حرام کھانا اور کھلانا دونوں ہی اللہ پاک کو ناپسندیدہ ہے اسی ضمن میں ایک آیت مبارکہ پیش کی جاتی ہے اور چند احادیثِ مبارکہ بھی پیش کی جاتی ہیں ۔

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النسآء:29)

اب حرام کھانے کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں حرام کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، چنانچہ

(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2/ 33، حدیث: 3672)

اس حدیثِ مبارکہ میں حرام مال کو چھوڑ کر مرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہ سامانِ جہنم ہے ہمیں خوب غور کرنا چاہیے کہ ہم کہیں کسی کا ناحق مال دبانے تو نہیں بیٹھے! یا کسی شخص کو کسی بھی طرح سے حرام تو نہیں کھلا رہے!

(2)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3)تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5/ 34، حدیث: 6495)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس  کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

یہ تمام کی تمام احادیثِ مبارکہ ہمیں حرام کے مال سے بچنے کا درس دے رہی ہیں یہاں پر ہمیں غور فکر کرنا چاہئے آج کل ہمارے معاشرے میں بے روزگاری اتنی ہوتی جا رہی ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں، آج ہمارے معاشرے میں راہزنی اتنی عروج پر جا چکی ہے جس کا کوئی حساب نہیں اور یہ احادیث جو کہ حرام مال کی مذمت پر ہے ہمیں کیا کچھ نہیں بیان کر رہی ہیں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کسی مال تو نہیں دبایا ہوا، یا کسی کی کوئی چیز تو نہیں ضبط کی ہوئی! الامان الحفیظ

میرے پیارے اسلامی بھائیوں! دیکھا آپ نے کہ آیتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ میں کس طرح کی وعیدیں آئیں ہیں ہمیں اللہ پاک سے دعا گو ہونا چاہیے کہ اللہ پاک ہم سب کو حرام کھانے اور کھلانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم