غذا انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہے۔ بنی نوع انسانی کی ابتدا ہی سے اس کا تعلق انسان کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ اس کا تعلق صرف انسان کے ظاہری جسم ہی کے ساتھ نہیں بلکہ جسم روحانی کے ساتھ بھی ہے کہ جس طرح اچھی غذا کے استعمال سے انسان تندرست رہتا ہے اسی طرح اچھی غذا کا استعمال انسان کی روح کو بھی تازگی دیتا ہے اور بری غذا کا استعمال اس میں فتور پیدا کر دیتا ہے، دل سخت کر دیتا ہے، جس کے سبب عبادات میں، ریاضات میں دل مطمئن نہیں ہوتا اور عبادت کی لذت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس جسم کے لیے کون سی غذا اچھی ہے اور کون سی نہیں یقیناً اس کا علم اس جسم کے خالق و مالک حکمتوں والے خدا رحمن ہی کے پاس ہے اور اس نے اسے حلال اور حرام کے نام سے واضح فرما دیا ہے۔

جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے: ﴿وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔(پ9،الاعراف 157)

اور حضور نبی اکرم رسول محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إِنَّهُ لَا يَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ یعنی جس گوشت نے حرام سے نشوونما پائی اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (ترمذی، 2/614)

حرام اور مشتبہ غذا کھانے والا بارگاہ الہی سے دھتکار دیا جاتا ہے اور اسے عبادت کی توفیق نہیں دی جاتی اور اگر اتفاقا کوئی نیک عمل کر بھی لے تو وہ قبول نہیں کیا جاتا چنانچہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس شخص کے پیٹ میں حرام ہو اللہ پاک اس کی نماز قبول نہیں فرماتا۔

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہوگا اور اگر اس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/3744)

ہمارے بزرگان دین حرام تو حرام جس چیز میں حرام ہونے کا شبہ ہو اس سے بھی کوسوں دور رہا کرتے تھے۔مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام نے آپ کو دودھ پیش کیا تو آپ نے نوش فرما لیا غلام نے عرض کی: میں نے جب بھی کوئی چیز آپ کو دی آپ نے اس کے بارے میں پوچھا، مگر اس دودھ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بتاؤ یہ کہاں سے آیا ہے؟ غلام نے عرض کی: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص پر منتر پھونکا تھا، اس نے آج اس کے بدلے میں یہ دیا۔ یہ سنتے ہی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قے کر دی اور بارگاہ الہی میں عرض کی: الہی! جو میری طاقت میں تھا میں نے کردیا، جو رگوں میں رہ گیا اسے تو معاف فرما دے۔

اللہ پاک ہمیں بھی حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے نقصانات سے بھی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم