اکثر افراد کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ا س بات کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی کہ انہوں نے مال کہاں کمایا ہے کن ذرائع سے حاصل کیا ہے بلکہ ان کی اصل خواہش یہ ہوتی ہے کہ کسی سے نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کیاجائے چاہے وہ مال چوری کا ہو یا رشوت کا ہو یا کسی کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہو یا سود سے حاصل ہو یا یتیم کا مال ہو یا زکوۃ کی رقم ہویا جھوٹ فریب اور دھوکے سے حاصل کیا گیا ہو وغیرہ۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء آیت نمبر 29 میں رب کریم فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29) ترجمہ: اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔حلال کمانے اور حلال کھانے میں مسلمان کے لئے دنیا اور آخرت کی نجات ہے جبکہ حرام کا لقمہ دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ حرام روزی کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ ﷺ پڑھئے اور عبرت حاصل کیجئے:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔️ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یارب! یا رب! کہتا ہے (یعنی دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو! (یعنی اگر قبول دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو)۔ (مسلم، ص 506، حدیث: 1015)

2۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجابُ الدعوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، 5 / 34، حدیث: 6495)

3۔ جس شخص نے دس درہم کا لباس خریدا لیکن اس میں ایک درہم حرام کا تھا، تو جب تک یہ لباس اُس کے بدن پر رہے گا، اُس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ (مسند امام احمد، 2/416، حدیث: 5736)

لقمۂ حرام کی نحوست: مكاشفۃ القلوب میں ہے: آدمی کے پیٹ میں جب لقمہ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کرے گا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں) موت آگئی توداخل جہنم ہوگا۔ (مکاشفۃ القلوب،ص 10)

یہاں حرام خوری سے متعلق چند سزاؤں کا تذکرہ ہوا ورنہ اس سے متعلق بے شمار سزائیں ہیں، اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کو حلال کمائی کی ترغیب دی اور حرام کمائی سے منع کیا لہذا حلال طریقے سے ہی روزی کمائی جائے۔ سلف صالحین حرام کمائی بلکہ مشتبہ امور سے بھی بچتے تھے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے مگر آج کا زمانہ نبی ﷺ کے فرمان کا مصداق ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے جب لوگ حلال و حرام کی پرواہ نہیں کریں گے۔(بخاری، 2/7، حدیث: 2059)

اللہ کریم ہم سب کو حلال کمانے اور حرام سے کامل طور پر بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین