محمد مدنی رضا عطّاری(درجہ خامسہ ما ڈل جامعۃُ المدینہ
اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)
سود کو عربی زبان میں "ربا" کہتے ہیں۔ جس کے معنی
ہیں "زیادتی "۔ اصطلاح میں سود سے مراد یہ ہے کہ وہ خرید و فروخت جس میں
دونوں طرف سے مال ہو اور ایک طرف سے زیادتی ہو لیکن اس کے بدلے کچھ بھی نہ ہو۔
(بہار شریعت ،2/769) آج ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں
ان میں سے ایک بیماری جو بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ سود ہے۔ سود ایک ایسی شے ہے جس
میں مال بظاہر تو بڑھتا ہے۔ لیکن اس میں برکت نہیں ہوتی۔ قراٰنِ پاک میں سود کی
حرمت کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے اللہ کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) ترجمۂ کنزالعرفان:
اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے
اسے چھوڑ دو۔(پ3،البقرۃ: 278)
(1) مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے
والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم
،ص862،حدیث:106)(2) حضرت
عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ
چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام أحمد بن حنبل،حدیث عبداللہ بن
حنظلۃ،8/223،حدیث: 22016)
(3)حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی نے
فرمایا: سود کا گناہ ستر (70) حصہ ہے ، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص
اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(4)حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ اللہ
پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (سود سے بظاہر) اگرچہ
مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (المسند للامام أحمد بن حنبل،مسند
عبداللہ بن مسعود،2/50،حدیث: 3754)
(5) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس
کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے
ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن
ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! سود کی وجہ سے غریب کے لیے
ہمدردی کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے ۔ امیر لوگ تو مال جمع کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ غریب
ویسا کا ویسا غریب ہی رہتا ہے۔ سود کو لوگ سود تصور ہی نہیں کرتے۔ اگر فیکٹری
بنانی ہوں ،شادی کرنی ہو ، گاڑی لینی ہو، الغرض
اگر کوئی سی پریشانی آتی ہے تو سودی قرض اٹھا لیتے ہیں ۔ ایک روایت سنیے اور لرز
اٹھیے ، اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں ۔ اللہ پاک کے آخری نبی نے فرمایا: سود ایک
درہم جس کو جان بوجھ کر کھائے گا، وہ چھتیس (36) مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔ نعوذ
با اللہ من ذالک اللہ کریم ہمیں سود سے محفوظ رکھے۔
محمد سرفراز عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفا ئے راشیدین فیز 7 راولپنڈی پاکستان)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمارا معاشرہ جہاں بے شمار و لاتعداد برائیوں اور
گناہوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ وہیں پر ایک خطر ناک بیماری سود بھی ہے۔ جس نے ہمارے
معاشرتی و معاشی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔ یاد رکھیے جس معاشرہ میں سود کو فروغ
دیا جائے۔ وہ معاشرہ آئے روز ذلت و رسوائی بدامنی اور بدمزاجی و بدخلقی اور جرائم
کے عمیق ترین گڑھوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کا عملی مشاہدہ کیا جا سکتا
ہے۔ سود کسی بھی معاشرے کے بگاڑ کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ اور ایسا کیوں کر نا ہو
کہ سودی شخص اللہ پاک اور اس کے حبیب علیہ السّلام کا باغی نافرمان اور دشمن ہے۔
(1) اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور
اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کے یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (2) یوں ہی معجم الاوسط کی
حدیث مبارکہ ہے کہ بے شک سود کے ستر دروازے ہیں اور ان میں سے کم ترین ایسے ہے جیسے
کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔ میرے آقا سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت
الشاہ امام احمد رضا خان فتاویٰ رضویہ ج17، ص307 پر اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے
بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے
کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا ۔ سود لینا
حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ہو سکتا۔
(3) حضرت سیدنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں
اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60،
حدیث:110) یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے
جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں
گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ
کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی
پہچان ہو گی۔
اللہ پاک سود خور کو آخرت میں ہلاک فرمائے گا۔ اس کی تمام
تر نیکیاں برباد و مردود کر دی جائیں گی۔ کیونکہ خراب بیج کا پھل بھی خراب ہی ہوتا
ہے اور سود خور کو اس کا مال نہ موت کے وقت کام آئے گا ۔نہ اس کے بعد کام آئے گا۔
چنانچہ (4) سرکارِ
عالی وقار علیہ الصلوة والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے کہ (ظاہری طور پر )سود اگرچہ
زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔
میرے پیارے اسلامی بھائیو! سود خور کے لیے دنیا اور آخرت
میں عذاب رب قہار و جبار سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہاں اگر شرعی تقاضوں کے مطابق
توبہ کرے تو بچت کی صورت ہو سکتی ہے ۔ سود حرامِ قطعی ہے اور مالِ حرام میں کوئی
بھلائی نہیں۔ بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے۔ مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ نہ قبول
ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے عذاب جہنم کا سبب بنتا ہے۔
چنانچہ۔(5) حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا
ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اُس میں برکت نہیں
اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے، الله پاک برائی سے برائی کو نہیں
مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔( المسند
للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن مسعود،2/34، حدیث: 3672)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہ تو احادیثِ طیبات کی روشنی
میں سود کی مذمت اور اس
کے اخروی نقصانات بیان ہوئے۔ مگر یاد رکھیے سود کے نہ صرف
اخروی نقصانات ہیں بلکہ سود کے دنیاوی اعتبار سے بھی بڑی نقصانات ہیں۔ مثلاً سود خور
دنیا میں حاسد بن جاتا ہے جس کے سبب وہ دنیا میں بھی بے چین و بے قرار سا رہتا ہے۔
یوں ہی سود خور بے رحم ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب وہ اپنے ہی حلقائے احباب میں ظالم و
جابر ہونے کے سبب ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے منہ پر اس کے شر سے
بچنے کے لیے اس کے فیور میں کوئی بات کر بھی دیں مگر اس کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ سود
خور گھر کے گھر تباہ کرتا ہے۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت
میں پاگلوں کی طرح مارا مارا گھومتا رہتا ہے۔ یہ بد نصیب دولت کا ہی ہو کر رہ جاتا
ہے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتا۔ یہ چند ایک دنیاوی اعتبار سے سود کے
نقصانات عرض کیے۔ بہرحال سود کا دنیاوی لحاظ سے اگر چہ کوئی نقصان نہ بھی ہو۔ پھر
بھی بندۂ مؤمن کو چاہیے کے کبھی بھی سود کے قریب تک نہ جائے۔ کیونکہ سود کھانا رب ذولجلال
کے عذاب کو دعوت دینے اور خود کو جہنمی بنانے کہ مترادف ہے۔ آپ کو ہو سکتا ہے بہت
سے ڈیڑھ ہوشیار بھی مل جائیں گے۔ اس میں کیا حکمت، تو اس میں کیا
راز ہے۔ ایسوں کے لیے یہی جواب ہونا چاہیے کے بھائی ہم عقل کے نہیں خدا کے بندے
ہیں۔ ہماری فلاح و کامرانی سودی لین دین سے بچنے اور رب ذولجلال احکم الحاکمین
کےفیصلوں کے سامنے سر ِخم کرنے میں ہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہمیشہ سود جیسی لعنت سے
بچائے رکھے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین
شناور غنی عطّاری(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
امام غزالی فیصل آباد پاکستان)
آج کے دور میں حصولِ مال کیلئے ایک ایسی دور شروع ہے کہ جس
کے اندر اکثر لوگ جو یہ فکر کیے بغیر دوڑتے نظر آتے ہیں کہ آیا حصولِ مال کا یہ
طریقہ حلال ہے یا حرام اور ان حرام طریقوں میں سے ایک انتہائی برا مذموم اور منحوس
طریقہ سود بھی ہے۔ جس کو شریعتِ مطہرہ نے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے ۔ گویا کہ یہ
ایک ایسا ناسور ہے جس نے کئی انسانوں اور کئی ریاستوں اور کئی ممالک کو اپنی لپیٹ
میں لے کر معیشت کو تباہ و برباد کر کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے ۔ آئیے اس
گھناؤنی بیماری کی مذمت میں شریعتِ مطہرہ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے ؟ اس کے بارے
میں کچھ جانتے ہیں۔
سود کی تعریف : عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف
زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/
769) ر با یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور اس کو حرام سمجھ کر
جو اس کا مرتکب ہو فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی
جاتی)ارشا دباری: اَحَلَّ اللّٰهُ
الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز
الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275) اس کے
علاوہ سورۃ ُالبقرہ آیت نمبر 276 اور 278 اور سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 130 میں
بھی سود کی ممانعت آئی ہے ۔
سود کی مذمت میں بکثرت احادیث وارد ہیں، آئیے ان میں سے
پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔(1)خون کا دریا : حضرت سمرہ
بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین
مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے، یہاں ایک
شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے،
یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور
سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا
ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا،
یہ کون شخص ہے؟ کہا، یہ شخص جو نہر میں ہے، سود خور ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع،
باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)
(2) ستر گناہوں کا
مجموعہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے ، ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ
آدمی اپنی ماں سے زِنا کرے ۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(3)وہ سب برابر ہیں : عن جابر لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے
گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم ،ص862،حدیث:106)
(4) 36 بار زنا کرنے
سے زیادہ برا : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ سرورِ کائنات
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا
ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 6/ 395،حدیث: 5523)(5)ایک زمانہ ایسا آئے گا :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی،ہے کہ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی
نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔(سنن ابی داؤد، کتاب
البیوع ،2/331،حدیث: 3331)
مدنی التجا: سود کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کا شائع
کردہ رسالہ سود اور اس کا علاج مطالعہ فرمائیں۔ الله پاک ہمیں سود سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو بھی سود کی آفت سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
غلام نبی عطّاری (درجہ دورة الحديث جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ آفندی ٹاؤن حیدر آباد پاکستان)
سود بہت ہی بری صفت ہے اور اس کی مذمت بہت سخت انداز میں
بیان کی گئی ہے اور اس پُر فتن دور بعض لوگ سود (Interest) کے بارے میں بہت کلام کرتے ہیں
اور طرح طرح سے سودی معاملات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ
سود کی اتنی سخت روایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے، کبھی کہتے ہیں اگر سودی
کاروبار بند کر دیں گے تو بین الاقوامی منڈی ( International Market ) کیسے کر سکیں
گے ؟ کبھی کہتے ہیں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے اور کبھی انتہائی کم شرح سود
کی آڑ لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں۔ طرح طرح کی بدترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ جو کہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہیں۔ اعلیٰ حضرت،
امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت، پروانۂ شمعِ رسالت، مولانا الشاہ امام احمد رضا
خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے
ارشاد فرماتے ہیں: کافروں نے اعتراض کیا تھا : (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-) بےشک بیع بھی تو سود کی مثل ہے۔ تم جو خریدو فروخت کو
حلال اور سود کو حرام کرتے ہو ان میں کیا فرق ہے؟ بیع میں بھی تو نفع لینا ہوتا
ہے۔ یہ اعتراض نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ
علیہ نے الله پاک کا یہ فرمان نقل کیا: (وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ) یعنی الله نے حلال کی بیع اور حرام کیا سود۔ اور پھر
ارشاد فرمایا: تم ہوتے ہو کون؟ بندے ہو، سرِ بندگی خم کرو۔ حکم سب کو دیئے جاتے ہیں،
حکمتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے، آج دنیا بھر کے ممالک میں کسی کی مجال ہے کہ
قانون ملکی کی کسی دفعہ پر حرف گیری کرے کہ یہ بےجا ہے، یہ کیوں ہے؟ یوں نہ ہونا
چاہئے، یوں ہونا چاہئے۔ جب جھوٹی فانی مجازی سلطنتوں کے سامنے چون وچرا کی مجال نہیں
ہوتی تو اس ملک الملوک، بادشاہِ حقیقی، اَزَلی، اَبدی کے حضور کیوں اور کس لئے، کا
دم بھرنا کیسی سخت نادانی ہے۔(فتاوی رضویہ، 17/ 359) اور جو ان احکامات کو قید و
بند سے تعبیر کرتا ہے کہ یہ کیسی قیود ہم پر لازم کر دی گئیں؟ اسے اعلیٰ حضرت
،مجددِ دین و ملت رحمۃُ اللہ علیہ سمجھا رہے ہیں: جو آج بے قیدی چاہے کل نہایت
سخت قید میں شدید قید میں گرفتار ہو گا۔ اور جو آج احکام کا مُقیَّد رہے کل بڑے چَین
کی آزادی پائے گا۔ اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا مسلمان کے لئے قید خانہ ہے،
کافر کے لئے جنت، مسلمانوں سے کس نے کہا کہ کافروں کی اموال کی وسعت اور طریقِ تحصیلِ
آزادی اور کثرت کی طرف نگاہ پھاڑ کر دیکھے۔ اے مسکین !تجھے تو کل کا دن سنوارنا
ہے: یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى
اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن نہ
مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر ۔( پ19،
الشعراء : 89،88)
اے مسکین! تیرے رب نے پہلے ہی تجھے فرما دیا ہے: وَ لَا تَمُدَّنَّ
عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا ﳔ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۱۳۱) اپنی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ اس دنیاوی زندگی کی طرف جو ہم
نے کافروں کے کچھ مردوں و عورتوں کے برتنے کو دی تا کہ وہ اس کے فتنہ میں پڑ ے رہیں
اور ہماری یاد سے غافل ہوں اور تیرے رب کا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا۔ (فتاوی
رضویہ، 17/ 360)(ماخوذ سود اور اس کا علاج ص 18 تا 20 )
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے اس مکمل کلام سے یہ بات
معلوم ہوتی ہے کہ سود کو ترک (چھوڑنا ) اور بہتر مال کو استعمال کرنا مسلمانوں پر
لازم ہے اور اللہ پاک کے فرا مین بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں اور اب کچھ احادیث
کی روشنی میں سود کی مذمت ملاحظہ کیجئے۔
(1) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ
جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی
اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(2) حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں سودہ پھیلتا ہے۔ اس قوم میں
پاگل پن پھیلتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص70)
(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے
والے، سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں
۔(صحیح مسلم،ص862، حدیث: 1598)(4)حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے
کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(المعجم الاوسط، 5/227،حديث: 7151)
مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ الله پاک کے معاملہ میں چون
و چرا کرے اور کفار کے مال کی فراوانی دیکھ کر اپنے آپ کو حرام روزی میں مبتلا
کرے، مگر ہائے افسوس! صد کروڑ افسوس! آج مسلمان بے باکی کے ساتھ گناہوں کی طرف
بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اور دنیا کی زیب و زینت میں اس قدر منہمک ہوتا جا رہا ہے کہ
اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں رہی کہ جو قرض (Loan) لے رہا ہے وہ سود (Interest) پر مل رہا ہے یا
بغیر سود(Interest)۔ مثلاً : ”بیٹی
کی شادی کرنا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟“ پریشان اس لئے ہو رہا ہوں کہ سادگی سے شادی تو
کر لوں گا لیکن یہ رسومات (Customs,
Traditions)، یہ ڈھولک، یہ مہندی، یہ ناچ
گانا، یہ باجے، یہ کئی کئی ڈِشوں کا کھانا اور پھر بہت سے لوگوں کو جمع کر کے اپنی
شہرت چاہنے کی ہوس۔ اس کیلئے تو بہت بڑی رقم چاہئے۔ تو کوئی مشورہ دیتا ہے:”کیوں
پریشان ہوتے ہو؟ تم بھی اپنی بیٹی کی شادی کر لو گے، پریشان مت ہو، قرض دینے والے
ادارے بہت ہیں، قرض لے لو، سود دے دینا۔
ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟ ارے مال و دنیا اور بیوی بچوں کی بے
جامحبت نے اتنا اندھا کر دیا کہ سودی کاروبار اور سودی لین دین میں پڑ گئے۔ اگر
الله پاک ناراض ہو گیا اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم روٹھ
گئے اور سود کی وجہ سے عذاب نے آلیا تو کیا کریں گے؟
الله پاک ہمیں تمام گنا ہوں محفوظ فرمائے بالخصوص سود سے
محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ وقاص احمد (درجۂ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان رائے
ونڈ لاہور پاکستان)
میٹھے اور پیارے اسلامی بھا ئیو ! موجودہ دور میں سود معاشرے
کا ایک ناسور بن چکا ہے جس کے برے اثرات سے اکثر لوگ متاثر ہیں۔ اسے مختلف ناموں
سے کھایا اور معاشرہ کے متوسط اور پسماندہ طبقے کے افراد کا ناحق خون چوسا جاتا
ہے۔ یہ عصرِ حاضر کا ایک حساس موضوع ہے۔ جسے سمجھنے سمجھا نے اس کی باریکیوں کو
جاننے اور اس سلسلہ میں صحیح اسلامی تعلیمات نیز سودی لین دین کاروبار یا اس میں
کسی بھی طرح کا تعاون کرنے کے سلسلہ میں جو احادیث میں وعیدیں وارد ہیں انہیں بیان
کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کثیر احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھر پور مذمت فرمائی گئی
ہے۔ چنانچہ (1) شہنشاہِ
مدینہ ، سرورِقلب وسینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے : سات
چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد کرنے والی ہیں۔ “ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک
کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا
(4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ
جانا (7)اور پاکدامن ، شادی شدہ ، مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔(صحیح البخاری کتاب
الوصایا باب ان الذین یاکلون اموال الیتیم الخ،2/ 242، حدیث :2766)
(2) حضرت سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے
تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر
للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(3) نبیوں کے سلطان
سرور ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس قوم میں سود
پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے ۔ (کتاب الکبائر للذھبی ، الکبیرۃ
الثانیۃ عشرۃ ،ص 70)
(4) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا
جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی
دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور
ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)(5) حضرت سیدنا جابر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے، سود کے دونوں گواہوں پر
لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ،
باب لعن آکل الربوا… الخ،ص862، حدیث: 1598)
مدنی چینل پر آج رات ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں رکن
شوریٰ حاجی عبد الحبیب عطاری بیان فرمائیں گے
عاشقان
رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ 19 جنوری 2023ء بروز
جمعرات دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائیگا جن میں
مبلغین دعوت اسلامی و اراکین شوریٰ سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔
تفصیلات
کے مطابق تاج گارڈن نواب شاہ سانگھڑ سے براہ راست مدنی چینل پر ہونے والے ہفتہ وار
اجتماع میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن مولانا حاجی عبد الحبیب عطاری
سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
اس کے
علاوہ عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں رکن شوریٰ حاجی محمد علی عطاری اور
مدنی مرکز فیضان مدینہ موہری روڈ کھاریاں میں رکن شوریٰ مولانا حاجی محمد اسد
عطاری مدنی سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
حافظ مزمل عطّاری (مدرس فیضان آن لائن اکیڈمی فیضان
مدینہ ملتان پاکستان)
سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ جس کا لغوی معنی ہے
زیادتی۔ فتاوی رضویہ میں ہے : حدیث پاک میں ہے کہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد
فرمایا: : کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِباً یعنی قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ (فتاویٰ
رضویہ،17/713)سود کھانے سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ۔ اللہ کریم قراٰنِ
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)اس آیتِ مبارکہ میں
سود کھانے سے منع فرمایا گیا اور سود کو حرام قرار دیا گیا۔ سود حرام قطعی ہے اسے
حلال جاننے والا کا فر ہے۔ سود کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں بھی سخت وعیدیں آئی
ہیں ۔ سود کی مذمت پر 5 احادیثِ مبار کہ درج ذیل ہیں:۔(1)پیٹ میں سانپ : نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن
کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے
تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو
انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، 3/ 71، حدیث: 2273)
(2)اپنی ماں سے زنا :
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیٔ
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان
میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)(3)سب برابر گناہ گار ہیں: حضرت
جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی نے ارشاد فرمایا: لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ یعنی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود
کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا
کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093)
کرلے تو بہ رب کی رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی
(4)برباد کر دینے
والی سات چیزیں: اللہ کے آخری نبی نے فرمایا: ہلاک کرنے والی سات گناہوں سے
بچو! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:(1) شرک کرنا،(2) جادو کرنا، (3) کسی کو ناحق قتل کرنا،(4) سود کھانا، (5)یتیم
کا مال کھانا، (6)میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا اور(7) پاک دامن شادی شدہ
مؤمنہ عورتوں پر بہتان لگانا۔ (صحیح البخاری کتاب الوصایا باب ان الذین یاکلون
اموال الیتیم الخ، حدیث :2766)(5)
بروزِ قیامت سودخور کی حالت: حضرت سیدُنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے
مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے
دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110)
سود و رشوت میں نحوست ہے بڑی نیز دوزخ میں سزا ہو گی کڑی
پیارے اور میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے پڑھا کہ سود خور کے
لیے قراٰن و حدیث میں کیا کیا وعیدیں آئی ہیں اور یاد رکھیں۔ آپ دنیا میں جتنا بھی
مال کمالیں سارا کا سارا مال دنیا میں ہی رہ جانا ہے اور آپ اپنے ساتھ کچھ بھی لے
کر نہیں جا سکیں گے۔ حرام طریقے سے کمانے پر آپ کو قبر و حشر میں رسوائی کا سامنا
کرنا پڑے گا۔ سود خور جتنا مرضی مال جمع کر لے لیکن اس کی تمنا ،اس کا دل کبھی
نہیں بھرے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ اگر انسان کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری
کی تمنا کرے گا اور انسان کے پیٹ کو صرف مٹی ہی بھر سکتی ہے اور جو شخص تو بہ کرتا
ہے اللہ اس کی تو بہ کو قبول فرماتا ہے۔ (مسلم شریف ، کتاب الزکوۃ ، حدیث :1048)
پیارے اسلامی بھا ئیو ! آپ نے کبھی بھی کسی مالدار کر یہ
کہتے ہوئے نہیں سنا ہوگا کہ اب بہت مال کما لیا، بلکہ وہ مزید مال کمانے کی کوشش
میں لگا رہتا ہے۔ اور اسی طرح کوئی عالم ایسا نہیں ملے گا کہ جو یہ کہے: بہت پڑھ لیا،
اب مجھے مزید پڑھنے کی حاجت نہیں۔ بلکہ ہر عالم مزید علم کی طلب میں رہتا ہے۔ حدیثِ
مبارکہ میں بھی آیا ہے رسولُ اللہ نے ارشاد فرمایا :دو حریص کبھی سیر نہیں ہو سکتے،
ایک مال کا حریص اور دوسرا علم کا حریص۔( المستدرک للحاکم، 1/282، حدیث: 318)
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں علم کا حریص بنائے۔
مال کی حرص سے محفوظ فرمائے۔ خود کا کام کرنے اور سود کے کام میں معاونت کرنے سے
بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتے
ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں
دعا کرتے ہیں
محمد زبیر (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبداللہ
شاہ غازی کلفٹن کراچی پاکستان)
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سود کو ہر مذہب کی تعلیمات
میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور اسی طرح کوئی بھی مہذب معاشرہ سود کے جواز کی بات نہیں
کرتا ۔ خصوصاً اسلام نے تو سودی نظام کو ناسور اور تباہ کن قرار دیا ہے۔ اللہ کریم
نے ارشاد فرمایا: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا یعنی اللہ سود کو مٹا دیتا ہے اور برباد کر دیتا ہے۔ جو شخص سود سے دولت جمع
کرتا ہے انکی دولت سے خیر کو مٹا دیتا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس نظامِ
معیشت میں سود داخل ہو جائے اس معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ اور سودی نظام چلانے
والوں سے اللہ کریم نے جنگ کا اعلان فرمایا ہوا ہے اور کون ہے جو اللہ سے جنگ کر
سکتا ہے۔ وہ ایک لمحے سے پہلے اگر چاہے تو زمین کو اُٹھا کے آسمانوں تک پہنچا کے
پلٹ دے اور نیست و نابود کر دے۔ لیکن یہ انسان احساس ہی نہیں کرتا کہ اُس نے سود
کھا کے کتنی بڑی جرات کرلی ، کتنا بڑا وہ جرم کر رہا ہے ۔ حدیثِ پاک میں کئی جگہ
سود کی مذمت بیان کی گئی ہے ۔ حدیث پاک میں ہے :۔(1)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے
اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر
ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)
(2) احمد نے ایک طویل حدیث میں ، ابن ماجہ نے مختصراً اور
اصبہانی نے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا
کہ جب مجھے معراج میں سیر کرائی گئی اور ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اوپر
دیکھا تو مجھے بجلی کی کڑک اور گرج چمک نظر آئی، پھر میں نے ایسی قوم کو دیکھا جن
کے پیٹ مکانوں کی طرح تھے اور باہر سے ان کے پیٹوں میں چلتے پھرتے سانپ نظر آرہے
تھے، میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ سود خور ہیں ۔ (مسند
احمد ، مسند ابی ھریرۃ ، 3/269، حدیث :8648)(3)روایت
سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: سود کے ستر حصے ہیں جن سے کمترین حصہ یہ ہے کہ انسان اپنی
ماں سے زنا کرے۔( ابن ماجہ، حدیث:2274)
(4) احمد نے بسندِ صحیح
اور طبرانی نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
انسان کا جان بوجھ کر ایک درہم سود کھانا تینتیس 33 مرتبہ زنا کرنے سے بدتر ہے۔( مسند احمد، مسند
الانصار، حدیث عبداللہ بن حنظلۃ۔۔۔الخ ،8/223، حدیث :22016)(5) حضرت
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :سود خور کو قیامت کے دن جنون کی حالت میں
اٹھایا جائے گا کہ اس کے سود کھانے کے بارے میں سب اہلِ محشر جان لیں گے۔ (کتاب
الکبائرللذہبی،الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ،باب الریاء،ص68)
ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو سودی کاروبار
کی نحوست سے محفوظ رکھے اور ہمیں اسلامی اقتصادیات کی برکات سے مالا مال فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مدثر رضوی عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو ! فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار
برائیوں میں مبتلا ہے۔ وہیں ایک مذموم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے
ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے فرض ملنا ہو
گیا ہے لہذا آئیے اس بھیانک بیماری کے بارے میں جانتے ہیں۔ جو ایک وبا کی طرح
ہمارے معاشرے میں پھیلتی چلی جارہی ہے۔ حالانکہ قرض دینے کے بے شمار فضائل احادیث
میں وارد ہیں۔
اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہیں: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ
اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان :
اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں
کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
حدیث (1) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ حضور سیدُ
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے
والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں
برابر ہیں۔ (مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)حدیث نمبر (2) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے
، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)
حدیث نمبر (3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس
کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان،
4 / 395، حدیث: 5523)حدیث نمبر (4) حضرت سیدنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ،
نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276)حدیث نمبر (5) حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: سُود ستر گناہوں کا مجموعہ ہے، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں
سے زِنا کرے ۔ (سنن ابن ماجہ ،3/72، حدیث:2274)
عطاء المصطفى صديق (درجہ دورة الحدیث مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد پاکستان)
آج سود لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے۔ حالانکہ شریعتِ
مطہرہ میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور اس میں دنیاوی و اخروی نقصانات ہیں۔ جسے
اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
سود حرامِ قطعی ہے اور اسے حلال جانے والا کافر ہے۔ اور سودخور
قیامت میں ایسے مخبوط الحواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے جیسے دنیا میں
وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو۔ کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کیلئے بھوت بنا ہوا
تھا۔آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہوتا ہے، اچھے اچھے
ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد قرض دینے والوں کو خوش اخلاقی، ملنساری
اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔ جو
گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔
آئیے سود کی مذمت پر پانچ احادیث ملاحظہ کیجیے :۔(1) حضرت جابر بن عبد اللہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت
فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)(2) حضرت عبد اللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے
زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)
(3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا
ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب
الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)(4) حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے
تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان
لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے
تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3/ 71، حدیث: 2273)
(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ سرکارِ دو
عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک سود 70 گنا ہوں کا مجموعہ
ہے، ان میں سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔ (ابن ماجہ،3/72،حدیث:
2274) اور سود کا معاشرے پر بھی بہت برا اثر ہوتا ہے۔ سود دینے والا بے رحم ہو
جاتا ہے۔ وہ مفت میں کسی کو رقم دینے کا تصور نہیں کرتا۔ انسانی ہمدردی اس سے رخصت
ہو جاتی ہے۔ قرض لینے والا ڈوبے ، مرے ، تباہ ہو ،یہ بہر صورت اسے نچوڑنے پر تلا
رہتا ہے اسے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔
قراٰنِ کریم اور احادیث طیبہ میں اللہ اور اس کے رسول نے سود
کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ اگر ہم ان وعیدات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ
قراٰن و حدیث پر عمل پیرا ہوں۔
سو دو رشوت میں نحوست ہے بڑی نیز دوزخ میں سزا ہو گی کڑی
جمیل الرحمٰن عطّاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
سود حرامِ قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قرآن و
حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت 275،276،278 میں
بھی سود کی حرمت کا بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔ پہلے قراٰنِ پاک سے ملاحظہ
فرمائیں۔ الله پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ ۔ (پ4،اٰل عمران : 130) اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا
گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی
مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا
اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جارہا ہے۔
احادیث مبارکہ میں سود کی بہت مذمت بیان ہوئی ہے۔ چند
ملاحظہ ہو:۔(1) حضرت
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے
پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)
(2) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان
میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)(3) حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ
بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ
گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن
ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/ 72، حدیث: 2273)
سود کی مذمت پر اور بھی آیات اور احادیثِ مبارکہ مذکور ہیں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سود جیسی بری چیز سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبدالرحمن عطّاری (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
الله پاک نے قراٰنِ پاک میں پارہ تین سورۃُ البقرہ آیت نمبر
275 میں ارشاد فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے
دن نہ کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کے کھڑے ہونے کی طرح جسے آسیب نے چھو کرپاگل بنا دیا
ہو۔(پ3،البقرۃ:275)
(1)مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود دینے والے اور لینے والے ، اس کے کاغذات تیار کرنے
والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
(مسلم، ص 862،حدیث: 106)(2)حضرت
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا
کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 6/ 395،حدیث: 5523)
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر
ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے
تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو
انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب
التغلیظ فی الربا، 3/ 71، حدیث: 2273) (4)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان
میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)
Dawateislami