی نفع کی خاطر اس اونٹنی کو قتل کر دیا اور اپنے نبی کے حکم کی
اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہوئے۔
4۔ترجمہ
کنزالایمان:اور
عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے
سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(الاعراف: 65) اللہ پاک نے حضرت ہود
علیہ السلام کو قوم ِعاد کی طرف معبوث فرمایا۔ عاد عرب کا قبیلہ تھا جو یمن کے
قریب میں رہتےتھے۔( صراط الجنان) اللہ پاک نے قومِ دعا کو سلطنت اور بدنی قوت عطا
فرمائی۔یہ بہت لمبے قد والے اور بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔ یہ قوم بت پرست اور ظالم
تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو واحد حقیقی کا پیغام دیا تو انہوں نے آپ کی
تکذیب کی اور آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کیں۔ان میں سے کچھ لوگ ہی آپ
علیہ السلام پر ایمان لائےتھے۔جب یہ قوم آپ کے سمجھانے کے باوجود بُرائی سے باز نہ
آئی تو اللہ پاک نے ان کو قحط میں مبتلا کر دیا۔ پھر ان میں سے کچھ لوگوں نے مکہ
مکرمہ میں جا کر دعا کی تو 3 قسم کے بادل نمودار ہوئے۔ قوم بادل کو دیکھ کر خوش
ہوئی کہ اب بارش ہو گی! مگر یہ اللہ پاک کا عذاب تھا۔ ان پر ایسی آندھی چلی کہ یہ
سب ہلاک ہوگئے۔ ( صراط الجنان)
5۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى
قَوْمِهٖۤ٘-اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ(۲۵) ( ہود: 25) ترجمہ
کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ میں تمہارے لیے
صریح ڈر سنانے والا ہوں۔اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ایسی قوم کی طرف
بھیجا جو بت پرست تھی۔ آپ نے ان کو اللہ کی عبادت کرنے اور اللہ پاک کے حکم کی
مخالفت کرنے پر عذاب کی خبر دی مگر اس قوم نے آپ کی نہ سنی بلکہ آپ علیہ السلام کو
طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں۔ جب قوم کی نافرمانی بڑھی تو اللہ پاک نے ان پر عذاب
نازل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ علیہ السلام کو ایک کشتی بنانے کا فرمایا۔ جب اس قوم
پر اللہ کے عذاب میں مبتلا ہونے کا وقت آیا تو اللہ پاک کے حکم سے آپ علیہ السلام
اپنے گھر والوں، ایمان والوں اور جانوروں اور پرندوں کے ایک ایک جوڑے لے کر کشتی
میں سوار ہو گئے پھر نافرمان قوم پانی کے طوفان میں غرق ہو گئی۔اللہ پاک ہمیں
گزشتہ قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے، اللہ اور اس رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کی
توفیق بخشے۔ آمین
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ جاوید احمد،فیضانِ ماریہ قطبیہ مورو

کئی قوموں کی
طرف کئی نبی بھیجے گئے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا تذکرہ
فرمایا۔انبیائے کرام علیہم السلام کے تذکروں میں سے کچھ تذکرے یہ ہیں:
1-بنی اسرائیل
کی طرف کئی نبی بھیجے گئے جن میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں کیونکہ اس
زمانے میں اندھے اور کوڑھ کے مریض بہت تھے۔اسی لئے اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کو کئی معجزات عطا کیے،ان میں سے ایک معجزہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو
شفا دینا بھی عطا فرمایا تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اپنی
نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے یہ تقریر فرمائی جو قرآنِ مجید کی سورۂ الِ
عمرٰن میں ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا
کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے
پرندے کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی
ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو۔
اس تقریر میں
آپ نے اپنے معجزات میں سے ایک معجزہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینے کا
اعلان بھی فرمایا۔روایت ہے کہ ایک دن میں پچاس اندھوں اور کوڑھیوں کو آپ کی دعا سے
اس شرط پر شفا حاصل ہوئی کہ وہ ایمان لے آئیں۔(تفسیر جمل، 1 /419)
2-دوسری قوم”قوم
ِعاد“ہے۔قومِ عاد مقامِ احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا
ریگستان ہے۔ اس کے مُورث ِاعلیٰ کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔
یہ لوگ بت پرست اور بہت بد اعمال و بد کردارتھے۔
اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا
مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور
اپنے کفر پر اڑے رہے۔ پھر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں۔تین سال تک بارش ہی
نہ ہوئی اور ہر طرف قحط اور خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا یہاں تک کہ لوگ اناج کے
دانے دانے کو ترس گئے۔ زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بَلایا مصیبت آتی تھی تو
لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتےتھے تو بَلائیں ٹل جاتی تھیں۔چنانچہ
ایک جماعت مکہ معظمہ گئی۔ اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا جو مومن
تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا۔ جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں
دعا مانگنا شروع کی تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا۔ اس نے تڑپ کر کہا
کہ اے میری قوم !تم لاکھ دعائیں مانگو مگر خدا کی قسم !اس وقت تک پانی نہ برسے گا
جب تک نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لے آؤ۔ حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا
ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے آپ کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور
دعائیں مانگنے لگے۔ اس وقت اللہ پاک نے تین بدلیاں بھیجیں:ایک سفید،ایک سرخ، ایک
سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ اےقومِ عاد تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تینوں
بدلیوں میں سے ایک بدلی کو پسند کرو،انہوں نے کالی بدلی پسند کر لی اور یہ لوگ اس
خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی۔ چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ
عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا۔ یہ لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش تھے۔حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا کہ وہ عذابِ الٰہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر
قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا: کہاں کا عذاب؟ اور کیسا عذاب ؟(تفسیرروح
البیان،3/187)
ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید
تھی کہ اونٹوں کو ان کے سواروں سمیت اٹھا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی اور پھر اتنی
زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑا لے گئی۔یہ دیکھ کر قومِ عاد کے
لوگوں نے اپنے سنگین مرحلوں میں داخلوں کے دروازے بند کر دیے مگر آندھی کے جھو کے
نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجادی۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی حتی کہ قوم ِعاد کا ایک ایک آدمی
مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:ترجمہ
کنز الایمان:اور رہے عاد وہ ہلاک کیے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتارتو ان
لوگوں کو ان میں دیکھو پچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ ہیں گرے ہوئے۔ تو تم ان
میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔(تفسیر صاوی،2/686)
3-تیسری قوم
شہر نینویٰ کے باشندے کہ ان کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ پاک نے ہدایت کے
لئے رسول بنا کر بھیجا۔نینویٰ اور موصل کے علاقے کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ
بت پرستی کرتے اور کفر و شرک میں مبتلاتھے۔حضرت یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کو
ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے
اللہ پاک کے رسول علیہ السلام کو جھٹلایا اور ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ حضرت
یونس علیہ السلام نے انہیں خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔ یہ سن
کر شہر کے لوگوں نے آپس میں یہ مشورہ کر لیا کہ حضرت یونس علیہ السلام نےکبھی کوئی
جھوٹی بات نہیں کی۔ اس لئے دیکھو کہ اگر وہ رات کو شہر میں رہیں جب تو سمجھ لو کہ
کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر انہوں نے شہر میں رات نہ گزاری تو یقین کر لینا چاہیے کہ
ضرور عذاب آئے گا۔
رات کو لوگوں
نے یہ دیکھا کہ حضرت یونس علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے اور وہاں صبح ہوتے
ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے۔ چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہوئیں اور ہر طرف
سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گیا۔یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو یقین ہو گیا کہ
عذاب آنے والا ہی ہے، تو لوگوں کو حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش اور جستجو ہوئی مگر
وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو
گیا۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خدا سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں
اور مویشیوں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل میں نکل گئے
اور رو رو کر صدقِ دل سے حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کرنے لگے۔اللہ
پاک کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا
لیا گیا۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلیاں رفع ہوگئیں اور تمام لوگ پھر شہر میں
آکر امن اور چین سے رہنے لگے۔ اس کا تذکرہ قرآنِ مجید میں اس طرح اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ
کنز الایمان:تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں
یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا
اور ایک وقت تک برتنے دیا۔
4-قومِ ثمود جن کی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے
جب قومِ ثمود کو خدا پاک کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ
سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالئے، جو خوب
فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا
تو وہ فوراً ہی پھٹ گیا اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تن درست اور خوب
بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی۔آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے۔
ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا۔قوم
نے اس کو مان لیا۔ پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے تقریر فرمائی:ترجمہ کنزالایمان:اے
میری قوم اللہ کو پوجوں اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے
رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو
کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے بُرائی سے ہاتھ نہ لگاؤ تمہیں دردناک عذاب آئے
گا۔
چند دن تو قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں
پینے کو ملتا کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی۔ اس لئے ان
لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف
جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا، ایک بدکار عورت کا لڑکا
تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح
علیہ السلام منع کرتے رہے لیکن قدار نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا،پھر
اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ
گفتگو کرنے لگا۔خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے:ترجمہ کنزالایمان:پس ناقہ کی کوچیں کاٹ
دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے
رہے ہو اگر تم رسول ہو۔
قومِ ثمود کی
سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک
آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی۔ تمام عمارتیں
ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر
کر مر گیا۔قرآنِ مجید نے فرمایا:ترجمہ کنز الایمان:تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح
کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا۔
حضرت صالح
علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ
پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہوگئی تو آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور آپ کو
قومِ ثمود اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے لوگوں کی طرف
سے منہ پھیر لیا۔اس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ
لاشوں سے یہ فرما کر روانہ ہو گئے: ترجمہ کنز الایمان:اے میری قوم بے شک میں نے
تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہی کے غرضی
ہی نہیں۔(پ8،الاعراف:79)

سود ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے قراٰن و حدیث میں اس کی سخت
مذمت آئی ہے ۔حدیث پاک(1) عن جابر قال لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093)حدیث پاک (2 ) امام ابن ماجہ
روایت کرتے ہیں عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْئً أَیْسَرُہَا أَنْ یَنْکِحَ
الرَّجُلُ أُمَّہُ ترجمہ : حضرت ابو
ہریره رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا کہ سود کی برائی کے ستر 70 (Seventy) درجے ہیں اور سب سے کم درجہ کی برائی ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنی
ماں سے زنا کرے ۔ حضرت
علامہ امام حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذینی شافعی (رحمۃُ اللہ علیہ) گناہِ کبیرہ
کی ایک بہت بڑی ( Long Last) ایک طویل
فہرست پیش کی ہے جس میں وہ سود کے متعلق چند احادیث بیان فرمائے ہیں، جن کا خلاصہ پیش
کیا جاتا ہے۔
حدیث پاک (3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ
سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ کر رہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم!وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق
قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال
کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)اور پاکدامن ،
شادی شدہ ، مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔(کتاب الکبائر)
سود حرام کیوں؟: سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں اِن میں سے بعض یہ
ہیں : ( 1) سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی چیزوں میں بغیر کسی
عوض کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔ ( 2) سود کا رَواج تجارتوں کو
خراب کرتا ہے کہ سود خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ، تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں
زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے ۔ (
3) سود کے رواج سے باہمی محبت کے سُلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی
ہوا تو وہ کسی کو قرضِ حَسَن سے اِمداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا ۔ ( 4) سود سے
انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مقروض
کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی سود میں بڑے بڑے نقصان
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے سود کو حرام قرار دیا ۔ اور سود خور قیامت میں ایسے
مَخبوطُ الحَواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے ، جیسے دنیا میں وہ شخص جس
پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لئے بھوت بنا ہوا تھا۔ آج کل
سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہوتا ہے۔ اچھے اچھے ناموں سے
اور خوش کُن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد قرض دینے والوں کی خوش
اخلاقی، ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب
ہوجاتا ہے جو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، غنڈے بھیج رہا ہوتا ہے، گھر کے باہر کھڑے ہو
کر ذلیل و رسوا کررہا ہوتا ہے، دکان، مکان، فیکٹری سب پر قبضہ کرکے فقیر و کنگال
اور محتاج و قَلّاش کرکے بے گھر اور بے زر کر رہا ہوتا ہے۔ (تفسیرِ صراط الجنان، 1/413)
حدیث پاک (4) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود
خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ، نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر
قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276) یعنی اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ پاک سود
کو مٹاتا ہے جبکہ صدقہ اور خیرات کو بڑھاتا ہے، زیادہ کرتا ہے۔ دنیا میں بھی اس میں
برکت پیدا فرماتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہت اجرو ثواب عطار فرماتا ہے۔حدیث پاک(5) نبیٔ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ
گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن
ماجہ ،3/72،حدیث: 2273)
پس اِن چند احادیث کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ سود حرام ہے اور
یہ کہ قطعی طور پر حرام ہے اس کی حرمت کا منکر کا فر ہے۔ اور جو اس کو حرام سمجھ
کر مرتکب ہو وہ فاسق مردود الشہادۃ ہے۔ (بہار شریعت) اللہ پاک ہم سب کو سود سے
بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
فرمودات پر صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مدنی رضا عطّاری(درجہ خامسہ ما ڈل جامعۃُ المدینہ
اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)

سود کو عربی زبان میں "ربا" کہتے ہیں۔ جس کے معنی
ہیں "زیادتی "۔ اصطلاح میں سود سے مراد یہ ہے کہ وہ خرید و فروخت جس میں
دونوں طرف سے مال ہو اور ایک طرف سے زیادتی ہو لیکن اس کے بدلے کچھ بھی نہ ہو۔
(بہار شریعت ،2/769) آج ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں
ان میں سے ایک بیماری جو بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ سود ہے۔ سود ایک ایسی شے ہے جس
میں مال بظاہر تو بڑھتا ہے۔ لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی۔ قراٰنِ پاک میں سود کی
حرمت کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) ترجمۂ کنزالعرفان:
اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے
اسے چھوڑ دو۔(پ3،البقرۃ: 278)
(1) مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے
والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم
،ص862،حدیث:106)(2) حضرت
عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ
چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام أحمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن
حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)
(3)حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی نے
فرمایا: سود کا گناہ ستر (70) حصہ ہے ، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص
اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(4)حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ اللہ
پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (سود سے بظاہر) اگرچہ
مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (المسند للامام أحمد بن حنبل،مسند
عبداللہ بن مسعود،2/50،حدیث: 3754)
(5) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس
کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے
ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن
ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! سود کی وجہ سے غریب کے لیے
ہمدردی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے ۔ امیر لوگ تو مال جمع کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ غریب
ویسا کا ویسا غریب ہی رہتا ہے۔ سود کو لوگ سود تصور ہی نہیں کرتے۔ اگر فیکٹری
بنانی ہوں ،شادی کرنی ہو ، گاڑی لینی ہو، الغرض
اگر کوئی سی پریشانی آتی ہے تو سودی قرض اٹھا لیتے ہیں ۔ ایک روایت سنیے اور لرز
اٹھیے ، اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں ۔ اللہ پاک کے آخری نبی نے فرمایا: سود ایک
درہم جس کو جان بوجھ کر کھائے گا، وہ چھتیس (36) مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔ نعوذ
با اللہ من ذالک اللہ کریم ہمیں سود سے محفوظ رکھے۔
محمد سرفراز عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفا ئے راشیدین فیز 7 راولپنڈی پاکستان)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمارا معاشرہ جہاں بے شمار و لاتعداد برائیوں اور
گناہوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ وہیں پر ایک خطر ناک بیماری سود بھی ہے۔ جس نے ہمارے
معاشرتی و معاشی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔ یاد رکھیے جس معاشرہ میں سود کو فروغ
دیا جائے۔ وہ معاشرہ آئے روز ذلت و رسوائی بدامنی اور بدمزاجی و بدخلقی اور جرائم
کے عمیق ترین گڑھوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کا عملی مشاہدہ کیا جا سکتا
ہے۔ سود کسی بھی معاشرے کے بگاڑ کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ اور ایسا کیوں کر نا ہو
کہ سودی شخص اللہ پاک اور اس کے حبیب علیہ السّلام کا باغی نافرمان اور دشمن ہے۔
(1) اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور
اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کے یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (2) یوں ہی معجم الاوسط کی
حدیث مبارکہ ہے کہ بے شک سود کے ستر دروازے ہیں اور ان میں سے کم ترین ایسے ہے جیسے
کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔ میرے آقا سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت
الشاہ امام احمد رضا خان فتاویٰ رضویہ ج17، ص307 پر اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے
بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے
کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا ۔ سود لینا
حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ہو سکتا۔
(3) حضرت سیدنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں
اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60،
حدیث:110) یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے
جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں
گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ
کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی
پہچان ہو گی۔
اللہ پاک سود خور کو آخرت میں ہلاک فرمائے گا۔ اس کی تمام
تر نیکیاں برباد و مردود کر دی جائیں گی۔ کیونکہ خراب بیج کا پھل بھی خراب ہی ہوتا
ہے اور سود خور کو اس کا مال نہ موت کے وقت کام آئے گا ۔نہ اس کے بعد کام آئے گا۔
چنانچہ (4) سرکارِ
عالی وقار علیہ الصلوة والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے کہ (ظاہری طور پر )سود اگرچہ
زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔
میرے پیارے اسلامی بھائیو! سود خور کے لیے دنیا اور آخرت
میں عذاب رب قہار و جبار سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہاں اگر شرعی تقاضوں کے مطابق
توبہ کرے تو بچت کی صورت ہو سکتی ہے ۔ سود حرامِ قطعی ہے اور مالِ حرام میں کوئی
بھلائی نہیں۔ بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے۔ مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ نہ قبول
ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے عذاب جہنم کا سبب بنتا ہے۔
چنانچہ۔(5) حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا
ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اُس میں برکت نہیں
اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے، الله پاک برائی سے برائی کو نہیں
مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔( المسند
للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن مسعود،2/34، حدیث: 3672)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہ تو احادیثِ طیبات کی روشنی
میں سود کی مذمت اور اس
کے اخروی نقصانات بیان ہوئے۔ مگر یاد رکھیے سود کے نہ صرف
اخروی نقصانات ہیں بلکہ سود کے دنیاوی اعتبار سے بھی بڑی نقصانات ہیں۔ مثلاً سود خور
دنیا میں حاسد بن جاتا ہے جس کے سبب وہ دنیا میں بھی بے چین و بے قرار سا رہتا ہے۔
یوں ہی سود خور بے رحم ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب وہ اپنے ہی حلقائے احباب میں ظالم و
جابر ہونے کے سبب ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے منہ پر اس کے شر سے
بچنے کے لیے اس کے فیور میں کوئی بات کر بھی دیں مگر اس کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ سود
خور گھر کے گھر تباہ کرتا ہے۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت
میں پاگلوں کی طرح مارا مارا گھومتا رہتا ہے۔ یہ بد نصیب دولت کا ہی ہو کر رہ جاتا
ہے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتا۔ یہ چند ایک دنیاوی اعتبار سے سود کے
نقصانات عرض کیے۔ بہرحال سود کا دنیاوی لحاظ سے اگر چہ کوئی نقصان نہ بھی ہو۔ پھر
بھی بندۂ مؤمن کو چاہیے کے کبھی بھی سود کے قریب تک نہ جائے۔ کیونکہ سود کھانا رب ذولجلال
کے عذاب کو دعوت دینے اور خود کو جہنمی بنانے کہ مترادف ہے۔ آپ کو ہو سکتا ہے بہت
سے ڈیڑھ ہوشیار بھی مل جائیں گے۔ اس میں کیا حکمت، تو اس میں کیا
راز ہے۔ ایسوں کے لیے یہی جواب ہونا چاہیے کے بھائی ہم عقل کے نہیں خدا کے بندے
ہیں۔ ہماری فلاح و کامرانی سودی لین دین سے بچنے اور رب ذولجلال احکم الحاکمین
کےفیصلوں کے سامنے سر ِخم کرنے میں ہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہمیشہ سود جیسی لعنت سے
بچائے رکھے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین
شناور غنی عطّاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
امام غزالی فیصل آباد پاکستان)

آج کے دور میں حصولِ مال کیلئے ایک ایسی دور شروع ہے کہ جس
کے اندر اکثر لوگ جو یہ فکر کیے بغیر دوڑتے نظر آتے ہیں کہ آیا حصولِ مال کا یہ
طریقہ حلال ہے یا حرام اور ان حرام طریقوں میں سے ایک انتہائی برا مذموم اور منحوس
طریقہ سود بھی ہے۔ جس کو شریعتِ مطہرہ نے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے ۔ گویا کہ یہ
ایک ایسا ناسور ہے جس نے کئی انسانوں اور کئی ریاستوں اور کئی ممالک کو اپنی لپیٹ
میں لے کر معیشت کو تباہ و برباد کر کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے ۔ آئیے اس
گھناؤنی بیماری کی مذمت میں شریعتِ مطہرہ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے ؟ اس کے بارے
میں کچھ جانتے ہیں۔
سود کی تعریف : عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف
زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/
769) ر با یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور اس کو حرام سمجھ کر
جو اس کا مرتکب ہو فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی
جاتی)ارشا دباری: اَحَلَّ اللّٰهُ
الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز
الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275) اس کے
علاوہ سورۃ ُالبقرہ آیت نمبر 276 اور 278 اور سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 130 میں
بھی سود کی ممانعت آئی ہے ۔
سود کی مذمت میں بکثرت احادیث وارد ہیں، آئیے ان میں سے
پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔(1)خون کا دریا : حضرت سمرہ
بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین
مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے، یہاں ایک
شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے،
یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور
سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا
ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا،
یہ کون شخص ہے؟ کہا، یہ شخص جو نہر میں ہے، سود خور ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع،
باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)
(2) ستر گناہوں کا
مجموعہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے ، ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ
آدمی اپنی ماں سے زِنا کرے ۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(3)وہ سب برابر ہیں : عن جابر لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم ،ص862،حدیث:106)
(4) 36 بار زنا کرنے
سے زیادہ برا : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ سرورِ کائنات
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا
ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 6/ 395،حدیث: 5523)(5)ایک زمانہ ایسا آئے گا :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی،ہے کہ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی
نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔(سنن ابی داؤد، کتاب
البیوع ،2/331،حدیث: 3331)
مدنی التجا: سود کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کا شائع
کردہ رسالہ سود اور اس کا علاج مطالعہ فرمائیں۔ الله پاک ہمیں سود سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو بھی سود کی آفت سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم