پیارے اسلامی بھائیو اللہ تبارک و تعالی نے ہر زمانے میں کسی نہ کسی نبی علیہ السلام  کو انسانوں کی رہنمائی کرنے کے لیے مبعوث فرمایا یعنی بھیجا تاکہ وہ نبی مسلمانوں کو نصیحتیں فرمائیں اُن تک اللہ تبارک و تعالی کے جاری کردہ اَحکامات پہنچائیں اور انسان اُن احکامات پر اور اُن نصیحتوں پر عمل کر کے فلاح پا سکیں جن انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ تعالی نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا انہیں انبیاء کرام علیہم السلام میں ایک حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں انہوں نے اپنی قوم کو نصیحتیں فرمائیں آئیے اُن کی قرآنی نصیحتیں پڑھتے ہیں۔

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُاؕ-اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ(87) ترجمۂ کنز الایمان:بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں جو چا ہیں نہ کریں ہاں جی تمہیں بڑے عقلمند نیک چلن ہو۔

تفسیر صراط الجنان:

{قَالُوْا یٰشُعَیْبُ:کہا: اے شعیب!} حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مدین والوں کو دو باتوں کا حکم دیا تھا۔

(1) اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ اور کسی کی عبادت نہ کریں۔

(2) ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ قوم نے ان دونوں باتوں کا جو جواب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیا۔

اس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ پہلی بات کا انہوں نے یہ جواب دیا ’’اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ ‘‘ یعنی کیا ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں۔

مدین والوں کے اس جواب سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے پاس بت پرستی کرنے پر دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید تھی اسی لئے جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا تو انہیں بہت عجیب لگا اور کہنے لگے کہ بتوں کی پوجا کرنے کے جس طریقے کو ہمارے پچھلے لوگوں نے اپنایا ہے ہم اسے کیسے چھوڑ دیں۔ دوسری بات کا مدین والوں نے یہ جواب دیا ’’ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْۤ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا‘‘ یعنی کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں ، چاہے کم ناپیں چاہے کم تولیں۔ آیت میں مذکور لفظ(صَلَاۃْ) سے مراد یا تو دین و ایمان ہے یا ا س سے مراد نماز ہے۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: 87، 6/ 386-387، ملخصاً)

{اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ: تم تو بڑے عقلمند، نیک چلن ہو} مدین والے اپنے گمان میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بے وقوف اور جاہل سمجھتے تھے ا س لئے طنز کے طور پر انہوں نے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا کہ تم تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہو۔ یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کنجوس آدمی کو آتے دیکھ کر کہے ، جناب حاتم طائی تشریف لارہے ہیں۔

امام رازی فرماتے ہیں: کہ ا س آیت کا معنی یہ ہے: کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی قوم میں بڑے عقلمند اور نیک چلن آدمی کی حیثیت سے مشہور تھے لیکن جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ان میں نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے جاہلانہ طریقے کو چھوڑنے کا حکم دیا تو انہوں نے حیران ہو کر کہا کہ آپ تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہیں ، پھر آپ ہمیں کیسے یہ حکم دے رہے ہیں کہ ہم اپنے نسل در نسل چلتے ہوئے بتوں کی پوجا کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ (تفسیرکبیر، ہود، تحت الآیۃ: 6،87 / 387، ملخصاً)

{اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ: میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں} (یعنی) میرا تمہیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے تمہاری اصلاح ہو جائے اور جب میں نے دیکھا کہ تم نے اپنے اعمال درست کر لئے ہیں تو میں تمہیں منع کرنا بھی چھوڑ دوں گا۔

ان تینوں جوابات میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ ہر عقلمند انسا ن کو چاہئے کہ وہ جو کام کر رہا ہے اور جس کام کو چھوڑ رہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، اپنی جان کے حقوق اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کرے۔ ( بیضاوی، ہود، تحت الآیۃ: 88، 3 / 254)

{وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ: اور میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے۔} (یعنی)میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا کیونکہ مجھے اسی پر اعتماد اور تمام کاموں میں اسی پربھروسہ ہے ، تمام نیک اعمال اور توبہ کرنے میں ،میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (تفسیر طبری، ہود، تحت الآیۃ: 88، 7/ 102 )

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس کلام شریف میں اس جانب اشارہ ہے کہ کوئی شخص رب تعالیٰ کی دستگیری کے بغیر محض اپنی عقل سے ہدایت نہیں پاسکتا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو حضرت شعیب علیہ السلام نےجو نصیحتیں فرمائیں ہیں اللہ تعالی ہمیں اس پرعمل پیرہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین