Monthly Kaarkardagi of religious activities carried out in Birmingham
Region

Under the supervision of ‘area visit activity’, in January,
approximately 74 responsible Islamic sisters called different Islamic sisters
towards righteousness over the phone, provided them with the important
information about religious activities of Dawat-e-Islami, encouraged them to
keep associated with the religious environment of Dawat-e-Islami, and take part
in the religious activities. Moreover, they gave them the mindset of performing
other good deeds, such as taking admission in Madrasa-tul-Madina (Baalighaat) and reading or listening to the weekly booklet.
Madani Mashwarah of Wales Kabina responsible Islamic sisters conducted
(UK)

Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah of Wales
Kabina responsible Islamic sisters was conducted (UK) in
previous days. Islamic sisters from Bristol and Newport had the privilege of
attending this spiritual Mashwarah.
Nigran Islamic sister
(Birmingham Region) motivated
to improve the religious activities. Islamic sisters expressed good intentions
to improve religious activities in Newport.
Madani Mashwarah of responsible Islamic sisters conducted in Ireland
(UK)

Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah of
responsible Islamic sisters was conducted in Ireland (UK) in previous days. 8 Islamic sisters had the privilege of attending
this spiritual Mashwarah.
Nigran Islamic sister
(Birmingham Region) analysed
the Kaarkardagi
(performance) of the attendees (Islamic sisters), did their Tarbiyyah, and motivated them to
improve the religious activities.
Monthly Kaarkardagi of Madaaris and other religious activities in
London Region (UK)

Under the supervision of Madrasa-tul-Madina (Baalighaat), Madaaris were conducted and other religious activities were carried
out in London Region (UK) in January 2021. The monthly Kaarkardagi of
Madaaris and other religious activities is as follows:
Number of levels of Madrasa-tul-Madina (Baalighaat) in the whole
region: 34
Number of Madrasaat: 30
Number of Islamic sisters studying in Madrasa-tul-Madina (Baalighaat):
233
Number of levels conducted for two days via Skype: 20
Number of Islamic sisters studying in these levels: 118
Number of Mudarrisaat teaching via Skype: 18
Number Islamic sisters attending weekly Sunnah-inspiring Ijtima’at: 143
Number Islamic sisters listening to weekly Madani Muzakirah: 103
Number Islamic sisters analyzing their A’maal for most of the day: 20
Online Madani Mashwarah of ‘Rabta Baraye Shakhsiyaat’ conducted in Scotland
Region (UK) via Skype

Under the supervision of ‘Rabta Baraye Shakhsiyaat’, an online
Madani Mashwarah of ‘Rabta Baraye Shakhsiyaat’ was conducted in Scotland Region (UK) in previous days via Skype. All responsible Islamic sisters of Rabta
Baraye Shakhsiyaat (Scotland)
had the privilege of attending this Mashwarah.
The Kaarkardagi of the attendees (Islamic sisters) was
analysed, and their Tarbiyyah was done. The mindset of strengthening religious
activities of the department was given.
The course ‘Islamic heroes’ is commencing in North Birmingham Division
(Birmingham Region)

Under the supervision of
‘Majlis short courses for Islamic sisters’, a course ‘Islamic heroes’ is
commencing in North Birmingham Division (Birmingham Region) from
12th February 2021 in English language. The duration of this course
is two days.
The attendees
(Islamic sisters) will have the privilege of knowing about the
real heroes. Besides, information about the signs of the Judgement Day will
also be provided. For this online course, the interested candidates
(Islamic sisters) can contact the respective responsible
Islamic sister of their area.
Online Madani Mashwarah of Islah-e-A’maal conducted in London Region
(UK) via Skype

Under the supervision of ‘Majlis Islah-e-A’maal’, an online Madani
Mashwarah of responsible Islamic sisters of Islah-e-A’maal was conducted in London
Region (UK) in previous days via Skype. Kabina and Division responsible Islamic
sisters had the privilege of attending this spiritual Mashwarah.
Region Nigran Islamic sister gave the attendees (Islamic sisters) the mindset of watching Madani Muzakirah
regularly and appreciated better performance of Islah-e-A’maal Ijtima’. Besides,
she specifically informed Islamic sisters regarding updated points for
improving the department of Islah-e-A’maal.

موت و قبر کے حالات و واقعات کا تفصیلی بیان
شرحُ الصُّدُوْر(مُتَرجَم)
اِس کتاب کی چندخصوصیات:
ترجمہ کرتے ہوئے درج ذیل اُمور کاخصوصی طور پر
خیال رکھا گیا ہے :
٭ کتاب کی اِفادیت
واہمیت اس کے موضوع اور مصنف سے واضح ہوتی ہے اس لئے شروع میں ”پہلے اسے پڑھ لیجئے“
کے عنوان سے پیش لفظ میں کتاب اور اس کے
موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے اورپھر مصنف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاتعارُف قدرے تفصیل کےساتھ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب اور اس کے مصنف سے واقفیت وآگاہی کے لئے ان دونوں کا مطالعہ بے حد مفید ر ہے گا۔٭روایات
وواقعات کی اَسناد حذف کردی ہیں ،ضرورت کے چند مقامات کے علاوہ صرف اصل راوی (جیسے صحابی یا تابعی)سے ترجمہ کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ مطالعہ کرنے والاعام
اسلامی بھائی اکتاہٹ کاشکارنہ ہو۔٭ علامہ سیوطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کو صرف احادیث مبارکہ دو لاکھ یاد تھیں ،اسلاف
کے دیگر واقعات اور اقوال واحوال تو شمار
سے باہر ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی کتابوں میں کسی حدیث ،قول یا واقعہ کو کئی کئی
حوالوں سے بیان کرتے ہیں،شَرْحُ الصُّدُوْرمیں بھی ایسا ہی ہے لہٰذاترجمہ میں طوالت سے بچنے کے لئے ذکر کردہ حوالوں میں سے ایک یا دو کی تخریج دی گئی۔٭بعض مقامات پرمصنف عَلَیْہِ الرَّحْمَہ نے الفاظ کے لغوی معانی بیان کئے ہیں اور کہیں
کہیں اَسنادپر کلام بھی فرمایا ہے، ترجمہ میں دیئے گئے لغوی
معانی کی رعایت کی گئی ہے مگر لغوی اَبحاث
کا ترجمہ نہیں کیا ۔یوں ہی اسناد پر کئے
گئے کلام کا ترجمہ بھی ترک کردیاہے۔عُلَماومحققین اصل کتاب کی طرف رجوع فرمائیں ۔٭”شَرْحُ الصُّدُوْر“کے مختلف نسخوں میں جہاں کہیں اختلاف تھا یا
عبارت میں کچھ کمی بیشی تھی یاکوئی اِشکال تھا وہاں اصل ماخذاور دیگر کُتُب سے رجوع کرکے ترجمہ کیا گیاہے۔
590صفحات پر مشتمل یہ کتاب2016ء میں تقریباً10ہزار
سے زائد چھپ چکی ہے۔
اس کتاب کی PDF
دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

دینِ
اسلام کی بے شمار خصوصیات ہیں ان میں سے ایک
خصوصیت "میانہ روی" (اعتدال )بھی ہے،خرچ (کمائی)میں میانہ روی کرنے کو "کفایت
شعاری" (frugality)کہا جاتا ہے، دینِ اسلام ہمیں ہر چیز میں میانہ روی اختیار
کرنے کا درس دیتا ہے، چاہےاس کا تعلق کمانے سے ہو یا کھانے سے، یا لباس پہننے سے حتی کہ نوافل
عبادات میں بھی دینِ اسلام ہمیں میانہ روی کا درس دیتا ہے ۔
فرمان
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
:خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے ۔
(مشکوۃ المصابیح، ج2، ص227، حدیث: 5067)
یعنی خوشحال وہی شخص رہتا ہے، جسے کمانے کے ساتھ خرچ کرنے کا بھی طریقہ آتا ہو، کیونکہ کما نا تو سب کو آتا ہے لیکن خر چ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔(مراۃ المناجیح
ملخصاً، 634/6)
اخراجات:
ہمیں
اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے، نہ تو
فضول چیزوں میں ہمیں اپنی آمدنی خرچ کرنی چاہیے اور نہ ہمیں جس جگہ پر خرچ کرنے کا
حق ہے وہاں خرچ نہ کر کے کنجوسی کرنی چاہیے، بلکہ ہمیں میانہ روی کو اپنانا چاہیے اورسادگی اور صبر سے کام لینا چاہیے۔
اللہ پاک سورت بنی اسرائیل کی آیت
نمبر29 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ
لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے
بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(بنی
اسرائیل ،29 )
اس
آیت کے تحت مفتی قاسم صاحب اپنی تفسیر صراط الجنان میں لکھتے ہیں:" کہ خرچ میں
ا عتدال کو ملحوظ رکھنے کا کہا گیا ہے ، اور
اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو
اور یہ معلوم ہو گویا ہاتھ گلے سے باندھ
دیا گیا ہے اور دینے کے لئے ہل ہی نہیں سکتا ، ایسا کرنا تو سببِ ملامت ہوتا ہے، کہ بخیل کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں اور نہ ہی ایسا ہاتھ کھولو کہ
اپنی ضروریات کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے
کہ اس صورت میں آدمی کو پریشان ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے ۔(تفسیر صراط الجنان، ج5، ص153)
فرمان
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
:"جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ
پاک اسے مال دار بنا دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کردیتا ہے۔
(مسند البزار، 161/3، حدیث946)
پیارے
اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیے کہ ہم اپنےاخراجات کا جائزہ لیں تو جو فضول یا زائد چیز
نظر آئے تو اسے اپنے اخراجات سے نکال دیں اور جو صحیح معلوم ہو اسے باقی رکھیں، پھر ہمیں اپنے سے اوپر والوں کو نہیں دیکھنا
چاہیے کہ اس کے پاس تو گاڑی ہے اور میرے پاس موٹر سائیکل بھی نہیں، اس کے پاس تو بنگلہ
ہے اور میرے پاس تو اپنا ذاتی گھر بھی نہیں، بلکہ اپنے سے نیچے والوں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، کہ کتنے لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس کھانے کو رزق
نہیں ہے اور نہ ہی پہننے کو کپڑے ہیں۔
ان شاءاللہ ایسا کرنے سے میانہ روی کرنے، جو ہے اسی پر قناعت و صبر کرنے کا جذبہ ملے گا
اور ہمیں چاہیے کہ ہم جس حال میں بھی ہیں، ہمیں اللہ پاک کا
شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔
حدیث پاک میں ہے:" قیامت کے دن ہر فقیر اور
مالدار اس کی تمنا کرے گا کہ( کاش) دنیا میں اسے صرف ضرورت کے مطابق رزق دیا جاتا۔
( سنن ابن ماجہ کتاب الزھد، باب القناعۃ، 4/442 ،حدیث: 235)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خرچ میں میانہ
روی، جو ہے اس پر صبرو شکر کرنے، فضول خرچی اور کنجوسی سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم

بلاشبہ اسلام کی نظر میں کفایت شعاری ایک ایسافعل ہے جس سے چین و سکون اور راحت و آرام حاصل ہوتا ہے اخراجات میں کفایت شعاری و میانہ روی اختیار
کرنے وا لا شخص صبر، شکر اور قناعت جیسی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
اعتدال پسند شخص اخراجات میں بھی تدبیر سے کام لیتا ہے
کیوں کہ راحت و سکون اس چیز کا نام نہیں کہ زیادہ لذیذ کھانا کھایا جائے، بلکہ
راحت و سکون تو میانہ روی اور کفایت شعاری میں ہےکہ صرف ضروریاتِ زندگی جتنی ہی
مقدار میں اس دنیا سےلیا جائے خواہشات سے بچا جائے کیوں کہ خواہشات کو جتنا بڑھانا
چاہو تو بڑھتی چلی جائیں گی حاجت تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے مگر خواہشات تو
بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہو پاتیں اور اگر اپنے نفس کو تھوڑے اور کفایت شعاری کا
عادی بنالیا جائے توہزاروںمصیبتوں اور تکالیف سے نجات مل جائے گی۔
اسلام
ہمیں خرچ کرنے میں اِعتدال کو ملحوظ رکھنے کا فرماتا ہے اور اسے ایک مثال سے
سمجھایا گیا کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلو
م ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے اور دینے کے لئے ہل ہی
نہیں سکتا ، ایسا کرنا تو سبب ِملامت ہوتا
ہے کہ بخیل ،کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات
کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے کہ اس صورت میں آدمی کو پریشان ہوکر بیٹھنا
پڑتا ہے۔اس بات کو اللہ تعالٰی
قرآن مجید میں یوں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ
مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا
مَّحْسُوْرًا(۲۹)ترجمۂ کنز العرفان : اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ
رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔(بنی اسرائیل
،29 )
صحابہ کرام رضی اللہُ عنہ کی کفایت شعاری ملاحظہ فرمائیں حضرت
حسن بصری فرماتے ہیں : میں نے
ستر بدری صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کو
دیکھا، وہ اللہ تعالٰی کی
حلال کردہ اَشیاء سے اس قدر اِجتناب کرتے تھے جتنا تم حرام اشیاء سے پرہیز نہیں کرتے۔دوسری
روایت میں اس طرح ہے کہ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ
آزمائشوں پر خوش ہو اکرتے تھے،اگر تم انہیں دیکھ لیتے تو کہتے یہ مجنون ہیں ،اور
اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں کو دیکھتے تو کہتے: ان لوگوں کا کوئی اخلاق نہیں ،اور
اگر وہ تم میں سے برے لوگوں کو دیکھتے تو کہتے:ان کا قیامت کے دن پر ایمان نہیں ۔
ان میں سے ایک کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ نہ لیتا اور کہتا:مجھے اپنے
دل کے خراب ہونے کا ڈر ہے۔ ( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل
الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ ، ۴ / ۲۹۷ )
اللہ تعالیٰ ہمیں فضول خرچ کرنے سے منع فرماتا
ہے کہ اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ ارشاد خدا وندی ہے
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ
لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین
اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں
اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(بنی اسرائیل، آیت 27)
حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے اس کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں خرچ کر دے تو وہ
فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام
میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ ( خازن، الاسراء، تحت
الآیۃ : ۲۶ ، ۳ / ۱۷۲ )
اللہ پاک سےدعا ہے کہ وہ
ہمیں کِفایت شِعاری اختیار کرنے ،اَخراجات پر قابوپانے اور ماہانہ آمدنی کو مَعقول طریقے سے استعمالکی توفیق
عطا فرمائے۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اخراجات میں کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے
اخراجات کے معاملے میں اعتدال،توازن
اورمیانہ روی اختیار کرے اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ زندگی کی گاڑی
اخراجات کے پہیوں پر چلتی ہے۔ اخراجات میں کفایت شعاری اس زندگی کی گاڑی کو چین و
سکون کے ساتھ آرام سے چلتے رہنے میں مدد کرتی ہے۔
آجکل معاشرے میں جہاں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک
بڑی بیماری فضول خرچی بھی ہے۔ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنا اور پھر ہر وقت روتےرہنا کہ
اخراجات پورے نہیں ہوتے، مہنگائی بہت ہے وغیرہ وغیرہ۔
فضول خرچی کرنے والوں کے بارے میں اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک
اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں ۔(پ15،بنی اسرائیل: 27)
تفسیر صراط الجنان:
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے
ارشادفرمایا کہ فضول خرچی نہ کرو جبکہ اس آیت میں فرمایا کہ بیشک فضول خرچی کرنے
والے شیطانوں کے بھائی ہیں کیونکہ یہ ان کے راستے پر چلتے ہیں اورچونکہ شیطان اپنےرب
کابڑا ناشکرا ہے،لہٰذا اُس کا راستہ اختیارنہیں کرنا چاہیے ۔
(مدارک، الاسراء، تحت الآیۃ:۲۷، ص۶۲۱،ملخصاً)
محترم قارئین، ہمیں چاہیے کہ مہینے کے شروع میں یا جب تنخواہ
ملتی ہے تو اس وقت ایک بجٹ بنا لیا کریں
کہ ہم پیسے کیسے اور کہاں خرچ کریں گے۔ جو کام ضروری ہیں ان کی ایک لسٹ بنا لیں،
اور جو کام معمول میں شامل ہیں لیکن غیر ضروری ہیں ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم پہلے سے ہی سمجھداری سے کام لیں تو
ہمیں مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ہر انسان اگر اپنے بجٹ کے مطابق زندگی گزارے، اپنی
چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائےتو ان شاءاللہ کبھی دشواری نہیں ہوگی۔
ہمیں اپنے معاملات میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔اعتدال
صرف چند چیزوں تک محدود نہیں بلکہ دینی معاملات سے لے کر دنیوی معمولات تک ہر جگہ
اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیئے۔
کفایت شعاری کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ کچھ نہ کچھ پیسے
ہر مہینے جمع کر تے رہیں۔ اللہ نہ کرے کبھی کوئی ایمرجنسی ہوجائے تو کچھ نہ کچھ
جمع کیا ہوا ہو۔ ابھی آج کل ہی کی مثال لے لیجئے کہ یہ جو کرونا نے تباہی مچائی
ہے اس سے لوگ کتنے متاثر ہوئے ہیں، لوگوں
کے چلتے کاروبار بند ہو گئے۔ جس کے پاس کچھ نہ کچھ جمع کیا ہوا تھا اس کو لوگوں کے
سامنے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑ رہا۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں ہر قسم کی آزمائش سے بچا ئے اور ہمیں اخراجات میں کفایت شعاری کرنے کا ہنر عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ
النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اسلام ایک دینِ
کامل اور مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں انسان کے پیدا ہونے سے لے کر موت تک زندگی کے
تمام شعبہ جات کے حوالے سے مکمل رہنمائی موجود ہے ۔معاشرت ہو یا حکومت ، تجارت ہو
یا معیشت الغرض ہر حوالے سے اسلام نے انسانوں کی بہترین تربیت کی ہے۔
کفایت شعاری
بھی ان میں سے ایک ہے ۔ اسلام میں فضول خرچی کرنا یا پھر کنجوسی کرنا دونوں سے ہی
منع کیا گیا ہے اور درمیانی راہ چلتے ہوئے میانہ روی کا حکم دیا گیا ہے۔ کفایت
شعاری کے کثیر دینی و دنیاوی فوائد ہیں ۔
رسولِ کریم
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: خرچ میں مِیانہ
رَوِی آدھی زندگی ہے۔(مشکوۃ المصابیح،ج2، ص227، حدیث:5067)
حکیم الامت
مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے
ہیں: خوش حالی کا دار و مَدار دو چیزوں پر ہے، کمانا، خرچ کرنا مگر اِن دونوں میں
”خرچ کرنا“ بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے
خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِنْ شَآءَ اللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔(مراٰۃ المناجیح،
6/634)
فضول خرچی، اِدھر اُدھر پیسے برباد کرنے اور
عیاشیوں میں اڑانے والے اکثر بے برکتی اور تنگی رزق کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اسراف
کی مذمّت میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تُسْرِفُوْاؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ
ترجمہ کنز العرفان: اور فضول خرچی نہ کرو بیشک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند
نہیں فرماتا۔ (پ8،الانعام:141)
اپنی روز مرہ کی زندگی میں نفسانی خواہشات کو
بھی قابو میں رکھنے اور چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے سے تھوڑی آمدن بھی کفایت کرتی
ہے ۔ بلا ضرورت صرف دکھاوے اور واہ واہ کروانے کیلئے نئے کپڑے، گاڑی، گھر، فرنیچر وغیرہ خریدنا اور پھر
محدود آمدنی ہونے کے وجہ سے طرح طرح کے مسائل کا شکار ہونا فضول خرچی اور اسراف ہی
کا نتیجہ ہے۔
کفایت شعاری کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بندہ
اپنی حیثیت اور ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے قرض وغیرہ لینے کی
نوبت نہیں پڑتی ۔
حضرت سَیّدُنا
امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے شہزادے حضرت حَمَّاد
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو نصیحت فرمائی: اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ
تدبیر(یعنی کفایت شِعاری)سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔(امام اعظم کی
وصیتیں،ص32)
الغرض میانہ
روی اور کفایت شعاری اختیار کرنے کے کثیر فوائد و برکات ہیں۔ فرمانِ مصطفٰے صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو مِیَانہ رَوِی اِختیار کرتا
ہےاللہ پاک اُسے غنی فرما دیتا ہے اور جو
فضول خرچی کرتا ہےاللہ پاک اُسے تنگ دَسْت کر دیتا ہے۔
(مسند
بزار،ج3، ص160،حدیث:946)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں کفایت شعاری کی نعمت عطا فرمائے اور اسراف سے بچائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم