اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کے متعلق دین اسلام ہماری رہنمائی نہ فرماتا ہو۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے  جس نے دینی اور دنیاوی ہر مرحلے میں اپنے ماننے والوں کو بہترین اور زریں اصولوں سے نوازا ہے۔ جہاں اسلام نے ہمیں اپنے جسم و جان،اہل و عیال اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں۔ اللہ پاک قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(پ15،بنی اسرائیل ،29 )

اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ’’اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ‘‘۔اس کا معنی یہ ہے کہ بخل نہ کرو اور اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے تنگ دل نہ ہو، اور ’’پورا نہ کھول دے‘‘سے مراد یہ ہے کہ جتنی ضرورت ہو اتنا خرچ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے یعنی اسراف سے بچا جائے۔

اسراف و فضول خرچی کا مفہوم یہ ہےکہ ’’خرچ کرنے میں حد شرعی سے تجاوزکرنا‘‘جبکہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ناجائزاور حرام کاموں میں خرچ کرنا‘‘

جبکہ میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہرچيزمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا،خواہ مال خرچ کرنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔اسلام ہمیں اسراف وفضول خرچی سے رکنے اور اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے کا حکم اورتعلیم دیتاہے۔

اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام مذہبِ اعتدال ہے۔ اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گيا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے،مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئی ہے ۔قرآن میں اسراف اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اورفضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا گيا ہے۔

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان: اور فضول نہ اڑا بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(پ15،بنی اسرائل:26،27)

سورہ ٔفرقان میں اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ ( پ19،الفرقان : 67)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا ۔

اس مختصر حدیث شریف میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناداری غریبی اور تنگ دستی جیسی خطرناک آفتوں سے بچنے کے لئے ہمیں خرچ میں میانہ روی اختیارکرنے کی تاکید و تلقین فرمائی ہے۔اعتدال و میانہ روی کی تاکید کے معاملے میں اسلام تمام مذاہب سے ممتازومنفرد ہے۔ اسلام ہمیں ہرعمل میں میانہ روی اور اعتدال کی تعلیم دیتاہے۔

اسراف و فضول خرچی سے پرہیزکرنے والا کبھی تنگ دستی اورفقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہایت سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا، وہ نہ تونمود و نمائش میں اپنی رقم ضائع کرے گا اورنہ عیش وعشرت میں اپنی دولت برباد کرےگا ۔اگرہم اعتدال اور میانہ روی کے اس سنہری اصول کو اختیار کرلیں تو ہمارامعاشرہ بے شمار برائيوں اور مشکلات سے ازخود نجات حاصل کرلے گا۔