حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحتیں۔

1: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانو:وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ترجمۂ کنز العرفان:- اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔(الاعراف 85)

2: ناپ اور تول میں کمی نہ کرو:فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان:تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دواور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔ (الاعراف 85 )

تفسیر :حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم میں شرک کے علاوہ بھی جو گناہ عام تھے ان میں سے ایک ناپ تول میں کمی کرنا اور دوسرا لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے دینا اور تیسرا لوگوں کو حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دور کرنے کی کوششیں کرنا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے اور لوگوں کو ان کی اشیاء گھٹا کر دینے سے منع کیا اور زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ ا س بستی میں اللہ تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔(تفسیر صراط الجنان)

3: راہگیروں کو تنگ نہ کرو:وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚوَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۔ ترجمۂ کنز العرفان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔(الاعراف 86)

تفسیر:یہ لوگ مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔

تم تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔

یعنی پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔(تفسیر صراط الجنان)

4: ایمان کی طرف بلانا:

وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ. ترجمۂ کنزالعرفان :اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ (اس پر) ایمان نہ لائے تو تم انتظار کرو حتّٰی کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کردے اوروہ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔(العراف 87)

تفسیر : اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔(تفسیر صراط الجنان )