معزز قارئینِ کرام ! مالِ حرام آفت ہے اور آہ! اب وہ دور آچکا ہے کہ معاشرے سے حلال و حرام کی تَمیز ختم ہو گئی ہے، انسان مال کی محبت میں اندھا ہوچکا ہے، اسے بس مال چاہئے۔ چاہے جیسے آئے۔ یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں، بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے، مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ نہ قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذابِ جہنم کا سبب بنتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مالِ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ جب لقمۂ حرام پیٹ میں پہنچتا ہے تو اس سے بننے والا خون انسان کو مزید برائیوں پر ابھارتا ہے ۔یوں وہ برائیوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی عاقبت برباد کر بیٹھتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مال حلال میں برکت ہی برکت ہے اور نہ صرف اخروی فوائد بلکہ بہت سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور طلبِ حلال مسلمان پر فرض ہے جیسا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حلال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فر ض ہے۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط بلفظ طلب الحلال واجب ،6/231،حدیث:8610) لہذا ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ مال حلال ہی استعمال کرے اور مالِ حرام سے بچتا رہے۔نیز حرام کی کمائی سے کوسوں دُور رہنے میں ہی بھلائی ہے کیونکہ اس میں ہرگز ہرگز ہرگز برکت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ایسا مال اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ فائدہ دے بھی دے مگر آخرت میں وبالِ جان بن جائے گا ۔لہٰذا اس کی حِرْص سے بچنا لازِم ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کریگا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حرام ہے یا حلال۔ (صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب من لم یبال من حیث...الخ،2/7،حدیث:2059) ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں نہ صرف حرام کمانے سے بچنا چاہئے بلکہ حرام کھانے سے بھی بچنا چاہئے ، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔

آیت قراٰنی: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النسآء:29)

مالِ حرام کمانے اور کھانے کے متعلق بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں مذمت اور اس کا وبال بیان کیا گیا ہے۔ آئیے مالِ حرام کمانے اور کھانے کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں تا کہ ہم اس فعلِ حرام کے ارتکاب سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں ۔

(1)لقمۂ حرام قبولیتِ دُعا میں رکاوٹ: لقمۂ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ یہ دعاؤں کی قبولیت میں رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے جیسا کہ حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کيا جو طويل سفر کرتا ہے، جس کے بال پریشان اور بدن غبار آلود ہے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر يا ربّ! يا ربّ! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام ہو، پینا حرام ، لباس حرام، اور غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسندامام احمد ، مسند ابی ھریرہ ،3 /220،حدیث:8356)

(2)چالیس دن تک قبولیت سے محروم: ایک مرتبہ حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا وجہ ہے کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن قبول نہیں ہوتی ؟ سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے سعد ! حرام سے بچو! کیونکہ جس کے پیٹ میں حرام کا لقمہ پڑ گیا وہ چالیس دن تک قبولیت سے محروم ہو گیا۔(تنبیہ الغافلین،باب الدعا،ص217)

(3)جنت میں داخل نہیں ہوگا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام غذا سے بنا ہو گا۔ اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب البیوع، باب الکسب وطلب الحلال،الفصل الثانی، 2/131،حدیث:2772)

(4) آگ کا توشہ: حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بندہ مالِ حرام میں سے جو بھی کمائے اور اسے خیرات کرے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اسے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اسے اپنے بعد والوں کے لئے چھوڑے تو وہ اس کے لئے آگ کا توشہ ہوگا۔ (المسند للامام احمد بن حنبل ،مسند عبداللہ بن مسعود،2/33،حدیث: 3672،بتغیرٍقلیل)

(5)حرام کے ایک درہم کا اثر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جس نے 10 درہم کا کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک وہ لباس اس کے بدن پر رہے گا اللہ پاک اس کی کوئی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر ارشاد فرمایا: اگر میں نے یہ بات تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نہ سنی ہو تو میرے کان بہرے ہو جائیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل،2/416،حدیث: 5736)

(6)تنگ دستی کی وجہ سے بھی حرام نہ کمائیے: حضرت سیِّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے : اے لوگو! تم میں سے ہرگز کوئی موت کا شکار نہ ہو گا جب تک کہ وہ اپنا مکمل رزق نہ پا لے لہٰذا تم رزق کے متعلق تنگ دل نہ ہو اور اللہ پاک سے ڈرو اور عمدہ طریقے سے رزق طلب کرو، اور اللہ پاک کی حلال کردہ چیزیں لے لو اور حرام کردہ چھوڑ دو۔(المستدرک،کتاب الرقاق، باب الحسب المال والکرم التقوی،5/464، حدیث:7994)

(7)مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ مقبول نہیں:امام احمد عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو محو فرماتا ہے(مٹاتا ہے)بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(المسند للإمام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن مسعود،2/33،حدیث:3672)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! احادیث کریمہ میں اس کے علاوہ بھی کئی نقصانات اور وبال بیان کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا حلال کمانے اور حلال کھانے میں ہے اور کسبِ حرام اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا سبب ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں طلب و کسب حرام سے بچنے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مدنی مشورہ:حلال و حرام کے متعلق مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالہ " حلال طریقے سے کمانے کے50 مدنی پھول" اور "سود اور اس کا علاج" کا مطالعہ مفید ہے۔