اہل اللہ کی زندگی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک اعلی، اعظم العظیم نعمت ہے ۔ ان کی ذاتِ پاک سے جہاں ہر مصیبت دور ہوتی ہے ، ہر اٹکل و آڑی مشکل آسان ہوتی ہے وہی ان کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لانے سے دین و دنیا کی نعمتوں سے بندہ مالا مال ہوتا ہے ۔

اللہ اکبر ! حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک صورت ، ان کی سیرت ، ان کی رفتار و گفتار ، ان کی ہر ہر روش و محبوب ادا ، ان کا ہر ہر کردار ، اسرارِ پرودگار کا ایک بہترین مجموعہ و نمونہ اور بولتی تصویر ہے کہ یہ نفوسِ قدسیہ مظہر ذات و صفات قدسیہ ہوتے ہیں ۔ جن سے انسان فلاح و ترقی کے روشن راستے تہہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ان کو بھیجنے کے کئی مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد توحید کا پرچار کرنا ہے پھر رسالت و دیگر عقائد اور معاملات کی تصحیح کرنا ہے ۔ انہی نفوسِ قدسیہ میں سے ایک حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں ۔ جن کو رب تعالی نے دو قوموں کی طرف مبعوث فرمایا ہے ۔

آپ علیہ السلام کا نام پاک " شعیب " ہے ۔ آپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسلِ پاک میں سے ہیں ۔ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر اولو العزم رسول کے صہری والد بھی ہیں ۔ حسن بیان کی وجہ سے آپ کو " خطیب الانبیاء " کہا جاتا ہے۔ سیرت الانبیاء میں امام ترمذی کے حوالے سے بیان ہے کہ حضور اقدس خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ السلام جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی و نرمی کو بطور خاص پیش نظر رکھا ۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ نمبر 505 )

آپ خطیب الانبیاء ہیں، آپ نے اپنی قوم کو بڑی ہی محبوب روش کے ساتھ وعظ و نصیحت فرمائی کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک محبوب روش لوگوں کو را ہ ِ حق کی طرف لانا ہوتا ہے ، عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات کی تصحیح کی جانب لانا ہوتا ہے، معاشرے میں نا سور برائیوں کو نوٹ کرتے ہوئے ، ان کی جہالت کو دور کرتے ہوئے ، کفر و شرک کے سیاہ ابر آلود بادلوں کو دور کرنا ہوتا ہے ۔ اسی کے پیش نظر آپ نے بھی اپنی قوم کو وعظ و نصیحت فرمائی تاکہ یہ ابدی نعمتوں سے مالا مال ہو سکیں خدا کے شکر گزار بندے بن سکیں۔ آپ کی قوم طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا تھی آپ نے نہایت ہی نرمی و مہربانی و احسن طریقے سے انہیں منع کیا اور نیکی کی دعوت و شکر بجا لانے کا حکم دیا ۔ آئیے قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں آپ کی نصیحتیں جو آپ نے اپنی قوم کو فرمائیں ملاحظہ کرتے ہیں :

حضرت شعیب علیہ السلام کی قرانی نصیحتیں :

1: اللہ کی عبادت کرو : قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ترجمہ کنزالایمان: اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

2: ناپ تول پورا کرو اور کم مال نہ دو : فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

3: زمین میں فساد نہ پھیلاؤ : وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ترجمہ کنزالایمان: اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 85)

4: راستے میں نہ بیٹھو کہ لوگوں کو ڈراؤ: وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ترجمہ کنزالایمان: اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو ۔ ( پارہ 8 ، سورہ الاعراف : 86)

5: میری مخالفت عذاب الٰہی میں مبتلا نہ ہو جانا: وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ ترجمۂ کنز الایمان: اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کروا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ ( پارہ 12، سورہ ھود : 89)

6 : اپنے رب کی طرف رجوع لاؤ : وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ترجمۂ کنز الایمان: اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔ ( پارہ 12 ، سورہ ھود : 90)

7 : اللہ سے ڈرو: فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ ( پارہ 19 ، سورہ الشعراء : 79)

سیرت الانبیاء میں آپ کی سیرت کے حوالے سے آتا ہے کہ آپ کی قوم جن گناہوں اور جرائم میں ملوث تھی اس کی ایک طویل فہرست ہے چناچہ آپ نے اپنی قوم سے نصیحت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ایک بار دعوت توحید کے بعد فرمایا اے لوگو: ناپ تول میں کمی نہ کرو کیا کرو ، تم یقینا خوشحال نظر آ رہے ہو اور خوشحال آدمی کو تو نعمت کی شکر گزاری اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا چاہیے نہ وہ ان کے حقوق میں کمی کر کے نا شکری و حق تلفی کے مرتکب ہو ۔

اللہ اکبر ۔ اندازہ کیجیے کہ آپ دو قوموں کی طرف مبعوث ہوئے اور دونوں قومیں ناپ تول اور ظلم و بربریت ، حق تلفی ، نا شکری کے گناہوں میں منہمک ۔ آپ نے ان کے حیلے بہانوں کو ختم کرتے ہوئے ان کے اشکالات کا جواب دیتے ہوئے بڑے ہی احسن انداز سے انہیں نصیحت فرمائی ۔ آج آپ معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس طرح کی بے شمار برائیاں جنم لیے ہوئے ہیں اور انہی کی طرح حیلے بہانے تراشتے نظر آتے ہیں ۔ ناپ تول کی کمی اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں انہیں کمی محسوس ہوتی ہے ، راہ راست پر چلنا انہیں اپنی ہلاکت معلوم ہوتی ہے، دین حق پر ایمان لانے اور شریعت پر عمل کرنے میں مہیب خطرات نظر آتے ہیں ۔ یہی حال آپ کی قوم کے سرداروں کا بھی تھا جو آج معاشرے کم ظرف لوگوں کا حال ہے ۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ 504 تا 525)

ایسوں کو دعوتِ غور و فکر ہے کہ آپ جب اپنے لئے پورا ناپ تول پسند کرتے ہیں ، اس وقت آپ کو کمی کا احساس نہیں ہوتا تو پھر دوسروں کی مرتبہ ایسا کیوں ؟

رب تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا لانا چاہیے کہ اس سے اضافہ ہوتا ہے نعمتوں میں ۔ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات کا مطالعہ کرنا چاہیے ، ایسے ہی بزرگان دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنا چائیے جو کہ بہترین عبادت اور تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔ کبیرہ گناہوں کی معلومات اور ان کی سزاؤں کا مطالعہ کرنا چاہیے ، علماء اہلسنت کی صحبت اختیار کرنی چاہیے تاکہ ایسے کاموں سے کوفت حاصل ہو ۔ قوموں کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں کون کون سی برائیاں ہیں اور بذات خود مجھ میں کون کون سی کمی اور برائیاں ہیں وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے آج ہم زوال پذیر ہیں ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ان کا تدارک بھی سیرت الانبیاء کے مطالعہ سے اور اہل حق کی صحبت سے ، محاسبہ نفس سے ہو جائے گا ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے اور ہر طرح کی برائیوں سے بچائے، حقوق اللہ و حقوق العباد کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ۔