اللہ تبارک و
تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے وقتا
فوقتا اپنے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بھیجا۔ انہی انبیاء کرام علیہم
الصلاۃ والسلام میں سے اللّہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو واضح
دلائل اور عظیم معجزات دے کر بھیجا ۔
تعارف
: آپ علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب
ہے ۔آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد
سے تھے اور اہل مدین کے ہم قوم تھے اور آپ علیہ
السلام کی دادی حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں ۔حسنِ بیان کی وجہ سے آپ علیہ
السلام کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللّہ تعالی عنہ کے قول کے
مطابق آپ علیہ السلام دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اہلِ مدین اور اصحاب
الایکہ ۔
قرآنی
نصیحتیں : (1) ارشاد باری تعالیٰ
ہے :وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ
ترجمۂ کنز العرفان: اور مدین کی طرف ان کے ہم
قوم شعیب کو بھیجا : انہوں نے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں- (الاعراف آیت 85)
*جس طرح اللّہ
تبارک و تعالیٰ کے دیگر انبیاء کرام علیہم
السلام نے سب سے پہلے توحید کی دعوت دی اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی
قوم کو دعوتِ توحید دی- آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میری قوم اللّہ کی عبادت کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں
۔
توحید
کا معنی :-دل سے تصدیق کرنا زبان
سے اس امر کا اقرار کرنا کہ تمام عالم کی پیدا کرنے والی ایک ذات ہے اور وہ
اللہ رب العزت ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ ذات میں نہ صفات میں نہ حکومت میں نہ
عبادت میں۔
شرک
کا انجام :- توحید کا انکار کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا
اور وہ طرح طرح کے عذابوں کا مستحق ہوگا چنانچہ
ارشاد باری
تعالٰی ہے : اِنَّ
اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-وَ
مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِیْمًا(48) ترجمۂ کنز العرفان:بیشک اللہ اس بات کو نہیں
بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اوراس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما
دیتا ہے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا توبیشک اس نے بہت بڑے گناہ کا بہتان
باندھا۔ (النساء آیت 48)
*حضرت شعیب علیہ
السلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا یعنی کہ اے میری قوم شرک سے بچو اور اللہ عزوجل
کو وحدہ لا شریک ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی عبادت بھی کرو۔
(2) ارشاد باری
تعالیٰ ہے : وَ
یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ
قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ
مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ(89) ترجمۂ
کنز العرفان: اور اے میری قوم! میری مخالفت تم سے یہ نہ کروا دے کہ تم پر بھی اسی
طرح کا (عذاب) آپہنچے جو نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر آیا تھا
اور لوط کی قوم تو تم سے کوئی دور بھی نہیں ہے۔(ھود آیت 89)
*حضرت شعیب علیہ
السلام نے اپنی قوم کو تبلیغ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم اگر میری مخالفت کرو
گے تو دیگر قوموں کی طرح تم بھی دنیا و آخرت میں رسوا ہو جاؤ گے اس سے پہلے کہ لوگ
تم سے نصیحت حاصل کریں تم اپنے سے پہلی قوموں سے نصیحت حاصل کرو -
مخالفت
سے مراد :-اس سے دو طرح کی مخالفت
مراد ہے ایک مخالفت حقیقی یعنی کہ اللّہ و رسول پر ایمان نہ لانا اور دوسری مخالفت
سے مراد مخالفت مجازی ہے یعنی کہ اللہ اور رسول پر ایمان تو لانا مگر احکامات میں
نافرمانی کرنا
*حضرت شعیب علیہ
السلام کی مخالفت سے مراد مخالفت حقیقی ہے کیونکہ آپ کی قوم کی اکثریت آپ پر ایمان
نہ لائی تھی۔
*آیت مذکورہ
سے معلوم ہوا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو سابقہ امتوں کے واقعات سے
نصیحت حاصل کرنے کو کہا اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو اپنی مخالفت
کرنے سے ڈرایا کہ میری مخالفت سے سابقہ امتوں کی طرح تم بھی کہیں ہلاک نہ ہو جاؤ
لہذا ہمیں بھی سابقہ قوموں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور حکم الہی کے مطابق تمام
احکامات پر عمل کرنا چاہیے ۔
(3) ارشاد باری
تعالیٰ ہے :اَوْفُوا
الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ
الْمُسْتَقِیْمِ(182)
ترجمۂ کنز
العرفان: (اے لوگو!) ناپ پورا کرو اورناپ تول کو گھٹانے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔
اور بالکل درست ترازو سے تولو۔(الشعراء آیت181-182)
*حضرت شعیب علیہ
السلام کی دونوں قوموں( اصحاب الایکہ اور مدین) کا پیشہ تجارت تھا اس لیے دونوں
قومیں ایک ہی طرح کی نافرمانیوں میں مبتلا تھیں ان قوموں کی نافرمانیوں کی فہرست
طویل ہے جن میں سے چند یہ ہیں: (1)اللّہ
تبارک و تعالی کی وحدانیت کا انکار (2) نبوت کا انکار کرنا (3)بتوں کو پوجنا
(4)نعمتوں کی ناشکری (5)قتل و غارت(6) غریبوں پر ظلم کرنا(7) ڈاکے ڈال کر لوگوں کا
مال لوٹ لینا (8)مسلمانوں کا مذاق اڑانا(9) بیماری اور غربت کی وجہ سے عار دلانا
(10)لوگوں کو حضرت شعیب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوشش کرنا (11)ناپ تول میں کمی
کرنا شامل ہیں- آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ناپ
تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا اور ناپ تول میں کمی کی شدید مذمت فرمائی۔
*بدقسمتی سے
ناپ تول میں کمی کرنا ہمارے معاشرے میں ہر طرف عام ہو چکا ہے- ہمیں قوم شعیب علیہ
السلام سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اس سے بچنا چاہیے۔
*اس آیت کریمہ
سے معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام صرف عبادات ہی سکھانے نہیں آتے بلکہ اعلی اخلاق،
سیاسیات اور معاملات کی درستگی کی تعلیم بھی دیتے ہیں -
(4) ارشاد باری
تعالیٰ ہے :قَالَ
یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ
ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(92) ترجمۂ کنز
العرفان:شعیب نے فرمایا: اے میری قوم ! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ سے زیادہ
ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے بیشک میرا رب تمہارے تمام اعمال
کو گھیرے ہوئے ہے( ھود آیت 92)
*جب حضرت شعیب
علیہ السلام نے مدین والوں کو سمجھانے کے لیے زیادہ گفتگو فرمائی تو انہوں نے جواب
دیا کہ اے شعیب علیہ السلام آپ اللّہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے، صرف اسی کی عبادت
کرنے اور ناپ تول میں کمی کرنے پر جو حرام ہونے کی باتیں کر رہے ہیں اور ان باتوں
پر جو دلائل دے رہے ہیں وہ ہماری سمجھ میں آتے ہی نہیں اور نیز تم ہماری نظروں میں
کوئی معزز آدمی نہیں ہو اور اگر ہم تم پر ظلم کریں تو تم دفاع کی کوئی طاقت نہیں
رکھتے - انہوں نے آپ علیہ السلام کو قتل کی دھمکی دی اور کہا کہ ہم نے آپ علیہ
السلام کے قبیلے کی وجہ سے آپ کو کچھ نہیں کہا ورنہ ہم آپ کو پتھر مار مار کر
(نعوذ باللہ) قتل کر دیتے اس پر آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیتے
ہوئے فرمایا کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللّہ سے زیادہ ہے کہ اللّہ کے خوف کی
وجہ سے تو تم میرے قتل سے باز نہ رہے جبکہ میرے قبیلے کی وجہ سے باز رہے اور تم نے
اللہ کے نبی کا تو احترام نہ کیا جبکہ میرے قبیلے کا احترام کیا- تم نے اللہ کے
حکم کو پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے اور اس کے حکم کی تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہے - بے شک
میرا رب تمہارے سب حالات جانتا ہے اس پر تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں اور وہ قیامت
کے دن تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دے گا۔
*خلاصہ کلام یہ
ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میری قوم صرف اللّہ سے ڈرو جس سے ڈرنے کا حق
ہے وہ تمہارے تمام اعمال کو جانتا ہے اس کے حکم کو مانو تاکہ تمہارے اعمال کی جزا
اچھی ہو
(5) ارشاد باری
تعالیٰ ہے :وَ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ
وَّدُوْدٌ(90) ترجمۂ کنز العرفان:اور
اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ، بیشک میرا رب بڑامہربان ،محبت والا
ہے (ھود آیت 90)
*جب آپ علیہ
السلام کی قوم نے آپ کی مخالفت کی تو آپ نے فرمایا اے میری قوم تمہاری عداوت اور
بغض اور میرے دین کی مخالفت کی وجہ سے گزشتہ قوموں کی طرح کہیں تم بھی ہلاک نہ ہو
جاؤ لہذا اپنے رب کی بارگاہ میں توبہ کرو۔
(توبہ
کی فضیلت) :حضرت عبد اللہ بن مسعود
رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا:گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔( ابن
ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،۴ / ۴۹۱،
الحدیث: ۴۲۵۰)
اورحضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب بندہ
اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے،اس کے اَعضا کو بھی
بھلا دیتا ہے اور ا س کے زمین پر نشانات بھی مٹا ڈالتاہے یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملے گا تواس کے گناہ پر کوئی
گواہ نہ ہوگا۔( الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ والزہد،الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ
بہا واتباع السیّئۃ الحسنۃ،۴ / ۴۸،الحدیث:
۱۷)
* پیغمبروں نے
اپنی قوموں کو توبہ و استغفار کا حکم دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ بڑی اہم چیز
ہے - یہ بھی خیال رہے کہ ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے کفر کی توبہ ایمان لانا ہے،
حقوق العباد کی توبہ انہیں ادا کر دینا ہے اور اعلانیہ گناہ کی توبہ اعلانیہ ہے۔
*آپ علیہ
السلام اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم کو توبہ کی نصیحت کی-
انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کو پیش
نظر رکھتے ہوئے ہمیں بھی کثرت سے توبہ استغفار کرنا چاہیے اللّہ تبارک و تعالی سے
دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم