قراٰن و حدیث کا ایک حصہ امرونواہی(کونسے کام کرنے ہیں اور کونسے کاموں سے بچنا ہے) پر مشتمل ہے انہی میں سے حرام مال کمانے اور کھانے سے بھی نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ کئی احادیث میں اس کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ

(1)روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے اس سے آگ بہت قریب ہے ۔ (مرآۃالمناجیح جلد4 ،حدیث : 2772 )

(2) ابو ہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے اسی حدیث میں آگے موجود ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو پرا گندہ، گرد آلود ،بال لمبے لمبے سفر کرتا ہے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہتا ہے اے رب! اے رب! اور اس کا کھانا حرام اور پینا حرام ،لباس حرام اور حرام کی ہی غذا پاتا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی ؟ (مرآت المناجیح جلد 4 )

(3) ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک حرام کے مال سے کوئی صدقہ قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی بغیر وضو کے کوئی نماز۔ (سنن نسائی ،حدیث : 139)

(4) إنَّ العبدَ لَيَقذِفُ اللُّقمةَ الحرامَ في جَوفِهِ ما يُتقبَّلُ منه عملٌ أربعينَ يومًا، ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ پاک اُس کا عمل قبول نہیں کرتا ۔(الموسوعۃ حدیثیہ بحوالہ المعجم الاوسط ،حدیث : 6495)

(5) يَأْتي علَى النَّاسِ زَمانٌ لا يُبالِي المَرْءُ ما أخَذَ منه؛ أمِنَ الحَلالِ أمْ مِنَ الحَرامِ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:  لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو اس کی پروا نہیں ہو گی، کہ روزی حلال طریقے سے کمائی ہے یا حرام سے۔(بخاری شریف ،حدیث : 2059)

خلاصہ : حرام و باطل مال کی کئی صورتیں ہیں : جس طریقہ سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے وہ سب باطل و ناجائز طریقہ ہے جیسے سود، چوری، اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبالینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پر چیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اسی میں شامل ہے۔ (اے ایمان والو، ص 181 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو حلال رزق کھانے اور حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم