حضرت شعیب علیہ السّلام  اللہ پاک کے رسول، حضرت موسیٰ علی نبیّناوعلیہ الصلاةوالسّلام جیسے عظیم پیغمبر کے صہری والد اور حضرت ابراھیم علیہ السّلام کی نسل میں سے تھے۔ حسنِ بیان کی وجہ سے آپ کو "خطیب الانبیاء" کہا جاتا ہے حضرت شعیب علیہ السّلام مَدیَن شہر میں رہتے تھے۔ یہاں کے لوگ کفروشرک،بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے ان کی ہدایت کیلئے اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ السّلام کو مقرر فرمایا آپ علیہ السّلام نے انہیں بُرائیوں سے روکتے ہوۓ مختلف نصیحتیں فرمائیں جن میں سے چند یہ ہیں۔

1.معبودِ برحق رب تعالی کی عبادت کرو۔ حضرت شعیب علیہ السّلام نے اپنی قوم کو بت پرستی کی غلاظت سے روکتے ہوئے الله پاک کی عبادت کرنے کی نصیحت فرمائی اور بتایا کہ الله پاک کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:انہوں نے فرمایا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں.

2.ناپ تول پورا پورا کرو۔ اس قوم کی ایک خرابی یہ تھی کہ وہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے تو حضرت شعیب علیہ السّلام نے انہیں اس برائی سے منع کرتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ ناپ تول پورا پورا کرو چنانچہ قرآن کریم میں ہے.فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:-تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو۔

3.زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ حضرتِ شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں کو زمین میں فساد کرنے سے روکا کیونکہ اس بستی میں الله تعالیٰ کے نبی تشریف لے آئے اور انہوں نے نبوت کے احکام بیان فرما دئیے تو یہ بستی کی اصلاح کا سب سے قوی ذریعہ ہے لہٰذا اب تم کفر و گناہ کر کے فساد برپا نہ کرو۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:-اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔

4.ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو۔ یہ لوگ حضرت شعیب علیہ السّلام کی نصیحت ماننے کی بجاۓ ان کی مخالفت پر اتر آۓ اور لوگوں کو ان پر ایمان لانے سے روکنے کیلئے یہاں تک کوشش کی کہ مَدیَن کے راستوں پر بیٹھ کر راہ گیر سے کہنے لگے کہ مَدیَن شہر میں ایک جادوگر ہے، تم اس کے قریب بھی مت پھٹکنا۔تو حضرت شعیب علیہ السّلام نے ان لوگوں کو نصیحت کرتے ہوۓ اس بری حرکت سے منع کیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-(پ8 الاعراف85)ترجمۂ کنزالعرفان:-اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیھم السّلام کے مبارک احوالِ زندگی پڑھنے اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اہل اللہ کی زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک اعلی، اعظم العظیم نعمت ہے ۔ ان کی ذاتِ پاک سے جہاں ہر مصیبت دور ہوتی ہے ، ہر اٹکل و آڑی مشکل آسان ہوتی ہے وہی ان کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لانے سے دین و دنیا کی نعمتوں سے بندہ مالا مال ہوتا ہے ۔

اللہ اکبر ! حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک صورت ، ان کی سیرت ، ان کی رفتار و گفتار ، ان کی ہر ہر روش و محبوب ادا ، ان کا ہر ہر کردار ، اسرارِ پرودگار کا ایک بہترین مجموعہ و نمونہ اور بولتی تصویر ہے کہ یہ نفوسِ قدسیہ مظہر ذات و صفات قدسیہ ہوتے ہیں ۔ جن سے انسان فلاح و ترقی کے روشن راستے تہہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کو بھیجنے کے کئی مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد توحید کا پرچار کرنا ہے پھر رسالت و دیگر عقائد اور معاملات کی تصحیح کرنا ہے ۔ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ایک حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں ۔ جن کو رب تعالی نے دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا ہے ۔

آپ علیہ السلام کا نام پاک " شعیب " ہے ۔ آپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسلِ پاک میں سے ہیں ۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر اولو العزم رسول کے صہری والد بھی ہیں ۔ حسن بیان کی وجہ سے آپ کو " خطیب الانبیاء " کہا جاتا ہے۔ سیرت الانبیاء میں امام ترمذی کے حوالے سے بیان ہے کہ حضور اقدس خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ السلام جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی و نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا ۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ نمبر 505 )

آپ خطیب الانبیاء ہیں، آپ نے اپنی قوم کو بڑی ہی محبوب روش کے ساتھ وعظ و نصیحت فرمائی کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک محبوب روش لوگوں کو را ہ ِ حق کی طرف لانا ہوتا ہے ، عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات کی تصحیح کی جانب لانا ہوتا ہے، معاشرے میں نا سور برائیوں کو نوٹ کرتے ہوئے ، ان کی جہالت کو دور کرتے ہوئے ، کفر و شرک کے سیاہ ابر آلود بادلوں کو دور کرنا ہوتا ہے ۔ اسی کے پیش نظر آپ نے بھی اپنی قوم کو وعظ و نصیحت فرمائی تاکہ یہ ابدی نعمتوں سے مالا مال ہو سکیں خدا کے شکر گزار بندے بن سکیں۔ آپ کی قوم طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا تھی آپ نے نہایت ہی نرمی و مہربانی و احسن طریقے سے انہیں منع کیا اور نیکی کی دعوت و شکر بجا لانے کا حکم دیا ۔ آئیے قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں آپ کی نصیحتیں جو آپ نے اپنی قوم کو فرمائیں ملاحظہ کرتے ہیں :

حضرت شعیب علیہ السلام کی قرانی نصیحتیں :

1: اللہ کی عبادت کرو : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ترجمہ کنزالایمان: اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

2: ناپ تول پورا کرو اور کم مال نہ دو : فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

3: زمین میں فساد نہ پھیلاؤ : وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

4: راستے میں نہ بیٹھو کہ لوگوں کو ڈراؤ: وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 86)

5: میری مخالفت عذاب الٰہی میں مبتلا نہ ہو جانا: وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کروا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ ( پارہ 12، سورہ ھود : 89)

6 : اپنے رب کی طرف رجوع لاؤ : وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔ ( پارہ 12 ، سورہ ھود : 90)

7 : اللہ سے ڈرو: فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ ( پارہ 19 ، سورہ الشعراء : 79)

سیرت الانبیاء میں آپ کی سیرت کے حوالے سے آتا ہے کہ آپ کی قوم جن گناہوں اور جرائم میں ملوث تھی اس کی ایک طویل فہرست ہے چناچہ آپ نے اپنی قوم سے نصیحت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار دعوت توحید کے بعد فرمایا اے لوگو: ناپ تول میں کمی نہ کرو کیا کرو ، تم یقینا خوشحال نظر آ رہے ہو اور خوشحال آدمی کو تو نعمت کی شکر گزاری اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا چاہیے نہ وہ ان کے حقوق میں کمی کر کے نا شکری و حق تلفی کے مرتکب ہو ۔

اللہ اکبر ۔ اندازہ کیجیے کہ آپ دو قوموں کی طرف مبعوث ہوئے اور دونوں قومیں ناپ تول اور ظلم و بربریت ، حق تلفی ، نا شکری کے گناہوں میں منہمک ۔ آپ نے ان کے حیلے بہانوں کو ختم کرتے ہوئے ان کے اشکالات کا جواب دیتے ہوئے بڑے ہی احسن انداز سے انہیں نصیحت فرمائی ۔ آج آپ معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس طرح کی بے شمار برائیاں جنم لیے ہوئے ہیں اور انہی کی طرح حیلے بہانے تراشتے نظر آتے ہیں ۔ ناپ تول کی کمی اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں انہیں کمی محسوس ہوتی ہے ، راہ راست پر چلنا انہیں اپنی ہلاکت معلوم ہوتی ہے، دین حق پر ایمان لانے اور شریعت پر عمل کرنے میں مہیب خطرات نظر آتے ہیں ۔ یہی حال آپ کی قوم کے سرداروں کا بھی تھا جو آج معاشرے کم ظرف لوگوں کا حال ہے ۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ 504 تا 525)

ایسوں کو دعوتِ غور و فکر ہے کہ آپ جب اپنے لئے پورا ناپ تول پسند کرتے ہیں ، اس وقت آپ کو کمی کا احساس نہیں ہوتا تو پھر دوسروں کی مرتبہ ایسا کیوں ؟

رب تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا لانا چاہیے کہ اس سے اضافہ ہوتا ہے نعمتوں میں ۔ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے ، ایسے ہی بزرگان دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنا چائیے جو کہ بہترین عبادت اور تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ کبیرہ گناہوں کی معلومات اور ان کی سزاؤں کا مطالعہ کرنا چاہیے ، علماء اہلسنت کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ ایسے کاموں سے کوفت حاصل ہو ۔ قوموں کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کون کون سی برائیاں ہیں اور بذات خود مجھ میں کون کون سی کمی اور برائیاں ہیں وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے آج ہم زوال پذیر ہیں ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ان کا تدارک بھی سیرت الانبیاء کے مطالعہ سے اور اہل حق کی صحبت سے ، محاسبہ نفس سے ہو جائے گا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے اور ہر طرح کی برائیوں سے بچائے، حقوق اللہ و حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔


 اللہ پاک نے اس کائنات میں ہر چیز اور ہر کام کو چلانے کے لیے اس کام کے ماہرین کا انتخاب فرمایا اسی طرح جب الله پاک نے بندوں کو راہ ہدایت پر لانے کا فیصلہ فرمایا تو ایسے ماہرین expert person کا انتخاب فرمایا جو زمانے میں اپنی مثال آپ ہیں انہی میں سے ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جن کو اہل معرفت خطيب الانبياء حضرت سیدنا شعيب علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں ۔ آپ نے بہت پیارے ،عمدہ اور نفیس انداز میں قوم و ملت کی اصلاح فرمائی ۔

1: نیکی کی دعوت کا عظیم جذبہ: حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)۔ (پ8،الاعراف،85) ترجمہ کنز العرفان:انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔

2: قوم کی ہٹ دھرمی پر آپ علیہ السلام کا نفیس انداز قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًاؕ-وَ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَاۤ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُؕ-اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُؕ-وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ(88)۔ (پ،12 ھود،88)

ترجمہ کنزالعرفان : شعیب نے فرمایا: اے میری قوم! بھلا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی ہو(تو میں کیوں نہ تمہیں سمجھاؤں ) اور میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے میں تمہیں منع کرتا ہوں خود اس کے خلاف کرنے لگوں میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں جتنی مجھ سے ہوسکے اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

اس آیت مقدسہ سے پتا چلا کہ مبلغ کو ذرا سی پریشانی پر پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے بلکہ باطل کے خلاف کھڑا رہ کر پرچم اسلام کو لہراتا رہے

3: تبلیغ اسلام کے ساتھ رب العالمین سے دعا: جب حضرت شعیب علیہ السلام کو قوم کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں یوں التجاء کی رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(89) (پ،9 الاعراف ،89) ترجمہ کنزالعرفان:اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔

مبلغ کو چاہیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ ساتھ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا بھی کرتا رہے تاکہ جلد کامیابی مل سکے۔ عاشقان مصطفٰی ہمارے معاشرے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ اگر ان لوگوں کو راہ راست پر لانے والی باتیں بتائی جائیں تو بات پر عمل کرنے کی بجائے مبلغ کو برا بھلا کہتے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور دین اسلام کے دائرے میں رہ کر اپنی دنیا و آخرت بہتر بنانے والا بنائے

آمین بجاہ طه و يس صلى الله عليہ وسلم 


آپ علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے ۔ امام ترمذی لکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی اور نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ۔ ( ویب ایڈیشن ،سیرت الانبیاء ، صفحہ نمبر 505، اور 506 )

نصیحت کی تعریف: نصیحت کے عام معنی خیر خواہی ہے ۔ خواہ قول کی صورت میں ہو یا عمل کی صورت میں ۔ ( ویب ایڈیشن ،امیر اہلسنت کی 786 نصیحتیں ، صفحہ نمبر 5)

نصیحت سنت انبیاء بھی ہے ۔ لہذا ہم حضرت شعیب علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی گئی نصیحتیں پڑھتے ہیں ۔

دعوت توحید، ناپ تول میں کمی سے بچنے اور دیگر امور کے متعلق نصیحتیں: قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-

ترجمہ کنز العرفان: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی تو ناپ اور تول پورا پورا کرو اور لوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۔ ( پارہ 8، سورت الاعراف ، آیت نمبر 85،ویب ایڈیشن تفسیر صراط الجنان)

راستے میں لوگوں کو تنگ نہ کرو: وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا؟ ( پارہ 8 ، سورت الاعراف ، آیت نمبر 86،)

عذاب سے ڈرانا : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ۔ ترجمہ کنز العرفان: اے میری قوم !اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔( پارہ 12 ، سورت ھود ، آیت نمبر 84 )

حرام مال چھوڑنے اور حلال مال استعمال کرنے کی نصیحت: وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(85)بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوراکرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔ ( پارہ 12، سورت ھود ، آیت نمبر 85، 86 ویب ایڈیشن تفسیر صراط الجنان)

پیارے اسلامی بھائیوں ہمیں بھی چاہیے ہم سنت انبیاء کو اپناتے ہوئے لوگوں کو نیکی دعوت دیں برائی سے منع کریں۔ ناپ تول اور دیگر معاشرتی برائیوں سے لوگوں کو منع کریں ۔ آپ کی سیرت میں آتا ہے کہ آپ کی بار بار نصیحت سے کچھ لوگ ایمان لے آئے ، اسی طرح ہمیں بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے نیکی کی دعوت کا سلسلہ جاری و ساری رکھنا چاہیے ۔ اور ان کو اللہ تعالیٰ کے عذابات سے ڈرایا جائے تاکہ حرام مال چھوڑ کر حلال مال کمائے اور کھائے۔ آج ہمارے معاشرے میں بھی اس طرح کے لوگ موجود ہیں جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اور طرح طرح کے گناہ میں مبتلا نظر آتے ہیں ہمیں بھی چاہیے کہ ان گناہوں سے بچنے کے لیے خوب علم دین حاصل کریں اور آگاہی کا سلسلہ تیز کریں ۔

دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں صیح معنوں میں قرآن پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور انبیاء کرام کی سنت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے وقتا فوقتا اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بھیجا۔ انہی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام میں سے اللّہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو واضح دلائل اور عظیم معجزات دے کر بھیجا ۔

تعارف : آپ علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب ہے ۔آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد سے تھے اور اہل مدین کے ہم قوم تھے اور آپ علیہ السلام کی دادی حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں ۔حسنِ بیان کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللّہ تعالی عنہ کے قول کے مطابق آپ علیہ السلام دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اہلِ مدین اور اصحاب الایکہ ۔

قرآنی نصیحتیں : (1) ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ

ترجمۂ کنز العرفان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں- (الاعراف آیت 85)

*جس طرح اللّہ تبارک و تعالیٰ کے دیگر انبیاء کرام علیہم السلام نے سب سے پہلے توحید کی دعوت دی اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو دعوتِ توحید دی- آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میری قوم اللّہ کی عبادت کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔

توحید کا معنی :-دل سے تصدیق کرنا زبان سے اس امر کا اقرار کرنا کہ تمام عالم کی پیدا کرنے والی ایک ذات ہے اور وہ اللہ رب العزت ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ حکومت میں نہ عبادت میں۔

شرک کا انجام :- توحید کا انکار کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور وہ طرح طرح کے عذابوں کا مستحق ہوگا چنانچہ

ارشاد باری تعالٰی ہے : اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(48) ترجمۂ کنز العرفان:بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا توبیشک اس نے بہت بڑے گناہ کا بہتان باندھا۔ (النساء آیت 48)

*حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا یعنی کہ اے میری قوم شرک سے بچو اور اللہ عزوجل کو وحدہ لا شریک ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی عبادت بھی کرو۔

(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(89) ترجمۂ کنز العرفان: اور اے میری قوم! میری مخالفت تم سے یہ نہ کروا دے کہ تم پر بھی اسی طرح کا (عذاب) آپہنچے جو نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر آیا تھا اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔(ھود آیت 89)

*حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو تبلیغ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم اگر میری مخالفت کرو گے تو دیگر قوموں کی طرح تم بھی دنیا و آخرت میں رسوا ہو جاؤ گے اس سے پہلے کہ لوگ تم سے نصیحت حاصل کریں تم اپنے سے پہلی قوموں سے نصیحت حاصل کرو -

مخالفت سے مراد :-اس سے دو طرح کی مخالفت مراد ہے ایک مخالفت حقیقی یعنی کہ اللّہ و رسول پر ایمان نہ لانا اور دوسری مخالفت سے مراد مخالفت مجازی ہے یعنی کہ اللہ اور رسول پر ایمان تو لانا مگر احکامات میں نافرمانی کرنا

*حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت سے مراد مخالفت حقیقی ہے کیونکہ آپ کی قوم کی اکثریت آپ پر ایمان نہ لائی تھی۔

*آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو سابقہ امتوں کے واقعات سے نصیحت حاصل کرنے کو کہا اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو اپنی مخالفت کرنے سے ڈرایا کہ میری مخالفت سے سابقہ امتوں کی طرح تم بھی کہیں ہلاک نہ ہو جاؤ لہذا ہمیں بھی سابقہ قوموں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور حکم الہی کے مطابق تمام احکامات پر عمل کرنا چاہیے ۔

(3) ارشاد باری تعالیٰ ہے :اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)

ترجمۂ کنز العرفان: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اورناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ اور بالکل درست ترازو سے تولو۔(الشعراء آیت181-182)

*حضرت شعیب علیہ السلام کی دونوں قوموں( اصحاب الایکہ اور مدین) کا پیشہ تجارت تھا اس لیے دونوں قومیں ایک ہی طرح کی نافرمانیوں میں مبتلا تھیں ان قوموں کی نافرمانیوں کی فہرست طویل ہے جن میں سے چند یہ ہیں: (1)اللّہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کا انکار (2) نبوت کا انکار کرنا (3)بتوں کو پوجنا (4)نعمتوں کی ناشکری (5)قتل و غارت(6) غریبوں پر ظلم کرنا(7) ڈاکے ڈال کر لوگوں کا مال لوٹ لینا (8)مسلمانوں کا مذاق اڑانا(9) بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا (10)لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوشش کرنا (11)ناپ تول میں کمی کرنا شامل ہیں- آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا اور ناپ تول میں کمی کی شدید مذمت فرمائی۔

*بدقسمتی سے ناپ تول میں کمی کرنا ہمارے معاشرے میں ہر طرف عام ہو چکا ہے- ہمیں قوم شعیب علیہ السلام سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اس سے بچنا چاہیے۔

*اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام صرف عبادات ہی سکھانے نہیں آتے بلکہ اعلی اخلاق، سیاسیات اور معاملات کی درستگی کی تعلیم بھی دیتے ہیں -

(4) ارشاد باری تعالیٰ ہے :قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(92) ترجمۂ کنز العرفان:شعیب نے فرمایا: اے میری قوم ! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے بیشک میرا رب تمہارے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے( ھود آیت 92)

