حرام کی تعریف: حرام کا معنی حلافِ شرع، حلال کی ضد ہے، جبکہ شرعاً حرام وہ ہے جس کی ممانعت دلیل قطعی سے لزوماً ثابت ہو۔

حرام مال اسے کہتے ہیں جو حرام اور غیر شرعی طریقے سے حاصل کیا جائے، آیات اور احادیث کی روشنی میں جوا، شراب، چوری وغیرہ سے کمایا ہوا پیسہ حرام مال کے حکم میں آتا ہے، حرام روزی کے بارے میں فرامینِ مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی پرواہ نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا حلال سے حرام سے۔ (بخاری، 2/7، حدیث: 2059) مشہور مفسر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: آخر زمانہ میں لوگ دین سے بے پرواہ ہو جائیں گے ہر حلال و حرام لینے پر دلیر ہو جائیں گے جیسا کہ آج کل عام ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/229) حرام کمانے اور کھانے سے دعا قبول نہیں ہوتی۔

2۔ حرام مال کا کوئی صدقہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مسلم، ص 115، حدیث: 224)

3۔ مزید فرمایا: حرام کھانے والے کی عبادت و نماز قبول نہیں ہوتی۔ (اتحاف السادة المتقین، 6/452)

4۔ حرام یا شراب سے نشونما پانے والا گوشت اور خون جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسند امام احمد، 5/64، رقم: 14448)

وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جس کی پرورش حرام مال سے ہوئی اور ایسا حرام گوشت دوزخ کا زیادہ مستحق ہے۔ (ترمذی، 2/118، حدیث: 614)

5۔ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم، ص 393، حدیث: 2346)

اے عاشقانِ رسول حلال کھانے ہی سے اعمال قبول ہوتے ہیں، بعض اہلِ علم کا قول ہے دنیا کی حلال چیزوں پر حساب ہے اور حرام پر عذاب ہے اور حرام ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج فقط یہی ہے کہ بندہ حرام کھانے سے اللہ کی بارگاہ میں پناہ چاہے کیونکہ حرام پر جب ڈٹے ہی رہنا ہو تو لمبی لمبی عبادتوں کا کیا فائدہ۔ جوحرام کھانے سے اجتناب نہ کرے تو طویل عرصہ بھوکا رہنے کے بعد تھوہڑ کا کڑوا اور گرم پھل کھائے گا تو یہ کیسا بہترین کھانا ہوگا تو اس کا ضرر کتنا شدید ہو گا کہ یہ دل کے ٹکڑے کر دے گا جگر کو چیر ڈالے گا بدن کو پھاڑ دے گا جینا مشکل کر دے گا۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 283)

حرام لقمے کی نحوست: آدمی کے پیٹ میں جب لقمے حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں موت آ گئی تو جہنم میں داخل ہو گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 10)

ایک لقمے کا اثر: حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک آیت مبارکہ پڑھا کرتا تو میرے لیے علم کے ستر دروازے کھول دیئے جاتے پھر جب میں نے امراء کا مال کھایا اور اس کے بعد جب میں نے وہ آیت پڑھی تو اس میں میرے لیے علم کا ایک دروازہ بھی نہ کھلا۔

حضرت عبد الرحمن بن علی جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حرام غذا ایک ایسی آگ ہے جو فکر کی چربی پگھلا دیتی ہے اور حلاوتِ ذکر کی لذت ختم کر دیتی ہے اور سچی نیتوں کے لباس جلا دیتی ہے اور حرام ہی سے بصیرت کا اندھا پن پیدا ہوتا ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 284)

حرام کمائی کی صورتیں: ناجائز طریقے سے دوسروں کا مال کھانا جوئے، چوری، سود، رشوت میں سے کسی طریقے سے کمایا ہوا فلموں، ڈراموں کی اجرت غیر شرعی طور پر بھیک مانگ کر رقم لی ہو یہ سب ممنوع و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔

حرام کمائی کے نقصانات: حرام کھانے میں آخرت کی بربادی ہے، حرام کمائی سے حاصل ہونے والی چیزیں بے سکونی کا سبب بنتی ہیں، حرام کھانے سے حرص بڑھتی ہے عبادات قبول نہیں ہوتیں، حرام کھانے سے انسان کا دل سخت اور تاریک ہو جاتا ہے، حرام کھانے سے مال و دولت کی حرص اس قدر بڑھتی ہے کہ بعض اوقات بندہ قتل و غارت میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے آخر کار وہ انسان سخت ترین مصیبتوں پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے، سب سے بڑھ کر حرام کھانے والا عذاب نار کا حقدار ہے۔

اللہ پاک ہمیں حرام کھانے اور کمانے اور دیگر گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین