وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى
حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ
الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ
لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)ترجمۂ کنزالایمان:اور رشتہ داروں کو ان کا حق دےاور
مسکین اور مسافر کواور فضول نہ اڑا۔بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں
کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(پ15،بنی اسرائیل:26،27)
اس آیت مبارکہ کی
تفسیر میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں: رب تعالی نے مسلمان کو صرف اسی لئے دولت اور سر مایہ دیا ہے
تاکہ وہ اس کو اللہ تعالی کے بتائے ہوئے ان راستوں پر خرچ کرے۔ ان جگہوں اور ان
لوگوں پر خرچ کرنا ہی حق خرچ کرنا ہے ۔
کفر و شرک و بدعت اور اللہ اور رسول
کی ناپسندیدہ جگہ شیطانی تماشوں میں خرچ کرنا اور اہل حق کو نہ دینا شیطانی کام ہیں۔
ترمذی شریف کی ایک حدیث مبارکہ میں
پیارے آقا علیہ الصلاة والسلام کا فرمان ہے: قیامت کے دن بندہ اس وقت تک قدم نہ
اٹھا سکے گا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کر لیا جائے۔ ان میں دو
سوال یہ ہیں: (1)مال کہاں سے کمایا اور( 2)کہاں خرچ کیا ؟
ابلیس ہی بندے کو وسوسہ دیتا ہے کہ سود جوئے اور تماشوں میں
دولت لٹاؤ اور ابلیس اپنے رب تعالیٰ کا ہر لمحہ بہت ہی ناشکرا ہے اسی طرح جو اس کے
وسوسوں کی پیروی کرے گا وہ بھی اس ہی جیسا
اس کا بھائی ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی نے مکاشفۃ القلوب میں ایک حدیث
مبارکہ نقل کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اس کے لئے خوشخبری ہے جس نے
جمع کئے ہوئے مال کو اچھے طریقے پر خرچ کیا۔
لہذا ہمیں چاہیے
کہ اخراجات میں کفایت شعاری کو اپناتے
ہوئے فضول خرچی سے بچیں۔