*جب حضرت شعیب علیہ السلام نے مدین والوں کو سمجھانے کے لیے زیادہ گفتگو فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب علیہ السلام آپ اللّہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور ناپ تول میں کمی کرنے پر جو حرام ہونے کی باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں پر جو دلائل دے رہے ہیں وہ ہماری سمجھ میں آتے ہی نہیں اور نیز تم ہماری نظروں میں کوئی معزز آدمی نہیں ہو اور اگر ہم تم پر ظلم کریں تو تم دفاع کی کوئی طاقت نہیں رکھتے - انہوں نے آپ علیہ السلام کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم نے آپ علیہ السلام کے قبیلے کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہا ورنہ ہم آپ کو پتھر مار مار کر (نعوذ باللہ) قتل کر دیتے اس پر آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللّہ سے زیادہ ہے کہ اللّہ کے خوف کی وجہ سے تو تم میرے قتل سے باز نہ رہے جبکہ میرے قبیلے کی وجہ سے باز رہے اور تم نے اللہ کے نبی کا تو احترام نہ کیا جبکہ میرے قبیلے کا احترام کیا- تم نے اللہ کے حکم کو پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے اور اس کے حکم کی تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہے - بے شک میرا رب تمہارے سب حالات جانتا ہے اس پر تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں اور وہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔

*خلاصہ کلام یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میری قوم صرف اللّہ سے ڈرو جس سے ڈرنے کا حق ہے وہ تمہارے تمام اعمال کو جانتا ہے اس کے حکم کو مانو تاکہ تمہارے اعمال کی جزا اچھی ہو

(5) ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(90) ترجمۂ کنز العرفان:اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب بڑامہربان ،محبت والا ہے (ھود آیت 90)

*جب آپ علیہ السلام کی قوم نے آپ کی مخالفت کی تو آپ نے فرمایا اے میری قوم تمہاری عداوت اور بغض اور میرے دین کی مخالفت کی وجہ سے گزشتہ قوموں کی طرح کہیں تم بھی ہلاک نہ ہو جاؤ لہذا اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ کرو۔

(توبہ کی فضیلت) :حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،۴ / ۴۹۱، الحدیث: ۴۲۵۰)

اورحضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے،اس کے اَعضا کو بھی بھلا دیتا ہے اور ا س کے زمین پر نشانات بھی مٹا ڈالتاہے یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملے گا تواس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔( الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ والزہد،الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا واتباع السیّئۃ الحسنۃ،۴ / ۴۸،الحدیث: ۱۷)

* پیغمبروں نے اپنی قوموں کو توبہ و استغفار کا حکم دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ بڑی اہم چیز ہے - یہ بھی خیال رہے کہ ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے کفر کی توبہ ایمان لانا ہے، حقوق العباد کی توبہ انہیں ادا کر دینا ہے اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہے۔

*آپ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو توبہ کی نصیحت کی- انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی کثرت سے توبہ استغفار کرنا چاہیے اللّہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی اصلاح کےلیے نبی بھیجے اور انبیآءکو معجزات بھی عطاکیے۔اور انبیآء اللہ تعالی کے مقرب بندے ہیں جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام اور اس کے علاوہ بھی انبیاء ہیں۔ اور انبیاء علیھم الصلوۃوالسلام نےاپنی قوم کو قرآن مجید میں نصیحتیں بھی فرمائیں ۔ ان انبیاء میں سے حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں

ناپ تول میں کمی نہ کرو(1) وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)

ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(سورۃ اعراف ایت نمبر85)

(2)رسالت پہنچا چکا:فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(93) ترجمۂ کنز الایمان: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکر غم کروں کافروں کا۔ ( سورۃ اعراف أیت نمبر93)

(3)زمین میں فساد نہ کرو:وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(36)تر جمہ کنز الایمان: مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ (سورۃ عنکبوت أیت نمبر 36)

(4)اللہ سے ڈرو:فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179) تر جمہ کنز الایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (سورۃ الشعراء آیت نمبر179)

(5)اجرت نہیں مانگتا:وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180) ترجمہ کنز الایمان: اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔تم سے (سورہ الشعراء آیت نمبر 180)