حمزہ رضا انصاری (درجہ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی، پاکستان)
﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ
رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ
مُّبِیْنٍ(۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں
جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد
ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے۔(پ12،ھود:6)
علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں اس سے یہ مراد
ہے کہ جانداروں کو رزق دینا اور ان کی کفالت کرنا اللہ پاک نے اپنے ذمۂ کرم پر
لازم فرما لیا ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: 6 ، 3 / 900، 901)
محترم ساتھیوں جب
رزق کا ذمہ رب نے خود لیا ہے تو بندے کو چاہیے کہ وہ رزقِ حلال ہی کمائے لیکن
افسوس کہ ہمارے معاشرے میں مال کمانے کی دھن نے نا جانے کتنے ہی لوگوں کو حرام
کمانے اور کھانے پر لگا دیا ہے۔(والعیاذ باللہ)
آئیے اس موضوع پر احادیث پاک سے رہنمائی لیتے ہیں:
حرام غذا پر پلنے والا جنت میں نہیں جائے گا: روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا ہو
اور جو گوشت حرام سے اُگے اس سے آگ بہت قریب ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح جلد:4 ،حدیث:2772)
حرام کمانے والے کا صدقہ قبول نہیں: امام احمد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی، رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے،
اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور
اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور
حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے
برائی کو محو فرماتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (’’ المسند ‘‘ للإمام احمد
بن حنبل،مسند عبد اللہ بن مسعود،2/33،حدیث: 3672)
آدمی حلال و حرام میں تمیز کرنا بھول جائے گا: صحیح بخاری
شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پرواہ بھی نہ
کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے، حلال سے یا حرام سے۔ (’’ صحیح البخاري
‘‘ ،کتاب البیوع،باب من لم یبال من حیث کسب المال،2/7،حدیث: 2059)
حرام کے لقمے سے مٹی اچھی ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس
سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس پر اللہ پاک نے حرام کی
ہے۔(مسند احمد،7482)
اپنے
ہاتھ سے کمانا بہتر ہے:ص حیح بخاری شریف میں مقدام
بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے
حاصل کیا ہے اور بے شک اللہ کے نبی داؤد علیہ الصلاۃ والسلام اپنی دستکاری سے
کھاتے تھے۔(’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب البیوع،باب کسب الرجل ۔۔۔ إلخ،2/11،حدیث: 2076)
محترم قارئین کرام! حرام کی مذمت پر آپ نے احادیث طیبہ
ملاحظہ فرمائیں اور ان کے علاوہ بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کریم سے دعا
ہے کہ ہمیں تا دم حیات حلال رزق کمانے اور حرام سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم