پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللّہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے تاکہ ہم ان کی نصیحتوں پر عمل کرے آج   اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی کچھ قرآنی نصیحتیں پڑھیں گئے. حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحتیں:

قوم کو عذاب الہی سے ڈرا کر نصیحت: 1) ارشاد فرمایا: اے میری قوم! مجھے سے تمہاری عداوت و بغض، میرے دین کی مخالفت، کفر پر اصرار ، ناپ تول میں کمی اور تو بہ سے اعراض کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا قوم نوح یا قوم عاد و ثمود اور قومِ لوط پر نازل ہوا اور ان میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا زمانہ دوسروں کی بنسبت تم سے زیادہ قریب ہے، لہذا ان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں میری مخالفت کی وجہ سے تم بھی اسی طرح کے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤ جس میں وہ لوگ مبتلا ہوئے۔ لہذا تو بہ کرو، بیشک میرا رب اپنے ان بندوں پر بڑا مہربان ہے جو توبہ استغفار کرتے ہیں اور وہ اہلِ ایمان سے محبت فرمانے والا ہے۔ (تفسیر طبری، هود، تحت الآية: 89، 7/ 102-103 خازن ھود تحت الایۃ 89-90 2/ 367 - 368 ملتقطاً)

2) گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہلِ مدین کو راہ نجات دکھانے اور ان کے اعمال و کردار کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہی کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو منصب نبوت پر فائز فرما کر ان کی طرف بھیجا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادت الہی کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو۔ کفر و گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

قرآن کریم میں ہے: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ( پارہ 8سورۃ الاعراف آیت 85)

ترجمہ کنزالایمان : اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔قرآن مجید میں ہے:

3) وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(89)وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(90)اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔(پارہ 12سورۃ الھود آیت 89-90)

حرام مال ترک کرنے اور حلال مال حاصل کرنے کا حکم: حضرت شعیب علیہ السلام نے ناپ تول سے متعلق مزید نصیحت اور فساد پھیلانے سے بچنے کی تلقین کے بعد فرمایا: حرام مال ترک کرنے کے بعد جس قدر حلال مال بچے وہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ (مدارک، هود، تحت الآية: ۸۲، ص ۵۰۹، خازن، هود، تحت الآية: ع8، 2/388، ملتقطاً)

قرآن پاک میں ہے:

وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(85)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں۔(پارہ 12 سورۃ الھود آیت 85-86)

اللّہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام کی سنتوں کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اللّہ تعالیٰ نے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے کبھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کبھی حضرت شعیب علیہ السلام کبھی حضرت نوح علیہ السلام کبھی حضرت لوط علیہ السلام وغیرہ  تاکہ ہم ان کی نصیحتوں پر عمل کرے آج اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی کچھ قرآنی نصیحتیں پڑھیں گئے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گئے۔

1) حضرت شعیب علیہ السلام کا اصحاب ایکہ کو وعظ و نصیحت:حضرت شعیب عَلَيْهِ السَّلَام نے اصحاب ایکہ کو جو وعظ و نصیحت فرمائی اسے قرآنِ کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176) اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)

ترجمہ کنزالایمان :بَن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (پارہ 19 سورۃ الشعراء آیت 176 تا183)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام صرف عبادات ہی سکھانے نہیں آتے بلکہ اعلیٰ اخلاق اور معاملات کی درستی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے ، امین۔

2) کفار قوم سے دوٹوک کلام: پھر کفار سے نہایت جرات مندی کے ساتھ یہ کلام فرمایا: وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌؕ-سَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ مَنْ هُوَ كَاذِبٌؕ-وَ ارْتَقِبُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌ(93) ترجمۂ کنز الایمان : اور اے قوم تم اپنی جگہ اپنا کام کیے جاؤ میں اپنا کام کرتا ہوں اب جانا چاہتے ہو کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے گا اور کون جھوٹا ہے اور انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔(پارہ 12 سورۃ الھود آیت 93 ترجمہ کنزالایمان)

3) حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا: جب حضرت شعیب علیه السلام کو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے یوں دعا فرمائی: ربَّنَا افْتَح بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹) " ترجمہ کنزالایمان : اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ (پارہ 9 سورۃ الاعراف آیت 89)

حرام مال ترک کرنے اور حلال مال حاصل کرنے کا حکم: قرآن پاک میں ہے: وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(85)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں۔(پارہ 12 سورۃ الھود آیت 85-86)

اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


اللہ پاک نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے ہیں ان میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام ۔ اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا  ذکر خیر بڑے ادب سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

مخالفین کو نصیحت اور احسانات الہی کی یاد دہانی۔ یہ لوگ حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیحتیں ماننے کی بجائے ان کی مخالفت پر اتر اتے اور لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکنے کے لیے یہاں تک کہ کوشش کرتے کہ مدین کے راستوں پر بیٹھ کر ہر راہ گیر سے کہنے لگے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے۔تم اس کے قریب بھی مت بھٹکنا۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے بعد والے لوگوں نے ڈاکے ڈال کر مسافروں کو لوٹتے بھی تھے۔اس پر حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں سمجھایا اس حرکت سے منع کیا اور انہیں انعامات الہی یاد دلائے کہ تم تھوڑے تھے تو اللہ تعالی نے تمہیں بہت کر دیا غریب تھے امیر کر دیا کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضہ ہے کہ تم مجھ پر ایمان لا کر اس کا شکر ادا کرو نیز تم پچھلی امتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام کو عبرت سے دیکھو اور سوچو کہ ان کا کیا حال ہوا تھا۔

اللہ تبارک و تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86) پارہ نمبر (8) سورۃ الاعراف آیت نمبر (86) ترجمۂ کنز الایمان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔

ایک اور جگہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔( وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ)) (87) پارہ نمبر (8) سورۃ الاعراف ایت نمبر (87)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لایا جو میں لے کر بھیجا گیا اور ایک گروہ نے نہ مانا تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ ہم میں فیصلہ کرے اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحت ۔گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہل دین کو راہ نجات دکھانے اور ان کے اعمال کردار کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی نے انہی کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو نبوت پر فائز فرما کر ان کی طرف بھیجا چنانچہ آپ علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادت الہی کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو کفر گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔اللہ تبارک و تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)پارہ نمبر 8 سورۃ الاعراف آیت نمبر 85۔ ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

یہاں روشن دلیل سے مراد وہ معجزہ ہے جو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی اس صداقت کی نشانی کے طور پر دکھایا یہ معجزہ کیا تھا اس کا ذکر قران کریم میں نہیں کیا گیا۔ایک اور یہ بھی ہے کہ اس سے مراد حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کا رسول بن کر تشریف لانا ہے۔


اللہ تعالیٰ کے ایک لاکھ سے زائد انبیاء اکرام میں سے ایک نبی حضرت شعیب علیہ السلام ہیں خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے صہری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے یہاں کے لوگ کفر و شرک بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول کی کمی جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو مقرر فرمایا آپ علیہ السلام نے احسن انداز میں توحید رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع کیا عرصہ دراز تک تبلیغ و نصیحت کرنے کے باوجود کچھ لوگ ایمان سے مشرف ہوئے  ۔حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بارے میں نصیحت فرمائی حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ناپ تول کے بارے میں نصیحت فرمائی:

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا :ناپ اور تول میں کمی نہ کرو اس کے بعد فرمایا ’’بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جاؤ، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔ حوالہ (تفسیر کبیر، ہود، تحت الآیۃ: ۸۴، ۶ / ۳۸۴، مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۸۴، ص۵۰۸-۵۰۹، ملتقطاً)

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو حلال و حرام کے بارے میں بتایا یعنی حرام مال ترک کرنے کے بعد جس قدر حلال مال بچے وہی تمہارے لئے بہتر ہے (مدارک، ہود تحت الآیۃ: ۸۶، ص۵۰۹، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۸۶، ۲ / ۳۶۶، ملتقطاً)

دعا ہے رب کائنات سے ہمیں اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ناپ تول میں کمی کرنے سے بچائے اور ہمیں اپنی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حرام لقمے سے بچائے آمین ثم آمین یا رب العالمین


خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالی کے برگزیدہ رسول،حضرت موسی کلیم اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے صہری  والد اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل میں سے تھے آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے، یہاں کے لوگ کفر و شرک بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرتے تھےاور ان جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے،ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو مقرر فرمایا آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں توحید رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع کیا۔

حضرت شعیب علیہ السلام کا تعارف :

نام و لقب :

آپ علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کہ حضور پرنور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے، کہ انہوں نے انتہائی احسن طریقہ سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا۔

شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحت: گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہل مدین کو راہ نجات دکھانے اور ان کے اعمال اور کردار کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی نے انہیں کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو منصب نبوت پر فائز فرما کر ان کی طرف بھیجا۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادت الہی کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ خرید اور فروخت وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو کفر و گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔

اللہ عزوجل قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

یہاں روشن دلیل سے مراد وہ معجزہ ہے جو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صداقت کے طور پر دکھایا۔یہ معجزہ کیا تھا اس ذکر قرآن کریم میں نہیں کیا گیا۔ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کا رسول بن کر تشریف لانا ہے:

حضرت شعیب علیہ السلام کا اصحابِ ایکہ کو وعظ و نصیحت:

حضرت شعیب علیہ السلام نے جو اصحابِ ایکہ کو وعظ و نصیحت فرمائی اس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا۔ كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176) قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَ(184) (پ۔19۔الشعراء:176تا184۔)

ترجمہ کنزالایمان:(بَن والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام صرف عبادات کی سکھانے کے لئے نہیں آتے بلکہ اعلیٰ اخلاق اور معاملات کی درستی کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

یا رب العلمین ہمیں حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے فیضان سے مالا مال فرما اور حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں برائی سے روکنے کی اور نیکی کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرما۔ امین ثم امین یا رب العالمین


حضرت شعیب علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ رسولوں میں سے ایک ہیں جنہیں اللہ پاک نے اہل مدین کی طرف بھیجا۔  قرآن مجید میں حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی گئی درج ذیل نصیحتیں ذکر کی گئی ہیں ۔

1۔ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ اہل مدین شرک میں مبتلا تھے حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں معبودانِ باطلہ کو چھوڑ کر فقط معبود حقیقی کی عبادت کرنے کی نصیحت فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا: قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- ترجمہ کنزالایمان ۔ کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔( الاعراف 85)

2۔ناپ تول میں کمی سے بچو۔ شرک کے علاوہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں دوسری بڑی برائی یہ تھی کہ یہ لوگ ناپ تول میں کمی کرتے تھے تھے ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں اس کام سے باز رہنے کی نصیحت کی چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :

فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ۔ ترجمہ کنزالایمان:تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو۔( الاعراف 85)

3۔ فساد نہ پھیلاؤ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کی شرک، ناپ تول میں کمی اور اس طرح کی دوسری نافرمانیاں کر کہ تم زمین میں جو فساد کرتے ہو اس سے باز آ جاؤ ۔ چنانچہ فرمایا: وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ- ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔ ( الاعراف 85)

4۔ آخرت پر ایمان۔ جب ایک انسان میں عقیدہ آخرت راسخ ہو جاتا ہے تو اللہ کی نافرمانیوں سے بچنا اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس رب کی نافرمانی کیسے کروں کہ جس کی بارگاہ میں جلد پیش ہونا ہے۔ لہٰذا حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم میں عقیدہ آخرت کو راسخ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ گناہوں سے بچ سکیں۔ چنانچہ فرمایا: وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ ترجمہ کنزالایمان: اور پچھلے دن کی امید رکھو (عنکبوت 36)

5۔ خوف خدا۔ دل میں خوف خدا پیدا ہو جائے تو انسان خود ہی نافرمانی سے بچ جاتا ہے ۔ لہذا حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو خوف خدا کی نصیحت کی کہ تم اللہ کے عذاب سے ڈرتے کیوں نہیں ہو۔ چنانچہ فرمایا: اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان:جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں( الشعراء 177)

الغرض حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں عذاب سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ پھر بھی جو لوگ ایمان نہیں لائے تھے توان پر شدید زلزلے کا عذاب نازل ہوا اور وہ گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو: اللہ تعالیٰ کے ایک لاکھ سے زائد انبیاء اکرام میں سے ایک نبی حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں آج ہم ان کی قرآنی نصیحتیں پڑھتے ہیں۔

(1) حضرت شعیب علیہ السلام کا تعارف:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو حضرت شعیب علیہ السلام جلیل القدر انبیاء میں سے ہیں اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں 16مقامات پر ذکر کیا ہے۔

آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان میں سے حضرت لوط علیہ السلام کے نواسے ہیں آپ علیہ السلام دمشق کے رہنے والے تھے پھر اللہ تعالیٰ کا حکم آنے پر حجازوشام کے درمیان مدین چلے گئے جوکہ قوم لو ط کی بستی کے قریب ہی آبادتھے حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت حضرت لوط علیہ السلام کے بعد ہوئی اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو فصاحت وبلاغت کی صلاحیت سے سرفراز کیاتھا جب آپ علیہ السلام وعظ نصیحت کرتےتو ہر کوئی آپ علیہ السلام کے فرمان کو بآسانی سمجھ جاتاتھا اس لیے آپ علیہ السلام خطیب انبیاء کے لقب مشہور تھے۔ [المنتظم فی تاریخ الامم الملوک جلد 1صفحہ324]

مدین کا علاقہ بڑا زرخیز اور سرسبز وشاد اب تھا ،عربی میں ایکہ گھنے درختوں والی زمین کو کہتے ہیں اس علاقے میں بہت زیادہ گھنے درخت تھے اس لیے انہیں اصحاب الایکہ کہا جاتا ہے وہاں کے لوگ خوشحالی کی وجہ سے سر کشَی میں مبتلا تھے اور بت پرستی کے ساتھ ساتھ ان میں اور برائیاں عام تھی مدین کے لوگوں کا ظلم وستم میں حد سے بڑھنے لگے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس بستی اور اس کے گرد و نواح کے باشندوں کی طرف ان ہی میں سے اونچے حسب ونسب والے ایک شخص جس کا نام حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی رہنمائی کے لیے نبی بناکر بھیجا جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ  اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمۂ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

تفسیر صراط الجنان:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔} مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 118، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 691 ،ملتقطاً)

قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُم:بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔  اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزہ لے کر آئے تھے البتہ قرآنِ پاک میں معین نہیں کیا گیا کہ ان کا معجزہ کیا اور کس قسم کا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا:یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی۔ چنانچہ جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: 78، 4/ 339)

{ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ: تو ناپ اور تول پورا پورا کرو۔} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔

کفار بھی بعض احکام کے مُکَلَّف ہیں :

            اس سے معلوم ہوا کہ بعض احکام کے کفار بھی مکلف ہیں کیونکہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی کافر قوم کو ناپ تول درست کرنے کا حکم دیا اور نہ ماننے پر عذابِ الٰہی آگیا، بلکہ قیامت میں کافروں کو نمازچھوڑنے پر بھی عذاب ہو گا جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ جب جنتی کافروں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی تو وہ کہیں کے: ’’ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ ‘‘(مدثر43) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔

ناپ تول پورا نہ کرنے والوں کے لئے وعید: حضرت نافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ایک بیچنے والے کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے:اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر! اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان کا پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔ (بغوی، المطففین، تحت الآیۃ3، 4 / 428)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کےوہ ہمیں انبیاء کی سیرت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے


حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحتیں۔

1: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانو:وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ترجمۂ کنز العرفان:- اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔(الاعراف 85)

2: ناپ اور تول میں کمی نہ کرو:فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان:تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دواور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔ (الاعراف 85 )

تفسیر :حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔(تفسیر صراط الجنان)

3: راہگیروں کو تنگ نہ کرو:وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚوَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۔ ترجمۂ کنز العرفان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔(الاعراف 86)

تفسیر:یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔

تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔

یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔(تفسیر صراط الجنان)

4: ایمان کی طرف بلانا:

وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ. ترجمۂ کنزالعرفان :اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ (اس پر) ایمان نہ لائے تو تم انتظار کرو حتّٰی کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اوروہ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔(العراف 87)

تفسیر : اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔(تفسیر صراط الجنان )


شعیب علیہ السلام کا تعارف:

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، بعد میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی بنیاد ڈالی تھی۔ یہاں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہتے تھے ۔(صراط الجنان)حضرت سیِّدُنا شعیب علیہ السّلام جانور پالتے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،4/227 ،ملخصاً)

حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر سے مدین آئے اور کئی برس تک حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اقامت فرمائی اور ان کی صاحبزادی صفوراء کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نکاح ہوا۔(صراط الجنان)

آئیے اب شعیب علیہ السلام کی چند قرآنی نصیحتیں سنتے ہیں۔

1:-ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلانا: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-

ترجمۂ کنز العرفان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا :اے میری قوم !اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں۔

تفسیر:-انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیں ، اسی لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا: اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں۔(صراط الجنان ھود 84)

2:-ناپ تول میں کمی نہ کرنے کا حکم اور عذاب سے ڈرانا۔وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَان َاِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمہ کنزالعرفان:اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

تفسیر:توحید کی دعوت دینے کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جو کام زیادہ اہمیت کا حامل ہو پہلے اس کی دعوت دیں پھر ا س کے بعد جس کی اہمیت ہو اس کی دعوت دیں۔ کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا:ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔(صراط الجنان سورہ ھود84)

روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے ماپ و تول والوں سے تم ایسی دو چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن میں تم سے پہلے امتیں ہلاک ہوچکی ہیں(ترمذی)ان امتوں سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کی امت ہے جو تول و ناپ میں بے ایمانی کرتے تھے کہ لیتے تھے زیادہ اور دیتے تھے کم۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2890)

اس کے بعد فرمایا: بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کردیئے جاؤ، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد ہو۔(صراط الجنان سورہ ھود 84)

4-3:اپنی رسالت کابیان،اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کا حکم دینا:اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)ترجمۂ کنز العرفان:-جب ان سے شعیب نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

 تفسیر:- خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں نے ا س وقت حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر تمام رسولوں  کو جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا:کیا تم کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں  ڈرتے!بے شک میں  تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی وحی اور رسالت پر امانت دار رسول ہوں  تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں  تمہیں  جو حکم دے رہا ہوں  اس میں  میری اطاعت کرو۔اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں  مانگتا۔ ان تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ وہ سب حضرات اللہ تعالٰی کے خوف اور اس کی اطاعت اور عبادت میں اخلاص کا حکم دیتے اور رسالت کی تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں  لیتے تھے، لہٰذا سب نے یہی فرمایا۔(صراط الجنان سورہ شعراء 177-180)

5: ایمان والوں کو اللہ کے راستے سے نہ روکو:وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-ترجمہ کنزالعرفان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو۔

تفسیر: یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔(صراط الجنان الاعراف 86)

6:اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد دلانا۔ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪- ترجمہ کنزالعرفان:اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا۔

تفسیر:تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔(صراط الجنان الاعراف86)

7:گزشتہ قوموں کے احوال سے عبرت پکڑنے کی نصیحت:وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86)ترجمہ کنزالعرفان:اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔

تفسیر:یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔(صراط الجنان الاعراف86)


اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ راہ راست پر چلیں٫ اس سے منہ نہ موڑیں اور ایک رب کی عبادت کریں رب کی ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام بھی تھے آپ نے اپنی امت کو نصیحت کی اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ الاعراف میں بیان فرمایا: (وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا) ترجمہ کنزالایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔(الاعراف:آیت 7)

مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۱۱۸، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸۵، ۲ / ۶۹۱،ملتقطاً)

اپنی امت کو یوں نصیحت فرمائی: (فاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ) ترجمہ کنزالایمان:تو ناپ اور تول پورا پورا کرو۔

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو

(وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ) ترجمہ کنزالایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو

یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔

(واذْكُرُوْا) ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو۔

تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔

( وَ انْظُرُوْا) ترجمہ کنزالایمان:اور دیکھو

یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔

ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین غذاعبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے_اللہ ان برگزیدہ ہستیوں کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے_(تفسیر صراط الجنان سورہ الاعراف تحت الآیۃ 7،8) 


اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء علیہم السلام کو مختلف قوموں کی طرف مبعوث فرمایا اور یہ انبیاء علیہم السلام لوگوں کو اللہ پاک کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان کے اندر پائی جانے والی خرابیوں کی نشان دہی فرماتے تھے اور ان کو مختلف طرح کی نصیحتیں ارشاد فرماتے تھے تاکہ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں کوئی عذر نہ پیش کرسکے ان ہی انبیاء علیہم السلام میں سے خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہے جن کو اللہ پاک نے قوم ایکہ اور مدین کی طرف مبعوث فرمایا تھا جن کو آپ علیہ السلام نے اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی دعوت دی اور انہیں مُختلف نصیحتیں ارشاد فرمائیں  ان میں سے کچھ نصیحتوں کو اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا ہے

پہلی نصیحت: سورۃ الاعراف ہی کی آیت نمبر 85 میں ہے فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ

ترجمہ کنزالایمان: تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو ۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کریمہ کے تحت مفتی قاسم صاحب اطال اللہ عمرہ فرماتے ہیں:حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا تھا

اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناپ تول میں کمی کرنا اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر دینا یہ بہت پُرانا گناہ ہے اور آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک تعداد ہے جو کہ ناپ تول میں کمی کرتی ہے اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر دیتی ہے ۔

ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے متعلق اللہ پاک قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد فرماتا ہے: وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: کم تولنے والوں کی خرابی ہے۔(پارہ 30 سورۃ المطففین آیت نمبر 1)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے متعلق وعیدیں آئی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں سے فرمایا:تم (ناپ تول )دو ایسی چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن (میں کمی کرنے)کی وجہ تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوچکی ہیں ۔ (جامع الترمذی کتاب البیوع حدیث نمبر 1221)

حضرت نافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ایک بیچنے والے کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ فرما رہے تھے:اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈر! اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان کا پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔ (بغوی، المطففین، آیت نمبر 3،4)

اللہ پاک ہم سب کو ناپ تول میں کمی کرنے سے بچائے،آمین

دوسری نصیحت: سورۃ الاعراف ہی کی آیت نمبر 85 میں ہے وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ حضرت شعیب علیہ السلام کی اسی مفہوم کی نصیحتوں کو اللہ پاک نے سورۃ ھود میں فرمایا ہے۔

تیسری نصیحت: سورۃ الشعراء کی آیت نمبر 177,178,179 میں ہے اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179) ترجمہ کنزالایمان: جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

ان آیات میں حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو کفروشرک پر اللہ پاک کے عذاب سے ڈرایا اور اللہ پاک کی نافرمانیوں کے مقابلے میں اللہ پاک سے ڈرنے کا حکم ارشاد فرمایا حضرت شعیب علیہ السلام کی ان نصیحتوں سے سیکھنے کے لئے ہمارے لئے بھی بہت سے مدنی پھول ہے

1) اللہ وحدہ لاشریک لہ ہی اکیلا معبود ہے جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے

2) تمام انبیاء علیہم السلام لوگوں کو ایک اللہ پاک کی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے

3) ناپ تول میں کمی کرنا گناہ کا کام ہے اور ہمیں اس سے ہمیشہ بچنا ہے

4) زمین میں فساد پھلانا منع ہے لہذا ہم سب کو اس سے بچنا ہے

5) ہمیں اللہ پاک کے عذاب سے ہمیشہ ڈرتے رہنا ہے

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں انبیاء علیہم السلام کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


پیارے اسلامی بھائیو اللہ تبارک و تعالی نے ہر زمانے میں کسی نہ کسی نبی علیہ السلام  کو انسانوں کی رہنمائی کرنے کے لیے مبعوث فرمایا یعنی بھیجا تاکہ وہ نبی مسلمانوں کو نصیحتیں فرمائیں اُن تک اللہ تبارک و تعالی کے جاری کردہ اَحکامات پہنچائیں اور انسان اُن احکامات پر اور اُن نصیحتوں پر عمل کر کے فلاح پا سکیں جن انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ تعالی نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا انہیں انبیاء کرام علیہم السلام میں ایک حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں انہوں نے اپنی قوم کو نصیحتیں فرمائیں آئیے اُن کی قرآنی نصیحتیں پڑھتے ہیں۔

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(87) ترجمۂ کنز الایمان:بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چا ہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو۔

تفسیر صراط الجنان:

{قَالُوْا یٰشُعَیْبُ:کہا: اے شعیب!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو دو باتوں کا حکم دیا تھا۔

(1) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کریں۔

(2) ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ قوم نے ان دونوں باتوں کا جو جواب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا۔

اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ پہلی بات کا انہوں نے یہ جواب دیا ’’اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ ‘‘ یعنی کیا ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں۔

مدین والوں کے اس جواب سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے پاس بت پرستی کرنے پر دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید تھی اسی لئے جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا تو انہیں بہت عجیب لگا اور کہنے لگے کہ بتوں کی پوجا کرنے کے جس طریقے کو ہمارے پچھلے لوگوں نے اپنایا ہے ہم اسے کیسے چھوڑ دیں۔ دوسری بات کا مدین والوں نے یہ جواب دیا ’’ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا‘‘ یعنی کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں ، چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔ آیت میں مذکور لفظ(صَلَاۃْ) سے مراد یا تو دین و ایمان ہے یا ا س سے مراد نماز ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: 87، 6/ 386-387، ملخصاً)

{اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ: تم تو بڑے عقلمند، نیک چلن ہو} مدین والے اپنے گمان میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بے وقوف اور جاہل سمجھتے تھے ا س لئے طنز کے طور پر انہوں نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ تم تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہو۔ یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کنجوس آدمی کو آتے دیکھ کر کہے ، جناب حاتم طائی تشریف لارہے ہیں۔

امام رازی فرماتے ہیں: کہ ا س آیت کا معنی یہ ہے: کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم میں بڑے عقلمند اور نیک چلن آدمی کی حیثیت سے مشہور تھے لیکن جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان میں نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے جاہلانہ طریقے کو چھوڑنے کا حکم دیا تو انہوں نے حیران ہو کر کہا کہ آپ تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہیں ، پھر آپ ہمیں کیسے یہ حکم دے رہے ہیں کہ ہم اپنے نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: 6،87 / 387، ملخصاً)

{اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ: میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں} (یعنی) میرا تمہیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے تمہاری اصلاح ہو جائے اور جب میں نے دیکھا کہ تم نے اپنے اعمال درست کر لئے ہیں تو میں تمہیں منع کرنا بھی چھوڑ دوں گا۔

ان تینوں جوابات میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر عقلمند انسا ن کو چاہئے کہ وہ جو کام کر رہا ہے اور جس کام کو چھوڑ رہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، اپنی جان کے حقوق اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے۔ ( بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: 88، 3 / 254)

{وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ: اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے۔} (یعنی)میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کیونکہ مجھے اسی پر اعتماد اور تمام کاموں میں اسی پربھروسہ ہے ، تمام نیک اعمال اور توبہ کرنے میں ،میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: 88، 7/ 102 )

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس کلام شریف میں اس جانب اشارہ ہے کہ کوئی شخص رب تعالیٰ کی دستگیری کے بغیر محض اپنی عقل سے ہدایت نہیں پاسکتا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو حضرت شعیب علیہ السلام نےجو نصیحتیں فرمائیں ہیں اللہ تعالی ہمیں اس پرعمل پیرہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین