اللہ پاک نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے ہیں ان میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام ۔ اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کا  ذکر خیر بڑے ادب سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

مخالفین کو نصیحت اور احسانات الہی کی یاد دہانی۔ یہ لوگ حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی نصیحتیں ماننے کی بجائے ان کی مخالفت پر اتر اتے اور لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکنے کے لیے یہاں تک کہ کوشش کرتے کہ مدین کے راستوں پر بیٹھ کر ہر راہ گیر سے کہنے لگے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے۔تم اس کے قریب بھی مت بھٹکنا۔اس کے ساتھ ساتھ ان کے بعد والے لوگوں نے ڈاکے ڈال کر مسافروں کو لوٹتے بھی تھے۔اس پر حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں سمجھایا اس حرکت سے منع کیا اور انہیں انعامات الہی یاد دلائے کہ تم تھوڑے تھے تو اللہ تعالی نے تمہیں بہت کر دیا غریب تھے امیر کر دیا کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضہ ہے کہ تم مجھ پر ایمان لا کر اس کا شکر ادا کرو نیز تم پچھلی امتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام کو عبرت سے دیکھو اور سوچو کہ ان کا کیا حال ہوا تھا۔

اللہ تبارک و تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86) پارہ نمبر (8) سورۃ الاعراف آیت نمبر (86) ترجمۂ کنز الایمان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔

ایک اور جگہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔( وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ)) (87) پارہ نمبر (8) سورۃ الاعراف ایت نمبر (87)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لایا جو میں لے کر بھیجا گیا اور ایک گروہ نے نہ مانا تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ ہم میں فیصلہ کرے اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحت ۔گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہل دین کو راہ نجات دکھانے اور ان کے اعمال کردار کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی نے انہی کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو نبوت پر فائز فرما کر ان کی طرف بھیجا چنانچہ آپ علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادت الہی کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو کفر گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو۔اللہ تبارک و تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)پارہ نمبر 8 سورۃ الاعراف آیت نمبر 85۔ ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

یہاں روشن دلیل سے مراد وہ معجزہ ہے جو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی اس صداقت کی نشانی کے طور پر دکھایا یہ معجزہ کیا تھا اس کا ذکر قران کریم میں نہیں کیا گیا۔ایک اور یہ بھی ہے کہ اس سے مراد حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کا رسول بن کر تشریف لانا ہے۔