احمد مرتضیٰ
عطّاری (درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان عطار اٹک ، پاکستان)
شعیب
علیہ السلام کا تعارف:
حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم
قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں
سے نہ تھے۔مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا
نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ
لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے
مدین کی اولاد میں سے تھے، بعد میں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام مدین پڑ گیا اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بیٹے مدین نے اس شہر کی
بنیاد ڈالی تھی۔ یہاں حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رہتے تھے ۔(صراط الجنان)حضرت سیِّدُنا
شعیب علیہ السّلام جانور پالتے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،4/227 ،ملخصاً)
حضرت موسیٰ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مصر سے مدین آئے اور کئی برس تک حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس اقامت فرمائی
اور ان کی صاحبزادی صفوراء کے ساتھ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا نکاح
ہوا۔(صراط الجنان)
آئیے اب شعیب
علیہ السلام کی چند قرآنی نصیحتیں سنتے ہیں۔
1:-ایک
اللہ کی عبادت کی طرف بلانا: وَ اِلٰى مَدْیَنَ
اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ
غَیْرُهٗؕ-
ترجمۂ کنز
العرفان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا :اے میری قوم
!اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں۔
تفسیر:-انبیاء
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اللہ
تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیں ، اسی لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے مدین والوں کو سب سے پہلے یہ فرمایا: اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی
عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراا ور کوئی معبود نہیں۔(صراط الجنان ھود 84)
2:-ناپ
تول میں کمی نہ کرنے کا حکم اور عذاب سے ڈرانا۔وَ لَا
تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَان َاِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ
اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمہ کنزالعرفان:اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔بیشک میں
تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر
ہے۔
تفسیر:توحید کی
دعوت دینے کے بعد انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو یہ حکم ہوتا
ہے کہ جو کام زیادہ اہمیت کا حامل ہو پہلے اس کی دعوت دیں پھر ا س کے بعد جس کی
اہمیت ہو اس کی دعوت دیں۔ کفر کے بعد چونکہ مدین والوں کی سب سے بری عادت یہ تھی
کہ وہ خریدو فروخت کے دوران ناپ تول میں کمی کرتے تھے، جب کوئی شخص ان کے پاس اپنی
چیز بیچنے آتا توان کی کوشش یہ ہوتی کہ وہ تول میں اس چیزکو جتنا زیادہ لے سکتے
ہوں اتنا لے لیں اور جب وہ کسی کو اپنی چیز فروخت کرتے تو ناپ اور تول میں کمی کر
جاتے، اس طرح وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے۔ اس لئے حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں یہ بری عادت چھوڑنے کی دعوت دی اور فرمایا:ناپ
اور تول میں کمی نہ کرو۔(صراط الجنان سورہ ھود84)
روایت ہے حضرت
ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ و سلم نے ماپ و تول والوں سے تم ایسی
دو چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن میں تم سے پہلے امتیں ہلاک ہوچکی ہیں(ترمذی)ان
امتوں سے مراد حضرت شعیب علیہ السلام کی امت ہے جو تول و ناپ میں بے ایمانی کرتے
تھے کہ لیتے تھے زیادہ اور دیتے تھے کم۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 , حدیث نمبر:2890)
اس کے بعد
فرمایا: بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور ایسے حال میں تو آدمی کو چاہیے کہ
وہ نعمت کی شکر گزاری کرے اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچائے نہ کہ ان کے
حقوق میں کمی کرے، ایسی حالت میں اس عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں اس خوشحالی سے
محروم نہ کردیئے جاؤ، اگر تم ناپ تول میں کمی سے باز نہ آئے توبیشک مجھے تم
پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے کہ جس سے کسی کو رہائی میسر نہ ہو اور
سب کے سب ہلاک ہوجائیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دن کے عذاب سے عذابِ آخرت مراد
ہو۔(صراط الجنان سورہ ھود 84)
4-3:اپنی
رسالت کابیان،اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کا حکم دینا:اِذْ قَالَ
لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ
اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)ترجمۂ کنز العرفان:-جب ان سے شعیب نے
فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے
ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا
اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
تفسیر:-
خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں نے ا س وقت حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو
جھٹلا کر تمام رسولوں کو جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے
ان سے فرمایا:کیا تم کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں ڈرتے!بے
شک میں تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی وحی اور رسالت پر
امانت دار رسول ہوں تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو
اور میں تمہیں جو حکم دے رہا ہوں اس میں میری
اطاعت کرو۔اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا۔ ان تمام انبیاءِ
کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ
وہ سب حضرات اللہ تعالٰی کے خوف اور اس کی اطاعت اور عبادت میں اخلاص
کا حکم دیتے اور رسالت کی تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں لیتے تھے، لہٰذا سب
نے یہی فرمایا۔(صراط الجنان سورہ شعراء 177-180)
5:
ایمان والوں کو اللہ کے راستے سے نہ روکو:وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ
صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ
تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-ترجمہ
کنزالعرفان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کے راستے
سے ایمان لانے والوں کو روکو اور تم اس میں ٹیڑھا پن تلاش کرو۔
تفسیر: یہ لوگ
مدین کے راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور ہر راہ گیر سے کہتے تھے کہ مدین شہر میں ایک
جادوگر ہے یہ بھی کہا گیا کہ ان کے بعض لوگ مسافروں پر ڈکیتیاں ڈالتے تھے۔(صراط
الجنان الاعراف 86)
6:اللہ
تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد دلانا۔ وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا
فَكَثَّرَكُمْ۪- ترجمہ
کنزالعرفان:اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے تواس نے تمہاری تعداد میں اضافہ کردیا۔
تفسیر:تم
تھوڑے تھے تمہیں بہت کر دیا، غریب تھے امیر کر دیا، کمزور تھے قوی کر دیا ان
نعمتوں کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکریہ ادا کرو کہ مجھ پر ایمان لاؤ۔(صراط الجنان
الاعراف86)
7:گزشتہ
قوموں کے احوال سے عبرت پکڑنے کی نصیحت:وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ
عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ(86)ترجمہ
کنزالعرفان:اور دیکھو ، فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔
تفسیر:یعنی
پچھلی اُمتوں کے احوال اور گزرے ہوئے زمانوں میں سرکشی کرنے والوں کے انجام و مآل
عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور سوچو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی
امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا ،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی
ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے
اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔(صراط الجنان
الاعراف86)