ہمارا
اسلام دین اور دنیا کے مُعاملات میں ہمیں میانہ روی کا درس دیتا ہے، تاکہ ہم اپنی
زندگی کی بہت ساری اُلجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں، ایک گھر کو اَمن کا
گہوارہ بنانے کے لیے" اخراجات میں کفایت شعاری" بھی بے حد ضروری ہے کہ
اس میں خوشی و خُوشحالی اور سُکون و عافیت ہے، اس کے برعکس اگر خر چ کو مُنظّم
انداز میں نہ چلایا جائے، پیسہ بے دریغ استعمال کیا جائے، بچت پر توجّہ نہ دی جائے
اور اخراجات میں کفایت شعاری(frugality ) کو ترک کیا جائے تو بے سکونی، بے اطمینانی، بے برکتی، شکوہ و
شکایت، گھریلو جھگڑے اور ذہنی اُلجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان ہے:" خر چ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔"(مشکاة المصابیح2/227
حدیث5067)
حکیم
الاُمت مفتی احمد یار خان علیہ
الرحمۃ الحنان اس حدیث مبارکہ کے تحت کے فرماتے ہیں:" خوشحالی
کا دارو مدار دو چیزوں پر ہے، کمانا اور خرچ کرنا، مگر ان دونوں میں خر چ کرنا بہت
ہی کمال ہے، کما نا سب جانتے ہیں خر چ کر نا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا
سلیقہ آ گیا وہ ان شاءاللہ ہمیشہ
خوش رہے گا۔"(مراة المناجیح 6/634)
میری
محترم اسلامی بہنوں!آج ہم محض دکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جُھوٹی
خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصّہ کبھی فیشن(fashion) کے نام پر، کبھی مہنگے ریسٹورنٹ(restaurant (میں
کھانا کھا کر، کبھی نئے موبائل، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے ، کبھی بلا
ضرورت گھر کی تزئین وآرائش کر کے اور کبھی تقریبات میں نت نئے ملبوسات وجیولری کے
نام پر خر چ کر ڈالتے ہیں اور پھر طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں، دوسروں پر
بوجھ بننے اور لوگوں سے اُدھار مانگتے نظر آتے ہیں، یاد رکھیے!!! "ضرورت تو
فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے، لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوپاتی۔"
حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنے شہزادے حضرت حماد رحمۃ اللہ علیہ کو نصیحت فرمائی:"اپنے
پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیر( یعنی کفایت شعاری) سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز
ہو جانا۔"(امام اعظم کی وصیتیں ،ص32)
ماہانہ
آمدنی کو معقول طریقے سے استعمال کیجئے، غور فرمائیے! کہ کب، کہاں، کیسے، کیوں اور
کتنا خرچ کرنا ہے؟ معاشرے کے رُجحانات کو مت دیکھئے، بلکہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں
پھیلائے اور ہرگز نہ سوچیے کہ لوگ کیا کہیں گے؟
طرزِ
زندگی میں سادگی کو اپنا معمول بنائیے، مہینے کے آخر میں اپنی آمدنی اور اخراجات
کا موازنہ(comparison ) کیجیے، اور
جو خرچ فضول نظر آئے آئندہ اُس سے پرہیز کیجیے، یوں آپ اپنے اخراجات پر قابو پا لیں
گے اور کفایت شعاری کی برکتیں نصیب ہوں گی۔
دین اسلام ہمیں میانہ روی وکفایت شعاری کی بہت زیادہ
ترغیب دیتا ہے، فرمان مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم ہے:"جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اُسے غنی فرما دیتا ہے اور
جو فُضول خرچی کرتا ہے اللہ
اُسے تنگ دست کر دیتا ہے۔"( مسند بزار3/160 حدیث946)
بارگاہِ
الٰہی میں دُعا ہے کہ وہ ہمیں کفایت شعاری کو اپنانے اور اپنے اخراجات پر قابو
پانے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہمارا گھر اَمن کا گہوارہ بن جائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم