حرام مال کمانا اور کھانا دونوں ایسی چیزیں ہیں جو اللہ پاک کو سخت ناپسند اور ناراضی کا باعث ہے۔ جس کے سبب انسان رب تعالٰی کی فرمانبرداری کی بجائے نافرمانی کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ اور رب تعالیٰ کی رحمت سے کَوسُوں دُور ہو کر جہنم کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اللہ کا دیا ہوا حلال پاکیزہ رزق کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔(پ 14 ، نحل : 13)

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! تم لوٹ، غصب اور خبیث پیشوں سے حاصل کیے ہوئے جو حرام اور خبیث مال کھایا کرتے تھے انکے بجائے حلال و پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اللہ پاک کی نعمت کا شکر ادا کرو ،اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے جہاں متعدد مقامات پر حلال کمائی کھانے پر ابھارا ہے اسی کے ساتھ حرام کمائی کرنے اور اس کے کھانے پر زجر و توبیخ (ڈانٹ ڈپٹ) فرمائی کہ اگر وہ میری عبادت کرتے ہیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ مال خبیث سے روگردانی (منہ پھیریں) کریں اور حلال و پاکیزہ رزق کو اپنی زندگی کے لئے زادِراہ (گزر بسر) بنائیں۔

حرام کمائی کی تعریف : وہ مال جو ناجائز اور باطل طریقے سے کمایا جائے۔ جیسے دھوکہ دے کر مال بیچنا اور ان چیزوں کی خریدو فروخت جن کو شریعت نے ناجائز و حرام قرار دیا ہے۔

حرام مال کھانے کی نحوست: آدمی کے پیٹ میں جب حرام کا لقمہ پڑتا ہے تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرتا ہے جب تک اس کے پیٹ میں لقمہ رہے گا اور اگر اسی حالت میں موت آگئی تو داخل جہنم ہوگا۔

آئیے اب ہم مالِ حرام کے متعلق احادیثِ مبارکہ کو ملاحظہ کر کے ان سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

(1)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر وہ اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور اگر خرچ کرے تو اس میں اس کے لیے برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، 2/34، حدیث: 3671)

(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے عیب والی چیز بیچی اور اس عیب کو ظاہر نہ کیا وہ ہمیشہ اللہ پاک کی ناراضی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔(ابن ماجہ ، 3/ 59 ،حدیث: 2247)

(3)حضرت ابوبکر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس بدن نے حرام مال سے پرورش پائی ہوگی وہ شروع ہی میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ اور جزا بھگتے بغیر جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مشکوة شریف، حدیث : 2838)

(4)حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ گوشت جس نے حرام مال سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جو گوشت یعنی جو جسم حرام مال سے نشو و نما پائے وہ دوزخ کی آگ ہی کے لائق ہے۔(مشکوة شریف، حدیث : 2838)

(5)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال سے ہے یا حرام سے ۔(صحیح بخاری، کتاب البیوع، حدیث:2059)

محترم اسلامی بھائیو! جیسا کہ ہم نے مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں حرام کمانے اور کھانے پر وعیدیں ملاحظہ کی ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم اس سے اور اس کی طرف لے جانے والے تمام اسباب سے کنارہ کشی اختیار کر کے رب تعالٰی کا پسندیدہ بندہ بنیں اور بروز محشر بارگاہِ الٰہی میں سرخرُو ہو کر جنت میں اپنا مقام بنائیں۔


قراٰنِ پاک اللہ پاک کی وہ سب سے آخری اور مستند ترین کتاب ہے، جسے انسانوں کی دینی اخلاقی، سماجی، اور معاشرتی ہدایت کے لیے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کیا گیا۔ یہ عظیم کتاب دورِ رسالت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے دلیل و برہان اور نورِ ہدایت ہے۔ قراٰنِ پاک اللہ پاک کی بے مثل کتاب ہے، جس کا ایک ایک لفظ محفوظ اور ناقابل تبدیل ہے، اولین و آخرین کے علوم کے جامع تمام انسانوں کے لیے بشارت، رحمت اور شفاء نیز اقوامِ عالم کو عظمت اور رفعت کا درس سکھانے اور بنی آدم کو حلال و حرام کمانے اور کھانے میں فرق کرنے والی کتاب ہے۔

کھانے اور کمانے کے بارے میں اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمایا: آیت مبارکہ: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)

اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: 29 ، 1 / 370)

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حرام مال آخر ہے کیا؟

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب رحمۃُ اللہ علیہ حرام مال کی تعریف کچھ یوں فرماتے ہیں: جو مال حرام ذرائع سے حاصل کیا جائے وہ حرام مال ہے۔

حرام مال کمانے کی مذمت: حرام مال کھانے و کمانے والا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2 / 33، حدیث: 3672)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔( کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات(یعنی دعا کے قبول ہو جانے والے)ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

ان احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ حرام مال کھانے اور کمانے والا کس حد درجے برا ہے، اللہ پاک ہمیں اپنی جناب سے حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

معاذ اللہ آج کل ہمارے معاشرے کے اندر حرام مال کمانے کے مختلف ذرائع ہیں جس کی مثالیں درج ذیل ہیں: سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے، اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

ان سب ذرائع سے کمانا حرام اور ناجائز ہیں۔

سُود: سود کے متعلق قراٰنِ مجید فرقان حمید میں رب تعالٰی کا فرمان علی شان ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ

ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مَخبوط بنا دیا ہو۔(پ3،البقرۃ:275)

مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم،کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، ص862، حدیث: 1598)

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ جو بندہ سود دے یا لے یا اس کے کاغذات تیار کرے یا اس میں گواہی دے یا اس کو سپورٹ کرے کسی بھی حوالے سے اس کی رہنمائی کریں، وہ سب کے سب ہی برابر کے گنہگار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار 'سود' ہے کیا چیز ؟

جواب: 'سود' کو انگریزی زبان میں 'Usury' کہتے ہیں. بہار شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی صاحب نے 'سود' کی تعریف کچھ یوں فرماتے ہیں: عقدِ مُعَاوَضَہ (یعنی لین دین کہ کسی معاملے) میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مُقَابِل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ 'سود' ہے۔

بہار شریعت میں ہے سود حرامِ قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر(یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے،اس طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ ( بہار شریعت 2/768،حصہ:11)

رشوت: رشوت کے متعلق قراٰنِ مجید فرقان حمید میں رب تعالٰی کا فرمان علی شان ہے: ﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔(پ2،البقرۃ:188)

تفسیر صراط الجنان میں اس آیتِ کریمہ کے تحت میں ہے باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔ (احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،1/ 304)

حضور اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رشوت لینے اور دینے والے کے بارے میں فرمان علی شان ہے : رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں آگ میں ہیں۔ (معجم اوسط،حدیث: 2026)

اس حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے یہ کس قدر برا کام ہے رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

رشوت کے متعلق سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار رشوت ہے کیا ؟

جواب: رشوت کو انگریزی زبان میں 'Bribery'کہتے ہیں۔

اس کی تعریف اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے فتاوی رضویہ میں کچھ یوں کی ہے : جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے (وہ) رشوت ہے، یوں ہی جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو (یا حاکم کے علاوہ کسی اور کو بھی) دیا جائے (وہ) رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم کو دور کرنے) کے لیے جو کچھ دیا جائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں یہ دے سکتا ہے (لیکن) لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اس سے لینا حرام (ہے)۔ (فتاوی رضویہ، ج23 /ص597)

امیر اہل سنت اپنی کتاب کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب میں فرماتے ہیں: رشوت کا لین دین قطعی حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ (کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،ص181)

جہنم کے خطرات مکتبۃ المدینہ کی کتاب میں تحریر ہے: رشوت لینا دینا اور دونوں کے درمیان دَلّالی(Dealing )کرنا حرام اور گناہ ہے۔ ( جہنم کے خطرات مکتبۃ المدینہ،ص71)

مال کی حرص میں بہت سارے افراد منصب، عہدے یا نوکری حاصل کرنے کی جستجو میں حرام کھانے اور کمانے میں لگ جاتے ہیں۔ مالِ حرام میں سے کوئی پیسہ کھانے پینے یا کسی اور مصرف (یعنی کام) میں لگانا حرام ہے۔

اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ فرماتے ہیں، حرام پیسے کسی کام میں لگانا اصلاً (یعنی بالکل) جائز نہیں، نہ نیک کام میں( مثلاً مسجد و مدرسہ وغیرہ کی تعمیر میں) لگا سکتے ہیں، نہ کسی اور کام (مثلاً خرید و فروخت وغیرہ) میں ۔

اعلی حضرت علیہ رحمہ اپنے فتاوی رضوی میں فرماتے ہیں : زبانی توبہ سے حرام مال پاک نہیں ہو سکتا بلکہ توبہ کے لیے شرط ہے کہ جس جس سے لیا ہے واپس دے وہ (زندہ) نہ رہے ہوں تو ان کے وارِثوں کو دے (اگر اَصْل مالِک یا اس کے وارِثوں کا) پتہ نہ چلے تو اتنا مال (بلا نیتِ ثواب صدقہ کر دے اس کے عِلاوہ (کوئی طریقہ مالِ حرام کے) گُناہ سے براءَت (یعنی چھٹکارے) کا نہیں۔ (فتاوی رضویہ ج23/ص544 بتغیر قلیل)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حرام کھانے اور کمانے سے محفوظ رکھے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے جس طرح حلال مال میں برکتیں ہی برکتیں رکھی ہوئی ہے اسی طرح حرام مال میں نحوست ہی نحوست رکھی ہوئی ہے۔ اللہ پاک نے حرام مال کے عذابات اور وعیدیں بیان فرمائی ہے حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔

اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔(پ5،النسآء:29)

اس آیت میں باطل (یعنی ناحق) طریقے سے مراد ہر وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔

(1) حرام مال جہنم میں جانے کا سامان: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا بندہ ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہو گی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر اس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لئے جہنم میں جانے کا سامان ہے بے شک اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/505حدیث:3744)

(2)جنت حرام فرما دی: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنزالعمال،9257)

