بلاشبہ اسلام کی نظر میں کفایت شعاری ایک ایسافعل ہے جس سے چین و سکون اور راحت و آرام حاصل ہوتا ہے اخراجات میں کفایت شعاری و میانہ روی اختیار
کرنے وا لا شخص صبر، شکر اور قناعت جیسی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
اعتدال پسند شخص اخراجات میں بھی تدبیر سے کام لیتا ہے
کیوں کہ راحت و سکون اس چیز کا نام نہیں کہ زیادہ لذیذ کھانا کھایا جائے، بلکہ
راحت و سکون تو میانہ روی اور کفایت شعاری میں ہےکہ صرف ضروریاتِ زندگی جتنی ہی
مقدار میں اس دنیا سےلیا جائے خواہشات سے بچا جائے کیوں کہ خواہشات کو جتنا بڑھانا
چاہو تو بڑھتی چلی جائیں گی حاجت تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے مگر خواہشات تو
بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہو پاتیں اور اگر اپنے نفس کو تھوڑے اور کفایت شعاری کا
عادی بنالیا جائے توہزاروںمصیبتوں اور تکالیف سے نجات مل جائے گی۔
اسلام
ہمیں خرچ کرنے میں اِعتدال کو ملحوظ رکھنے کا فرماتا ہے اور اسے ایک مثال سے
سمجھایا گیا کہ نہ تو اس طرح ہاتھ روکو کہ بالکل خرچ ہی نہ کرو اور یہ معلو
م ہو گویا کہ ہاتھ گلے سے باندھ دیا گیا ہے اور دینے کے لئے ہل ہی
نہیں سکتا ، ایسا کرنا تو سبب ِملامت ہوتا
ہے کہ بخیل ،کنجوس کو سب لوگ برا کہتے ہیں اور نہ ایسا ہاتھ کھولو کہ اپنی ضروریات
کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہے کہ اس صورت میں آدمی کو پریشان ہوکر بیٹھنا
پڑتا ہے۔اس بات کو اللہ تعالٰی
قرآن مجید میں یوں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ
مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا
مَّحْسُوْرًا(۲۹)ترجمۂ کنز العرفان : اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ
رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔(بنی اسرائیل
،29 )
صحابہ کرام رضی اللہُ عنہ کی کفایت شعاری ملاحظہ فرمائیں حضرت
حسن بصری فرماتے ہیں : میں نے
ستر بدری صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کو
دیکھا، وہ اللہ تعالٰی کی
حلال کردہ اَشیاء سے اس قدر اِجتناب کرتے تھے جتنا تم حرام اشیاء سے پرہیز نہیں کرتے۔دوسری
روایت میں اس طرح ہے کہ جس قدر تم فراخی کی حالت پر خوش ہوتے ہو ا س سے زیادہ وہ
آزمائشوں پر خوش ہو اکرتے تھے،اگر تم انہیں دیکھ لیتے تو کہتے یہ مجنون ہیں ،اور
اگر وہ تمہارے بہترین لوگوں کو دیکھتے تو کہتے: ان لوگوں کا کوئی اخلاق نہیں ،اور
اگر وہ تم میں سے برے لوگوں کو دیکھتے تو کہتے:ان کا قیامت کے دن پر ایمان نہیں ۔
ان میں سے ایک کے سامنے حلال مال پیش کیا جاتا تو وہ نہ لیتا اور کہتا:مجھے اپنے
دل کے خراب ہونے کا ڈر ہے۔ ( احیاء علوم الدین، کتاب الفقر والزہد، بیان تفصیل
الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ ، ۴ / ۲۹۷ )
اللہ تعالیٰ ہمیں فضول خرچ کرنے سے منع فرماتا
ہے کہ اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ ارشاد خدا وندی ہے
وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶)
اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ
لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین
اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں
اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(بنی اسرائیل، آیت 27)
حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے اس کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں خرچ کر دے تو وہ
فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام
میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ ( خازن، الاسراء، تحت
الآیۃ : ۲۶ ، ۳ / ۱۷۲ )
اللہ پاک سےدعا ہے کہ وہ
ہمیں کِفایت شِعاری اختیار کرنے ،اَخراجات پر قابوپانے اور ماہانہ آمدنی کو مَعقول طریقے سے استعمالکی توفیق
عطا فرمائے۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم