قرآن کریم ہمیں بہت سے کاموں سے بچنے کا حکم فرماتا ہے۔ جن میں سے حرام مال کمانا اور کھانا بھی ہیں۔مالِ حرام میں کوئی پیسہ اپنے کھانے پینے، پہننے یا کسی اور کام میں لگانا حرام ہے۔ اور نہ ہی حرام کمایا ہوا مال کسی مسجد یا مدرسہ میں لگا سکتے ہیں۔کیونکہ وہ غصب،چوری،ڈاکہ،رشوت اور جوئے جیسے حرام کام کے زریعے سے کمایا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء آیت نمبر29میں رب کریم ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اب حرام مال کی مذمت کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو شخص حرام کی کمائی کھاتا ہے۔ وہ ایسے بیمار کی طرح ہے جس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ حرام کا مال بروزِ قیامت اُس کے خلاف گواہی دے گا۔ (بخاری، 2/266، حدیث: 2842)

2۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اُس نے جو حاصل کیا وہ حلال سے ہے یا حرام سے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

3۔ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص393، حدیث:2346)

4۔ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا ہو آگ اُس کے بہت قریب ہوگی۔ (شعب الایمان، 5/56، حدیث: 5759)

5۔ جس نے حرام کا مال جمع کیا (کمایا) پھر اسے صدقہ کر دیا تو اُس کو صدقہ کا کوئی اَجَر نہیں ملے گا بلکہ اُس پر اِس (حرام مال کمانے) کا وبال ہوگا۔ (صحیح ابن حبان، 5/151، حدیث: 3356)

لہذا معلوم ہوا کہ حرام مال سے کئے جانے والے نیک کام بھی قَبول نہیں کئے جاتے۔کیونکہ الله پاک ہے اور پاک مال ہی کو قبول فرماتا ہے۔ حرام مال کمانے، کھانے والوں کو چاہیے کہ آخرت کو یاد کرتے ہوئے اِن بُرے اَعمال سے دور رہیں، کیونکہ زیادہ عقلمند وہی ہے جو اپنے حصے کا رزق، حلال طریقے سے حاصل کرے۔

الله پاک سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو حلال مال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام مال جیسی نحوست سے بچائے۔ اَللّٰهُمَّ اكْفِنِىْ بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَاَغْنِنِىْ بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ آمین 


ہماری شریعت مطہرہ نے زندگی گزارنے کے لیےحلال ذریعے سے کمانے کادرس دیا ہے جبکہ اس کے برعکس صورت کی مذمت فرمائی ہے افسوس کہ ایک تعداد حرام کمانے کھانے کے فعل میں مبتلا نظر آتی ہے ان میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو علم دین سے دوری کے باعث احساس تک بھی نہیں ہوتا کہ یہ حرام ہے۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ (خازن، النساء، تحت الآیۃ: 29، 1 /370)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1۔ دوزخ کا زیادہ مستحق؟: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔ (ترمذی، 2/118، حدیث: 614)

2۔ الله پاک کی لعنت کا مستحق: ارشاد فرمایا: رشوت دینے والے اور لینے والے پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔ ‏(ابو داود، 3/420،حدیث:3580)

3۔ قبولیتِ دعا سے محرومی: فرمایا: حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص393، حدیث:2346)

4۔ صدقہ قبول نہیں: فرمایا: حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مسلم،ص115، حدیث: 224)

5۔ اونٹ کی طرح ہونٹ: ارشاد فرمایا: میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر ان کے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔ (تہذیب الآثار، 2/ 467، حدیث: 725)

اے عاشقان رسول! اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ہمیشہ ڈرتے رہیے اور جن امور سے منع کیا گیا ان سے اجتناب اور جن کا حکم ہے ان کی بجاآوری کیجیئے حرام مال کھانے والوں پر اللہ پاک جنت حرام فرمادیتا ہے چنانچہ آقا ﷺ نےارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/ 8، حدیث: 9257)

الله پاک ہم سب کا کھانا پینا اوڑھنا سب حلال رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


جہاں کسب حلال کے بے شمار فضائل ہیں وہاں رزق حرام کمانے اور کھانے پر بہت ہی سخت وعیدیں بھی ہیں۔ بد قسمتی سے آج کل کسبِ حلال نایاب ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی بلا ضرورت جھوٹ بول کر بلکہ معاذ اللہ جھوٹی قسمیں تک کھا کر اپنا مال فروخت کرتے ہیں۔ مال کا عیب اور نقص اگر ہے تو اسے بھی ظاہر نہیں کرتے۔ رشوت، سود،دھوکہ بازی،جس بھی گناہ کا سہارا لینا پڑ جائے ضرور لیتے ہیں اور کماتے ہیں۔ ذرا غور تو کریں! آپ اتنا ہی کھاتے ہیں جتنی آپ کے پیٹ میں گنجائش ہوتی ہے، اسی قدر پہنتے ہیں جس قدر آپ کی جسامت ہے۔باقی آپ کی کمائی آپ کے اہل و عیال کھاتے ہیں اور و بال آپ پر آئے گا۔ لہذا برائے مدینہ! اپنے جسم ناتواں پر رحم کیجیے۔ خدارا!اسے جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیے۔ جس نے پیدا کیا ہے وہی رزق عطا کرنے والا ہے اور جو کچھ مقدر میں ہے وہ مل کر ہی رہے گا۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کس طرح حاصل کرتے ہیں۔ حرام کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، آج کل ہر کوئی یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، میری پر یشانیاں دور نہیں ہوتیں، نہ جا نے کونسی خطا ہو گئی ہے جس کی مجھے سزا مل رہی ہے، یاد رکھیں، شیطان کایہ بھی کامیاب ترین وار ہے کہ انسان گناہ کرتا ہے پھر بھی اس کے ذہن میں بٹھا دیا ہے کہ تیری تو کوئی خطا ہی نہیں۔ حا لانکہ اس کا مال حرام کا، نماز کی توفیق نہیں، جھوٹ کی ہر وقت عادت، بد گمانی، وغیرہ۔ مومن کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ مال حلال ہی استعمال کرے اور مال حرام سے بچتا رہے۔ چنانچہ خدا وند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) (پ2،البقرۃ: 172) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ اب مال حرام کی مذمت احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حرام ہے یا حلال۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

2۔ بندہ جو حرام مال کمائے گا اگر اس کو صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہو گا اور اگر خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہو گی۔ اور اگر اس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ بنے گا۔ (شرح السنۃ للبغوی، 4/206، حدیث: 2023)

3۔ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام غذا سے بنا ہوگا اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/131، حدیث: 2772 )

4۔ تم لوگ سودا بیچنے میں بکثرت قسم کھانے سے بچتے رہو، کیونکہ قسم کھانے سے سودا تو بک جاتا ہے لیکن اس کی برکت برباد ہو جاتی ہے۔ (مسلم، ص 868، حدیث: 1607)

5۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: جو کسی کپڑے کو دس درہم میں خریدے اور اس میں ایک درہم بھی حرام کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس آدمی کے بدن پر رہے گا اللہ پاک اسکی کسی نماز کو قبول نہیں فرمائے گا یہ کہہ کر حضرت ابن عمر نے اپنی دونوں انگلیوں کو دونوں کانوں میں ڈال کر یہ فر مایا کہ اگر میں نے اس حدیث کو حضور ﷺ سے نہ سنا ہو تو میرے یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

لقمہ حرام کی نحوست: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں )موت آگئی تو داخلِ جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)

حرام ذریعوں سے کمائے ہوئے مالوں کو کھانا، پینا،پہننا یا کسی اور کام میں استعمال کرنا حرام وگناہ ہے اوراس کی سزا دنیا میں مال کی قلت و ذلت اور بے برکتی ہے اور آ خرت میں اس کی سزا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو حلال رزق کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔


مو جودہ دور میں حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا بہت عام ہو چکا ہے جبکہ حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے جس کا لینا حرام ہے اس کا دینا بھی حرام ہے قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ الله پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جس نے حرام مال کمایا اور صدقہ کر دیا تو قبول نہ ہو گا اور اگر اسے اپنے پیچھے چھوڑ گیا تو دوزخ کا سامان ہوگا۔ (کتاب الضعفاء للعقیلی، 2/599، رقم:751)

2۔️ ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس کے بہت قریب ہوگی۔ (شعب الایمان، 5/56، حدیث: 5759)

3۔️ جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب! اور اس کا کھانا پینا حرام ہو،اس کا لباس حرام ہو،اس کی غذا حرام ہو تو ا س کی دعا کہاں قبول ہو گی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)

4۔️ جس شخص نے دس درہم میں کپڑا خریدا اس کی قیمت میں ایک درہم حرام مال کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر ہو گا الله اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

5۔️ بیت المقدس پر الله کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا دیتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نہ نفل قبول ہیں نہ فرض۔ (الکبائر للذھبی، ص 137)

یاد رکھیے! رزقِ حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے تمام مسلمانوں پر حق ہے کہ وہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کریں۔ جس طرح حرام سے بچنا ضروری ہے اسی طرح شک و شبہ کی کمائی اور مشکوک مال سے بھی بچنا ضروری ہے چنانچہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اس حلال اور حرام میں بعض شبہ والی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے آیا وہ حلال ہیں یا حرام۔ لہٰذا جو شک و شبہ والی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین کو بچا لیا جو ان شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا تو اس کی مثال اس چرواہے جیسی جو شاہی چراگاہ کے پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔قریب ہے کوئی جانور اس میں گھس جائے، خبردار! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہے جس میں دوسروں کے جانوروں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے سن لو! الله کی چراگاہیں اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔

الله سے دعا ہے کہ ہمیں حرام کردہ چیزوں سے بچا کر حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


باطل طریقے سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی وکالت، خیانت اور غضب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنے مال کو باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نا فرمانی میں خرچ کرنابھی اسی میں داخل ہے۔ رشوت کا لین دین کرنا ،ملاوٹ والا مال فروخت کرنا،قرض دبا لینا ،ڈاکہ زنی اور ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی سب حرام میں شامل ہے۔ حرام کمانا اور کھانا اللہ کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیثِ مبارکہ میں بھی اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔

1۔ حدیث مبارکہ میں ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا،ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث:3672)

2۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ایک شخص جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یا رب پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام ،لباس حرام اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)

3۔ سرورِ کائنات ﷺ نے حرام مال کے متعلق فرمایا: اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 2/8، حدیث: 9257)

4۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو، اس زات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)

حلال کی کمائی انسان کھاتا ہے جبکہ حرام کمائی انسان کو کھا جاتی ہے، لقمہ حلال کی بہت برکت ہے حلال کھانے والے نفس کی شر انگیزی میں کمی آتی ہے اور دل میں روشنی پیدا ہوتی ہے دل نرم رہتا ہے اور غیرت والے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے اس کے برعکس اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جس کے پیٹ میں لقمۂ حرام ہو حرام کھانے کی وجہ سے اس کا دل بگڑ جاتا ہے جیسے کھال بگڑ جاتی ہے اور پھر اپنی حالت پر کبھی نہیں آتا، قرآن پاک میں ایمان والوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ منافقوں کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے جو ایسا کرے گا کہ دنیا میں مشغول ہو کر دین کو فراموش کر دے گا، مال کی محبت میں اپنے حال کی پرواہ نہ کرے گا، اور اولاد کی خوشی کے لئے آخرت سے غافل رہے گا تو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں کیونکہ انہوں نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے گھر کی باقی رہنے والی نعمتوں کی پروا نہ کی۔ جو شخص حرام کھاتا ہے وہ چاہے یا نہ چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو اس کے اعضاء گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حلال کھاتا ہے تو اس کے اعضاء فرمانبردار ہو جاتے ہیں اور اسے اعمالِ خیر کی توفیق دی جاتی ہے۔

مذکورہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال کھانے سے نیکی کی توفیق ملتی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور انسان جنت کا مستحق ہو جاتا ہے جبکہ حرام کھانے سے نیکی کی توفیق سلب ہو جاتی ہے، نیک اعمال قبول نہیں ہوتے اور دوزخ مقدر بن جاتی ہے اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں نصیحت کے مدنی پھول اور غوروفکر کرنے والوں کے لئے واضح حدایت موجود ہے اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور احادیثِ مبارکہ سے نصیحت حاصل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین


اکثر افراد کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ا س بات کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے مال کہاں کمایا ہے کن ذرائع سے حاصل کیا ہے بلکہ ان کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی سے نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیاجائے چاہے وہ مال چوری کا ہو یا رشوت کا ہو یا کسی کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہو یا سود سے حاصل ہو یا یتیم کا مال ہو یا زکوۃ کی رقم ہویا جھوٹ فریب اور دھوکے سے حاصل کیا گیا ہو وغیرہ۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء آیت نمبر 29 میں رب کریم فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔حلال کمانے اور حلال کھانے میں مسلمان کے لئے دنیا اور آخرت کی نجات ہے جبکہ حرام کا لقمہ دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ حرام روزی کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ پڑھئے اور عبرت حاصل کیجئے:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔️ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یارب! یا رب! کہتا ہے (یعنی دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو! (یعنی اگر قبول دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو)۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)

2۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، 5 / 34، حدیث: 6495)

3۔ جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا لیکن اس میں ایک درہم حرام کا تھا، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

لقمۂ حرام کی نحوست: مكاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی توداخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب،ص 10)

یہاں حرام خوری سے متعلق چند سزاؤں کا تذکرہ ہوا ورنہ اس سے متعلق بے شمار سزائیں ہیں، اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دی اور حرام کمائی سے منع کیا لہذا حلال طریقے سے ہی روزی کمائی جائے۔ سلف صالحین حرام کمائی بلکہ مشتبہ امور سے بھی بچتے تھے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے مگر آج کا زمانہ نبی ﷺ کے فرمان کا مصداق ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے جب لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کریں گے۔(بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

اللہ کریم ہم سب کو حلال کمانے اور حرام سے کامل طور پر بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین


اسلام میں تقوی کی بنیاد لقمہ حلال پر ہے اس لیے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اسکی بہت اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لقمہ حرام سے بچنے کا بھی سختی سے حکم ارشاد ہوا ہے اور اس کی بہت مذمت بیان فرمائی گئی ہے۔ ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) (پ 2، البقرۃ: 168) ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو! جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ شیطان کے راستوں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اسکا کھانا حرام، اسکا پینا حرام ہو پھر اسکی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، ص506، حدیث:1015)

2۔ تاجدارِ رسالت ﷺ نے حضرت سعد رضی الله عنہ سے فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث:6495)

3۔ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اسکو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے الله پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے بے شک خبیث جو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث: 3672)

4۔ لقمہ حرام کے وبال کے متعلق سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی ہو اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔ (ترمذی، 2/18، حدیث 614)

5۔ دنیا میٹھی اور سر سبز ہے جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو الله پاک اسے آخرت میں ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو الله پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر یعنی جہنم میں داخل کرے گا۔

الله پاک ہمیں بھی حرام کمانے اور کھانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


بے شک رزق حلال اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ہے اور اس کے برعکس حرام رزق کھانا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ نیز حرام کھانے سے قبولیت کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے بے شک بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام اور سود سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث:6495)

حرام کمانے اور کھانے کے بارے میں حدیث میں بہت سخت وعیدیں آئیں ہیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا لیکن نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/ 33، حدیث: 3672)

2۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یا رب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام پینا حرام لباس حرام اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)

ان احادیث سے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمت معلوم ہوتی ہے لیکن بہت سے لوگ حرام مال کھانے سے بچتے نہیں ہیں آج کل ہمارے معاشرے میں بھی یہ برائی عام ہوتی جا رہی ہے لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال بیچتے ہیں جبکہ اس سے مال تو بک جاتا ہےمگر برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، چوری کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا اور ڈاکہ زنی کرنا بھی حرام مال کمانے میں شامل ہے۔ آج کے دور میں تو یہ پرواہ تک نہیں کی جاتی کہ مال حرام ہے یا حلال بس مال جمع کرنے کی دھن سوار ہے۔ ہمارے سلف و صالحین ان باتوں کا خوب خیال رکھتے تھے، جیسا کہ ایک بار امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا آپ نے اسے پی لیا غلام نے عرض کی: میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ اس کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپ نے پوچھا یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا: میں نے ایک بیمار پر زمانہ جاہلیت میں منتر پھونکا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور وہ دودھ اگل دیا اس کے بعد نہایت عاجزی سے دربار الہی میں عرض کیا: یا اللہ! جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا اس دودھ کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔ (بخاری، 2 / 511، حدیث: 3842)

یا اللہ ہمیں حلال کمانے اور حلال کھانے کی توفیق عطا فرما حلال رزق میں برکتیں عطا فرما حرام کمانے اور حرام کھانے سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین! 


 حرام کی تعریف: حرام کا معنی حلافِ شرع، حلال کی ضد ہے، جبکہ شرعاً حرام وہ ہے جس کی ممانعت دلیل قطعی سے لزوماً ثابت ہو۔

حرام مال اسے کہتے ہیں جو حرام اور غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا جائے، آیات اور احادیث کی روشنی میں جوا، شراب، چوری وغیرہ سے کمایا ہوا پیسہ حرام مال کے حکم میں آتا ہے، حرام روزی کے بارے میں فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی پرواہ نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا حلال سے حرام سے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059) مشہور مفسر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: آخر زمانہ میں لوگ دین سے بے پرواہ ہو جائیں گے ہر حلال و حرام لینے پر دلیر ہو جائیں گے جیسا کہ آج کل عام ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/229) حرام کمانے اور کھانے سے دعا قبول نہیں ہوتی۔

2۔ حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مسلم، ص 115، حدیث: 224)

3۔ مزید فرمایا: حرام کھانے والے کی عبادت و نماز قبول نہیں ہوتی۔ (اتحاف السادة المتقین، 6/452)

4۔ حرام یا شراب سے نشونما پانے والا گوشت اور خون جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسند امام احمد، 5/64، رقم: 14448)

وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔ (ترمذی، 2/118، حدیث: 614)

5۔ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص 393، حدیث: 2346)

اے عاشقانِ رسول حلال کھانے ہی سے اعمال قبول ہوتے ہیں، بعض اہلِ علم کا قول ہے دنیا کی حلال چیزوں پر حساب ہے اور حرام پر عذاب ہے اور حرام ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج فقط یہی ہے کہ بندہ حرام کھانے سے اللہ کی بارگاہ میں پناہ چاہے کیونکہ حرام پر جب ڈٹے ہی رہنا ہو تو لمبی لمبی عبادتوں کا کیا فائدہ۔ جوحرام کھانے سے اجتناب نہ کرے تو طویل عرصہ بھوکا رہنے کے بعد تھوہڑ کا کڑوا اور گرم پھل کھائے گا تو یہ کیسا بہترین کھانا ہوگا تو اس کا ضرر کتنا شدید ہو گا کہ یہ دل کے ٹکڑے کر دے گا جگر کو چیر ڈالے گا بدن کو پھاڑ دے گا جینا مشکل کر دے گا۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 283)

حرام لقمے کی نحوست: آدمی کے پیٹ میں جب لقمے حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں موت آ گئی تو جہنم میں داخل ہو گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 10)

ایک لقمے کا اثر: حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک آیت مبارکہ پڑھا کرتا تو میرے لیے علم کے ستر دروازے کھول دیئے جاتے پھر جب میں نے امراء کا مال کھایا اور اس کے بعد جب میں نے وہ آیت پڑھی تو اس میں میرے لیے علم کا ایک دروازہ بھی نہ کھلا۔

حضرت عبد الرحمن بن علی جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حرام غذا ایک ایسی آگ ہے جو فکر کی چربی پگھلا دیتی ہے اور حلاوتِ ذکر کی لذت ختم کر دیتی ہے اور سچی نیتوں کے لباس جلا دیتی ہے اور حرام ہی سے بصیرت کا اندھا پن پیدا ہوتا ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 284)

حرام کمائی کی صورتیں: ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال کھانا جوئے، چوری، سود، رشوت میں سے کسی طریقے سے کمایا ہوا فلموں، ڈراموں کی اجرت غیر شرعی طور پر بھیک مانگ کر رقم لی ہو یہ سب ممنوع و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔

حرام کمائی کے نقصانات: حرام کھانے میں آخرت کی بربادی ہے، حرام کمائی سے حاصل ہونے والی چیزیں بے سکونی کا سبب بنتی ہیں، حرام کھانے سے حرص بڑھتی ہے عبادات قبول نہیں ہوتیں، حرام کھانے سے انسان کا دل سخت اور تاریک ہو جاتا ہے، حرام کھانے سے مال و دولت کی حرص اس قدر بڑھتی ہے کہ بعض اوقات بندہ قتل و غارت میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے آخر کار وہ انسان سخت ترین مصیبتوں پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے، سب سے بڑھ کر حرام کھانے والا عذاب نار کا حقدار ہے۔

اللہ پاک ہمیں حرام کھانے اور کمانے اور دیگر گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین 


حرام کمانے اور کھانے کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو:

اللہ پاک نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور انہیں بہت سی نعمتوں سے نوازا گیا۔انہیں نعمتوں میں ایک نعمت رزقِ حلال ہے۔ افسوس ہماری مسلمانوں کی اکثریت حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر ہی مال و دولت کمانے میں مصروف ہے جبکہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ (پ18،المؤمنون:51)

حرام مال کی تعریف جو مالِ حرام ذریعے سے حاصل کیا جائے وہ حرام مال ہے۔

(1) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس سے بہت قریب ہوگی۔ (شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان فصل في طیب مطعم والملبس 5/56، حدیث 5759)

( 2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ میں مٹی ڈال لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں ایسی چیز ڈالے جسے اللہ پاک نے حرام کر دیا ہے۔ (شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ،فصل فی طیب المطعم والملبس،5/ 57،حدیث: 5763)

(3)رسولُ اللہ نے فرمایا: بیت المقدس پر اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا دیتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نفل قبول ہیں نہ فرض ۔( الكبائر للذهبي، الكبيرة الثامنۃ والعشرون،ص134)

(4)رسولُ اللہ سے فرمایا: ہر وہ گوشت (جسم) جو حرام سے پروان چڑھے آگ اس کی زیادہ حقدار ہے۔ (سنن الترمذی ، کتاب السفر، باب ما ذکرنی سے فضل الصلاة ، 2/118، حدیث :614)

(5) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جس شخص نے دس درہم میں کپڑا خریدا اور اس اس کی قیمت میں ایک درہم حرام کا ہو تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر ہو گا اللہ پاک اس کی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ (المسند للامام احمد بن حنبل مسند عبد الله بن عمر)


بہت سے افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے مال کہاں سے کمایا، کن ذرائع سے کمایا بلکہ ان کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیا جائے چاہے وہ مال چوری کا ہو یا رشوت کا ہو یا کسی کا حق مار کر حاصل کیا ہو یا سود سے حاصل کیا ہو یا یتیم کا مال ہو یا جھوٹ دھوکے سے حاصل کیا ہو وغیرہ ۔ حالانکہ قراٰن مجید میں اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو ۔(پ5، النسآء:29)اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہو۔ جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا ، جھوٹی وکالت ، خیانت اور غصب کے ذریعے حاصل کرنا یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔

حرام کمانے اور کھانے کی مذمت پر احادیث ملاحظہ ہو:

(1) اعمال قبول نہ ہوں گے:تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا :اے سعد!اپنی غذا پاک کر لو مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے بندہ حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (المعجم الاوسط، حدیث 6495)

(2) جنت کا حرام ہونا :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الله پاک نے اس جسم پر جنت حرام فرمادی جو حرام غذا سے پلا بڑا ہو۔( کنز العمال، الجزء الرابع حدیث 9257 3)

(3)خاک کا حرام مال سے بہتر ہونا :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: منہ میں خاک ڈال لینا اس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص حرام مال اپنے منہ میں ڈال لے ۔(شعب الایمان، حدیث :5379)

(4) ناجائز مال کا گواہ بننا : رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص ناجائز راستوں سے مال جمع کرتا ہے تو وہ اس بیمار کی طرح ہے جو جتنا بھی کھا لے پیٹ نہیں بھرتا اور وہ ناجائز مال قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ بن کر آئے گا۔ (صحیح البخاری ، حدیث :2687)

(5) جہنم کا توشہ : حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو شخص حرام مال حاصل کرے گا اور اس کو اپنی ضرورت میں خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہیں ہوگی اور اگر اس مال کو صدقہ کرے گا تو قبول نہیں کیا جائے گا اور ترکہ میں اس مال کو چھوڑ کر مرے گا تو وہ مال اس کےلیے جہنم کا توشہ ہوگا۔ (مسند احمد ، حدیث :3672)


اللہ پاک کی رضا پانے حصولِ جنت اور دنیا آخرت کی سرخروئی و کامیابی کے لئے ہر طرح کے گناہ سے بچنا ضروری ہے۔ پھر بعض گنا ‏ہوں کا تعلق ظاہری اعضاء سے ہوتا ہے جیسے حرام کھانا اور حرام مال کمانا بھی ہے اس کی احادیث میں شدید مذمت بیان کی گئی ‏ہے۔ چنانچہ آپ بھی حرام کمانے اور کھانے کی مذمت پر 5 احادیث پڑھیے:

‏(1) دعا قبول نہ ہونا :جب حضور نبی رحمت ، شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دنیا پر مر مٹنے والے کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا : بعض اوقات ایسا ہوتا ہے ‏کہ بکھرے بال، گرد آلود چہرے اور سفر کی مشقت برداشت کرنے والا شخص اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے اور دعا کرتا ہے: اے میرے ‏رب! اے میرے رب ! اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی ؟ جبکہ اس کا کھانا حرام ، لباس حرام اور غذا حرام ہے۔

‏ (2) فرض اور نفل قبول نہ ہونا : بیت المقدس پر اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا دیتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نفل قبول ہیں نہ فرض ۔( الكبائر للذہبی، الكبيرة الثامنۃ والعشرون،ص134)

‏ (3) نماز قبول نہ ہونا :جس شخص نے دس درہم میں کپڑا خریدا اس کی قیمت میں ایک درہم حرام کا ہوں تو جب تک وہ کپڑا اس کے جسم پر ہوگا اللہ پاک اس کی نماز قبول نہیں ‏فرمائے گا۔

‏(4) جہنم میں پھینک دے گا: جس نے کسی گناہ کے ذریعے مال حاصل کیا پھر اس سے صلہ رحمی کی یا صدقہ کیا یا راہِ خدا میں خرچ کیا تو اللہ پاک اس تمام کو جمع کر کے جہنم میں پھینک دے ‏گا۔ ‏

(5) اللہ پاک راضی ہوگا : جس نے رزقِ حلال کی تلاش میں تھک کر شام کی وہ اس حال میں رات گزارے گا کہ بخش دیا گیا ہو گا اور صبح اس حال میں کر لے اللہ پاک اس راضی ہوگا۔