وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ
لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاترجمہ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔( پ19،
فرقان :67)
یہاں کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال ذکرفرمایا جارہا ہے کہ وہ
اسراف اور تنگی دونوں طرح کے مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے
رہتے ہیں (کفایت شعاری اختیار کرتے ہیں )۔
لہٰذا
حق يہ ہے کہ جہاں خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل ہے اور جہاں خرچ نہ
کرنا واجب ہو وہاں خرچ کرنا فضول خرچی اور اسراف ہے اور ان دونوں کی درميانی صورت
قابلِ تعريف ہے اور يہی وہ صورت ہے جسے کفایت شعار ی سے تعبير کرنا چاہے، کيونکہ
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو اسی کا حکم
ديا گيا ہے۔چنانچہ،
ایک حدیث مبارکہ کا جز ہے کہ پیارے
آقا صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جو میانہ روی اختیار کرتا
ہے اللہ پاک اسے غنی فرما دیتا ہے، جو
فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے تنگدست کر
دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ پاک کا
ذکرکرتا ہے اللہ پاک اس سے محبت کرنے لگتا
ہے۔
(جہنم
میں لےجانے والے اعمال ، 1/259 )
حضرت سیِّدُنا
ابوذَرغِفَاری رَضِیَ اللہ عَنْہ فرماتے ہیں:آپ صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنا دست ِ اقدس میرے
سینے پر مار کر فرمایا:’’اے ابو ذَر! کفایت شعاری سے بڑھ
کر کوئی عقلمندی نہیں، گناہوں کو چھوڑنے سے بڑھ کر کوئی تقویٰ و پرہیز گاری نہیں
اور حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر کوئی شرافت نہیں۔‘‘ (حلیۃ الاؤلیا ءو طبقات الاصفیا ء،جلد ۱ ، ۳۲۱)
کسی نے حضرت سیِّدُناحسن بصری رحمۃ اللہ علیہ
سے عرض کی:ہمیں صحابۂ کرام کی صفات بتائیے۔آپ
نے روتے ہوئے فرمایا: ’’ان سے بہت سی علامات ِخیر ظاہر
ہوتی تھیں خاص طورپرہدایت،سچائی ،کفایت شعاری اپناتے ہوئے کھردرالباس زیب تن کرنا،
عاجزی وانکساری سے چلناپھرنا، رزق حلال ہی کھانا پینا، خشوع وخضوع سے اطاعت ِ
الٰہی بجالانا، رضائے الٰہی کی خاطر ہی محبت ونفرت کرنا، نیز ان کے اخلاق اچھے،
اخراجات قلیل اورآخرت کے معاملے میں دنیا کا قلیل مال ہی ان کے لئے کافی ووافی
تھا۔‘‘
(حلیۃ الاؤلیا ءو طبقات الاصفیا ء،جلد۲ ،ص
،۲۳۷)
حضرتِ سیِّدُناامامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
اپنے صاحبزادے حضرتِ سیِّدُناحماد رحمۃ اللہ علیہ کو
نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:)اے میرے بیٹے! اللہ پاک تجھے ہدایت دے اور تیری مدد فرمائے! میں تجھے
چندباتوں کی نصیحت کرتا ہوں، اگر تم نے انہیں یاد رکھا اوران پر عمل کیا تو مجھے
اُمید ہے کہ دُنیا وآخرت میں سعا دت مند رہو گے۔ ان نصیحتوں میں سے ایک یہ
بھی تھی کہ اپنے پاس موجود مال میں حسنِ
تدبیریعنی کفایت شعاری سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔ (امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی وصیتیں ،ص ۳۲)
مفتئ
دعوتِ اسلامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی
کفایت شعاری جیسی عظیم خوبی سے متصف تھے آپ کی کفایت شعاری کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنی
الماری میں صرف چار جوڑے رکھتے، ماہِ ربیعُ النُور میں نئے کپڑے سلواتے تو پرانے
کسی کو دے ديتے۔انتقال سے کچھ عرصہ قبل جب پنجاب تشریف لے گئے تو اپنے تمام جوڑے
ساتھ لے گئے اور تقسیم کر دیئے تھے۔ (مفتیٔ دعوت اسلامی،ص ۳۹)