اللہ پاک نے تمام انسانوں کو رزقِ حلال و حرام میں فرق کرنے کا حکم دیا ہے، رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے مگر اسلامی معاشرے میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو حلال و حرام کی تمیز کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا : ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ (پ18،المؤمنون:51)

رزقِ حلال کھانے اور نیک اعمال کرنے کا حکم تمام رسولوں کو دیا گیا ۔ حکم ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ رزقِ حلال اور نیک اعمال کی عظمت و اہمیت اُجاگر ہو۔ جیسے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ حسنہ اور عبادت و ریاضت کے واقعات بیان کئے جائیں تو لوگوں کو بہت ترغیب ملتی ہے۔ اسی طرح رزقِ حلال کمانے اور کھانے کو بیان کرنے سے حرام سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے چنانچہ اسی آیت کے تحت نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا جو اپنے رسولوں کو حکم ارشاد فرمایا تھا ۔

حرام کمانا اور کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر کیا جائے گا ۔

(1) صدقہ مقبول نہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2 / 33، حدیث: 3672)

( 2)جنت حرام ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3) کوئی عمل قبول نہیں : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا: یارسولُ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے سعد! رضی اللہُ عنہ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)

(4) دعا قبول نہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

(5) جہنم کے قریب :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی طیب المطعم والملبس،5/ 56،حدیث:5759)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی ہی کمائے اور حلال روزی ہی کھائے۔ اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم