اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

روزمرہ کے اَخراجات جو زندگی کی گاڑی چلانے، عزت اور صحت کو بحال رکھنے اور دوسرے حقداروں پر خرچ کرنے کے لیے ضروری ہیں کہ علاوہ غیر ضروری اور نامناسب اخراجات سے احتراز کرنے اور اعتدال پسندی کو اپنا شعار بنانے کو کفایت شعاری کہتے ہیں ۔

کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حالت میں مفید ثابت ہوتی ہے اور ایسا عمل ہے جو ہر حال میں عمدہ و معاون ثابت ہوتا ہے،تندرستی ہو یا بیماری، جنگ ہو یا امن، انسان گھر پر ہو یا باہر کفایت شعاری تفکرات اور پریشانیوں کو کم کرتی ہے اور زندگی خوش اَسلوبی اور چین سے گزرتی ہے،

ضرورت کے لیے خرچ تو بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے، کوئی ضرورت پر بھی نہیں کرتا گویا یہ مختلف طریقے ہیں جس سے انسان زندگی گزارتا ہے، لیکن ان سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ کفایت شعاری اور اعتدال پسندی کو اپنا شعار بنایا جائے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:" بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔

اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے کہ بہترین کام وہ ہیں جن میں میانہ روی اختیار کی جائے۔

فضول خرچی نہ خدا کو پسند ہے اور نہ ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو، اس میں اپنا بھی نقصان، خون پسینے سے کمایا ہوا روپیہ فضول اور غیر ضروری کاموں پر خرچ کر دینا اور خود تکلیف اُٹھانا بھی تو عقلمندی نہیں ہے، فضول خرچ لوگ اپنی حالت سے اس قدر مُطمئن ہو جاتے ہیں کہ آئندہ کی پرواہ نہیں کرتے، مثل مشہور ہے کہ" فضول خرچی سے تو خزا نے بھی خالی ہو جاتے ہیں" ایسے لوگ خواہ ان کے پاس کتنی دولت کیوں نہ ہو، چند روز میں قلاش ہو جاتے ہیں۔پُرانا مقولہ ہے کہ" چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہیے۔

یعنی ہمیں روپیہ خرچ کرنے میں اِحتیاط سے کام لینا چاہیے، نہ تو کنجوس بننا چاہیے اور نہ ہی فضول خرچ، اَخراجات ہمیشہ آمدنی سے کم ہونے چاہیئں، ہمیں سادہ زندگی گزارنی چاہیے اس سے تسکین بھی رہتی ہے اور فضول خر چی کے نُقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے، فضول خرچ ہمیشہ پریشان ہی دیکھے گئے ہیں، چاہے ان کی آمدنی کتنی ہی کیوں نہ ہو۔

لوگ شادی بیاہ، غمی خوشی پر بے جاخرچ کرتے ہیں، اُمراء تو زیادہ خرچ کر سکتے ہیں مگر غریب لوگ بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں، اگر سادہ زندگی بسر کرنے اور اعتدال پسندی کی عادت پڑ جائے تو تقریبات بھی سادگی سے سر اَنجام دی جاسکتی ہیں، کفایت شعاری کو اپنانے کے لیے روزمرہ کا حساب لکھنا ضروری ہے، خر چ کرتے وقت کئی بار سوچنا چاہئے کہ آیا یہ ہمارے لیے ضروری ہے یا نہیں؟

تھوڑی آمدنی سے بھی کچھ نہ کچھ بچا لینا عقلمندی اور دُور اندیشی کا تقاضا ہے، ہمارے مُلکی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم اِسراف سے احتراز کریں، ہماری بے شمار ضروریات ایسی بھی ہیں جن کے لیے سرمائے کی اَشد ضرورت ہے، ہمارے بے شمار منصوبے نامکمل پڑے ہیں جن پر ہماری ترقی کا انحصار ہے، جو روپیہ ہم فضول خرچی میں ضائع کرتے ہیں، اگر اُسے بچاکر ان منصوبوں پر لگایا جائے تو ملک کی معاشی ترقی میں مدد مل سکتی ہے۔

"کفایت شعاری ایک قومی دولت ہے ۔( قائد اعظم محمد علی جناح)

میں تو خود بھی اسے کفایت سے خرچ کرو ں

وہ ہے مہنگائی میں مُشکل میں کمایا ہوا شخص


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔( پ19، فرقان :67)

یہاں کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال ذکرفرمایا جارہا ہے کہ وہ اسراف اور تنگی دونوں طرح کے مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں (کفایت شعاری اختیار کرتے ہیں )۔

لہٰذا حق يہ ہے کہ جہاں خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل ہے اور جہاں خرچ نہ کرنا واجب ہو وہاں خرچ کرنا فضول خرچی اور اسراف ہے اور ان دونوں کی درميانی صورت قابلِ تعريف ہے اور يہی وہ صورت ہے جسے کفایت شعار ی سے تعبير کرنا چاہے، کيونکہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو اسی کا حکم ديا گيا ہے۔چنانچہ،

ایک حدیث مبارکہ کا جز ہے کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے غنی فرما دیتا ہے، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے تنگدست کر دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ پاک کا ذکرکرتا ہے اللہ پاک اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔

(جہنم میں لےجانے والے اعمال ، 1/259 )

حضرت سیِّدُنا ابوذَرغِفَاری رَضِیَ اللہ عَنْہ فرماتے ہیں:آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنا دست ِ اقدس میرے سینے پر مار کر فرمایا:’’اے ابو ذَر! کفایت شعاری سے بڑھ کر کوئی عقلمندی نہیں، گناہوں کو چھوڑنے سے بڑھ کر کوئی تقویٰ و پرہیز گاری نہیں اور حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی شرافت نہیں۔‘‘ (حلیۃ الاؤلیا ءو طبقات الاصفیا ء،جلد ۱ ، ۳۲۱)

کسی نے حضرت سیِّدُناحسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی:ہمیں صحابۂ کرام کی صفات بتائیے۔آپ نے روتے ہوئے فرمایا: ’’ان سے بہت سی علامات ِخیر ظاہر ہوتی تھیں خاص طورپرہدایت،سچائی ،کفایت شعاری اپناتے ہوئے کھردرالباس زیب تن کرنا، عاجزی وانکساری سے چلناپھرنا، رزق حلال ہی کھانا پینا، خشوع وخضوع سے اطاعت ِ الٰہی بجالانا، رضائے الٰہی کی خاطر ہی محبت ونفرت کرنا، نیز ان کے اخلاق اچھے، اخراجات قلیل اورآخرت کے معاملے میں دنیا کا قلیل مال ہی ان کے لئے کافی ووافی تھا۔‘‘

(حلیۃ الاؤلیا ءو طبقات الاصفیا ء،جلد۲ ،ص ،۲۳۷)

حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرتِ سیِّدُناحماد رحمۃ اللہ علیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:)اے میرے بیٹے! اللہ پاک تجھے ہدایت دے اور تیری مدد فرمائے! میں تجھے چندباتوں کی نصیحت کرتا ہوں، اگر تم نے انہیں یاد رکھا اوران پر عمل کیا تو مجھے اُمید ہے کہ دُنیا وآخرت میں سعا دت مند رہو گے۔ ان نصیحتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اپنے پاس موجود مال میں حسنِ تدبیریعنی کفایت شعاری سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔ (امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی وصیتیں ،ص ۳۲)

مفتئ دعوتِ اسلامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی کفایت شعاری جیسی عظیم خوبی سے متصف تھے آپ کی کفایت شعاری کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنی الماری میں صرف چار جوڑے رکھتے، ماہِ ربیعُ النُور میں نئے کپڑے سلواتے تو پرانے کسی کو دے ديتے۔انتقال سے کچھ عرصہ قبل جب پنجاب تشریف لے گئے تو اپنے تمام جوڑے ساتھ لے گئے اور تقسیم کر دیئے تھے۔ (مفتیٔ دعوت اسلامی،ص ۳۹)


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

دنیا میں اللہ پاک نے تمام انسانوں کو ایک جیسا رزق عطا نہیں فرمایا، بعض لوگ غریب ہیں اور بعض متوسط درجے والے اور بعض امیر، اس میں اللہ پاک کی بے شمار حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک حکمت کفایت شعاری سے زندگی گزارنا بھی ہے، کفایت شعاری کی تعلیم احادیث مبارکہ اور قرآنی آیات کے ذریعے دی گئی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:" اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں فضول خرچی نہیں کرتے ، اور کنجوسی بھی نہیں کرتے، وہ درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہیں۔" حضرت عبداللہ ابنِ عمرو سے روایت ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" کھاؤ پیو، صدقہ کرو اور پہنو، جب تک اس میں فضول خرچی یا تکبر کی آمیزش نہ ہو۔"

اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" جو اللہ پاک سے تھوڑے رزق پر راضی رہتا ہے، اللہ پاک اس کے تھوڑے عمل سے راضی ہو جاتا ہے۔"(شعب الایمان،45/139)

ان احادیث مبارکہ اور آیت مبارکہ میں کفایت شعاری کی تعلیم دی گئی ہے کہ انسان جو رزقِ حلال حاصل کرے اس میں سے خود بھی کھائے اور دوسروں(گھر والوں) کی ضروریات کو بھی پورا کرے، اللہ پاک کی راہ میں صدقہ بھی کرے، لیکن خود کو تکبر سے بچائے اور نہ ہی حد سے زیادہ خرچ کرے کیونکہ اسراف اور فضول خرچی جائز مقام پر ناجائز حد تک خرچ کرنا ہے۔

کفایت شعاری کرنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے کیونکہ اس میں سادگی ہے اور زندگی جتنی سادہ ہوگی پریشانیاں اتنی ہی کم ہوں گی ، ہمارے لئے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سادگی کو اپنایا، آپ کا بستر چمڑے سے بنا ہوا تھا اور فرمایا کہ عیش و عشرت کو ترک کرنا ایمان کا حصّہ ہے، آپ کی اکثر روٹی جو کی روٹی ہوتی، اگر کوئی آپ کی دعوت روٹی اور باسی سالن پر بھی کرتا تو قبول فرما لیتے، آپ نے گویا اپنی مبارک زندگی میں نہ کبھی فضول کلام فرمایا ہے اور نہ کبھی اسراف۔

اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

سادہ زندگی گزارنے اور اخراجات کم کرنے کے چند طریقے:

لوگ عموماً آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے اس فکر میں رہتے ہیں سیلری بڑھ جائے یا میری انکم( آمدنی) کے ذرائع بڑھ جائیں، جبکہ اپنے اخراجات کم کرنے کا ذہن کسی کا نہیں ہوتا۔

ہر چیز (کھانے والی ہو یا پہننے والی ) بقدرِ ضرورت ہی استعمال کیا جائے۔

جن چیزوں کی ضرورت ہو پہلے ان کی لسٹ بنالی جائے اور پھر خریداری کی جائے۔

شادی بیاہ اور دیگر اس طرح کے مواقعےپر غور کرلیا جائے اگر پہلے سے کپڑے اور جوتے وغیرہ پہننے کے قابل ہوں تو نئے لینے کی بجائے اُنہی سے کام چلایا جائے۔

سیلری بڑھتے ہی اخراجات نہ بڑھا دئیے جائیں، پھر بسا اوقات آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہو جاتے ہیں، اس طرح زندگی سادہ بھی ہو گی اور آسان بھی، ہر کام کفایت شعاری سے کیا جائے۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)ترجمۂ کنزالایمان:اور رشتہ داروں کو ان کا حق دےاور مسکین اور مسافر کواور فضول نہ اڑا۔بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(پ15،بنی اسرائیل:26،27)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رب تعالی نے مسلمان کو صرف اسی لئے دولت اور سر مایہ دیا ہے تاکہ وہ اس کو اللہ تعالی کے بتائے ہوئے ان راستوں پر خرچ کرے۔ ان جگہوں اور ان لوگوں پر خرچ کرنا ہی حق خرچ کرنا ہے ۔

کفر و شرک و بدعت اور اللہ اور رسول کی ناپسندیدہ جگہ شیطانی تماشوں میں خرچ کرنا اور اہل حق کو نہ دینا شیطانی کام ہیں۔

ترمذی شریف کی ایک حدیث مبارکہ میں پیارے آقا علیہ الصلاة والسلام کا فرمان ہے: قیامت کے دن بندہ اس وقت تک قدم نہ اٹھا سکے گا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کر لیا جائے۔ ان میں دو سوال یہ ہیں: (1)مال کہاں سے کمایا اور( 2)کہاں خرچ کیا ؟

ابلیس ہی بندے کو وسوسہ دیتا ہے کہ سود جوئے اور تماشوں میں دولت لٹاؤ اور ابلیس اپنے رب تعالیٰ کا ہر لمحہ بہت ہی ناشکرا ہے اسی طرح جو اس کے وسوسوں کی پیروی کرے گا وہ بھی اس ہی جیسا اس کا بھائی ہے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی نے مکاشفۃ القلوب میں ایک حدیث مبارکہ نقل کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اس کے لئے خوشخبری ہے جس نے جمع کئے ہوئے مال کو اچھے طریقے پر خرچ کیا۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ اخراجات میں کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے فضول خرچی سے بچیں۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

کفایت شعاری خوشحال زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ اور فضول خرچی بربادی کا پیش خیمہ ہے، اسلام دین و دنیا کے معاملات اور زندگی کے تمام شعبوں میں بہترین انداز کی طرف گامزن کرتا ہے، دینِ اسلام ہمیں اخراجات میں کفایت شعاری کا درس دیتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کی اُلجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں، گھر ہو یا ملکی معیشت اخراجات پر کنٹرول رکھنا بے حد ضروری ہے ۔

دورِ حاضر میں کفایت شعاری کی ضرورت: دورِ حاضر میں معمولی سی نظر دوڑانے سے یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ آج ہم مَحْض دِکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ فیشن (Fashion) اور دیگر غیر ضروری چیزوں میں صرف کردیتے ہیں جس کی وجہ سے دوسروں پر بوچھ بنتے اور لوگوں سے اُدھار مانگتے نظر آتے ہیں۔ یاد رکھیں! کفایت شعاری میں ہی خوشی اور سکون و عافیت ہے جبکہ اس کے برعکس اگر خرچ کو منظّم انداز میں نہ چلایا جائے تو گھروں میں بے سکونی بے برکتی، شکوہ و شکایات، گھریلو جھگڑے اور ذہنی اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔

اللہ كريم اپنے نیک بندوں کی صفات میں ایک صفت یہ بھی

بیان فرماتا ہے:﴿ S66"uî}6"r˜}"’'4º2?>"6

c®"ïJI£ترجمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھے اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہيں۔

(پ19،الفرقان:67)

کفایت شعاری کے معنی :کفایت شعاری کا معنی ہے کہ انسان اپنے اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اِعتدال، تَوازُن اور مِیانہ رَوی اختیار کرے نیز غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:خرچ میں مِیانہ رَوی آدھی زندگی ہے۔(معجم الاوسط،5/108،حدیث:6744)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرَّحمہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: خوش حالی کا دارو مَدار دو چیزوں پر ہے، کمانا، خرچ کرنا مگر اِن دونوں میں ”خرچ کرنا“ بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِنْ شَآءَ اللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔(مراٰۃ المناجیح،6/634)

مشہور کہاوت ہے ’’ضرورت‘‘ تو فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے لیکن ’’خواہش‘‘بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہو پاتی۔ امامِ اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شہزادے کو نصیحت فرمائی: اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیر (یعنی کفایت شِعاری)سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔ (امام اعظم کی وصیتیں، ‏ص32)

کفایت شعاری اختیار کرنے کا طریقہ:٭ماہانہ و ہفتہ وار خرچ کا جائزہ لیں کہ کب؟ کہاں؟ کیوں؟ کیسے؟ اور کتنا خرچ کرنا ہے ٭ماہانہ سیلری کو منظم انداز میں استعمال کریں ٭اس سوچ کو خود سے دور کريں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ ٭ بے جا خواہشات کو ترک کرکے ضروریات کی طرف توجہ دیں ٭طرزِ زندگی میں سادگی کو شامل کریں۔

اللہ پاک ہمیں کفایت شعاری اختیار کرنے اور اس کی برکتیں نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

کفایت شعاری کا معنی ہے کہ انسان اپنے اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اعتدال ۔توازن اور میانہ روی اختیار کرے اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ ایک عام آدمی کی ضروریات بہت زیادہ نہیں ہیں ۔کہانے کے لئے دو وقت کی روٹی۔پہننے کے لئے کپڑے اور رہائش کے لئے مکان لیکن انسان نے اب اپنی ضروریات کو کھینچ تان کر بہت پھلا لیا ہے ۔انواع و اقسام کے کھانے ۔ مختلف ڈیزائنوں کے بیسیوں جوڑے صبح کا الگ شام کا الگ دفتر کا الگ اور رات کا الگ ، اسی طرح مختلف جوتوں کے ڈھیروں جوڑے ، وسیع مکانات ،آمدورفت کے لئے کئی کئی گاڑیاں یہ طرز زندگی فضول خرچی کا غماز ہے۔اور کفایت شعاری کے طریقے سے بالکل برعکس۔

انسان کے پاس کتنی ہی دولت ہو اسکے وسائل بے حد وحساب ہوں بہرحال یہ وسائل ختم ہونے والے ہیں۔لہذا انسان کے لئے دانشمندانہ طرز عمل یہی ہے کہ جہاں سو روپے کے خرچ سےضرورت پوری ہو سکتی ہے وہاں ایک روپیہ بھی زیادہ خرچ نا کیا جائے۔ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو۔(الاعراف: 31)

اسی طرح جو لوگ زندگی میں اسرافانہ رویہ اختیار کرتے ہیں انہیں شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے ۔ فرمایا : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں ۔(بنی اسرائیل: 27)

گویا فضول خرچی شیطانی عمل ہے

نچوڑا ہے ہم سب کو اسراف نے

بنایا ہے قلاش و بے روزگار

نت نئی چیزوں نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ہمارے اسلاف اور ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے ساتھیوں نے ہمارے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا ہے وہ انتہائی سادگی پر مبنی ہے۔ہم نے سادگی کو چھوڑ کر خود کو مشکلات میں مبتلا کر لیا ہے۔ سادگی اسلام کا حکم بھی ہے اور ہماری ضرورت بھی ہے ۔اگر آج ہم غیر ضروری اخراجات سے بچیں گے تو ہم بچت کرنے کے لائق ہو سکیں گی۔اور یہ بچا ہوا پیسہ کل ہماری مشکلات میں کام آئے گا اور اگر ہم اجتماعی طور پر سوچیں تو یہ روپیہ ہمارے ملک کی ترقی کے کام آئے گا اور اس کا فائدہ پورے ملک و قوم کو ہو گا۔کفایت شعاری سے مہنگائی کو کم کیا جاسکتا ہے ۔معاشیات کا اصول ہے کہ جتنی زیادہ خریداری ہو گی قیمتوں میں اتنا ہی اضافہ ہو گا ۔اگر ہم بے تحاشہ خریداری سے اجتناب کریں تو قیمتوں میں اضافے کا رحجان کم ہوگا۔اور قیمتیں اعتدال پر رہیں گی۔

ہم فضول خرچی میں اس قدر آگے بڑہ چکے ہیں کہ اپنے ملک کی مصنوعات کو چھوڑ کر دوسرے ملک کی مصنوعات خریدتے ہیں۔

پھنسے غیر ملکوں کی اشیاء میں ہم

ہوئے ظاہری شان پر کیوں نثار

مشہور ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیئے ۔عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں۔نمودو نمائش سے پرہیز کریں۔شاندار عمارات آرائشی سازوسامان ۔ اشیائےتعیش اور فیشن پرستی کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکہیں۔ظاہر پرستی کو چھوڑ کر سادہ پرستی اپنائیں۔اس طرح نہ صرف ہم مالی طور پر آسودہ ہونگے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوشحال بنائے گی ۔یوں ہماری زندگی کے ساتھ ہماری عاقبت بھی سنور جائے گی۔

سنبھالیں اگر اپنی حالت کو ہم

تو اس طرح ذلت نہ ہو بار بار


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

ہمارا اسلام دین اور دنیا کے مُعاملات میں ہمیں میانہ روی کا درس دیتا ہے، تاکہ ہم اپنی زندگی کی بہت ساری اُلجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں، ایک گھر کو اَمن کا گہوارہ بنانے کے لیے" اخراجات میں کفایت شعاری" بھی بے حد ضروری ہے کہ اس میں خوشی و خُوشحالی اور سُکون و عافیت ہے، اس کے برعکس اگر خر چ کو مُنظّم انداز میں نہ چلایا جائے، پیسہ بے دریغ استعمال کیا جائے، بچت پر توجّہ نہ دی جائے اور اخراجات میں کفایت شعاری(frugality ) کو ترک کیا جائے تو بے سکونی، بے اطمینانی، بے برکتی، شکوہ و شکایت، گھریلو جھگڑے اور ذہنی اُلجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:" خر چ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔"(مشکاة المصابیح2/227 حدیث5067)

حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمۃ الحنان اس حدیث مبارکہ کے تحت کے فرماتے ہیں:" خوشحالی کا دارو مدار دو چیزوں پر ہے، کمانا اور خرچ کرنا، مگر ان دونوں میں خر چ کرنا بہت ہی کمال ہے، کما نا سب جانتے ہیں خر چ کر نا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آ گیا وہ ان شاءاللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔"(مراة المناجیح 6/634)

میری محترم اسلامی بہنوں!آج ہم محض دکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جُھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصّہ کبھی فیشن(fashion) کے نام پر، کبھی مہنگے ریسٹورنٹ(restaurant (میں کھانا کھا کر، کبھی نئے موبائل، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے ، کبھی بلا ضرورت گھر کی تزئین وآرائش کر کے اور کبھی تقریبات میں نت نئے ملبوسات وجیولری کے نام پر خر چ کر ڈالتے ہیں اور پھر طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، دوسروں پر بوجھ بننے اور لوگوں سے اُدھار مانگتے نظر آتے ہیں، یاد رکھیے!!! "ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے، لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوپاتی۔"

حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شہزادے حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کو نصیحت فرمائی:"اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیر( یعنی کفایت شعاری) سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہو جانا۔"(امام اعظم کی وصیتیں ،ص32)

ماہانہ آمدنی کو معقول طریقے سے استعمال کیجئے، غور فرمائیے! کہ کب، کہاں، کیسے، کیوں اور کتنا خرچ کرنا ہے؟ معاشرے کے رُجحانات کو مت دیکھئے، بلکہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائے اور ہرگز نہ سوچیے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

طرزِ زندگی میں سادگی کو اپنا معمول بنائیے، مہینے کے آخر میں اپنی آمدنی اور اخراجات کا موازنہ(comparison ) کیجیے، اور جو خرچ فضول نظر آئے آئندہ اُس سے پرہیز کیجیے، یوں آپ اپنے اخراجات پر قابو پا لیں گے اور کفایت شعاری کی برکتیں نصیب ہوں گی۔

دین اسلام ہمیں میانہ روی وکفایت شعاری کی بہت زیادہ ترغیب دیتا ہے، فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اُسے غنی فرما دیتا ہے اور جو فُضول خرچی کرتا ہے اللہ اُسے تنگ دست کر دیتا ہے۔"( مسند بزار3/160 حدیث946)

بارگاہِ الٰہی میں دُعا ہے کہ وہ ہمیں کفایت شعاری کو اپنانے اور اپنے اخراجات پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہمارا گھر اَمن کا گہوارہ بن جائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

اسلام نے کسی بھی پہلو میں انسان کو آزاد بھی نہیں چھوڑا اور ہر پہلو میں رہنمائی بھی فرما دی ہے،  اگر مطالعہ کیا جائے تو اسلام نے نکاح، طلاق، نماز، روزہ، زکوٰۃ، اذان ، جہاد ، مہر ، قربانی یہاں تک کہ ہر دن کے بارے میں قرآن پاک میں موجود ہے، اسلام نے ہر ایک پہلو میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے، اسی کو ایک جامع اور کامل دین کہا جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کفایت شعاری ہے کیا؟

کفایت شعاری: روپے پیسے کو عقلمندی سے خرچ کرنے کا نام کفایت شعاری ہے، یعنی فضول خرچی اور کنجوسی کی درمیانی حالت کو کفایت شعاری کہتے ہیں، اسی طرح فضول خرچی کا دوسرا نام اِسراف بھی ہے اور فضول خرچی کو محاورے سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، یعنی" چادر دیکھ کے پاؤں پھیلانا" جہاں ضرورت نہ ہو وہاں خرچ کرنا"فضول خرچی "ہے۔

سورہ فرقان میں، اللہ پاک نے عباد الرحمن کے وصف بیان فرمائے ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔"(الفرقان، آیت 66)

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷) ترجمۂ کنز العرفان :اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(بنی اسرائیل، آیت 27)

یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱)اے آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں ۔ ( الاعراف، آیت31)

ان آیات سے یہ بات واضح ہے کہ جہاں ہمیں فضول خرچی سے بچنا ضروری ہے وہیں بخل سے بچنا بھی انتہائی ضروری ہے، کیونکہ بخیل چاہے جتنا بھی پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ جنت میں داخل ہونے سے محروم رہ جائے گا، کیونکہ بخیلی کی وجہ سے اللہ پاک نے اسے جو علم(نعمت) دیا ہے، لوگ اس تک پہنچنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶) تَرجَمۂ کنز الایمان:: اور جو اپنی جان کی لالچ سے بچایا گیا تو وہی فلاح پانے والے ہیں (التغابن، آیت 16)

مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:"سخی اللہ کے قریب ہے اور انسانوں کے قریب ہے، جنت کے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے اور بخیل اللہ سے دور ہے، انسانوں سے دور ہے، جنت سے دور ہے اور جہنم کے قریب ہے۔"

لہذا کفایت شعاری ایک ایسی عادت ہے جو ہر حالت میں مفید ثابت ہوتی ہے اور یہ ایسا عمل ہے جو پریشانیوں کو کم کرتا ہے۔اور زندگی خوش اسلوبی سے گزرتی ہے، ضرورت کے لئے تو خرچ بہر حال کرنا ہی پڑتا ہے، کوئی ضرورت کے مطابق کر لیتا ہے اور کوئی ضرورت پڑنے پر بھی نہیں کرتا، لیکن بہترین طریقہ کفایت شعاری ہے، کیونکہ فضول خرچی سے "خزانے بھی خالی ہو جاتے ہیں۔"


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کے متعلق دین اسلام ہماری رہنمائی نہ فرماتا ہو۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے  جس نے دینی اور دنیاوی ہر مرحلے میں اپنے ماننے والوں کو بہترین اور زریں اصولوں سے نوازا ہے۔ جہاں اسلام نے ہمیں اپنے جسم و جان،اہل و عیال اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں۔ اللہ پاک قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(پ15،بنی اسرائیل ،29 )

اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ’’اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ‘‘۔اس کا معنی یہ ہے کہ بخل نہ کرو اور اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے تنگ دل نہ ہو، اور ’’پورا نہ کھول دے‘‘سے مراد یہ ہے کہ جتنی ضرورت ہو اتنا خرچ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے یعنی اسراف سے بچا جائے۔

اسراف و فضول خرچی کا مفہوم یہ ہےکہ ’’خرچ کرنے میں حد شرعی سے تجاوزکرنا‘‘جبکہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ناجائزاور حرام کاموں میں خرچ کرنا‘‘

جبکہ میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہرچيزمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا،خواہ مال خرچ کرنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔اسلام ہمیں اسراف وفضول خرچی سے رکنے اور اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے کا حکم اورتعلیم دیتاہے۔

اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام مذہبِ اعتدال ہے۔ اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گيا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے،مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئی ہے ۔قرآن میں اسراف اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اورفضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا گيا ہے۔

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان: اور فضول نہ اڑا بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(پ15،بنی اسرائل:26،27)

سورہ ٔفرقان میں اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ ( پ19،الفرقان : 67)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا ۔

اس مختصر حدیث شریف میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناداری غریبی اور تنگ دستی جیسی خطرناک آفتوں سے بچنے کے لئے ہمیں خرچ میں میانہ روی اختیارکرنے کی تاکید و تلقین فرمائی ہے۔اعتدال و میانہ روی کی تاکید کے معاملے میں اسلام تمام مذاہب سے ممتازومنفرد ہے۔ اسلام ہمیں ہرعمل میں میانہ روی اور اعتدال کی تعلیم دیتاہے۔

اسراف و فضول خرچی سے پرہیزکرنے والا کبھی تنگ دستی اورفقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہایت سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا، وہ نہ تونمود و نمائش میں اپنی رقم ضائع کرے گا اورنہ عیش وعشرت میں اپنی دولت برباد کرےگا ۔اگرہم اعتدال اور میانہ روی کے اس سنہری اصول کو اختیار کرلیں تو ہمارامعاشرہ بے شمار برائيوں اور مشکلات سے ازخود نجات حاصل کرلے گا۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : السمت الحسن والتؤدۃ الاقتصاد جزء من اربع و عشرین جزءاً من النبوۃ۔ ترجمہ : اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پسندیدہ طریقہ اور تسلی و اطمینان سے کام کی انجام دہی اور میانہ روی یہ نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے ۔ ( اشعۃا للمعات ، 2/191)

میانہ روی کا معنیٰ ہے ہر کام اور ہر حالت میں میانہ روی اختیار کرنا ۔آج کل ہم جتنی پریشانیوں کا شکار ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ اعتدال اور میانہ روی کا فقدان ہے ۔بے اعتدالی فضول خرچی اور اسراف آج ہماری نسلوں میں رچ گئی ہے ۔آج ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر ہمارا پورا معاشرہ بے پناہ خرابیوں کے ساتھ بے اعتدالی اور میانہ روی سے کوسوں دور غلو وتفصیر کا شکار ہے ۔بچے کی پیدائش سے لے کر شادی خوشی غمی اور ہر کام میں غلو و تفصیر سے کام لیا جاتا ہے ۔اور شادی کے موقع پر بے پناہ فضول خرچی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

مجبور قرضہ لے کر شادی کرتا ہے اور صاحب استطاعت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لے فضول خرچی کرتا ہے ۔انسان کے پاس کتنے ہی وسائل ہوں بہر حال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہو نے والے ہیں ۔ایک انسان کی دانش مندی یہ ہے کہ ایک روپیہ بھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔اسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو۔(الاعراف: 31)

اسی طرح جو لوگ عام زندگى میں مسرقانہ رویہ اپناتے ہیں ان کو شیطان کا بھائی کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں ۔(بنی اسرائیل: 27)

گویا فضول خرچی ایک شیطانی عمل ہے جسں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔درحقیقت فضول خرچی سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے ۔ہمارے آقا نے ہمارے لیے جو زندگی کا نمونہ چھوڑا وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی ہے ۔ہم نے سادگی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو پریشانیوں میں ڈال لیا ہے ۔ کفایت شعاری ہماری ضرورت بھی ہے ۔اگر ہم کم خرچ کریں گے تو اس انداز میں کامیاب ہو جائیں گے کہ مشکل وقت میں یہ روپیہ ہمارے کام آئے گا۔

انفرادی طور پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ فراہم کرتی ہے ۔اور اجتماعی طور پر یہ ملک کے کام آئے گی۔کفایت شعاری سے مہنگائی بھی دور ہوتی ہے ۔معاشیات کا اصول ہے۔خرید داری جتنی زیادہ ہو گی قیمتوں میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔لہذا اگر ہم بے تحاشا فضول خرچی سے اجتناب کریں تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان کم ہو گا اور قیمت اعتدال میں رہے گی. چنانچہ میانہ روی اوراعتدال ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں کئی مسائل سے نجات دلاسکتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ" خیر الامور اوسطہا" یعنی بہترین کام وہ ہے جو میانہ روی سے کیے جائیں۔ (احیاء العلوم ،جلد ،3 صفحہ 176)

میانہ روی سے اخلاق مضبوط ہوتے ہیں اور حقوق کا احساس ہوتا ہے اور انسان رزق حلال کمانے کی کوشش کرتا رہتا ہے انسان کو اس بات کا شعور ہو جاتا ہے کہ راحت و سکون میانہ روی اور کفایت شعاری سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مشہور ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ:

یعنی عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں، نمود و نمائش سے پرہیز کریں ظاہر پرستی گروپ چھوڑ کر سادہ زندگی کو اپنائیں ۔ اس طرح نہ صرف مالی طور پر آسودہ ہوں گے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوشحال بنائے گی اور اس کا اثرہمارے ملک کی معیشت پر مرتب ہوگا اور یوں ہماری دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عاقبت بھی سنور جائے گی۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

روزمرہ کے اخراجات زندگی کی گاڑی چلائے،عزت اور صحت کو بحال رکھنے  دوسرے حق داروں پر خرچ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ غیر ضروری اور نامناسب اخراجات سے احتراز کرنے اور اعتدال پسندی کو اپنا شعار بنانے کو کفایت شعاری کرتے ہیں۔

کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حالت میں مفید ثابت ہوتی ہے اور ایسا عمل ہے جو ہر حال میں مددگار ثابت ہوتا ہے تندرستی ہو یا بیماری خوشی ہو یا غم میں کفایت شعاری ہر معاملے میں پریشانیوں کو کم کرتی ہے اور زندگی خوش اسلوبی اور چین سے گزرتی ہے ضرورت کے لئےخرچ تو ہر حال میں کرنا ہی پڑتا ہے ۔کوئی ضرورت کے مطابق کرتا ہے تو کوئی ضرورت سے زیادہ کرتا ہے لیکن ان سب میں سے آسان طریقہ ہے کہ کفایت شعاری اور اعتدال پسندی کو اپنا شعور بنایا جائے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ: بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: کہ بہترین کام وہ ہے جس میں میانہ روی کو اپنایا جائے۔

اور فضول خرچی نہ اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اس میں اپنا بھی نقصان کہ خون پسینے سے کمایا ہوا روپیہ غیر ضروری کاموں پر خرچ کر دینا اور خود تکلیف اٹھانا بھی کوئی عقلمندی نہیں ہے یوں تو گھر داری میں تمام کام آجاتے ہیں لیکن اصل اور بنیادی چیز کچن اور کھانا پکانا ہے اب ہماری بہنیں مہنگی چیزوں کے پکوان پکانے کی ترکیبں لکھتی ہیں اس ہوش ربا مہنگائی میں ممکن نہیں ہے سستے اور بچت والے پکوان گھر داری کا سلیقہ ہوں اسی طرح ایسی بہت سی اشیاء ہیں جن کو ضائع کر دیا جاتا ہے ان کو بھی کام میں لایا جا سکتا ہے اگر دودھ بچ گیا اور اس کے پھٹنے کا خطرہ ہو یا تھوڑا پھٹ گیا ہو تو اس کو ضائع نہ کریں اس میں تھوڑے چاول اور چینی ڈال کر پکا لیں رات کی روٹی بچ جائے تو صبح کو کوئی باسی روٹی کھانے کو تیار نہیں ہوتا اس کا طریقہ تھوڑا سا پانی ہاتھوں میں لے کر روٹی کو بھی گیلا کر لیں روٹی توے پر ڈال کر اوپر گھی کا ایک چمچ ڈال دیں مزے دار پراٹھا بن جائے گا اسی طرح ہماری زندگی آسان ہو جائے گی۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ کفایت شعاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
4 years ago

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ایک مکمل دین ہے اس میں دنیا وما فیھا کے متعلق رہنمائی ملتی ہے ۔اسلام ہمیں ایک بہترین زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہےجو اسلام کے شرعی اصولوں پر مبنی ہو۔

حضرت ابو محمد فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جسے اسلام کی ہدایت دی گئی، اس کا گزر اوقات ضرورت کے مطابق ہے،اس نے قناعت اختیار کی ۔ (ترمذی: 2306)

آج کے اس مشکل ترین دور میں جہاں دیگر پریشانیاں ہیں وہیں بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ہیں ہر کوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ اگرکفایت شعاری سے کام لیں اور اس حدیث کے مطابق عمل کریں تو اخراجات بہتر ہو سکتے ہیں۔ سنت کے مطابق کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔فضول خرچی، اسراف اور دکھاوے سے بچیں تو یہ پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں ۔ کفایت شعاری میانہ روی کا دوسرا نام ہے۔ اسلام ہمیں ہر شعبے میں درمیانی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم کفایت شعاری سے کام لیں، اپنی خواہشوں کو ترک کریں، اپنے نفس کو قابو میں رکھیں تو کم آمدن اور محدود وسائل میں بھی متوازن زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا تھا ۔سادہ لباس زیب تن کرتے، خاک پر سوتے، چمڑے کا بستر ہوتا تھا ۔جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح زندگی بسر کرتے تو ہم امتی کیوں نہیں؟

یقیناً ہم سنت پر عمل کرکے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں اخراجات میں کفایت شعاری سے کام لے کر قرضوں کے بوجھ، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے اور تنگدستی سے بچ سکتے ہیں۔