حرام کمانے
کھانے کی مذمت از بنت ارشد محمود، جامعۃ المدینہ چباں فیصل آباد
بے شک رزق حلال اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے
ہے اور اس کے برعکس حرام رزق کھانا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ نیز حرام کھانے سے
قبولیت کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی
جان ہے بے شک بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول
نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام اور سود سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ
بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث:6495)
حرام کمانے اور کھانے کے بارے میں حدیث میں بہت سخت
وعیدیں آئیں ہیں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ
کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ
کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے اللہ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا لیکن نیکی
سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/ 33، حدیث: 3672)
2۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا
سفر کرتا ہے اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف
اٹھا کر یا رب! یا رب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام پینا حرام لباس حرام
اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)
ان احادیث سے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمت
معلوم ہوتی ہے لیکن بہت سے لوگ حرام مال کھانے سے بچتے نہیں ہیں آج کل ہمارے
معاشرے میں بھی یہ برائی عام ہوتی جا رہی ہے لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا مال
بیچتے ہیں جبکہ اس سے مال تو بک جاتا ہےمگر برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح رشوت کا
لین دین کرنا، چوری کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض
دبا لینا اور ڈاکہ زنی کرنا بھی حرام مال کمانے میں شامل ہے۔ آج کے دور میں تو یہ
پرواہ تک نہیں کی جاتی کہ مال حرام ہے یا حلال بس مال جمع کرنے کی دھن سوار ہے۔ ہمارے
سلف و صالحین ان باتوں کا خوب خیال رکھتے تھے، جیسا کہ ایک بار امیر المومنین حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا آپ نے اسے پی لیا غلام
نے عرض کی: میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ اس کے بارے میں دریافت فرماتے
تھے لیکن اس دودھ کے بارے میں کچھ دریافت نہیں فرمایا؟ یہ سن کر آپ نے پوچھا یہ
دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا: میں نے ایک بیمار پر زمانہ جاہلیت میں منتر
پھونکا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے یہ دودھ دیا ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
نے یہ سن کر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور وہ دودھ اگل دیا اس کے بعد نہایت عاجزی
سے دربار الہی میں عرض کیا: یا اللہ! جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا اس دودھ
کا تھوڑا بہت حصہ جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرما دے۔ (بخاری، 2 / 511، حدیث: 3842)
یا اللہ ہمیں حلال کمانے اور حلال کھانے کی توفیق
عطا فرما حلال رزق میں برکتیں عطا فرما حرام کمانے اور حرام کھانے سے بچنے کی
توفیق عطا فرما۔ آمین!