(3) حرام مال بندہ کے خلاف گواہ بن کر آئے گا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جسے اس نے حلال راستوں سے حاصل کیا اور پھر اسے اللہ کے راستے میں یتیموں اور مسکینوں پر خرچ کرتا رہا اور جو شخص ناجائز راستوں سے مال جمع کرتا ہے تو وہ اس بیمار کی طرح ہے جو کتنا ہی کھا لے مگر پیٹ نہیں بھرتا اور وہ (ناجائز) مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا۔ (صحیح البخاری:2687)

(4)نفل قبول نہیں ہوتے: سرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بیت المقدس پر اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات آواز دیتا ہے کہ جس نے حرام مال کھایا اس کے نہ نفل قبول ہے نہ فرض۔ (الکبائر للذھبی:134)

(5)بس کہیں سے بھی مال آئے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں آدمی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ مال کہاں سے حاصل کر رہا ہے آیا حلال ذریعے سے یا حرام ذریعے سے۔ (صحیح البخاری 2053)

(6) تمام مال جہنم میں پھینک دیا جائے گا: تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی گناہ کے ذریعے مال حاصل کیا پھر اس سے صلہ رحمی کی یا صدقہ کیا یا راہ خدا میں خرچ کیا تو اللہ پاک اس کے تمام مال کو جمع کر کے جہنم میں پھینک دے گا ۔ (الزھد لابن المبارک 221)

ناجائز مال سے اگرچہ ضروریات پوری ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا نیز ضروریات پوری ہونے کے نتیجے میں حاصل ہونے والا قلبی سکون و اطمینان سے ناجائز آمدنی والا شخص ہمیشہ محروم رہتا ہے۔

موجودہ دور میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ کمانے کی ہوس میں مبتلا ہے جو جتنی جلدی جس قدر زیادہ مال حاصل کرے وہ دنیا والوں کی نظر میں اتنا ہی عقل مند اور فہم و فراست والا کہلاتا ہے۔بلکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے جو متقی اور پرہیز گار ہے اللہ پاک کی بارگاہ میں وہی عزت اور مقام و مرتبہ والا ہے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حرام مال سے بچنے اور حلال مال حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الحمد اللہ ہماری شریعت جگہ بہ جگہ ہر مسائل میں اصلاح کرتی ہے آج ایک اہم موضوع جس کی اس معاشرے میں بہت زیادہ ضرورت وہ موضوع حرام کمانے اور کھانے کے مسائل ہیں آج ہم غور و فکر نہیں کرتے کہ آج ہم حلال طریقے سے کما رہے ہیں یا حرام؟ ہم آج ابھی اس وقت جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام؟ ان سب کی ایک وجہ علمِ دین سے دوری ہے۔ ( اب آئیں حرام کھانے کی مذمت میں 4فرامین مصطفےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ فرمائیں)

(1 )ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان ( بکھرے ہوئے ) ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اُس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو ) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب! کہتا ہے (دعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیوں کر مقبول ہوا ۔ یعنی اگر قبول دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو۔

( 2) لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پر واہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے، حلال سے یا حرام سے۔

( 3 )جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے، بے شک خبیث (یعنی ناپاک) کو خبیث نہیں مناتا۔

(4) جس نے عیب والی چیز بیچ کی (یعنی بیچی) اور اُس (عیب) کو ظاہر نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ پاک کی ناراضی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔(حلال طریقے سے روزی کمانے کے 50مدنی پھول ،ص 2سے3)

لقمہ حرام کی نحوست: مُكاشَفَةُ الْقُلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کریگا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں ( یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں ) موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔(مكاشَفَةُ القُلوب، ص 10)

حرام روزی اور دعا کا قبول نہ ہونا: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگوں اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مؤمنین کو اس بات کا حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا، اللہ نے فرمایا: اے رسولو! تم پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں(المؤمنون 51) اور فرمایا اے ایمان والو! ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ۔(البقره: 172)

پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے حال یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب ! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو ۔(رزقِ حلال کی برکتیں )

اس حدیث پاک کی شرح کے کچھ مدنی پھول:

(1) یہ حدیث اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔

(2) اس حدیث میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھانے، پینے لباس کے متعلق اپنی امت کو تعلیم دی اور دعا کی قبولیت کے اسباب کو بیان کیا۔

(3) اللہ پاک ہر عیب سے پاک ہے اور حلال پاکیزہ چیز ہی پسند فرماتا ہے۔

(4) اچھے اور نیک سفر کرنے والا بھی حرام روزی کمائے گا تو اس کی دعا قبول نہیں ہو گی حالانکہ سفر میں دعا قبول ہوتی ہے لیکن حرام روزی اس میں رکاوٹ ہے۔

(5) اس روایت میں حلال مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔

جو شخص اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس نے کہاں سے مال کمایا تو اللہ پاک کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ اسے جہنم کے کس دروازے سے داخل کرے۔ جیسا کہ آپ نے پڑھا حدیث مبارک میں قراٰنِ کریم اس سے منع فرمایا اور اس کے دنیا میں بھی نقصانات ہیں اور آخرت میں بھی ۔

الله پاک کی بارگاہ میں دعا ہے ہمیں حلال روزی کمانے اور حرام روزی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرمائی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔

(1) حرام کمانے کی مذمت: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کیلئے اس میں برکت نہیں۔ اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک بُرائی سے بُرائی کو نہیں مٹاتا ہے ۔ ہاں نیکی سے بُرائی کو مٹا دیتا ہے بیشک خبیث (ناپاک) کو خبیث نہیں مٹاتا ۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، 2/ 33 حدیث : 3672 )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السّلام نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پَرا گندہ اور بدن غُبار آلودہ ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھا کر یارب ! یا رب ! پُکار رہا ہے حالانکہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غِذا حرام ہو، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (مسلم کتاب الزکاۃ باب قبول الصدقۃ من الكسب الطبيب و تربيتها ۔ص 506،حديث : 1015)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے پیارے پیارے آقا مکِّی مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سُن لئے ۔ذَرا سوچیں! کہ حرام کھانے کی کتنی بڑی بڑی وعیدیں ہیں اور نحوستیں ہیں تو ان فرامین کو مدِّنظر رکھتے ہوئے غور و فکر کریں کہ کہیں ہم بھی تو نہیں اِس زُمرے میں ۔

حرام کھانے کی مذمت: مکاشفۃ القلوب میں ہے آدمی کے پیٹ میں جب حرام کا لقمہ پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کریگا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اُسی حالت میں( یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب ،ص 10)

حضور علیہ السّلام نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے سعد! اپنی غِذا پاک کر لو مُستجاب الدعوات ہو جاؤ گے اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اُس بندے کے 40 چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جِس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط من اسمہ محمد 34/5حدیث 6495)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: پاکیزہ کمائی اُن تاجروں کی ہے جو گُفتگو کے وقت جھوٹ نہیں بولتے ، وعدہ کریں تو خلاف ورزی نہیں کرتے جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت نہیں کرتے جب کوئی چیز خریدیں تو اس کی بُرائی بیان نہیں کرتے اور جب کچھ بیچیں تو اس کی تعریف بیان نہیں کرتے جب اُن پر کسی کا آتا ہو تو دینے میں پس و پیش نہیں کرتے اور جب انہوں نے کسی سے لینا ہو تو اس پر تنگی نہیں کرتے ۔(در منثور النساء )

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! باطِل اور ناجائز طریقوں سے ( دوسروں کا مال کھانا حرام ہے اور اس میں حرام خوری کی ہر صورت داخل ہے خواہ لوٹ مار کر کے ہو یا چوری، جوئے، سُود، رُشوت میں کسی طریقے سے یا جھوٹی گواہی دے کر گواہ نے کمایا یا جھوٹا فیصلہ دے کر قاضی اور جج نے (مال پانی) وصول کیا یا جھوٹ کی وکالت کر کے وکیل نے فیس لی یا یتیم بیوہ، غریب امیر الغرض کسی کے مال میں خیانت کرکے ڈنڈی مار کر یا کسی بھی طرح دھوکہ دے کر مال ہتھیا لیا یا حرام تماشوں جیسے ناٹک، فلموں ڈراموں، گانے بجانے کی اُجرت وصول کی یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کا معاوضہ ہو یا بلا اجازت شرعی بھیک مانگ کر رقم لی ہو یہ سب ممنوع حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔

تو پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں حرام کمانے اور کھانے سے خود کو تو بچانا ہے لیکن اپنے دیگر اسلامی بھائیوں اپنے گھر والوں، خاندان، دوست ،احباب سب کو بھی بچانا ہے۔


تمام تعریفیں الله پاک کے لئے ہیں جس نے انسان کو بجنے والی خشک مٹی سے پیدا فرمایا پھر اسے اچھی صورت عطا فرما کر اس کی ابتدائی نشونما غذا دودھ کے ذریعے کی پھر اسے پاکیزہ رزق عطا فرما کر کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھا یہ حقیقت ہے کہ شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے لہذا حلال کی قوت و غلبہ اس کے راستوں کو تنگ کر دیتا ہے کیونکہ غلبہ و آزادی کی طرف مائل شہوت ہی اسے رگوں کی گہرائیوں میں پھیلاتی ہے بس اگر ان شہوات کو حلال کی لگام ڈال دی جائے تو شیطان ذلیل و رسوا ہو گا اور اس کا کوئی مدد گار اور حمایتی نہ رہے گا۔

(1) حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قاسم نعمت مالک جنت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : رزقِ حلال حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (المعجم الاوسط، حديث: 8610)

(2) جب نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دنیا پر مر مٹنے والے کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بکھرے بال گرد آلود چہرے اور سفر کی مشقت برداشت کرنے والا شخص اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے اور دعا کرتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟ جبکہ اس کا کھانا حرام لباس حرام اور غذا حرام ہے (صحیح مسلم حدیث 1015)

(3) ہر وہ جسم جو حرام سے پروان چڑھے آگ اس کی زیادہ حقدار ہے۔( سنن الترمذی ،حديث : 614 )

(4) سود کا ایک درہم اللہ پاک کے نزدیک حالت اسلام میں 30 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔( سن الدارقطنی حدیث 6861 )

(5) جس نے کسی گناہ کے ذریعے مال حاصل کیا پھر اس سے صلہ رحمی کی یا صدقہ کیا یا راہ خدا میں خرچ کیا تو الله پاک اس تمام کو جمع کر کے جہنم میں پھینک دے گا۔( الزهدلابن المبارک حدیث: 265)

اس مضمون سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی حرام کی طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے ورنہ ہماری دنیا اور آخرت برباد ہو سکتی ہے ۔ الله پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ خالق کائنات ہمیں حرام کمانے اور حرام کے ہر ہر لقمے سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہمارا دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ وہ ہماری ہر دینی اور غیر دینی معاملات میں اچھی رہنمائی کرتا ہے کہ ہمیں معاشرے میں رہنے کے اصول و ضوابط اور اچھے انداز سے زندگی گزارنے کے طریقے بیان کرتا ہے انہیں باتوں میں سے ایک بات حلال روزی کمانا اور حرام کمانے سے بچنا بھی ہے کیونکہ اسلام میں حرام کمانے کی بہت ممانعت ہے جس کی وعیدیں قراٰن احادیث میں بیان ہوئی ہیں کہ رب تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)

(1) مالِ حرام کا صدقہ کرنا مقبولِ بارگاہ نہیں: حرام مال سے اگر کوئی صدقہ کرے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول نہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(تفسیر صراط الجنان،2/ 182،مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود، 2/33،حدیث:3472)

(2) حرام کھانے والے پر جنت حرام ہے :حرام مال ایسی خراب چیز ہے جس کہ سبب اللہ پاک جنت حرام فرما دیتا ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(تفسیر صراط الجنان،2/ 182۔ کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3) چالیس (40)دن تک عمل قبول نہیں ہوتا: حرام کھانے کے سبب اللہ پاک 40 دن کے عمل قبول نہیں فرماتا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان،2/ 183)

(4) حرام کھانے کے سبب دعا قبول نہیں ہوتی: حرام ایسی بے برکت چیز ہے جس کہ سبب سے اللہ پاک دعا قبول نہیں فرماتا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (تفسیر صراط الجنان،2/ 183)

(5) نماز قبول نہیں ہوتی: حرام مال سے خریدے ہوئے کپڑوں میں نماز قبول نہیں ہوتی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو کوئی کپڑا دس درہم سے خریدے اور ان میں ایک درہم حرام ہو تو جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا اللہ اس کی کوئی نماز قبول نہ کرے گا پھر آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالیں اور فرمایا یہ بہرے ہوجائیں اگر میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے نہ سنا ہو۔ (مرآة شرح مشکوة المصابیح،کتاب البیوع، حدیث:2668)

اس تمام گفتگو سے یہ معلوم ہوا کہ حرام مال بہت خراب چیز ہے کہ یہ بہت سی چیزوں سے محروم کر دیتا ہے اور تباہ و برباد کر دیتا ہے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر یہ پاک مال سے مل جائے تو اس کو بھی بے برکت کر دیتا ہے لہذا ہمیں اس(حرام)سے بچنا چاہیے ۔

اللہ پاک ہمیں حلال کمانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک ربُّ العالمین ہے تمام مخلوق کو رزق دینے والا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو ۔ (پ12،ھود:6)

اللہ پاک بغیر کسی سبب کے رزق دینے پر قادر ہے مگر اس نے بندے کو اختیار دے دیا کہ وہ کسب کرے اب یہ بندے کی مرضی ہے حلال طریقے سے کمائے یا حرام، اور اسی کسب پر سزا و جزا کا مدار ہے، حلال طریقہ اختیار کریگا تو رزق کے ساتھ اللہ کی رضا بھی ملے گی اور اس میں برکت بھی ہوگی، اور اگر حرام طریقہ اختیار کرے گا تو ہو سکتا ہے رزق تو مل جائے مگر! اللہ کی ناراضگی، بے برکتی دنیا و آخرت میں رسوائی اس کا مقدر ہوگی۔

حرام کمانے اور کھانے کی مذمت احادیث میں بیان کی گئیں ہے ہم ان میں سے کچھ بیان کرتے ہیں۔

حرام کمائی کا صدقہ مقبول نہیں اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے بلکہ مالِ حرام مرنے کہ بعد آگ کی طرف لے جانے کا سبب بنتا ہے:

(1) حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ وہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا: یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس سے خیرات کرے تو وہ قبول ہوجائے، اور نہ یہ کہ اس سے خرچ کرے تو اس میں اسے برکت ہو، اور اس حرام کو اپنے پس ماندگان کے لیے نہ چھوڑے مگر یہ اس کا آگ کا توشہ ہوگا۔

اس حدیث پاک کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: یعنی جب تک اس کے وارثین اس کا حرام مال کھائیں گے یا برتیں گے اسے دوزخ میں عذاب ہوتا رہے گا کیونکہ یہ حرام کا سبب بنا، معلوم ہوا کہ جیسے بعض صدقے جاریہ ہوتے ہیں ایسے ہی بعض حرام بھی گناہِ جاریہ ہو جاتے ہیں۔(مرآت،4/259)

(2) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کہ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی، اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔(مسلم شریف 535)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا: کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس پر اللہ پاک نے حرام کی ہے۔ (مسند احمد،7482)

اللہ اکبر! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صرف کہہ دینا ہی کافی تھا! مگر آپ کے قسم ارشاد فرمانے سے حرام کھانے کی شدید مذمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

(4) روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ ابوبکر صدیق کا ایک غلام تھا جو انہیں آمدنی دیتا تھا تو صدیق اکبر اس کی آمدنی کھاتے تھے وہ ایک دن کوئی چیز لایا جس میں سے ابوبکر صدیق نے کچھ کھا لیا تب غلام نے عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں جو یہ کیا ہے ابوبکر صدیق نے فرمایا کیا ہے وہ بولا میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کی فال کھولی تھی اور میں فال جانتا تھا نہیں میں نے تو اسے دھوکہ دیا تھا وہ آج مجھے ملا اور مجھے اس کے عوض یہ دی یہ وہی ہے جو آپ نے کھائی فرماتی ہیں کہ ابوبکر صدیق نے ہاتھ ڈالا اور جو کچھ پیٹ میں تھا سب قے کردیا۔(مشکوۃ،1/248، حدیث:2663)

سبحان اللہ! سبحان اللہ! نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابہ تقوی کے کیسے انتہائی اعلی درجے پر فائز تھے اللہ کریم ہمیں ان کے تقوے کا کوئی ذرہ عطا فرمائے۔

(5) حرام سے پلنے والا گوشت آگ کے ہی لائق ہے:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: وہ گوشت جس کی نشونما حرام سے ہوئی وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور ہر وہ گوشت جس کی پرورش حرام سے ہوئی وہ آگ کے ہی زیادہ لائق ہے۔

مفتی احمد یار خان اس کے تحت فرماتے ہیں: جو شخص حرام کھا کر پلا جنت میں کیسے جائے! طیب جگہ طیب لوگوں کے لیے ہے۔ حرام خور دوزخ کی آگ کا مستحق ہے کہ مرے اور آگ میں پہنچے کیونکہ "اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ" گندے لوگوں کے لیے گندی چیزیں ہیں ۔(مراۃ المناجیح،4/260)

اللہ پاک ہمیں حرام سے بچ کر رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے، حرام کھانے سے محفوظ فرمائے، شریعت مطہرہ کے مطابق اور صحابہ کرام علیہم الرضوان اجمعین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں حرام کھانے اور حرام کمانے سے بچنے ہی کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ حدیث میں بھی حرام کمانے اور حرام کھانے کے حوالے سے کئی وعیدات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نبَتَ منَ السُّحْتِ وكلُّ لحمٍ نبَتَ منَ السُّحْتِ كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ ترجمہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حرام سے پرورش پانے والا گوشت ، جنت میں داخل نہیں ہو گا ، اور حرام سے پرورش پانے والا ہر گوشت جہنم کی آگ ہی اس کی زیادہ حق دار ہے ۔ حسن ، رواہ احمد و الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے ، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے ۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے ۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔(مسند امام احمد، مسند عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ، 2 / 33، حدیث : 3672 )

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو ۔( کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا : اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے ، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی جان ہے ! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے ۔ ( معجم الاوسط، من اسمه : محمد، 5 / 34، حدیث : 6495)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے ، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی ۔ ( مسلم، کتاب الزکاة، باب قبول الصدقة من الکسب الطیب وتربیتها، ص506، حدیث : 1015)

اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ : مگریہ کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو ۔ )یعنی باہمی رضامندی سے جو تجارت کرو وہ تمہارے لئے حلال ہے ۔ باہمی رضامندی کی قید سے معلوم ہوا کہ خرید و فروخت کی وہ تمام صورتیں جن میں فریقین کی رضامندی نہ ہو درست نہیں جیسے اکثر ضبط شدہ چیزوں کی نیلامی خریدنا کہ اس میں مالک راضی نہیں ہوتا یونہی کسی کی دکان ، مکان، زمین یا جائیداد پر جبری قبضہ کر لینا حرام ہے ۔ یاد رہے کہ مال کا مالک بننے کے تجارت کے علاوہ اور بھی بہت سے جائز اَسباب ہیں جیسے تحفے کی صورت میں ، وصیت یا وراثت میں مال حاصل ہو تو یہ بھی جائز مال ہے ۔ تجارت کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ مالک بننے کی اختیاری صورت ہے ۔


ابتدائے عالم سے لے کر انتہائے عالم تک اس دنیا میں بہت چیزوں کو ایک دوسرے کا سبب بنانا۔ اور وہ اسباب کبھی فائدہ مند ہوتے ہیں تو کبھی نقصان دہ بہر حال ہر کوئی کسی نا کسی کا سبب ضرور ہے۔ جیسے بارش کو سبزہ اگانے کا سبب گاڑیوں، پیسوں کو ہماری ضروریات پوری کرنے کا سبب بنایا لیکن یہ پیسہ اور اس کے ذریعہ جو اشياءخوردنوش کھا رہے ہیں حلال ہے یا حرام اس کی قدرت ہم انسانوں کردی ، بعض لوگ کم کماتے اور کم کھاتے ہیں۔ لیکن حق حلال کھاتے ہیں لیکن بعض لوگ پیسے اور کھانے کی حوص میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ حلال طریقہ سے کمایا یا حرام طریقہ سے؟ کیا اس کا کھانا ہمارے لئے حلال ہے یا حرام؟؟ اسی لئے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مال سے بے رغبتی اور احادیثِ مبارکہ میں حرام کھانے اور حرام کمانے کی مذمت بیان کی ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: ہاں ہاں اگر یقین کا جاننا جانتے تو مال کی محبّت نہ رکھتے ۔( پ30 ، التکاثر:5)

تفسير :اے لوگوں! ہاں ہاں اب نزع کے وقت کثرت مال کی حرص اور اولاد پر فخر و غرور کرنے کے برے نتیجے کو جلد جان جاؤ گے پھر یقیناً تم قبروں میں جان جاؤ گے اگر تم مال کی حرص کا انجام یقینی طور پر جانتے تو تم مال کی حرص میں مبتلا ہو کر آخرت سے غافل نہ ہوتے ۔ (تفسیر صراط الجنان پ30 سورة التكاثر )

دیکھا آپ نے اللہ پاک نے مال کے حریص کے بارے میں کیا فرمایا۔ حرام مال کمانے اور کھانے کی ابتدا حرص سے ہی ہوتی ہے اور احادیث میں بھی حرام مال کھانے اور کمانے کی مذمت پڑھ لیجئے۔

حدیث اول : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔(انوار حدیث، ص 294)

اللہ اکبر! دیکھا آپ نے حرام کھانے کی کیا سزا بیان ہوئی کتنی بڑی محرومی کی بات ہے ۔

حدیث ثانی: حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کہ کوئی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا وہ حلال ہے یا حرام ۔(انوار حدیث ،ص 294)

سبحان الله! دیکھا آپ نے چودہ سو سال پہلے ہی رسولُ الله (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے اس کی پیشن گوئی فرمادی تھی۔

حدیث ثالث: حضرت مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کسی شخص نے کبھی کوئی کھانا اس سے اچھا نہ کھایا کہ انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کمائے اللہ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السّلام) اپنے ہاتھوں کے عمل سے کھاتے ۔(مراةالمناجيج ، 4/252)

ہاتھوں سے مراد پوری ذات ہے چاہے ہاتھوں سے کمائے یا پاؤں یا آنکھ غرض یہ کہ اپنی قوت سے حلال روزی کمائے۔(مراةالمناجيح، 4/252)

حدیث رابع :حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا(پیدا) ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے(پیدا)ہو وہ آگ سے بہت قریب ہے۔ (مراةالمناجيح، 4/259)

گوشت سے مراد خود گوشت والا ہے اور اُگنے سے۔ مراد پرورش پایا یعنی جو شخص حرام کھا کر پلا وہ جنت میں بھلا کیسے جائے گا اُلخ۔(مراۃالمناجیح ، 4/ 260)

دیکھا آپ نے حرام کمانے اور کھانے کے متعلق کتنی سخت مذمتیں بیان ہوئیں ہیں اگر ہم کوئی آن لائن کاروبار یا کام یا کوئی بھی ملازمت کرتے ہو خود غور کریں کہ یہ کام جو کر رہا ہو حلال ہے یا حرام اگر نہیں معلوم ہوتا تو علما سے پوچھیں۔ اللہ پاک ہم سب کو حلال طریقہ سے کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاه النبی الكريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص رزقِ حلال و حرام میں تمیز کرنے کا حکم دیا ہے، رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز،روزہ و دیگر فرائض پر عمل پیرا ہونا۔مگر قابلِ تعجب یہ بات ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی کم ہی لوگ ہیں جو حلال و حرام کی تمیز کرتے ہیں، بلکہ اس حیرت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب مسلم سوسائٹی کے نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ چیز حرام کیوں ہے؟ اس کے استعمال میں حرج کیا ہے؟ حالانکہ یہ بات مسلمان کی شان سے بعید ہے کہ وہ اللہ پاک کے نازل کردہ قانون کو ماننے کے بعد ایسے سوالات اٹھائے۔!

اللہ پاک نے پارہ 2 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 168میں انسانیت کو یوں خطاب فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ 2، البقرة: 168)

اسی طرح اللہ پاک نے سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 172 میں خاص طور پر ایمان والو سے یوں خطاب فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ (پ،2 ، البقرۃ:172)

اور سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 88 میں بھی رب تعالیٰ نے ایمان والوں کو حلال و پاکیزہ رزق کھانے کی یوں تلقین کی چنانچہ اللہ پاک نے ایمان والوں سے فرمایا:﴿وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۸۸)﴾ترجمہ کنزالایمان: اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔

مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رزقِ حلال و طیب کھانے سے نیکیوں اور عمل صالح کی توفیق ملتی ہے، گویا کہ رزق حرام سے بچنے والے انسان کیلئے نیک اعمال کرنے آسان ہو جاتے ہیں،رزقِ حلال سے تقوی و طہارت کا حصول ہوتا ہے اور رزقِ حلال وہ عظیم دولت ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو جائے اُسے اور کچھ نہ ملے تو کوئی پرواہ نہیں، یعنی انسان رزقِ حلال کی برکت سے نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے اندر یہ چار باتیں ہوں تو دنیا تجھ سے فوت بھی ہو جائے تو تجھے کوئی نقصان نہیں، ایک امانت کی حفاظت، دوسری بات میں سچائی، تیسری اچھے اخلاق اور چوتھی کھانے میں پاکیزگی(یعنی رزقِ حلال)(مسند احمد 6652،  مستدرک ،349/4) اور دوسری روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے حلال مال کمایا، پھر اس کو اپنی ذات پر(خرچ کیا) یا دوسری اللہ پاک کی مخلوق کو کھلایا، یا ( اس مال میں سے) کپڑا پہنایا تو اُس کیلئے یہ چیز پاکیزگی و طہارت کا ذریعہ بنے گی۔(صحیح ابن حبان،10/48،مستدرک،4/144)

رزقِ حرام کمانے کی حرمت و نحوست : رزق حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے، چنانچہ قراٰنِ مجید میں سورہ نساء کی آیت نمبر29 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو ۔(پ5، النسآء:29)

اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 188 میں بھی اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔(پ2،البقرۃ:188)

اسی طرح اللہ پاک نے سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 267 میں خبیث اور مالِ حرام کے خرچ کرنے سے منع فرمایا کیونکہ مالِ حرام خبیث مال ہوتا ہے اور ناپاک ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪-وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۲۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے اور تمہیں ملے تو نہ لوگے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے۔(پ3،البقرۃ:267)

آئیے حرام مال کی مذمت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے(اپنی ضرورت میں) خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہیں ہو گی، اور اگر اس مال سے صدقہ دے گا تو (عنداللہ) قبول نہیں کیا جائے گا اور ترکہ میں اس  مال کو چھوڑ کر مرے گا تو وہ (مال) اس کیلئے جہنم کا توشہ  ہو گا۔(مسند احمد،3672)

اسی طرح ایک حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی، اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔(مسلم شریف 535)

ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ عالیشان ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس ہر اللہ پاک نے حرام کی ہے۔(مسند احمد،7482)

اللہ اکبر ! حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مٹی سے پیٹ بھر لینے کو رزقِ حرام سے پیٹ بھرنے پر ترجیح دے رہے ہیں ،معلوم ہوا کہ رزق حرام سے بچنا مسلمان کیلئے ضروری امر ہے۔

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہو گا جو حرام سے پلا ہو، اس کیلئے تو دوزخ ہی مناسب ہے۔(ترمذی شریف 614)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن بندے کے قدم ( اپنی جگہ سے) نہیں ہٹ سکتے، جب تک چار چیزوں کے متعلق پوچھ گچھ نہ ہو جائے(1) عمر کہاں گنوائی؟(2) جوانی کہاں برباد کی؟(3) مال کو کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟(4) جو علم سیکھا تھا اس پرکیا  عمل کیا؟ (شعب الایمان: 1785)

رزقِ حرام مقدار میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی با برکت نہیں ہوتا، بعض دفعہ اس مالِ حرام کی  وجہ سے اللہ پاک اس شخص کو ایسی بیماریوں  ،پریشانیوں یا ایسی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہی اللہ پاک کی نافرمانی (ظلم و زیادتی) سے کمایا ہوا مال تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے۔


اللہ پاک نے شریعتِ محمدیہ کو ایسا کامل و اکمل بنایا کہ ہر قسم کی عبادات (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور معاملات (معاشی ہوں یا معاشرتی سیاسی ہوں یا سماجی) کو نہایت احسن انداز سے بیان فرمایا۔ انہیں احکام میں سے کسبِ معاش کے احکام ہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور گھر والوں کو بندوں سے بے نیاز رکھنے کیلئے خوب محنت کرکے کماتا ہے۔ کوئی تجارت کرتا ہے تو کوئی کسی کے ہاں ملازمت اختیار کرتا ہے اگر کسب کرنے والوں کو حلال و حرام کے احکام معلوم ہوں گے تو حلال کمانے، خود کھانے اور اپنے بچوں کو کھلانے میں کامیاب ہو گا ورنہ اگر احکام معلوم نہ ہوں گے تو اس کے اپنے گمان کے مطابق تو اسکی کمائی حلال ہوگی لیکن درحقیقت وہ اپنے پیٹ کو حرام سے پر کر رہا ہوگا تو شارع علیہ السّلام نے جہاں کسبِ حلال کے فضائل و برکات کو بیان کیا وہیں کسبِ حرام کی وعیدات اور برائیوں کو بیان کیا ۔حرام کمانے اور کھانے کی وعیدات پر مشتمل احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں۔

(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ،2/33، حدیث:3672 )

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے ،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ پاک اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔(صراط الجنان،1/268 )

(3)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(4) تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث:6495)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 65(1015))

حرام کمانے اور کھانے کے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی، حرام کھانے والے کی دعا مقبول نہیں ہوتی، حرام کھانے والے کو سکون حاصل نہیں ہوتا، حرام کی کمائی کفایت نہیں کرتی وغیرھا۔ اللہ پاک ہمیں حرام کمانے اور کھانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم