اللہ پاک نے تمام انسانوں کو رزقِ حلال و حرام میں فرق کرنے کا حکم دیا ہے، رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے مگر اسلامی معاشرے میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو حلال و حرام کی تمیز کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا : ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ (پ18،المؤمنون:51)

رزقِ حلال کھانے اور نیک اعمال کرنے کا حکم تمام رسولوں کو دیا گیا ۔ حکم ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ رزقِ حلال اور نیک اعمال کی عظمت و اہمیت اُجاگر ہو۔ جیسے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ حسنہ اور عبادت و ریاضت کے واقعات بیان کئے جائیں تو لوگوں کو بہت ترغیب ملتی ہے۔ اسی طرح رزقِ حلال کمانے اور کھانے کو بیان کرنے سے حرام سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے چنانچہ اسی آیت کے تحت نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا جو اپنے رسولوں کو حکم ارشاد فرمایا تھا ۔

حرام کمانا اور کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر کیا جائے گا ۔

(1) صدقہ مقبول نہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2 / 33، حدیث: 3672)

( 2)جنت حرام ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3) کوئی عمل قبول نہیں : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا: یارسولُ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے سعد! رضی اللہُ عنہ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)

(4) دعا قبول نہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

(5) جہنم کے قریب :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی طیب المطعم والملبس،5/ 56،حدیث:5759)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی ہی کمائے اور حلال روزی ہی کھائے۔ اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہم اپنے ذاتی معاملات میں تو بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں جب تک دل مطمئن نہ ہو جائے کوئی قدم نہیں اٹھاتے مگر افسوس جب بات آتی ہے حلال اور پاکیزہ روزی کمانے کی اور حرام سے بچنے کی تو اس قدر بے احتیاطیاں کی جاتی کے دل خون کے آنسو روتا ہے قراٰنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر حرام کھانے اور کمانے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ (پ18،المؤمنون:51)

اور فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ ۔ (پ،2 ، البقرۃ:172)

پھر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب اور اس کا کھانا پینا حرام ہو اس کا لباس حرام ہو اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی۔ (تفسیر صراط الجنان، سورہ مؤمنون : 51)

(1)حرام کھانے کمانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی: چنانچہ اعلیٰ حضرت کے والد گرامی حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کھانے پینے لباس و کسب میں حرام سے احتیاط کرے کہ حرام خور و حرام کار(یعنی حرام کھانے والے اور حرام کام کرنے والے) کی دعا اکثر رد ہوتی ہے۔(فضائل دعا، ص 60)

(2) منہ میں مٹی ڈال لے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ میں مٹی ڈال لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں ایسی چیز ڈالے جسے اللہ پاک نے حرام کر دیا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان سورہ مؤمنون : 51)

(3) چالیس دن تک عمل قبول نہیں ہوتا: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا یا رسولُ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا فرمائیے کہ اللہ پاک مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے سعد رضی اللہُ عنہ اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(تفسیر صراط الجنان سورہ بقرہ : 168)

(4) ذلت اور حقارت کا گھر کس کے لیے: حدیث پاک میں ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔(بنی اسرائیل 97) (تفسیر صراط الجنان سورہ بقرہ : 168)

(5) نہ کوئی فرض قبول ہو نہ نفل: حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہر دن اور رات میں بیت المقدس کی چھت پر اعلان کرتا ہے جس نے حرام کھایا تو اللہ پاک نہ تو اس کا کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ ہی کوئی نفل۔(اتحاف السادہ، 6/ 452)

ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے حلال روزی سے ہی کھائے اور حرام کھانے اور حرام کمانے سے بچے اللہ پاک ہمیں حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرام کھانے اور کمانے سے بچنے کا حکم دیا ہے احادیث طیبہ میں بھی حرام کھانے اور کمانے کے بارے میں کئی وعیدات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان پرواہ نہ کرے گا کہاں سے لیا حلال سے یا حرام سے۔

اس حدیث کی شرح میں ائمہ کرام، مفتیان کرام، لکھتے ہیں: یعنی آخر زمانہ میں لوگ دین سے بے پرواہ ہوجائیں گے،پیٹ کی فکر میں ہر طرح پھنس جائیں گے، آمدنی بڑھانے مال جمع کرنے کی فکر کریں گے، ہر حرام و حلال لینے پر دلیر ہوجائیں گے جیسا کہ آج کل عام حال ہے ۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ ایسا بے پرواہ آدمی کتے سے بدتر ہے کہ کتا سونگھ کر چیز منہ میں ڈالتا ہے مگر یہ بغیر تحقیق بلا سوچے سمجھے ہی چیز کھا لیتا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد: 4 حدیث: 2761)

روایت ہے حضرت ابوبکر سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جنت میں وہ جسم نہ جائے گا جو حرام سے غذا دیا گیا۔

اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام لکھتے ہیں: غذا سے کھانے پینے کی تمام چیزیں مراد ہیں اور جنت کے داخلے سے پہلا داخلہ یا وہاں کے اعلٰی مقام میں داخلہ مراد ہے ورنہ مسلمان خواہ کتنا ہی گنہگار ہو آخر کار جنت میں جائے گا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 4 حدیث: 2787)

روایت ہے حضرت جابر سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے لکھ سود کھانے والے کا ذکر پہلے فرمایا کہ یہی بڑا گنہگار ہے کہ سود لیتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے، دوسرے پر یعنی مقروض اور اس کی اولاد پر ظلم بھی کرتا ہے، اللہ کا بھی حق مارتا ہے اور بندوں کا بھی۔

یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں کہ سود خوار کے ممد و معاون ہیں، گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے رب تعالٰی نے صرف سود خوار کو اعلان جنگ دیا، معلوم ہوا کہ بڑا مجرم یہ ہی ہے۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 4 حدیث: 2807)


حرام کھانا اور کھلانا دونوں ہی اللہ پاک کو ناپسندیدہ ہے اسی ضمن میں ایک آیت مبارکہ پیش کی جاتی ہے اور چند احادیثِ مبارکہ بھی پیش کی جاتی ہیں ۔

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النسآء:29)

اب حرام کھانے کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں حرام کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، چنانچہ

(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2/ 33، حدیث: 3672)

اس حدیثِ مبارکہ میں حرام مال کو چھوڑ کر مرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہ سامانِ جہنم ہے ہمیں خوب غور کرنا چاہیے کہ ہم کہیں کسی کا ناحق مال دبانے تو نہیں بیٹھے! یا کسی شخص کو کسی بھی طرح سے حرام تو نہیں کھلا رہے!

(2)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3)تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5/ 34، حدیث: 6495)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس  کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

یہ تمام کی تمام احادیثِ مبارکہ ہمیں حرام کے مال سے بچنے کا درس دے رہی ہیں یہاں پر ہمیں غور فکر کرنا چاہئے آج کل ہمارے معاشرے میں بے روزگاری اتنی ہوتی جا رہی ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں، آج ہمارے معاشرے میں راہزنی اتنی عروج پر جا چکی ہے جس کا کوئی حساب نہیں اور یہ احادیث جو کہ حرام مال کی مذمت پر ہے ہمیں کیا کچھ نہیں بیان کر رہی ہیں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کسی مال تو نہیں دبایا ہوا، یا کسی کی کوئی چیز تو نہیں ضبط کی ہوئی! الامان الحفیظ

میرے پیارے اسلامی بھائیوں! دیکھا آپ نے کہ آیتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ میں کس طرح کی وعیدیں آئیں ہیں ہمیں اللہ پاک سے دعا گو ہونا چاہیے کہ اللہ پاک ہم سب کو حرام کھانے اور کھلانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علمائے کرام نے گناہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: (۱) ظاہری گناہ (۲) باطنی گناہ ۔

ظاہری گناہ وہ ہیں جو بندے کے ظاہری اعضاء سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ جیسے: چوری ، غیبت ، ظلم ، جھوٹ وغیرہ ۔ باطنی گناہ وہ ہیں جو بندے کے ظاہری اعضاء سے وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلّق باطن سے ہے ۔ جیسے: ریاکاری ، حسد ، طلبِ شہرت ، شماتت وغیرہ ۔

حرام کمانا اور کھانا بھی ایک نہایت ہی سخت کبیرہ گناہ ہے ۔حرام ذریعے سے کمانے اور کھانے میں بہت سے ظاہری گناہ شامل ہیں ۔ جیسے: ظلم ، چوری ، غصب ، سود وغیرہ ۔ حرام ذریعے سے کمانے اور کھانے کے متعلق احادیث میں بڑی مذمّت بیان ہوئی ہے ۔ عموماً "ظلم" ، "سود" اور "جھوٹ" کے ذریعے ہمارے معاشرے میں حرام مال کمایا اور کھایا جارہا ہے لہٰذا ہم اِن ( ظلم ، سود اور جھوٹ) کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت بیان کرتے ہیں:

ظلم کے ذریعے حرام کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں دو احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ظلم قیامت کے دن تاریکیاں ہے۔ یعنی ظلم کرنے والا قیامت کے دن سخت مصیبت و تاریکیوں میں گھرا ہوگا ۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے بچ کہ وہ اللہ پاک سے اپنا حق مانگے گا اور کسی حق والے کے حق سے اللہ پاک منع نہیں کرے گا۔

سود: سود کے ذریعے حرام کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں چار احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے ، وہ چھتیس (36)مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا گناہ ستّر (70) حصّہ ہے ، اُن میں سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے بیتُ المقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے ، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے ، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ، یہ کون شخص ہے؟ کہا ، یہ شخص جو نہر میں ہے ، سود خوار ہے۔

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔

جھوٹ کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں دو احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا، کیا مؤمن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کی گئی، کیا مؤمن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا، کیا مؤمن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ۔ یعنی یہ دونوں چیزیں ایمان کے خلاف ہیں ، مؤمن کو ان سے دور رہنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ بھی ظلم اور سود کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں کئی احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ نیز ظلم ، سود اور جھوٹ کے علاوہ کے ذریعے بھی حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔

دعا ہے رب العزت سے ہمیں اور آپ کو ظلم ، سود اور اس کے علاوہ کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے متعلق معلومات حاصل کرنے اور ان سے بچ کر اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰن و حدیث کا ایک حصہ امرونواہی(کونسے کام کرنے ہیں اور کونسے کاموں سے بچنا ہے) پر مشتمل ہے انہی میں سے حرام مال کمانے اور کھانے سے بھی نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ کئی احادیث میں اس کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ

(1)روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے اس سے آگ بہت قریب ہے ۔ (مرآۃالمناجیح جلد4 ،حدیث : 2772 )

(2) ابو ہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے اسی حدیث میں آگے موجود ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو پرا گندہ، گرد آلود ،بال لمبے لمبے سفر کرتا ہے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہتا ہے اے رب! اے رب! اور اس کا کھانا حرام اور پینا حرام ،لباس حرام اور حرام کی ہی غذا پاتا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی ؟ (مرآت المناجیح جلد 4 )

(3) ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک حرام کے مال سے کوئی صدقہ قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی بغیر وضو کے کوئی نماز۔ (سنن نسائی ،حدیث : 139)

(4) إنَّ العبدَ لَيَقذِفُ اللُّقمةَ الحرامَ في جَوفِهِ ما يُتقبَّلُ منه عملٌ أربعينَ يومًا، ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ پاک اُس کا عمل قبول نہیں کرتا ۔(الموسوعۃ حدیثیہ بحوالہ المعجم الاوسط ،حدیث : 6495)

(5) يَأْتي علَى النَّاسِ زَمانٌ لا يُبالِي المَرْءُ ما أخَذَ منه؛ أمِنَ الحَلالِ أمْ مِنَ الحَرامِ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:  لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو اس کی پروا نہیں ہو گی، کہ روزی حلال طریقے سے کمائی ہے یا حرام سے۔(بخاری شریف ،حدیث : 2059)

خلاصہ : حرام و باطل مال کی کئی صورتیں ہیں : جس طریقہ سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے وہ سب باطل و ناجائز طریقہ ہے جیسے سود، چوری، اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبالینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پر چیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اسی میں شامل ہے۔ (اے ایمان والو، ص 181 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو حلال رزق کھانے اور حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


غذا انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہے۔ بنی نوع انسانی کی ابتدا ہی سے اس کا تعلق انسان کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ اس کا تعلق صرف انسان کے ظاہری جسم ہی کے ساتھ نہیں بلکہ جسم روحانی کے ساتھ بھی ہے کہ جس طرح اچھی غذا کے استعمال سے انسان تندرست رہتا ہے اسی طرح اچھی غذا کا استعمال انسان کی روح کو بھی تازگی دیتا ہے اور بری غذا کا استعمال اس میں فتور پیدا کر دیتا ہے، دل سخت کر دیتا ہے، جس کے سبب عبادات میں، ریاضات میں دل مطمئن نہیں ہوتا اور عبادت کی لذت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس جسم کے لیے کون سی غذا اچھی ہے اور کون سی نہیں یقیناً اس کا علم اس جسم کے خالق و مالک حکمتوں والے خدا رحمن ہی کے پاس ہے اور اس نے اسے حلال اور حرام کے نام سے واضح فرما دیا ہے۔

جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے: ﴿وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔(پ9،الاعراف 157)

اور حضور نبی اکرم رسول محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إِنَّهُ لَا يَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ یعنی جس گوشت نے حرام سے نشوونما پائی اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (ترمذی، 2/614)

حرام اور مشتبہ غذا کھانے والا بارگاہ الہی سے دھتکار دیا جاتا ہے اور اسے عبادت کی توفیق نہیں دی جاتی اور اگر اتفاقا کوئی نیک عمل کر بھی لے تو وہ قبول نہیں کیا جاتا چنانچہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس شخص کے پیٹ میں حرام ہو اللہ پاک اس کی نماز قبول نہیں فرماتا۔

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہوگا اور اگر اس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/3744)

ہمارے بزرگان دین حرام تو حرام جس چیز میں حرام ہونے کا شبہ ہو اس سے بھی کوسوں دور رہا کرتے تھے۔مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام نے آپ کو دودھ پیش کیا تو آپ نے نوش فرما لیا غلام نے عرض کی: میں نے جب بھی کوئی چیز آپ کو دی آپ نے اس کے بارے میں پوچھا، مگر اس دودھ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بتاؤ یہ کہاں سے آیا ہے؟ غلام نے عرض کی: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص پر منتر پھونکا تھا، اس نے آج اس کے بدلے میں یہ دیا۔ یہ سنتے ہی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قے کر دی اور بارگاہ الہی میں عرض کی: الہی! جو میری طاقت میں تھا میں نے کردیا، جو رگوں میں رہ گیا اسے تو معاف فرما دے۔

اللہ پاک ہمیں بھی حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے نقصانات سے بھی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رزقِ حلال اللہ پاک کی عظیم نعمت اور سبب برکت ہے۔ جبکہ حرام کھانا عذاب الہی کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند کرنا ہے ۔ قراٰنِ کریم میں حلال کھانے کے ساتھ ساتھ حرام سے بچنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جسے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ 2، البقرة: 168)

تقویٰ ولایت اور مقام صدیقیت کی بنیاد : اس کی بنیاد ہی لقمہ حلال ہے ۔ اسی لیے سلف صالحین اور اولیا و مقربین رزقِ حلال کے معاملے میں نہایت احتیاط فرماتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں ایک بار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے پی لیا۔ غلام نے عرض کی، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ رضی اللہ عنہ اس کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اس دودھ کے بارے میں آپ نے مجھ سے دریافت نہ فرمایا ؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکھا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے دودھ دیا ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل دیا۔ اس کے بعد نہایت عاجزی سے دربار الہی میں عرض کیا: یا اللہ پاک جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا اس دودھ کا تھوڑا جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرمادے ۔

آئیے اب حدیث پاک کی روشنی میں حرام کمانے اور کھانے کے متعلق پڑھئے۔

(1)حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔

(2) حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کر دے گا۔

(3) حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :الله پاک اس کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام لقمہ ہو۔

(4) جب حضور علیہ السّلام نے دنیا پر مر مٹنے کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بکھرے بال گرد آلود چہرے اور سفر کی مشقت برداشت کرنے والا شخص اپنے ہاتھ اُٹھاتا ہے اور دعا کرتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی جبکہ اس کا کھانا، حرام لباس حرام اور غذا حرام ہے۔

(5) بیت المقدس پر اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا کرتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نفل قبول ہیں نہ فرض ۔

اس کا علاج : حرام مال کھانے اور کمانے پر جو وعیدیں ہیں ان پر غور کریں یہ بات آپ کو حرام مال کمانے اور کھانے سے روکنے میں مدد دے گی۔

اللہ پاک ہمیں حرام مال کھانے اور کمانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے۔(پ12،ھود:6)

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں اس سے یہ مراد ہے کہ جانداروں کو رزق دینا اور ان کی کفالت کرنا اللہ پاک نے اپنے ذمۂ کرم پر لازم فرما لیا ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: 6 ، 3 / 900، 901)

محترم ساتھیوں جب رزق کا ذمہ رب نے خود لیا ہے تو بندے کو چاہیے کہ وہ رزقِ حلال ہی کمائے لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں مال کمانے کی دھن نے نا جانے کتنے ہی لوگوں کو حرام کمانے اور کھانے پر لگا دیا ہے۔(والعیاذ باللہ)

آئیے اس موضوع پر احادیث پاک سے رہنمائی لیتے ہیں:

حرام غذا پر پلنے والا جنت میں نہیں جائے گا: روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے اس سے آگ بہت قریب ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 ،حدیث:2772)

حرام کمانے والے کا صدقہ قبول نہیں: امام احمد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو محو فرماتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (’’ المسند ‘‘ للإمام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن مسعود،2/33،حدیث: 3672)

آدمی حلال و حرام میں تمیز کرنا بھول جائے گا: صحیح بخاری شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے، حلال سے یا حرام سے۔ (’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب البیوع،باب من لم یبال من حیث کسب المال،2/7،حدیث: 2059)

حرام کے لقمے سے مٹی اچھی ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس پر اللہ پاک نے حرام کی ہے۔(مسند احمد،7482)

اپنے ہاتھ سے کمانا بہتر ہے:ص حیح بخاری شریف میں مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا ہے اور بے شک اللہ کے نبی داؤد علیہ الصلاۃ والسلام اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔(’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب البیوع،باب کسب الرجل ۔۔۔ إلخ،2/11،حدیث: 2076)

محترم قارئین کرام! حرام کی مذمت پر آپ نے احادیث طیبہ ملاحظہ فرمائیں اور ان کے علاوہ بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں تا دم حیات حلال رزق کمانے اور حرام سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


معزز قارئینِ کرام ! مالِ حرام آفت ہے اور آہ! اب وہ دور آچکا ہے کہ معاشرے سے حلال و حرام کی تَمیز ختم ہو گئی ہے، انسان مال کی محبت میں اندھا ہوچکا ہے، اسے بس مال چاہئے۔ چاہے جیسے آئے۔ یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں، بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے، مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ نہ قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذابِ جہنم کا سبب بنتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مالِ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ جب لقمۂ حرام پیٹ میں پہنچتا ہے تو اس سے بننے والا خون انسان کو مزید برائیوں پر ابھارتا ہے ۔یوں وہ برائیوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مال حلال میں برکت ہی برکت ہے اور نہ صرف اخروی فوائد بلکہ بہت سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور طلبِ حلال مسلمان پر فرض ہے جیسا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حلال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فر ض ہے۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط بلفظ طلب الحلال واجب ،6/231،حدیث:8610) لہذا ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ مال حلال ہی استعمال کرے اور مالِ حرام سے بچتا رہے۔نیز حرام کی کمائی سے کوسوں دُور رہنے میں ہی بھلائی ہے کیونکہ اس میں ہرگز ہرگز ہرگز برکت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ایسا مال اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ فائدہ دے بھی دے مگر آخرت میں وبالِ جان بن جائے گا ۔لہٰذا اس کی حِرْص سے بچنا لازِم ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کریگا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حرام ہے یا حلال۔ (صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب من لم یبال من حیث...الخ،2/7،حدیث:2059) ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں نہ صرف حرام کمانے سے بچنا چاہئے بلکہ حرام کھانے سے بھی بچنا چاہئے ، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔

آیت قراٰنی: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النسآء:29)

مالِ حرام کمانے اور کھانے کے متعلق بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں مذمت اور اس کا وبال بیان کیا گیا ہے۔ آئیے مالِ حرام کمانے اور کھانے کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں تا کہ ہم اس فعلِ حرام کے ارتکاب سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں ۔

(1)لقمۂ حرام قبولیتِ دُعا میں رکاوٹ: لقمۂ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ یہ دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے جیسا کہ حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کيا جو طويل سفر کرتا ہے، جس کے بال پریشان اور بدن غبار آلود ہے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر يا ربّ! يا ربّ! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام ہو، پینا حرام ، لباس حرام، اور غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسندامام احمد ، مسند ابی ھریرہ ،3 /220،حدیث:8356)

(2)چالیس دن تک قبولیت سے محروم: ایک مرتبہ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا وجہ ہے کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن قبول نہیں ہوتی ؟ سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے سعد ! حرام سے بچو! کیونکہ جس کے پیٹ میں حرام کا لقمہ پڑ گیا وہ چالیس دن تک قبولیت سے محروم ہو گیا۔(تنبیہ الغافلین،باب الدعا،ص217)

(3)جنت میں داخل نہیں ہوگا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام غذا سے بنا ہو گا۔ اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب البیوع، باب الکسب وطلب الحلال،الفصل الثانی، 2/131،حدیث:2772)

(4) آگ کا توشہ: حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بندہ مالِ حرام میں سے جو بھی کمائے اور اسے خیرات کرے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اسے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اسے اپنے بعد والوں کے لئے چھوڑے تو وہ اس کے لئے آگ کا توشہ ہوگا۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ،مسند عبداللہ بن مسعود،2/33،حدیث: 3672،بتغیرٍقلیل)

(5)حرام کے ایک درہم کا اثر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جس نے 10 درہم کا کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک وہ لباس اس کے بدن پر رہے گا اللہ پاک اس کی کوئی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر ارشاد فرمایا: اگر میں نے یہ بات تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نہ سنی ہو تو میرے کان بہرے ہو جائیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل،2/416،حدیث: 5736)

(6)تنگ دستی کی وجہ سے بھی حرام نہ کمائیے: حضرت سیِّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے : اے لوگو! تم میں سے ہرگز کوئی موت کا شکار نہ ہو گا جب تک کہ وہ اپنا مکمل رزق نہ پا لے لہٰذا تم رزق کے متعلق تنگ دل نہ ہو اور اللہ پاک سے ڈرو اور عمدہ طریقے سے رزق طلب کرو، اور اللہ پاک کی حلال کردہ چیزیں لے لو اور حرام کردہ چھوڑ دو۔(المستدرک،کتاب الرقاق، باب الحسب المال والکرم التقوی،5/464، حدیث:7994)

(7)مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ مقبول نہیں:امام احمد عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو محو فرماتا ہے(مٹاتا ہے)بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(المسند للإمام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن مسعود،2/33،حدیث:3672)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! احادیث کریمہ میں اس کے علاوہ بھی کئی نقصانات اور وبال بیان کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا حلال کمانے اور حلال کھانے میں ہے اور کسبِ حرام اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا سبب ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں طلب و کسب حرام سے بچنے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مدنی مشورہ:حلال و حرام کے متعلق مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالہ " حلال طریقے سے کمانے کے50 مدنی پھول" اور "سود اور اس کا علاج" کا مطالعہ مفید ہے۔


حرام مال کی تعریف: جو مالِ حرام کے ذریعے سے حاصل کیا جائے وہ حرام مال ہے۔

حرام مال کی مثالیں : غصب، چوری، ڈاکہ، رشوت، اور جوئے کے ذریعے سے حاصل کیا ہوا مال، سود ، بھتہ خوری اور ہراساں (خوفزدہ) کرکے وصول کیا ہوا مال، ناچ گانا ، زنا اور شراب کی کمائی ،داڑھی منڈانا وغیرہ حرام کاموں کی اجرت وغیرہ ۔

حرام مال کے متعلق مختلف احکام : (1) حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے (2) جس کا لینا حرام دینا بھی حرام ہے۔ (مثلاً سود لینا اور دینا دونوں حرام ہے، رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے) (3) مالِ حرام میں سے کوئی پیسہ اپنے کھانے، پہننے یا کسی اور مصرف (کام) میں لگانا حرام ہے۔( ظاہری گناہوں کی معلومات،ص 99)

حرام مال کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: علمِ دین کی کمی ( کہ خرید و فروخت کے شرعی احکام نہ جاننے کے سبب ایک تعداد ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی حرام میں جا پڑتی ہے) ، مال و دولت کی حرص،راتوں رات امیر بننے کی خواہش ، مفت خوری کی عادت اور کام کاج سے دور بھاگنا ، بری صحبت (جیسے جوا کھیلنے والوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے والا خود بھی جوا کھیلنے میں مبتلا ہو جاتا ہے)۔

حرام کے ذریعے مال کمانے کی مذمت: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہوگا اور اگر اُس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کیلئے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/ 505 ، حدیث : 3744)

حرام کھانے کی مذمت: رسولِ انور صاحب کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: عذاب کے مستحق لوگوں کے گھروں پر ہر دن اور ہر رات ایک فرشتہ ندا دیتا ہے:جس نے حرام کھا یا اس کا نہ کوئی نفل قبول ہے نہ فرض۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے حرام کمانا اور کھانا کس قدر اللہ اور اس کے محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں حرام کمانے اور کھانے کی کس قدر مذمت بیان کی گئی۔ تو میرے پیارے اسلامی بھائیو! ہر گز حرام سے بچئے اس سے بچے رہنے کیلئے ہردم دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہئے، خوف خدا رکھئے۔ اور قبر و آخرت کو یاد کرتے رہئے انشاء الله حرام کمانے اور کھانے سے بچنے میں آسانی ہوگی۔ اللہ کریم ہمیں حرام کمانے اور کھانے ان دونوں مہلکات سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہمارے دینِ اسلام میں جہاں کسبِ حلال کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں حرام کمانے اور کھانے کی مذمت بھی بیان کی گئی، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)

اس سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وَکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے، یوں ہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ اور نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکا زنی، بھتا خوری اور پر چیاں بھیج کر ہراساں کرکے مال وصول کرنا بھی اسی میں شامل ہے۔(دیکھئے: صراط الجنان، 2/182)

حرام کمانا اور کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت نا پسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں اسی ضمن میں 4 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:

(1)حرام مال کا صدقہ قبول نہیں: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کیلئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ (مسند احمد، 2/33، حديث:3672)

(2)چالیس دن کے عمل قبول نہیں:اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)

(3)جنت میں داخلے سے محرومی: جس جسم نے حرام سے پرورش پائی وہ جنت ميں داخل نہ ہو گا(یعنی ابتداءً داخل نہ ہوگا)۔(مسندابی یعلیٰ، 5/57، حدیث:79)

(4)حرام کھانے پینے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے، جس کے بال بکھرے ہوئے اور بدن غبار آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے وہ قبول ہو)اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔(مسلم، ص393، حدیث:2346)

اللہ پاک ہمیں حرام کما نے،کھانے اور پہننے سے بچائے اور رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم