کفایت شعاری کا معنی ہے کہ انسان اپنے
اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اعتدال ۔توازن اور میانہ روی اختیار کرے اور
غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ ایک عام آدمی کی ضروریات بہت زیادہ نہیں ہیں ۔کہانے
کے لئے دو وقت کی روٹی۔پہننے کے لئے کپڑے اور رہائش کے لئے مکان لیکن انسان نے اب
اپنی ضروریات کو کھینچ تان کر بہت پھلا لیا ہے ۔انواع و اقسام کے کھانے ۔ مختلف
ڈیزائنوں کے بیسیوں جوڑے صبح کا الگ شام کا الگ دفتر کا الگ اور رات کا الگ ، اسی
طرح مختلف جوتوں کے ڈھیروں جوڑے ، وسیع مکانات ،آمدورفت کے لئے کئی کئی گاڑیاں یہ
طرز زندگی فضول خرچی کا غماز ہے۔اور کفایت شعاری کے طریقے سے بالکل برعکس۔
انسان کے پاس کتنی ہی دولت ہو اسکے وسائل بے
حد وحساب ہوں بہرحال یہ وسائل ختم ہونے والے ہیں۔لہذا انسان کے لئے دانشمندانہ طرز
عمل یہی ہے کہ جہاں سو روپے کے خرچ سےضرورت پوری ہو سکتی ہے وہاں ایک روپیہ بھی زیادہ
خرچ نا کیا جائے۔ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو۔(الاعراف: 31)
اسی طرح جو لوگ زندگی میں اسرافانہ رویہ
اختیار کرتے ہیں انہیں شیطان کا بھائی
قرار دیا گیا ہے ۔ فرمایا : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا
اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی
ہیں ۔(بنی اسرائیل: 27)
گویا فضول خرچی شیطانی عمل ہے
نچوڑا ہے ہم
سب کو اسراف نے
بنایا ہے قلاش
و بے روزگار
نت نئی چیزوں نے ہماری زندگی میں زہر گھول
دیا ہے۔ہمارے اسلاف اور ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے ساتھیوں نے ہمارے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا ہے وہ
انتہائی سادگی پر مبنی ہے۔ہم نے سادگی کو چھوڑ کر خود کو مشکلات میں مبتلا کر لیا ہے۔
سادگی اسلام کا حکم بھی ہے اور ہماری ضرورت بھی ہے ۔اگر آج ہم غیر ضروری اخراجات
سے بچیں گے تو ہم بچت کرنے کے لائق ہو سکیں گی۔اور یہ بچا ہوا پیسہ کل ہماری
مشکلات میں کام آئے گا اور اگر ہم اجتماعی طور پر سوچیں تو یہ روپیہ ہمارے ملک کی
ترقی کے کام آئے گا اور اس کا فائدہ پورے ملک و قوم کو ہو گا۔کفایت شعاری سے
مہنگائی کو کم کیا جاسکتا ہے ۔معاشیات کا اصول ہے کہ جتنی زیادہ خریداری ہو گی
قیمتوں میں اتنا ہی اضافہ ہو گا ۔اگر ہم بے تحاشہ خریداری سے اجتناب کریں تو
قیمتوں میں اضافے کا رحجان کم ہوگا۔اور قیمتیں اعتدال پر رہیں گی۔
ہم فضول خرچی میں اس قدر آگے بڑہ چکے ہیں کہ
اپنے ملک کی مصنوعات کو چھوڑ کر دوسرے ملک کی مصنوعات خریدتے ہیں۔
پھنسے غیر
ملکوں کی اشیاء میں ہم
ہوئے ظاہری
شان پر کیوں نثار
مشہور ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے
چاہیئے ۔عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں۔نمودو نمائش سے
پرہیز کریں۔شاندار عمارات آرائشی سازوسامان ۔ اشیائےتعیش اور فیشن پرستی کی دوڑ
میں شامل ہونے کی بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکہیں۔ظاہر پرستی کو چھوڑ کر سادہ
پرستی اپنائیں۔اس طرح نہ صرف ہم مالی طور پر آسودہ ہونگے بلکہ سادگی اور کفایت
شعاری ہمیں خوشحال بنائے گی ۔یوں ہماری زندگی کے ساتھ ہماری عاقبت بھی سنور جائے
گی۔
سنبھالیں اگر
اپنی حالت کو ہم
تو اس طرح ذلت
نہ ہو بار بار