علمائے کرام نے گناہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: (۱) ظاہری گناہ (۲) باطنی گناہ ۔

ظاہری گناہ وہ ہیں جو بندے کے ظاہری اعضاء سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ جیسے: چوری ، غیبت ، ظلم ، جھوٹ وغیرہ ۔ باطنی گناہ وہ ہیں جو بندے کے ظاہری اعضاء سے وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلّق باطن سے ہے ۔ جیسے: ریاکاری ، حسد ، طلبِ شہرت ، شماتت وغیرہ ۔

حرام کمانا اور کھانا بھی ایک نہایت ہی سخت کبیرہ گناہ ہے ۔حرام ذریعے سے کمانے اور کھانے میں بہت سے ظاہری گناہ شامل ہیں ۔ جیسے: ظلم ، چوری ، غصب ، سود وغیرہ ۔ حرام ذریعے سے کمانے اور کھانے کے متعلق احادیث میں بڑی مذمّت بیان ہوئی ہے ۔ عموماً "ظلم" ، "سود" اور "جھوٹ" کے ذریعے ہمارے معاشرے میں حرام مال کمایا اور کھایا جارہا ہے لہٰذا ہم اِن ( ظلم ، سود اور جھوٹ) کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت بیان کرتے ہیں:

ظلم کے ذریعے حرام کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں دو احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ظلم قیامت کے دن تاریکیاں ہے۔ یعنی ظلم کرنے والا قیامت کے دن سخت مصیبت و تاریکیوں میں گھرا ہوگا ۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے بچ کہ وہ اللہ پاک سے اپنا حق مانگے گا اور کسی حق والے کے حق سے اللہ پاک منع نہیں کرے گا۔

سود: سود کے ذریعے حرام کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں چار احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے ، وہ چھتیس (36)مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا گناہ ستّر (70) حصّہ ہے ، اُن میں سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے بیتُ المقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے ، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے ، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ، یہ کون شخص ہے؟ کہا ، یہ شخص جو نہر میں ہے ، سود خوار ہے۔

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔

جھوٹ کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں دو احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا، کیا مؤمن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کی گئی، کیا مؤمن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا، کیا مؤمن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ۔ یعنی یہ دونوں چیزیں ایمان کے خلاف ہیں ، مؤمن کو ان سے دور رہنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ بھی ظلم اور سود کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں کئی احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ نیز ظلم ، سود اور جھوٹ کے علاوہ کے ذریعے بھی حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔

دعا ہے رب العزت سے ہمیں اور آپ کو ظلم ، سود اور اس کے علاوہ کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے متعلق معلومات حاصل کرنے اور ان سے بچ کر اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم