اسلام
نے کسی بھی پہلو میں انسان کو آزاد بھی نہیں چھوڑا اور ہر پہلو میں رہنمائی بھی
فرما دی ہے، اگر مطالعہ کیا جائے تو اسلام
نے نکاح، طلاق، نماز، روزہ، زکوٰۃ،
اذان ، جہاد ، مہر ، قربانی یہاں تک کہ ہر دن کے بارے میں قرآن پاک میں موجود ہے، اسلام نے ہر ایک پہلو میں ہماری رہنمائی فرمائی
ہے، اسی کو ایک جامع اور کامل دین کہا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کفایت شعاری ہے کیا؟
کفایت شعاری: روپے
پیسے کو عقلمندی سے خرچ کرنے کا نام کفایت شعاری ہے، یعنی فضول خرچی اور کنجوسی کی درمیانی حالت کو کفایت
شعاری کہتے ہیں، اسی طرح فضول خرچی کا دوسرا نام اِسراف بھی ہے اور فضول خرچی کو
محاورے سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، یعنی"
چادر دیکھ کے پاؤں پھیلانا" جہاں ضرورت نہ ہو وہاں خرچ کرنا"فضول خرچی "ہے۔
سورہ
فرقان میں، اللہ پاک نے عباد الرحمن کے وصف بیان
فرمائے ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ
لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے
بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے
بیچ اعتدال پر رہیں۔"(الفرقان، آیت 66)
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ
ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ
الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷) ترجمۂ کنز العرفان :اور رشتہ
داروں کو ان کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو، اور فضول خرچ نہ کرو، بیشک فضول خرچی
کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(بنی اسرائیل،
آیت 27)
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ
مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْرِفِیْنَ۠(۳۱)اے
آدم کی اولاد اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو بے شک حد سے بڑھنے والے اسے
پسند نہیں ۔ ( الاعراف، آیت31)
ان
آیات سے یہ بات واضح ہے کہ جہاں ہمیں فضول خرچی سے بچنا ضروری ہے وہیں بخل سے بچنا
بھی انتہائی ضروری ہے، کیونکہ بخیل چاہے
جتنا بھی پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ جنت میں داخل ہونے سے محروم رہ جائے گا، کیونکہ
بخیلی کی وجہ سے اللہ پاک نے
اسے جو علم(نعمت) دیا ہے، لوگ اس تک پہنچنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ارشادِ
باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶) تَرجَمۂ کنز الایمان:: اور جو اپنی جان کی لالچ سے بچایا گیا تو وہی
فلاح پانے والے ہیں (التغابن، آیت 16)
مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:"سخی اللہ کے قریب ہے اور انسانوں کے قریب
ہے، جنت کے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے
اور بخیل اللہ سے دور ہے، انسانوں سے دور ہے، جنت سے دور ہے اور جہنم کے قریب ہے۔"
لہذا کفایت شعاری ایک ایسی عادت ہے جو ہر حالت میں
مفید ثابت ہوتی ہے اور یہ ایسا عمل ہے جو پریشانیوں کو کم کرتا ہے۔اور زندگی خوش
اسلوبی سے گزرتی ہے، ضرورت کے لئے تو خرچ بہر حال کرنا ہی پڑتا ہے، کوئی ضرورت کے مطابق کر لیتا ہے اور کوئی ضرورت
پڑنے پر بھی نہیں کرتا، لیکن بہترین طریقہ
کفایت شعاری ہے، کیونکہ فضول خرچی سے "خزانے
بھی خالی ہو جاتے ہیں۔"